• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • پاکستان کی تاریخ میری انگلیوں کی پوروں پر لکھی ہوئی ہے۔۔اسد مفتی

پاکستان کی تاریخ میری انگلیوں کی پوروں پر لکھی ہوئی ہے۔۔اسد مفتی

ہماری تاریخ کے سیاہ ابواب میں اضافہ ہوتا چلا جارہاہے۔حکمرانوں کی پیشانی کے داغوں کی تعداد بڑھتی ہی چلی جارہی ہے۔اور یہ بات پوری قوم کے لیے باعثِ ندامت ہے کہ بھارت کی آزادی کی عمر بھی اتنی ہی ہے جتنی مملکت خداداد کی جبکہ وہاں ہر رنگ ،مذہب،نسل،قوم،زبان،ثقافت غرض کہ ہر رنگ کی اقلیتیں رہائش پذیر ہیں لیکن وہاں پر ریاست کے تمام ادارے،انسٹی ٹیوٹ اور سوسائٹیاں اپنے اپنے دائرے کار میں رہ کر خوش اسلوبی سے فرائض سرانجام دیتی ہیں ۔اگر ہم پاکستان کے ساتھ آزاد ہونے والے بھارت کا جائزہ لیں تو یہ دکھائی دیتا ہے کہ دنیا کہ صفِ اول کی جمہوریت نے سب سے مقدم جمہوریت ہی کو اولیں ترجیح بنایا اور یہ یونہی نہیں ہوگیا۔اس نے پارلیمنٹ کی بالا دستی کے لیے جس پر کئی حملے ہوئے ،کبھی کوئی سمجھوتہ نہیں کیا ،کبھی نظریہء ضرورت کو ہتھیار نہیں بنایا،کبھی شب خون کی سازش نہیں کی،چونکہ آج دنیا نہ صرف اس کو سب سے بڑی جمہوریت تسلیم کرتی ہےبلکہ اس کے ہر موقف کی حمایت بھی کرتی ہے،دوسری طرف ہم ہیں کہ اپنے ملک کے عوام کو غلام بنائے بیٹھے ہیں ،ہمارے ہاں وقت اور ضروت کے تحت نظریے تخلیق ہوتے ہیں ،دو قومی نظریہ یا نظریہ پاکستان سے لے کر شبِ خون کے کے نظریہ فرصت تک اور پھر ان نظریوں کی سچائی اور صداقت کو ثابت کرنے کے لیے مزید نظریے وجود میں آتے ہیں ،نظریہ ضرورت تو خیر کیا ثابت ہوتا ان کے خالقوں کے وجود پر سوالیہ نشان ضرور لگ گیا۔
چند روز پہلے جب میں لاہور میں تھا تو ایک نجی محفل میں ایک سابق جرنیل کو کہتے سنا کہ “اگر پاکستان کو بننا ہی تھا تو 1857 میں بن گیا ہوتا،اس سے فوج کو حکومت کرنے کے لیے ڈیڑھ سو سال زیادہ مل جاتے”۔۔۔اس سے کیا ہوتا؟
کہ جن لوگوں نے غلامی کی زنجیروں میں جنم لیا ہو وہ ایک آزاد ملک کی محبت کو محسوس نہیں کرسکتے،سو آج ہم تنزلی سے آنکھیں نہیں چرا سکتے۔۔۔
بی بی سی نے جو تجزیہ پیش کیا ہے اس میں کہا گیا ہے کہ بھارت اور پاکستان ہم عمر ہیں ،ان 72 برسوں میں دونوں ملک ایٹمی طاقت بن چکے ہیں لیکن پاکستان اس عرصہ میں تنزلی کی طرف گیا ہے،
گزشتہ 75 سال میں پاکستان کی سیاسی  اور اقتصادی ،سماجی ترقی کا گراف اوپر  سے نیچے اور بھارت کا گراف نیچے سے اوپر گیا ہے۔اس کا ثبوت یہ ہے کہ اب سے تیس برس پہلے تک پاکستان کا عام آدمی کہتا تھا کہ خدا کا شکر ہے  کہ ہم بھارت کی طرح بھوکے ننگے نہیں ہیں ،لیکن آج پاکستان کا ہر شہری بر ملا کہتا ہے کہ ہم بھارت کی جمہوری اور اقتصادی کی طرح مثالی کیوں نہیں ہیں ؟۔۔۔
بی بی سی کا تجزیہ درست ہے کہ گزشتہ چند برس میں آٹھ سے نو فیصد کی شرح ترقی کے بعد بھارت کی معیشت اور ایک سنگ میل کی طرف بڑھ رہی ہے،ملک کی معیشت آئندہ برس ایک ہزار ارب ڈالر مالیت کی ہوجائے گی جبکہ رواں مالی سال میں یہ 855 ارب ڈالر ز تک پہنچ چکی ہے،دنیا میں صرف نو ملک ایسے ہیں جن کی معیشت ایک ہزار ارب ڈالر یا اس سے زیادہ مالیت کی ہے،بھارت چاند پر اپنے خلا باز بھیجنے کی تیاری کررہا ہے،لیکن اس سے پہلے بغیر خلا بازوں والا خلائی جہاز مریخ پر بھیج دیا ہے۔،خلائی تحقیق کے ادارے کے مطابق مشن مون کی تیاریاں مکمل ہوچکی ہیں ،اور پہلا خلائی جہاز آئندہ برس تیس جولائی کو چاند پر بھیجا جائے گا۔
ادھر دنیا کے سب سے بڑے اور قدیم ترین خبر رساں ادارے “رائٹرز” کے بارے میں بی بی سی نے ایک خبر شائع کی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ اس ادارے نے سستی خبروں کے لیے بھارتی صحافی ملازم رکھ لیے ہیں ،کہ بنگلور کے دفتر میں درجنوں افراد نیو یارک میں کام کرنے والوں کے مقابل میں بے حد کم اجرت لیتے ہیں ،مگر کام ان سے زیادہ بہتراور مستعدی سے کرتے ہیں ،اس حوالے سے دنیا کے بڑے بڑے خبر رساں ادارے اور امریکی اخبارات زیادہ اخراجات کے ہاتھوں پریشان ہیں ،اس پریشانی کے حل کے لیے وہ بھارت کا رخ کررہے ہیں ،جہاں انہیں انتہائی سستے داموں انگریزی لکھنے اور بولنے والے افراد مل سکتے ہیں ،مزید براں ایک اندازے کے مطابق چھ خلیجی ممالک میں تیس لاکھ سے زائد بھارتی تارکین وطن کام کررہے ہیں ،ان کی بھیجی ہوئی زرمبادلہ اور تجارت سے بھارت کو سالانہ لگ بھگ پندرہ ارب ڈالر کی آمدنی ہوتی ہے،جبکہ ان ممالک کی طرف سے بھارت کے مختلف شعبوں میں سرمایہ کاری سو ارب ڈالرز سے زیادہ بتائی جاتی ہے۔
اب آئیے دیوار کے اِس پار۔۔۔۔۔۔ بی بی سی کے ایک تبصرے کے مطابق قرارداد پاکستان یا قرارداد لاہور سنگ مرمر کی سلوں تک محدود ہے،بی بی سی نے اپنے بے لاگ تبصرے میں کہا ہے کہ اگر آج کوئی پوچھے کہ قرارداا پاکستان کہاں ہے تو جواب ہوگا سپریم کورٹ کے احاطے میں ۔۔۔۔
سیاسی بیوفاؤں کا ملک اب 75 سال سے زیادہ کا ہے، اس ملک سے عہد یاد دلانےوالے لوگ قابلِ تعزیر ٹھہرائے گئے،خان عبدالغفار خان، جی ایم سید،میاں افتخار االدین،شیخ مجیب الرحمان،غوث بخش بزنجو،عطااللہ مینگل،خاں عبدالولی خان، خیر بخش مری ،عبدالصمد اچکزئی نسل در نسل غدار کہلاتے رہے،اس ملک میں نہ تو غفار خان کو کسی عدالت میں پیش کیا گیا اور نہ ہی جی ایم سید کو جبکہ ساری عمر آزادی کے یہ سپاہی “غاری” اور بغاوتوں کے الزامات سہتے رہے،جرنیلوں کے ساتھ ،سرداروں اور خان بہادروں کے بچے صد پاکستان کے ساتھ حلف اٹھاتے رہے،یعنی پاکستان کیا بنا،تاریخ کی الٹی گنگا بہہ نکلی۔۔۔۔
بی بی سی نے اپنے تبصرے میں کہا ہے کہ ابھی کل ہی کی بات ہے کہ باوردی صدر کے سامنے باادب چیف جسٹس بیٹھا تھا اور پھر چیف جسٹس کے بالوں کو کھنچنے والی پولیس۔۔۔۔۔
پاکستان کا یہ “سافٹ امیج”بھی دنیا بھر میں دیکھا گیا ،پھر پاکستان جناح نے ایک بڑے ذہین و کیل کی طرح کیس جیت کر حاصل کیا۔ وہ پاکستان جو آج آئی ایس آئی کے سیاسی سیل کا پاکستان ہے،جو مولیوں جنونیوں اور جہادیوں کا پاکستان ہے،جو لاپتہ شہریوں کا پاکستان ہے۔۔۔۔اور میں سوچ رہا ہوں کہ ۔۔۔۔آج پھر مجھے فیض صاحب کیوں یاد آرہے ہیں ۔۔۔۔
اماں کیسی کہ موجِ خوں ابھی سر سے نہیں گزری
گزر جائے تو شاید بازؤئے قاتل ٹھہر جائے

Facebook Comments

اسد مفتی
اسد مفتی سینیئر صحافی، استاد اور معروف کالم نویس ہیں۔ آپ ہالینڈ میں مقیم ہیں اور روزنامہ جنگ سے وابستہ ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply