• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • احباب چارہ سازی ِ وحشت نہ کرسکے۔۔۔۔(سفرِ جوگی)اویس قرنی۔۔گیارہوریں ،آخری قسط

احباب چارہ سازی ِ وحشت نہ کرسکے۔۔۔۔(سفرِ جوگی)اویس قرنی۔۔گیارہوریں ،آخری قسط

طلسم ہوش ربا میں خیال غالب سے جڑا ہوا تھا کہ اچانک ہماری نگاہیں ٹیلے کے قدموں میں پڑی ایک خالی بوتل سے جا ٹکرائیں۔ بہت ہنسی آئی کہ استاد بھی ہر جگہ اپنی موجودگی کی کوئی نہ کوئی نشانی دکھاتے ہی رہتے ہیں۔ ہمراہیوں کی توجہ اس بوتل کی طرف مبذول کی ، تو خالد نجیب وڑائچ طیارے کی طرح ٹیلے کی اونچائی سے اترے اور دو منٹ میں بوتل لے کر آ گئے۔ کچھ دیر یہ خالی بوتل ہماری گفتگو اور کیمروں کا مرکز رہی۔

اتنی دیر میں سورج بھی کچھ بلند ہو چکا تھا۔ ہم نے واپسی کی راہ لی۔ گھر پہنچے تو پیڑے والی لسی ہماری راہ تک رہی تھی۔ لسی پیٹ میں انڈیل کر اسے تسلی دی ، کہ ناشتہ بھی حاضر ہوا چاہتا ہے۔ ناشتے کی آمد سے پہلے ہم نے خالد نجیب سے کہا کہ قبلہ صوفی صاحب کو یاددہانی کرا دے کہ ہم بس دو گھنٹے میں آ رہے ہیں۔ خالد نے اللہ جانے ہمیں ٹرخانے کیلئے کال کا دکھاوا کیا ، یا پھر صوفی صاحب نے ہی سنی ان سنی کردی کہ ایں خانہ ہمہ آفتاب است۔

ناشتے کے بعد ہم نے میزبانوں کا شکریہ ادا کیا ، اور رخصت ہوئے۔ ہمارا ارادہ وہاں سے آگے دریائے سندھ کے کنارے واقع خان بیلہ جانے کا تھا۔ جہاں سےبرادرم شاہد قادر گیلانی صاحب کی معیت میں کوٹ مٹھن میں حضرت خواجہ غلام فرید رحمۃ اللہ علیہ کی فاتحہ خوانی والا قرض اتارنا تھا۔ لیکن کوئی عناں گیر بھی تھا۔ شاہد صاحب کا فون مسلسل بند ملا ، اور جندو پیر پہنچے تو صوفی صاحب بھی لیاقت پور جا بیٹھے تھے۔

موسم کے تیور بظاہر تو اچھے تھے ، لیکن مسافروں کیلئے خطرناک تھے ، ناچار ہم نے واپسی کا فیصلہ کیا ، کہ ہم تو اللہ لوک لم یلد ولم یولد ہیں ، لیکن ہمارے ساتھی نواز بھائی کو اور بھی کئی غم ہیں سیر سپاٹے کے سوا۔ واپسی کے سفر میں ہائی وے پر جگہ جگہ بیلنے دیکھے ، جہاں گنوں کا تازہ رس نکال نکال کر گڑ ، شکر اور دیسی چینی بنائی جا رہی تھی۔ طوطے کی طرح ہمارا بھی جی للچایا اور ہم نے چھ کلو گڑ شکر کا بوجھ بھی ناتواں کندھوں پہ اٹھا لیا۔ اگلی بریک بہاولپور بائی پاس (چوک اعظم) پہ لگی۔ وہاں سے نکلے تو پھر دھنوٹ آ رکے۔ ہم نے نواز بھائی کو ٹلہ جوگیاں کے سفر کا ارادہ تھما کر اللہ کے حوالے کردیا ، اور خود گھر آ گئے۔

یہ اس سفر کا اختتام ضرور تھا ، لیکن اس سلسلہِ سفریاتِ جوگی کی بسم اللہ تھی۔ جس کے تحت اب ہم سیرو فی الارض کے باب میں الکھ نرنجن کی صدائیں لگاتے ، قریہ قریہ گھومیں گے۔

میں اور اک آفت کا ٹکڑا وہ دلِ وحشی کہ ہے
عافیت کا دشمن اور آوارگی کا آشنا!

Advertisements
julia rana solicitors london

نوٹ:جوگی کے نام پر کلک کرکے گزشتہ تمام اقساط پڑھی جاسکتی ہیں

Facebook Comments

جوگی
اسد ہم وہ جنوں جولاں ، گدائے بے سروپا ہیں .....کہ ہے سر پنجہ مژگانِ آہو پشت خار اپنا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply