شادیات۔۔۔محمد خان چوہدری

نوٹ ۔ یہ تحریر مزاح اور تفنن کے مزاج میں لکھی جا رہی ہے
عزیزان ، ہمیں آپ سے محبت ہے، آپ کے ہر دُکھ میں چونی اٹھنی کے شریک ہیں،پنامہ نامی کیس کا کھوتا کھُوہ میں گر گیا ہے !
نئے حاتم کی کہانی بھی موقوف ہے،
ویسٹ انڈیا کمپنی کی تاریخ لکھنا معطل ہے ،
ہم نے آپ کو متوجہ رکھنے کے لئے شادی شودی کی کافی گولیاں دیں۔۔۔لیکن جیسے آج کل چوہے مار گولی کو چوہے پہچانتے ہیں آپ بھی لگتا ہے اتنے سیانے ہو گئے ہیں،آپ کی ان بچگانہ کہانیوں میں عدم دلچسپی بالغ ہونے کا ثبوت ہے،تو اتنے سیانے اور بالغ دوستوں کو تعلیم بالغاں میں داخل کرانے کی بجائے جج بنا دینا قرین حکمت ہے،تو لیجئے ۔۔۔
حضور آپ کو پنچائت کا سرپنچ یا چیف بنا دیتے ہیں ،اور باقی دوست آپ کے ساتھ برادر پنچ ہوں گے۔۔پہلا مقدمہ جو آپ کے سامنے پیش کیا جا رہا ہے وہ یہ ہے،

” سینا نامی بندے کے بارے میں دو معزز اشخاص نے درخواست دی ہے  کہ اس نے لاہور میں چار عدد مالدار عورتیں رکھی ہوئی  ہیں ،جن کو وہ عرصہ دراز  سے بطور ازواج استعمال کر رہا ہے،اطلاعات کے مطابق اس نے ان کی زوجیت کے اندراج نادرا میں ابھی کچھ عرصہ ہوا کرائے ہیں، یہ بھی سنا گیا ہے کہ بچے بُچے بھی ہیں،مبینہ طور پر کسی بھی یونین کونسل کے ریکارڈ میں یہ شادیاں درج نہیں ،سینا ان کے نکاح نامے پیش کرے۔۔اور ہر شادی کرنے کے وسائل کا ثبوت بھی دے”
آپ نے یہ کیس سننا ہے، اور ہم اس کیس میں سینا کے وکیل ہیں ۔اور اگر آپ نے غور سے ہمارے دلائل سنے تو آپ کو لگ پتہ جائے گا،

 سینا کی پہلی شادی کی روداد،سینا کی ازواج۔
معزز چیف پنچ جی تے وڈے پنچ صاحبان ، میرا مؤکل اس علاقے کے مشہور اور معزز ، ٹھگ بابے دتو کا بڑا پوتا ہے، اس کا باپ نکما تھا کام نہ کاج کا، دشمن اناج کا،تو دتو نے ٹھگی کی اعلی تعلیم کے لئے سینے کو لاہور بھیج دیا۔۔۔
حضور یہ خوش نصیب ایک مرتبہ بس پر  لاہور سے واپس آرہا تھا، اس کے ہمراہی چند فوجی نما تھے، جہلم اڈے پر ان میں تین اترے تو انہیں ایم پی والوں نے پکڑ لیا، بس روانہ ہو گئی ، دیگر تین فوجی ٹائپ کی آپسی گفتگو میں بات کھلی کہ یونٹس میں کنڈم مال کئی  جوان گھر لے جاتے ہیں، تو یہ چیکنگ ہو رہی ہے، سوہاوہ میں دو اور اترے اور پکڑے گئے، جناب عالی جب بس ہمارے قصبے کی بیرونی محصول چنگی پر رکی تو وہ ایک جوان ایک بنڈل سینے کو دے کے اتر گیا، اور سینا بنڈل سمیت اڈے پر اترا اور بحفاظت اپنے دادا کے ڈیرے پہنچ گیا۔
سر آپ اکتائیں نہ، یہ بات اہم ہے ، اس بنڈل میں ایک مچھردانی، دو جوڑے خاکی جراب اور ایک فوجی سویٹر، سر یہ خزانہ تھا، مچھر دانی کسی بازار میں نہیں  ملتی تھی، اور دادا جب دھوتی کرتے پر فوجی سویٹر اور پاؤں میں کھلے ترپڑ کے اندر خاکی موزے پہن کے نکلتا تو بہہ جا بہہ جا ہو جاتی سر۔۔۔
قسمت تو سینا جیسی کسی کی ہو تب نا ،
دادا سینے سے مطمئن ہو گیا کہ یہ بروا جو خاکی پات لے آیا ہے ہونہار ہے اور نام کمائے گا،
اور یوں سر دادا نے اپنی ایک نواسی سے سینا کا رشتہ طے کر دیا۔

محترم پنچو، یہ بات بھی نوٹ کریں، کہ دادا کا پسندیدہ ہونے کی وجہ سے سینا پوتڑوں میں ہی بگڑ گیا تھا، اس کا پہلا عشق دائی  کی بیٹی جو اسے نہلاتی تھی اس سے ہوا تھا، سر یوں سمجھیئے کہ لکشمی عورت ہو یا دولت،یہ مقدر میں لکھوا کے لایا ہے ،لیکن سر یہ پوائنٹ بھی نوٹ کریں کہ ازدواجی امور اور شادی کے بارے میں یہ بالکل معصوم تھا ۔
جب اس کی شادی ہو رہی تھی تو یہ خود کو کراہی داند سمجھ رہا تھا۔۔ویسے سر ہمارے علاقے میں دولہا بننے اور کراہ میں دوڑنے والے بیل کے سجنے میں کوئی  فرق بھی نہیں  ہوتا،
ایک کے منہ پر تلہارا دوسرے کے سہرا، ایک کی سینگوں پر رومال دوسرے کے پگڑی، دونوں کے اوپر سرخ رنگ کی کڑھائی  والی ریشمی چادر۔
بس دولہا گھوڑی پر اور داند ٹرک میں سوار ہو کے میدان کارزار میں جاتے ہیں۔

حضور ہم یہ ثابت کر چکے، کہ جب سینے کی شادی ہوئی  تو اسے یہ بھی نہیں  پتہ تھا کہ شادی اور شادی حال میں فرق کیا ہے،
جناب عالی سینے کو جب سمجھ آئی  کہ شادی کیا ہوتی ہے تو دس سال گزر چکے تھے اور تین بچے آ چکے تھے، اس دوران سینے نے درجنوں شادیوں میں شرکت کی اور شادی کی تقریبات منعقد کرنے میں ایکسپرٹ ہونے کے بعد اس نے دوبارہ دولہا بننے کا فیصلہ کیا۔

قصہ سینے کی ازواج کا !
سینے کے دوسری شادی کا فیصلہ کرنے تک دادا بہت بوڑھا ہو چکا تھا،گاؤں سے اس شادی پر خطرہ نقص امن تھا، پر سینا دادے کو عزیز تھا،ایک دن دونوں چھپ کے کچہری گئے، دادا نے وثیقہ نویس سے تحریر لکھوا  کے سر بمہر کرا کے سینے کو دی، ایک لاہور میں دیرینہ دوست کے نام خط لکھوا کےدیا اور اس کا ٹھکانہ بھی سمجھایا،سینا تو ساری وارداتیں کرتا ہی لاہور تھا چپے چپے سے واقف تھا، لیکن جب وہ  دادے کے دوست میرُو کے گھر پہنچا تو حیران ہو گیا، کہ کوئی  ٹھگ اتنا امیر بھی ہو سکتا ہے، چار کنال کا گھر، جس کے چار پورشن، اور ہر ایک پورچ میں گاڑی، میرو تو سینے سے مل کے خوشی سے پاگل ہو گیا،” اوئے پُتری، اوئے میرے یار دتو دی نشانی، اوئے میری دعا سنی گئی  اوئے”۔۔۔۔
میرو کی ایک ہی بیٹی تھی جس کی عمر تیس سال کے لگ بھگ تھی، لیکن  کاغذوں میں ابھی کنواری تھی،وہ سینے کو دیکھ کے کھل اٹھی، لیکن جب اسی نے دتو کا خط پڑھ کے سنایا تو بجھ سی گئی ، میرو نے یہ پوائنٹ نوٹ کیا۔۔

پنچ صاحبو ، غور کریں، سینے کے نصیب کی ایک اور گانٹھ کھلنے والی ہے،دتو اور میرو پارٹنر تھے ، یہ گھر وغیرہ دونوں کا برابر مشترکہ حصہ تھا،

میرے بزرگ پنچ صاحبان نوٹ کریں ،میرو، دتو کا ٹھگی کاروبار میں شاگرد اور بمنزلت پسر تھا، اور اب مساوات معکوس ہوگی ، میرو اب باپ کی جگہ اور سینا فرزندگی پے تیار ،میرو کی بیٹی بھی سمجھ گئی ،اور پانی کا گلاس سینے کو پکڑاتے اس نے ہاتھ چھوا، آنکھ ماری، لیکن سینا کوئی  ٹس مس نہ ہوا، تو سمجھ گئی کہ بیر ڈلے ہیں لیکن بگڑا کچھ نہیں ،
تو میرے حضور سینے نے دوسری شادی کی اور ہر تقریب کے وٹ نکال دئیے،دو ماہ تک شہر میں روولا پڑا رہا،یہ پوائنٹ نوٹ کیا جائے کہ گاؤں میں جب دادا فوت ہوا تو خاندان اس بات سے لاعلم تھا کہ سینے کو وہ کیا دے گیا ہے، سو سینا پہلی بیوی اور بچے بھی لاہور لے گیا، جہاں ان کے لئے علیحدہ پورشن تو موجود تھا،اگلے پانچ سال، میرو کی بیماری کے علاوہ سینا اس بات پر غور کرتا رہا کہ اسے شادی کیسی عورت سے کرنی چاہیے  تھی ،دونوں بیویوں سے ایک ایک اور بچہ تو ہوا، لیکن سینے کو بس یہ سمجھ آئی کہ اس کی بیوی کیسی ہونی چاہیے ،

سینا کی عمر تو ابھی پینتیس سال سے بھی کم تھی، لگتا نہیں  تھا کہ دو بیویوں کا شوہر اور پانچ بچوں کا باپ ہے،تو محترم پنچایت کے ذی قدر پنچ صاحبان ،وہ لاہور کا ڈان بن گیا، ٹھگ بچہ تھا، اب وہ اپنے دادا دتُو ٹھگ اور سُسر میرو ٹھگ کا جانشین تھا،میرو نے اپنے سارے گُر اور رابطے اس کے حوالے کر دیئے اور وہ اب شہر کے بڑے بڑے فراڈ کرنے والوں کا پیر بن چکا تھا،
اس کا کمال یہ تھا کہ پیسے کا لین دین اتنی مہارت سے کرتا کہ نہ کوئی  قانون شکنی ہوتی اور نہ بد عنوانی، ایک ہاؤسنگ سوسائٹی کے دو فریقوں کا جھگڑا طے کرایا، دونوں کو اپنی دو دو پرانی گاڑیاں دے کے ان سے زیرو میٹر ایک ایک لیکسز لے کے دونوں بیویوں کے نام کرا دیں کاغذات مکمل نہ رؤلا نہ رپا،
ممبران پنچایت گرامی میرے مؤکل کے نصیب میں یہ رزق لکھا تھا۔۔
ایک کیس میں دو اہم سرکاری ادارے اور تین پرائیویٹ کمپنیاں عدالت میں متحارب تھے، تاریخ پہ  تاریخ پڑ  رہی تھی ، اسٹے کی وجہ سے کام بند ، جہاں پرائیویٹ کمپنیاں روزانہ لاکھوں کا نقصان اٹھا رہی تھیں وہاں سرکاری محکموں کے اہل کاروں کا دانہ پانی بھی بند تھا ،سب نے سینے سے فیصلہ کرانے  پر  اتفاق کیا، ہر پارٹی اسے منہ مانگی فیس دینے کو تیار، اس کا نقد ایک روپیہ بھی لینے سے انکار، سب سے سینئر  وکیل کو بلوا کے ، پانچ پیرے  لکھوائے ، جو عدالت میں بطور سمجھوتہ باہمی قبول ہو گئے،سینا نے دونوں بیویوں کی شادی کی سالگرہ کی تقریب رکھی، ہر ایک نے ایک ایک کلو سونے کے برانڈیڈ جڑاؤ زیور گفٹ کئے، دونوں بیگمات اڑھائی  اڑھائی  کلو سونا پہن کے پیلی ہو گئیں ،
اس رات سینا نے دونوں سے مدعا دل یوں بیان کیا،
” اے خوبصورت ترین نساء کی جوڑی، تم دونوں میرے بہترین اور بہتر نصف ہو
لیکن مل کے بھی میرے جذبات کی ایک چوتھائی  تسلی اور تشفی نہیں  کر پاتی۔۔۔بندہ ملول ہے کہ کہیں ابوالہول بن کے آپ پے لاحول نہ پڑھ بیٹھے اس لئے ملتمس ہے کہ بندہ پر تقصیر کو راندہ نگاہ ہونے سے بچا لو، ایک میرے دادا کا تحفہ دوسری چچا کا گفٹ، آپکی زوجیت میں نہ کمی تھی نہ ہو گی، لیکن میرے جذبات کی تشنگی مٹانے اور کاروبار کو بہتر چلانے کے لئے مزید ایک زوجہ کا ہونا اب لازم ہے جو فریش، ہاٹ اور ماڈ سکاٹ ہو، عائلی قانون حائل ہے آپ دونوں سے اجازت نکاح ثالث کا آپ کا شوہر نام دار سائل ہے،”
اس اشک آور بیان سے دونوں زوجات نے برضا و رغبت خود سینا جی کو ایک اور عقد کی اجازت مرحمت فرما دی۔

پنچ صاحبان نوٹ کیجیئے کہ ملزم سے بڑھ کر کوئی  پابند شرع ہو نہیں  سکتا۔۔۔

متفرقہ درخواست برائے درستگی ریکارڈز بابت اسماء
محترم پنچایت،
ہمارے اب تک بیان کئے گئے حقائق، مقامی روایات اور جرگہ جیسے ماحول کے زیر اثر تھے، جن میں نام کی بجائے تخصیصی پہچان کے لئے شخصی عرف ہی استعمال ہوتے رہے، کسی خاتون کا نام تو لیا ہی نہیں  گیا،
بنیادی حقیقت بیان ہو چکی، تو درخواست ہے اصل اور مکمل نام ،ہر عرفیت کی جگہ لکھے جائیں،

“سینا” ملک غلام حسین ، مدعا علیہ کا عرفی نام ہے،

“دُتو ” ان کے دادا جناب راجہ اللہ دتہ مرحوم تھے

” میرو” شیخ امیر الدین صاحب آف لاہور کا تخفیفی نام ہے

پنچ صاحبان ذی وقار ، سابقہ کاروائی  میں درستگی کا حکم دیں۔یہ درخواست بھی کی جاتی ہے، کہ یہ عام کیس نہیں ، ایک خاندان  کی عزت اور وقار کا معاملہ ہے ، اس لئے مدعیان کو بھی پابند کیا

جائے کہ وہ میرے مؤکلان کے نام مطلوبہ عزت اور وقار سے لیں،اور ” ٹھگ ” کا لفظ استعمال نہ کریں، اور نا ہی   کسی کو چور کہا جائے،

ملک غلام حسین صاحب اس وقت ملک کی دنیا میں مشہور ترین اور  امیر ترین شخصیت ہیں ، انہیں تعدد ازواج کے بہانے بد نام کرنے سے  سائلان کو روکا جائے،مقرم پنچ صاحبان ملک صاحب کی پہلی دونوں شادیوں کے تفصیلی حقائق سے کوئی  بدعنوانی ثابت نہیں  ہو سکی،تیسری شادی کی نسبت دیار غیر سے بھی ہے، مطلوبہ تفصیل لندن سے آنی ہے۔تو مناسب مہلت دی جائے،مقدمہ ہذا کی سماعت ملتوی ہو گئی  ہے۔

معزز ممبران پنچایت ، مشکور ہیں کہ مدعا علیہ اور دیگر کے نام درست ہو گئے،
جناب عالی، ملک غلام حسین کی قسمت میں گوہر مقصود کا ملنا زمین پر نہیں  بلکہ فضا میں لکھا تھا، اور یہ اسے لندن جانے والی فلائیٹ کی بزنس کلاس میں ثریا حسین کی شکل ملا، ہوا یوں ،ثریا حسین لاہور کے ترقیاتی ادارے کے بڑے ٹھیکیدار کی بیٹی تھی، اسی ادارے کے ایک نوجوان افسر کا اپنا حق خدمت وصول کرنے کے لئے ان کے گھر آنا جانا تھا، ثریا سے بھی ملاقات ہوتی، بےتکلفی بڑھی تو ثریا اس پے نثار ہو گئی ،باپ زمانہ شناس تھا، جوان اعلی افسر، ان کی شادی ہو گئی ، تین سال قبل ،
بسیاری مال حرام وہ جوان ہضم نہ کر سکا، اور چار ماہ قبل  ہارٹ اٹیک سے اچانک فوت ہو گیا، ثریا عدت پوری ہونے کے بعد غم غلط کرنے لندن جا رہی تھی،ملک کا سسر شیخ امیر الدین عرف میرو بھی طویل علالت کے بعد اتنا ہی عرصہ پہلے فوت ہو گیا، جس وجہ سے ملک پر کام سنبھالنے کا پریشر رہا، اس نے بھی کچھ دن آرام کرنے لندن کا پروگرام بنایا،
معزز پنچو، یہ اتفاق تھا یا حادثہ کہ دونوں نے ایک ہی ٹور آپریٹر سے ویزے لگوائے اور ٹکٹ خریدے، اور فلائیٹ بھی ایک تھی، اور لندن میں رہائش کی بکنگ بھی ایک ہوٹل میں تھی، ایئر ہوسٹس نے دونوں کے ناموں میں حسین دیکھ کے سیٹیں بھی ساتھ دیں۔
ثریا کا امیر باپ کی خوبصورت بیٹی اور تازہ بیوہ ہونے سے پرسونا اتنا پر کشش تھا کہ ملک اس کے ساتھ بیٹھنے سے پہلے ہیلو پر دل اسے دے بیٹھا۔
موجود بیویوں سے تیسری کرنے کی اجازت لے چکا تھا، ثریا بھی سوچ نہیں  سکتی تھی کہ عدت کے بعد اتنی جلدی اسے ہم پلہ اور ہم حالات ہم سفر مل جائے گا،
لندن ایئر پورٹ پر جہاز کے اترنے سے پہلے وہ ایک دوسرے کے اندر اتر چکے تھے، ہوٹل پہنچ کے ایک ہی کمرے میں مقیم ہو گئے، دس دن دنیا و مافیا سے کٹ کر باہم جڑے رہے، گھر والوں کو روز خیریت کی اطلاع کے بعد فون بند اور کمرہ بند رکھتے، گیارہویں دن ملک نے دوست بُلایا ، جس نے پانچ سو فیس پر مولوی کا بندوبست کیا، اور دوسرے گواہ کا بھی، اس طرح ان کا نکاح بغیر کہیں اندراج کے ہو گیا، ، ثریا تو ثریا حسین پہلے سے تھی، اس نے والد کو ملک نے اپنے بال بچوں کو مطلع کر دیا تھا، واپسی پر  ان سب نے ان کا استقبال کیا،
جناب عالی، ملک کو اب وہ لکشمی مل گئی جو اس کا خواب تھی،
یہ نوٹ کیا جائے کہ ثریا حسین کا شناختی کارڈ تبدیل کرنے کے نادرا کے فارم پے ملک غلام حسین کے پہلے بیویوں بچوں کے کوائف بھی پہلی دفعہ پانچ سال قبل درج ہوئے اور پورے خاندان کا ب فارم بنا جس کی کاپی پیش کی جائے گی
اس سے پہلے کہ ہم سائلان کے وکلا کے عدم دستیابی دستاویزات کے جواب میں اپنے دلائل پیش کریں، چوتھی بیوی کے بارے بولے گئے ان کے جھوٹ کو ،اگر اجازت ہو آشکار کرنا چاہتے ہیں ،پنچایت اگلے روز تک کے لئے اٹھ چکی ہے،ملک کی ممکنہ چوتھی بیوی ۔

Advertisements
julia rana solicitors

محترم پنچ صاحبان ، ہم علاقے کی دس محترم اور ذی شعور ہستیوں کے جو اس پنچایت کے ممبر ہیں، بےحد مشکور ہیں، ہماری گزارشات تحمل سے سُنی گئیں
عالی مرتبت صاحبان،
ملک غلام حسین کی پہلی شادی ان کےدادا جی نے کرائی ، نکاح نامہ لکھ گیا تھا یا نہیں  یہ ان کے  علم میں تھا اور کوئی دستاویز تھی تو ان کے پاس تھی،وہ تو وفات پا چکے ہیں،
ہاں ان کی جائیداد جو ان کی ساری اولاد میں تقسیم ہو کے جزو ضربی سے کئی  گنا بڑ چکی ہے موجود ہے جس سے اس خاندان کی امارت عیاں ہے ،
دوسری شادی اور لاہور کی جائیداد شیخ صاحب سے دادا کی شراکت کی وجہ سے ہے، شیخ صاحب بھی فوت ہو گئے ہیں، دوسرا نکاح انہوں نے کرایا تھا اس کے رجسٹر کرانے بارے، اور نکاح نامہ ہونے کا علم ان کے ساتھ دفن ہو چکا،
تیسرا نکاح لندن میں ہوا تھا، ہم نے کوشش کی تو پتہ چلا کہ مولوی صاحب مذکور بھی راہی عدم ہو چکے ہیں،
حضور والا یہ کاغذ پتر تو کمزور لوگ سنبھالتے ہیں، جو بندہ بغیر پاسپورٹ کسی ملک میں جا سکتا ہو اسے یہاں شناختی کارڈ کی کیا ضرورت، بنک میں اکاؤنٹ وہ رکھتے ہیں جن کے گھر میں زر محفوظ نہ ہو یا جس نے قرضہ لینا ہو
ملک غلام حسین جیسے معزز تو نو نقد نہ تیرہ بنک میں، کے اصول پر کام کرتے ہیں، لاہور میں بھلا کوئی  ان سے کوئی  شناخت، فرد ملکیت، یا کوئی  دستاویز مانگے گا، تو جناب عالی، سائلان کی بھی لاہور میں جائیداد ہے، ان کے لواحقین بھی ہیں، تو کیا یہ چاہتے ہیں کہ ملک صاحب جیسے صاحب طاقت و ثروت کو اپنی گھٹیا شہرت کے لئے بد نام کریں
اگر یہ ایک ٹکے کی کرپشن ثابت کر دیں تو ملک صاحب اپنا نام بدل لیں گے
اور دوبارہ سینا بن کے ان کو بھی پتہ لگا دیں گے،کہ جس عزت دار خاتون کو یہ ان کی چوتھی زوجہ کہہ رہے ہیں، وہ ملک صاحب کی تیسری شادی کے وقت سے سیکرٹری ہیں ، جملہ کاروباری معاملات دیکھتی ہیں، اور ملک صاحب کے گھر میں دفتر کم رہائش سے مقیم ہیں
ملک صاحب ان سے شادی شرعی حد ازواج مکمل کرنے، کے لئے، کر رہے ہیں
اب جبکہ وہ یہ جانتے ہیں کہ شادی کیا ہے، کیسے کرنی چاہیئے، اور کس سے کرنی چاہیئے، وہ چاہتے ہیں کہ ایک شادی اس لئے کریں کہ بیوی رکھی کیسے جاتی ہے،
تو محترم پنچ صاحبان یہ جامع، مکمل شادی ہوگی جس میں سابقہ نکاح تجدید کئے جائیں، اور نکاح چہارم جدید ہو گا،
اب آپ فیصلہ جو کریں جب کریں ہمارے سر آنکھوں پر ، پر چار ازواج موجود ہیں اور وہیں  رہیں گی،
آپ کے شادی  کی تقریبات میں معہ فیملی کے دعوت نامے، مال روڈ لاہور کے قدیم اور بہترین ہوٹل میں قیام کے دس سویٹس کی بکنگ کے ساتھ، بیس فری سائز ملبوسات فاخرہ، اور تحائف حاضر ہیں،
پروگرام کے مطابق اس ماہ کی انتیس تاریخ کو پانچ پراڈو کا قافلہ آپ اصحاب کو لینے آئے گا،،، بارات تیس فروری کو، اور ولیمہ اکتیس فروری کو ہو گا ،
تحہ دل سے شرکت کے متمنی ہیں ملک غلام حسین عرف سینا، المعروف ٹھگ
اور ان کی اربع ازواج و دیگر اولاد معہ لواحقین۔
تھینک یو گریٹ پنچایت، سرپنچ صاحب ،پنچ صاحبان
قلندر،
نوٹ یہ فرضی واقعات ہیں کوئی مماثلت یا مشابہت قطعی اتفاقیہ ہو گی

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply