• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • بے آواز گلی کوچوں سے۔ صدارتی نظام کا بخار۔۔۔محمد منیب خان

بے آواز گلی کوچوں سے۔ صدارتی نظام کا بخار۔۔۔محمد منیب خان

ٹوئٹر کی راہداریاں اور فیس بک کی دیواریں گذشتہ چند دن سے بہت شد و مد کے ساتھ صدارتی نظام کے دل آویز نعروں سے لتھڑی ہوئیں نظر آر ہی ہیں۔ اس پہ مستزاد اسلام آباد میں حکومت کی غلام گردشوں میں گھومتے باخبر صحافی بھی اس پہ بات کر رہے ہیں۔ اگر کوئی لا تعلق ہے تو صرف وہ پارلیمان جس کو ملک کو موجودہ آئین سپریم حیثیت دیتا ہے۔ اس سے ایک بات تو طے ہو گئی کہ اسلامی صدارتی نظام کی اصطلاح کا سامنے آنا اور مختلف سطح پہ زیر بحث لایا جانا باقاعدہ ایک منظم کوشش کا نتیجہ ہے۔ لیکن فی الوقت اس موضوع کو صرف عوامی حلقوں میں بحث کے لیے ہی لاؤنچ کیا گیا ہے۔ ابھی یہ بات کہنا بھی قبل از وقت ہے کہ حقیقتاً اس نظام بارے کوئی سوچ فیصلہ کن قوتوں کے ذہن میں پنپ چکی ہے یا محض یہ عوام کو بحث کے لیے ایک اور موضوع مہیا کر دیا گیا ہے تا کہ وہ اپنی اپنی کھچاروں میں بیٹھے حق یا مخالفت میں دھاڑتے رہیں۔

اسلامی صدارتی نظام ایک ایسی مبہم سی ٹرم ہے کہ جس میں سے موجودہ حکومت کی ابتدائی نااہلیوں سے بلکتے عوام کو ذہنی آسودگی دینے کے علاوہ کچھ بھی کشید کرنا ممکن نہیں۔ میں اپنی ادنٰی  سی دانش کو بروئے کار لاتے ہوئے اسلام میں کسی صدارتی نظام حکومت کو نہیں ڈھونڈ پایا۔ میرے خیال میں یہ فیصلہ مسلمانوں کو اجتماعی دانش سے کرنا ہے کہ وہ کس طریقہ انتخاب کے  ذریعے حکمران منتخب کرنا چاہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ باون کے باون اسلامی ممالک میں حکمرانوں کے انتخاب کا طریقہ یکساں نہیں۔ لیکن مجھے غالب گمان ہے کہ ہم کسی حد تک ایران کے صدارتی نظام سے متاثر ہیں۔

ویسے تو یہ بات شاید مسلمانوں کے لاشعور میں بھی بیٹھ چکی ہے کہ تاریخ  کی طرح کوئی ایک مرد آہن حکومتی ایوانوں میں ایسا نمودار ہو جو حضرت عمر بن خطاب رض سے لے کر عمر بن عبد العزیز رض تک کے دور حکومت کی یاد تازہ کر دے جو محمد بن قاسم کی طرح گھوڑے پر سوار آئے اور علاقوں کے علاقے اس کے سامنے بچھتے چلے جائیں۔ یا پھر کوئی امام غائب نمودار ہو یا مسیح ابنِ  مریم آسمان سے اتریں اور وہ اسلام کو دنیا پہ غالب کر دیں مسلمان گھر بیٹھے غلبہ پا لیں۔ ہمارے سب دکھوں کا مداوا بس وہ ایک شخص کر دے۔ یہی وہ امید تھی جو ایران میں انقلاب کا پیش خیمہ بنی اور مجھے لگتا ہے کہ انقلاب ایران کے بعد ہم اسی امید کے ساتھ شاید پانچ دہائیوں سے ایسے ہی کسی انقلاب کی راہ دیکھ رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ستر کی دھائی میں اس دہکتے انقلاب کو بھٹو نے “روٹی کپڑا اور مکان” کے نعرے میں اپنا لیا، وہی دہکتا انقلاب سترّ کی دہائی کے آخر میں “نظام مصطفی تحریک” کی صورت میں ضیا الحق کو ہم پر مسلط کر گیا اور وہی انقلاب کی امید میں عوام نے نوئے کی دہائی میں جمہوریت کی آنیاں جانیاں دیکھیں ۔ اور یہ انقلابی امید اچھے بھلے لوگوں کو مشرف کی صف میں لے گئی اور یہ کہانی آج اس موڑ پہ پہنچا دی گئی ہے کہ چند سال سے مسیحا کا بہروپ دھارے عمران خان کو کسی سافٹ انقلاب کا پیش خیمہ بنا دیا گیا۔ اب چونکہ مسیحائی کے آٹھ ماہ کسی ایسے ڈرؤانے خواب کی صورت اختیار کر چکے ہیں کہ جسے دیکھنے کے باجود ہم نیند کا خمار ختم کر کے جاگنا نہیں چاہتے۔ تو لازم ہے ہمارے تحت الشعور میں موجود انقلاب کی خواہش کی آبیاری کسی نئے انداز میں کی جائے۔ سو اس کے لیے نئے نظام کی بحث شروع کروانا ایک قابل فہم بات ہے۔

اب سوال تو یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ صدارتی نظام ہو تو کونسا والا؟ کیا ایران کا صدارتی نظام یا امریکہ کا صدارتی نظام؟ یا اس کے علاوہ پاکستان کوئی اپنا صدارتی نظام لا سکتا ہے؟ عوامی سطح پہ ہونے والے  مباحث کو دیکھا جائے تو ایک بات تو یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ عوام ایرانی اور امریکی دونوں قسم کے صدارتی نظام کی موشگافیوں سے نابلد ہیں۔ ان کو بس اپنی خواہش کی کامیابی چاہیے وہ کامیابی یہ ہے کہ ان کا ہیرو کسی طرح اس سلطنت کا بلا شرکت غیر حکمران بن جائے اور اپنے دشمنوں کو چاہے وہ گناہگار ہیں یا نہیں سر عام نشان عبرت بنا دے۔ عوام کے ایک حلقے کی خواہش بس اتنی ہے اور یقیناً خواہشوں پہ دنیا نہیں چلا کرتی۔ لہذا اگر ایران کے صدارتی نظام کو اپنانا ہے تو یہ دیکھنا ہے کہ ایران میں صدارت کا امیدوار کیسے فائنل ہوتا ہے۔ ایران میں آج بھی سپریم لیڈر ہی سب سے طاقتور ہے  جس کو ایک “شوریٰ  مجلس خبرگان رہبری” سیلکٹ کرتی ہے۔ اسی طرح صدارتی امیدواروں کی منظوری بھی ایک دوسری بارہ رکنی شوری دیتی ہے۔ اگر وہ کسی نام پہ اعتراض لگا دے تو وہ امیدوار الیکشن نہیں لڑ سکتا۔ لہذا یہ ایسا عمل نہیں کہ کوئی ایک شخص رات کو صدارت کا خواب دیکھے اور صبح الیکشن لڑ کر صدر بن جائے یا کسی ایک گروہ کی  خواہش پہ اقتدار کا مالک بنا دیا جائے ۔ جبکہ اس کے برعکس امریکہ میں صدارتی نظام کا ڈھانچہ بہت پیچیدہ اور جمہور کی رائے پہ بنیاد رکھتا ہے۔ سیاسی جماعتوں کے اندر صدارتی دوڑ میں شامل لوگ اپنی کیمپئن کرتے ہیں پھر ان فائنل امیدواروں کو نہ صرف عوام کا ووٹ لینا ہوتا ہے بلکہ ہر سٹیٹ سے منتخب ہونے والے ایکٹرول کا ووٹ بھی جیتنا ہوتا ہے۔ ہر سٹیٹ کو سینیٹ اور ایوان نمائندگان میں موجود نمائندگی کے تناسب سے الیکٹرول ملتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

اب ہم اگر ایک نئے نظام کی طرف جاتے ہیں تو اس کی تفصیلات کیا ہوں گی؟ یہ سوال اس مرحلے پہ سب سے اہم ہے۔ ویسے تو ہم نے غیر اعلانیہ کئی  تجربات کر لیے ہیں لیکن عوام کو بے خبر رکھا۔ ہم اس ملک میں سول مارشل لا ایڈمنسٹریٹر لا چکے ہیں۔ فیلڈ مارشل لا چکے ہیں۔ براہ راست آمر کو ریفرنڈم میں منتخب کروا چکے ہیں۔ غیر جماعتی الیکشن کروا چکے ہیں جمہوریتوں کو دو دو سال بعد سمیٹ چکے ہیں۔ ووٹوں کی گنتی کے وقت بیلٹ باکس چوری کر چکے ہیں۔ ہم کافی کچھ آزما چکے ہیں اگر نہیں آزمایا تو ہم نے مکمل اور آزاد خود مختار جمہوری حکومت اور سیاستدانوں کو نہیں آزمایا۔ اگر اس ملک میں جمہوریت کو آزاد کر دیا جائے تو میرا یقین ہے کہ محض پندرہ سے بیس سال میں یعنی تین سے چار الیکشن بعد ملک مکمل تبدیل ہو چکا ہوگا۔ کیونکہ جمہوریت اور جمہور اپنی تطہیر کرنا جانتے ہیں۔ جبکہ آمر تو ہوتے ہیں مطہر ہیں۔ لیکن خدارا کسی نئے تجربے سے پہلے جمہوریت کو سازشوں سے آزاد کریں۔

Facebook Comments

محمد منیب خان
میرا قلم نہیں کاسہء کسی سبک سر کا، جو غاصبوں کو قصیدوں سے سرفراز کرے۔ (فراز)

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply