تاج محل کا اک گوشہ اور آصف جاہ کے گنبد کے گِدھ

کچھ عرصہ ہوا جب میں نے شاہ دارا کے نام کی بستی شاہدرہ کے گلی کوچوں میں دوستوں کی مدد سے شاہ حسین کی بیٹھک تلاش کر لی کہ شاہ حسین اکثر لاہور کی گلیوں میں رقص کرتے اپنے مُریدوں کے غول میں پہلے تو سرشام دریائے راوی کے کنارے پہنچتے اور پھر وہاں سے شاہدرہ میں واقع اپنی بیٹھک میں جا قیام کرتے۔ اس بیٹھک کے اندر ایک بہت پرانے درخت کا تنا اب تک موجود ہے جس کے ساتھ ٹیک لگا کر شاہ حسین بیٹھا کرتے تھے۔ بیٹھک کے عین سامنے مادھو لال کا گھر تھا اور وہ شاہ حسین کے محبوب اتنے ہوئے کہ انہوں نے اپنا نام بھی مادھو لال حسین رکھ لیا‘ ان کی قبر کے سرہانے جو کتبہ آویزاں ہے اس پر بھی یہی نام درج ہے۔ مادھو لال بعد میں مسلمان ہوئے اور شاہ حسین کی قربت نے انہیں بھی ولائت کے درجے پر فائز کر دیا۔ مادھو لال کا گھر تو کب کا اجڑ چکا لیکن اس کی جگہ جو گھر ان دنوں موجود ہے وہ بھی بہت قدیم تعمیر کا ہے۔ انہی موسموں میں شاہ حسین کی یاد میں میلہ چراغاں کا اہتمام ہوتا ہے اور میں اپنی صحت کے ہاتھوں مجبور شدید خواہش کے باوجود اس بار اس میلے میں شریک نہ ہو سکا۔ بدقسمتی سے شاہدرہ کی بے ہنگم آبادیوں نے مقبرہ جہانگیر کی بیرونی دیواروں اور برجوں کو ایک جونک کی مانند اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ اس کی دیواروں میں تعمیر کردہ طاقچے اور نقش و نگار مکانوں کی دیواروں کا حصہ بن چکے ہیں۔ بلکہ ایک ’’صاحبِ ذوق‘‘ نے تو فصیل کا ایک خوش نظر برج پورا کے پورا اپنے مکان کا حصہ بنا رکھا ہے۔ شکر ہے کہ ابھی تک مقبرے کی دیواروں میں شگاف کر کے اس کے اجڑے ہوئے باغوں میں لوگ آباد نہیں ہو گئے۔ میں عرض کر چکا ہوں کہ کشمیر سے واپسی پر راجوڑی کے مقام پر جہانگیر انتقال کر گیا۔ نہ صرف نورجہاں بلکہ جہانگیر کی خواہش بھی یہی تھی کہ اسے لاہور میں دفن کیا جائے۔ لاہور میں نورجہاں نے ایک باغ دل کشا نام کا تعمیر کیا تھا اور جہانگیر بعداز مرگ بھی اپنی محبوب ملکہ کے باغ میں دفن ہونا چاہتا تھا۔ محمد صالح نے اپنی تصنیف’’شاہجہاں نامہ‘‘ میں تحریر کیا ہے’’سنی عقیدے کی تقلید کرتے ہوئے جہانگیر اپنے جد امجد بابر کی مانند چاہتا تھا کہ اس کے مزار کو اوپر سے کھلا رکھا جائے تاکہ آسمان سے اس کے اوپر بارش اور رحمت خداوندی برس سکے۔ شاہجہاں نے اپنے باپ کی خواہش کا احترام کیا‘‘ میرے لئے یہ ایک دلچسپ انکشاف تھا کہ آغاز میں جہانگیر کی قبر لاہور کے شاہ اسماعیل عرف میاں وڈا کی مانند کھلے آسمان تلے تھی۔ ایک اور روائت کے مطابق تدفین کے کچھ عرصہ بعد کسی جید ملا نے فتویٰ صادر کیا کہ بند قبر پر رحمت کا نزول نہیں ہو گا۔ اس لئے اسے اوپر سے کھول دیا جائے۔ بہر طور یہ تجربہ کامیاب نہ ہوا کہ بارشوں کے باعث قبر کا پورا علاقہ پانی سے بھر گیا چنانچہ اس پر دوبارہ چھت ڈال دی گئی۔ اگرچہ مہاراجہ رنجیت سنگھ مجھے متعدد وجوہات کی بنا پربے حد پسند ہے لیکن وہ ایسا خر دماغ حکمران تھا کہ اس نے بیشتر مغل مقابر اور حویلیوں کو اجاڑ کر رکھ دیا۔ ان کے قیمتی پتھر اکھاڑ لئے اور نایاب آرائشیں کھود ڈالیں۔ عمارتوں کو کھنڈر کر دیا۔ مقبرہ جہانگیر بھی اس سکھا شاہی کا شکار تو ہوا لیکن خوش قسمتی سے اس کی زیبائش کا بیشتر حصہ محفوظ رہا۔ حیرت زدہ کرنے والی حقیقت یہ بھی ہے کہ سارے سکھ ایک جیسے نہیں ہوتے۔ جب بارش سے مرقد کو نقصان پہنچا تو لاہور کے ایک حاکم لہنا سنگھ نے ہی اس پر دوبارہ چھت تعمیر کی۔ رنجیت سنگھ کے ہاتھوں جو نقصان پہنچا تھا اس کا ازالہ اس کے صوفی بیٹے کھڑک سنگھ نے کیا اور اسے بحال کیا۔ بعدازاں اس مقبرے میں ہری سنگھ نلوہ کے بیٹے ارجن سنگھ نے رہائش اختیار کی اور آخر میں یہاں والیٔ کابل کے بھائی سلطان محمد خان نے اس میں بسیرا کیا اور اس افغان بھائی نے بھی مقبرے کو تہس نہس کر دیا۔ بقول نور احمد چشتی مقبرہ جہانگیر کے تالابوں اور فواروں کے لئے ’’چھ چاہ چوب والے جاری تھے‘ان میں سے ایک کنویں کا ذکر میں نے آغاز میں کیا تھا۔علاوہ ازیں گلستانوںکے لئے بتیس عدد ہل مخصوص کئے گئے تھے ۔ بے شک میں مقبرہ جہانگیر کے اندرونی حصے کو بہت بار دیکھ چکا تھالیکن اس کا کوئی واضح تصور ذہن میں موجود نہ تھا۔ آثار قدیمہ کے ایک اہلکار نے مجھ سے صرف ایک سیلفی کی فرمائش کی اور میری خواہش پر مجھے قبر کے اردگرد جو نیم تاریک حصہ ہے اس میں کچھ وقت بسر کرنے کا موقع فراہم کر دیا۔ اہلکار نے جب کہا کہ تارڑ صاحب میں اس حصے کو ٹارچ وغیرہ سے روشن کر دوں تو میں نے اسے منع کر دیا کہ باہرسے جالیوں میں سے چھن چھن کر جو مدھم روشنی آ رہی تھی وہ ایک پرفسوں ماحول تخلیق کر رہی تھیں۔ میں بہت دیر تک تنہا اس ماحول میں سانس لیتا رہا اور ایک عجیب الوہی کیفیت سے دوچار ہوا۔ جیسے منقش تعویذ کے اندر وہ شہنشاہ جس کا عدل مشہور تھا نہ صرف موجود ہے بلکہ وہ میری موجودگی سے آگاہ تھا۔ یہ مقام کسی طور تاج محل آگرہ کے اندروں کی بے مثال آرائشوں اور باریکیوں سے کم نہیں۔ شائد کاریگر اور نقاش بھی وہی تھے۔ کم از کم تحقیق کے مطابق تعویذ پر جو خطاطی نقش ہے اسی خطاط کی ہے جس نے تاج کے بام و در کو سنوارا تھا۔ چونکہ اس اہلکار نے میری درخواست پر دیگر لوگوں کو اندر آنے کی اجازت نہ دی تھی اس لئے وہاں اِک عجب عالم تنہائی تھا جس میں میرے سانس کی آواز بھی گونجتی لگتی تھی اور تاریک حجروں میں کسی موجودگی کا شائبہ ہوتا تھا۔ میں کہاں آگاہ تھا کہ تاج محل آگرہ کا ایک حصہ میرے شہر لاہور میں بھی پنہاں ہے۔ محفوظ ہو چکاہے، صرف میری متلاشی آنکھوں کے لئے ۔ہندوستان کے قدیم مغل مقابر میں کہیں بھی ایک بہن‘ ایک بھائی اور ایک بہنوئی یوں اتنی قربت میں تقریباً پہلو بہ پہلو دفن نہیں۔ ایک جانب جہانگیر مشت خاک ہوتا ہے۔ اس کے مقبرے کی ایک دیوار آصف جاہ سے مشترک ہے اور اس کی چار دیواری کے پاس ملکہ نورجہاں خاک میں خاک ہو رہی ہے۔ سکھ حضرات نے جہانگیر کا کچھ لحاظ کیا لیکن آصف جاہ کے مرقد کو تو انہوں نے ادھیڑ کر رکھ دیا یہاں تک وہ اب اگرچہ ایستادہ ہے کیونکہ ننگی اینٹوں کا ایک گنبد دار ڈھیر دکھائی دیتا ہے اور ستم یہ ہے کہ روائت کے مطابق لاہور میں دو مقبرے اپنی زیبائش اور شاندار فن تعمیر کی وجہ سے کل ہندوستان میں نامور تھے۔ ایک شالیمار باغ کے انجینئر علی مردان خان کا اور دوسرا آصف جاہ کا۔ وہ نورجہاں سے چار سال پیشتر فوت ہوا اور ان زمانوں میں اس کے ذاتی محلات‘ جاگیریں اور زمینوں کی مالیت ڈھائی کروڑ روپے سے بڑھ کر تھی۔ اس نے مرتے ہوئے اپنے تین بیٹوں اور پانچ بیٹیوں کے درمیان بیس لاکھ روپے اور قیمتی اشیا تقسیم کر کے بقیہ کل جائیداد شاہی خزانے کے سپرد کر دی۔’’بادشاہ نامہ‘‘ کے مصنف ملا عبدالحمید لاہوری نے آصف جاہ کے مقبرے کی تعمیر اور تکمیل اپنی آنکھوں سے دیکھی۔ اس کے مطابق شاہجہاں نے چار سال کے عرصہ میں تین لاکھ کی لاگت سے اسے تعمیر کروایا تھا اور یہ اپنی رنگین یعنی منقش ٹائلوں کی وجہ سے ہندوستان بھر میں یکتا تھا۔ ویسے آج بھی اگر آپ غور کریں تو ایک محراب میں اوریجنل چند ٹائلیں موجود ہیں اور ان کے بے مثال ہونے میں کچھ شک نہیں۔آصف جاہ کے مقبرے کا صرف ڈھانچہ باقی ہے لیکن ماہرین تعمیر کا کہنا ہے کہ یہ اب بھی اتنا مستحکم ہے کہ اگلے دو ہزار برس تک قائم رہ سکتا ہے۔ اس مقبرے کا منفرد گنبد ہر پاکستانی کو قدرے شناسا اس لئے لگتا ہے کہ قائد اعظم کے مقبرے کا گنبد اس کے تعمیری حسن کا ایک پر تو ہے۔ جب میں کئی برس پیشتر مقبرہ آصف جاہ کے ویرانے میں آیا تھا تو اس کی فصیل کے ایک کھنڈر ہو چکے شاندار محرابی دروازے کی شکستہ اینٹوں سے ٹیک لگائے میں نے زرد پیراہن میں ملبوس ایک فسوں گر حسن والی اجنبی لڑکی کو ایک اداس تنہائی میں دیکھا تھا۔ جانے کون تھی ۔ کہاں گئی اور مقبرے کے شکستہ گنبد پر دو گدھ شدید گرمی میں پر پھڑ پھڑا رہے تھے اور چوکیدار کا کہنا تھا کہ یہ گدھ اس گنبد پر ہی بیٹھے رہتے ہیں۔ شائد وہ بھی چوکیدار تھے۔ آصف جاہ کے مقبرے کے کھنڈر کی حفاظت کر رہے تھے: ’’مِٹے نامیوں کے نشاں کیسے کیسے‘‘

Advertisements
julia rana solicitors

بشکریہ 92نیوز

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply