ماں ۔۔۔۔ ایم بلال ایم

سیروسیاحت سے واپسی پر بعض اوقات امی جان کو کچھ کچھ احوال سناتا۔ تصاویر دکھاتا۔ نئے بننے والے دوست اور اپنے ہمسفروں کے متعلق بتاتا۔ میرے بلاگر، لکھاری، فوٹوگرافر یا سوشل میڈیا کے قریبی دوست ہوں یا میرے ساتھ سفر کرنے والے، امی جان ہر  ایک کو نام سے جانتی تھیں۔ بعض اوقات تو میرے کسی دوست کا نام لے کر پوچھتیں ”آج کل فلاں کدھر ہوتا ہے؟ اب تم نے اس کا کبھی ذکر نہیں کیا۔ وہ ٹھیک تو ہے؟“ جب کوئی اچھی تصویر بنتی تو امی جان کو دکھاتا۔ اپنی کامیابیوں، کئی تحریروں اور تصویروں کی پذیرائی اور ”فیڈبیک“ کے متعلق انہیں بتاتا۔ یوں ان کے چہرے پر عجب سی خوشی اور آنکھوں میں چمک سی آتی۔ وہ چمک مجھ پر سرشاری کی سی کیفیت طاری کر دیتی۔ مجھے لگتا کہ میری ماں کی دعائیں ہیں تو اس صورت میں اگر مٹی کو ہاتھ لگاؤں تو وہ بھی سونا بن جائے گی۔ اور ایسا ہوتا بھی تھا۔ وہ یوں کہ میں کچھ خاص کرتا بھی نہ تھا مگر معمولی معمولی کام خودبخود خاص الخاص ہو جاتے۔ کامیابیاں قدم چومتیں، لوگ محبت کرتے، دعائیں دیتے۔ خیر امی جان کی زندگی میں کئی باتوں کا ٹھیک طرح ادراک نہ ہو سکا لیکن اب پتہ چلتا ہے کہ میری خوشی کی روح تو میری ماں تھی۔ میری خوشی میں اُن کی خوشی اور اُن کے خوش ہونے پر میرا خوش ہونا۔ فطرت نے خوشیوں کا عجب سا چکر چلایا ہوا تھا۔ ان خوشیوں میں ایسا مدہوش تھا کہ کبھی جدائی کا خیال بھی آتا تو روح تک کانپ جاتی۔۔۔

سفر کے دوران جب بھی رابطہ ہوتا تو انہوں نے کبھی یہ نہیں پوچھا کہ کدھر ہو؟ مگر یہ ضرور پوچھا کہ کیسے ہو؟ بلکہ ہر دفعہ ایک ہی بات کہ کھانا کھایا؟ طبیعت کیسی ہے؟ اگر زیادہ دن دور ہوتا تو پھر ساتھ مزید ایک بات شامل ہو جاتی کہ واپس کب آؤ گے؟ دور کے دیسوں میں جب بھی مجھ پر مشکل وقت آتا یا ذرا سی بھی طبیعت ناساز ہوتی تو امی جان کی چھٹی حس فوراً انہیں آگاہ کر دیتی۔ ایسا ایک دفعہ نہیں، بارہا نہیں بلکہ ہر بار   ہی ہوا۔ ماں کے رشتے سے میں نے یہ بھی جانا کہ ایک دوسرے سے سینکڑوں میل دور ہونے کے باوجود بھی پیاروں کے درمیان کچھ غیرمرئی قسم کے رابطے ہوتے ہیں۔ جو کہ موجودہ طبیعیات(فزکس) سے بہت آگے اور شاید مابعد الطبعیات(میٹافزکس) سے بھی آگے کے ہوں۔ میں نہیں جانتا کہ یہ کوئی خودکار ٹیلی پیتھی ہے یا کوئی غیردریافت شدہ لہروں کا کمال ہے، مگر ایسا کچھ ہے ضرور۔ کسی کا علم نہیں لیکن کم از کم میرے ساتھ ہو چکا ہے۔

امی جان بہت یاد آتی ہیں اور یقیناً تب تک آتی رہیں گی کہ جب تک ان سے جا نہیں ملتا۔ یہ بھی سچ ہے کہ اب حالات بدل چکے ہیں۔ کئی پردے حائل ہو چکے ہیں۔ ٹھیک ہے کہ معاملات کی نوعیت مختلف ہو چکی ہے، لیکن میرا دل کہتا ہے کہ امی جان کہیں نہیں گئیں۔ وہ یہیں ہیں، ہردم میرے ساتھ ہیں۔ رابطے منقطع نہیں ہوئے۔ اُن کا مجھ سے ہمیشہ رابطہ رہے گا۔ اب بھی خاص الخاص لہریں پہنچتی ہیں اور ان شاء اللہ پہنچتی رہیں گی۔ ”اُس پار“ سے بھی سورج کی نرم و گرم شعاعیں آتی رہیں گی۔ چناب کی لہروں میں پیغام ابھرتے رہیں گے۔ پہاڑوں کی بلندیوں سے بھی بلند دعاؤں کا سلسلہ جاری رہے گا اور انہیں دعاؤں کے سہارے اب بھی عشق بے خطر آگ میں کودتا رہے گا۔

Advertisements
julia rana solicitors

امی جان! میں بالکل ٹھیک ہوں۔ وقت پر کھانا کھاتا ہوں۔ ہنستا مسکراتا ہوں۔ دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ آپ کو بھی ”اُس پار“ ڈھیروں خوشیاں دے۔ اے میرے پروردگار! ستر ماؤں سے بھی زیادہ پیار کرنے والے! میری ماں نے میرے ساتھ جیسی رحمت و محبت بھرتی تو میری ماں کے ساتھ اس سے بھی زیادہ رحمت و شفقت کا معاملہ فرما۔

Facebook Comments

ایم بلال ایم
ایم بلال ایم ان لوگوں میں سے ہیں جنہوں نے اردو بلاگنگ کی بنیاد رکھی۔ آپ بیک وقت اک آئی ٹی ماہر، فوٹوگرافر، سیاح، کاروباری، کاشتکار، بلاگر اور ویب ماسٹر ہیں۔ آپ کا بنایا ہوا اردو سافٹ وئیر(پاک اردو انسٹالر) اک تحفہ ثابت ہوا۔ مکالمہ کی موجودہ سائیٹ بھی بلال نے بنائی ہے۔ www.mBILALm.com

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply