لسانی جزیرے۔۔۔اسلم ملک

لاہور سے ٹرین پر بہاولپور آیا تو ایک 25 سالہ پٹھان ہم سفر تھا۔ ایک بزرگ اسے رخصت کرنے آئے۔ میرے ذمہ  لگایا کہ اس کا خیال رکھوں۔ اسے اردو نہیں آتی۔ روٹی پانی تو خیر مانگ لیتا ہے۔ ٹکٹ چیکر آئے تو آپ بات کرلیجئے گا۔ سوچا افغانستان یا پختونخوا کے کسی علاقے سے پہلی دفعہ نکلا ہوگا۔ بزرگ سے پوچھا تو پتہ چلا سوات کا ہے۔ دس سال سے کراچی میں ہے۔ اردو نہ آنے پر حیرت ظاہر کی تو انہوں نے بتایا کہ منگھو پیر کے علاقے میں جہاں رہتا ہے، ساری آبادی پٹھانوں کی ہے۔ کام بھی وہیں کرتا ہے۔ کہیں جانے یا کسی اور سے ملنے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی۔ سو دس سال میں چند فقرے ہی سیکھے ہیں۔بزرگ نے بتایا کہ وہ خود پانچ چھ زبانیں جانتے ہیں۔

اس پر مجھے ناروے میں آباد ایک دوست کی بات یاد آئی۔ ناروے میں زیادہ تر پاکستانی گجرات، لالہ موسی’، کھاریاں وغیرہ کے ہیں۔ جو زیادہ پرانے ہیں، انہوں نے اپنے بزرگوں کو بھی بلالیا تھا، وہ بڑے فخر سے کہتے ہیں کہ گوروں نے بڑا زور لگایا، ہم نے ان کی بولی نہیں سیکھی۔ حالانکہ ناروے کی حکومت اس سلسلے میں بہت مہربان ہے۔ تارکین وطن کے بچوں کو سکولوں میں ان کی مادری یا قومی زبان پڑھانے کا انتظام کیا جاتا ہے۔ اس سے بڑی تعداد میں پاکستانیوں کو اردو، پنجابی ٹیچر کی ملازمتیں مل گئیں۔

ایسے ہی ایک عزیزہ نے برطانیہ کی یونیورسٹی سے ایجوکیشن میں پی ایچ ڈی کی تھی، ان کا تھیسس پڑھنے کا موقع ملا تھا۔ برمنگھم، بریڈفورڈ کے پاکستانی تارکین وطن کے بارے میں سروے تھا کہ بچوں کے سکول ٹیچرز کے بلانے پر بہت کم ملنے جاتے ہیں، والد کام پر گئے ہوتے ہیں، ماں، دادا، دادی اس لئے نہیں جاتے کہ انگریزی نہیں آتی۔ اپنی الگ آبادیوں میں اپنے لوگوں کے درمیان رہتے ہیں، انگریزی سیکھے بغیر گزارہ ہورہا ہوتا ہے۔

ان لسانی جزیروں کے ساتھ خیال آیا کہ کراچی بھی تو صوبے میں ایک لسانی جزیرہ نما ہی بن گیا ہے ۔ قیام پاکستان کے بعد کچھ بزرگ اپنا انتخابی حلقہ بنانے کے چکر میں اردو بولنے والوں کو وہاں آباد کرتے گئے۔ اتنا اجتماع ہوگیا کہ ملک کے دوسرے حصوں سے بھی اردو بولنے والے وہاں منتقل ہونے لگے۔ کسی کو سندھی وغیرہ سیکھنے کی ضرورت ہی نہیں پڑی۔1971 کے بعد پنجاب کے کچھ مقامات پر بہاری کالونیاں بنائی گئیں تو ان کے مکین جلد ہی کوارٹر بیچ باچ کر کراچی منتقل ہوگئے۔

Advertisements
julia rana solicitors

سندھ ہی کے دوسرے شہروں میں آباد ہونے والوں نے نہ صرف سندھی سیکھی بلکہ سندھیوں سے رشتے ناتے بھی ہوئے، بعض نے تو سندھی ادب اردو میں منتقل اور متعارف کرانے کیلئے بھی قابل قدر کام کیا۔ ایسے ہی بہاولپور اور ڈیرہ غازی خان میں آباد بعض مہاجر مقامیوں سے اچھی سرائیکی بولتے ہیں۔
مجھے یہ جان کر حیرت ہوئی تھی کہ سرائیکی مزاحمتی شاعری کے ایک اہم نام اسلم جاوید کی مادری زبان سرائیکی نہیں، ان کے والدین ہجرت کرکے یہاں آئے تھے۔
سید شہاب دہلوی کی اردو کے ساتھ ساتھ اپنے وطن ثانی بہاولپور کی تاریخ وثقافت محفوظ کرنے کیلئے بھی گراں قدر خدمات ہیں۔
ایسے ہی مولانا محمد حسین آزاد سے سید وقار عظیم، عبادت بریلوی، انتظار حسین، سجاد باقر رضوی جیسے کئی لاہوریوں کے محبوب بنے۔
(لیٹ ٹرین کے انتظار میں بہاولپور ریلوے سٹیشن کے پلیٹ فارم پر بیٹھے ہوئے لکھا۔۔۔ زیادہ ربط نہ ڈھونڈیں)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply