پِچھاں پرت مہاراں ماہی۔۔۔۔آصف محمود

طالب حسین درد انتقال کر گئے ۔ جب سے ہوش سنبھالا ، میں نے انہیں کبھی نہیں سنا ، کبھی سن ہی نہیں سکا ۔لڑکپن اور اٹھتی جوانیوں میں ان کے گانے میرے لیے تفنن طبع کے عنوان کے سوا کچھ نہ تھے ۔ پھر ان کی وفات کا سن کر افسوس کیوں ہوا ؟ سوچتا ہوں ، کیا یہ محض ایک شخص کی موت کا دکھ ہے؟ ہر گز نہیں، یہ ایک بہت بڑے فنکار کے بچھڑنے کا دکھ ہے ۔ کتنی عجیب سی بات ہے ، ساڑھے تینتالیس سالہ زندگی میں سے سوا تینتالیس سال جس شخص کو کبھی سنا ، نہ سننے کی خواہش کی آج اسی کے لیے طبیعت اداس ہے۔

گاؤں میں عید الفطر پر میلہ لگتا تھا ۔ خالص دیہاتی رنگوں میں لپٹا میلہ ۔ رمضان کے آ خری عشرے میں نماز ظہر کے بعد قدیم زمانوں کے نقارے بجائے جاتے تو شام تک بجتے رہتے ۔ یہ وہی نقارے تھے جو ارطغرل میں بجائے جاتے ہیں۔پندرہ بیس نقارے سامنے رکھ کر اس فن کے ماہرین جب انہیں بجاتے ایک سماں بندھ جاتا ۔ عید کے دن یہی نقارے اونٹوں پر لاد دیے جاتے ، عید گاہ گاؤں سے دو تین کلومیٹر باہر تھی، سارے رستے یہ نقارے بجتے رہتے ۔ جانے قدیم زمانوں کی یہ کون سی رسم تھی جو چلی آ رہی تھی۔ اب تو یاد بھی نہیں آ خری عید وہاں پڑھے کتنے سال بیت گئے ۔شاید پندرہ، شاید بیس۔معلوم نہیں نقارے آج بھی بجتے ہیں یا یہ رسم بھی دم توڑ چکی۔

عید پڑھ کر واپسی ہوتی تو ہم سیدھا میلے کا رخ کرتے ۔پہلی بار طالب حسین درد کو وہیں کہیں سنا تھا ۔ کسی دکان سے منصور ملنگی کی آواز آ رہی ہوتی تو کہیں سے طالب حسین درد کی۔ سچ کہوں تو ان کو سننا بہت مشکل تھا۔مجھے حیرت ہوتی لوگ ان حضرات کو اتنے شوق سے کیوں سنتے ہیں اور کیسے سن لیتے ہیں ۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ نیزہ بازی کے پنڈال سے والی بال کے میدان تک ہر سو یہی آواز گونج رہی ہوتی۔ الجھن ہی نہیں ایک عجیب سی کوفت بھی محسوس ہوتی کہ ان لوگوں کا ذوق اتنا عجیب و غریب کیوں ہے۔

ایم اے انگریزی کا پہلا سمسٹر تھا ۔ کلاسیکل پوئٹری میں جیفری چاسر کی دی پرولاگ ٹو دی کنٹربری ٹیلز کی کلاس کے بعد سر رؤف جمال ہمیں چائے پلانے لے گئے اور ایک عجیب سا سوال کر دیا : ’’ آپ میں سے کس کو لوک موسیقی پسند ہے؟‘‘۔ اگلا سوال تھا :’’ لوک موسیقی میں اپنی پسند کا گلوکار بتائیں‘‘۔ اس سوال کا کیا جواب آیا اور اس پر کیا بحث ہوئی ، یہ مجھے یاد نہیں البتہ یہ یاد ہے کہ سر نے کہا تھا : انگریزی ضرور پڑھیے لیکن ادب پڑھنے کی منازل اس وقت تک ادھوری رہتی ہیں جب تک شروعات اپنی بنیاد سے نہ کی جائیں ۔ اپنی لوک موسیقی ، لوک کہانی اور اپنے ادب سے آغاز کیجیے ۔ یہ آپ کی جڑیں ہیں۔انہیں مضبوط کر کے آگے بڑھتے جائیے تو آپ ایک بڑا درخت بن جائیں گے لیکن جڑ ہی کمزور نکلی تو آپ جھاڑ جھنکار کے سوا کچھ نہیں‘‘۔

ایک شام مجھے گھر سے بیٹی کا فون آیا ۔ اس نے دوران گفتگو پنجابی کا ایک لفظ بولا اور میں نے اس کی تصحیح کر دی ۔ اب مجھے یاد نہیں میں اس وقت کس صاحب علم کے پاس موجود تھا ، شاید ہم سب کے انکل مستنصر حسین تارڑ کے ہاں یا شاید وہ انتظار حسین مرحوم تھے ۔ فون بند ہوا تو انہوں نے سوال کیا : بیٹی نے اگر پنجابی کا لفظ بول دیا تو تصحیح کی کیا ضرورت تھی؟ میرے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہ تھا ۔ انہوں نے کہا آئندہ اگر بیٹی اردو یا انگریزی میں پنجابی کا لفظ بولے تو ٹوکنا نہیں شکر کرنا ہے کہ نئی نسل کا پرانی نسل اور اپنی اصل سے رشتہ اور تعلق باقی ہے۔ انہوں نے سمجھایا کہ بچہ جب اردو یا انگریزی بولتے بولتے مادری زبان کا لفظ بول دے تو سمجھ لیجیے اس گھر میں نانا ، نانی اور دادا دادی میں سے کسی کا سایہ موجود ہے۔ تہذیب کے یہ رنگ ہی آپ کے اصل رنگ ہیں۔

ایک سال پہلے سرگودھا گیا تو برادرم حبیب الرحمن مجھے اصرار سے ساتھ لے گئے کہ ایک لوک فنکار سے ملوانا ہے ۔ یہ نزاکت مہدی تھے ۔ آپ آنکھ بند کر لیں تو تعین کرنا مشکل ہو جائے استاد غلام علی یا مہدی حسن مرحوم گا رہے ہیں یا کوئی اور. انہوں نے ایک اپنی غزل سنائی: شیشاں اتے دھوڑاں جمیاں ، کندھاں جھاڑی جاندے نیں‘‘۔میں آج بھی یہ سمجھتا ہوں نزاکت سرگودھا کی بجائے کسی بڑے شہر میں ہوتے تو معاملہ ہی کچھ اور ہوتا۔

کچھ عرصے سے گاؤں اور اس کے رنگ زیادہ ہی اچھے لگنے لگ گئے ہیں۔ سر میں سفید بال آ جائیں تو گاؤں ویسے ہی اچھا لگنا شروع ہو جاتا ہے ۔ پنجابی کی لوک موسیقی میں دل لگنا شروع ہو ا تو ایک شام لالہ عطاء اللہ عیسی خیلوی سے بات ہوئی تو میں نے کہا لالہ ! اس مداح کی رائے میں تو آپ کو صرف پنجابی میں گانا چاہیے ، اور روایتی انداز میں ۔ آپ کو جانے کیوں جدت لاحق ہوتی جا رہی ہے ۔جدید رنگ تو جا بجا مل جائیں گے لیکن ہمیں پھریہ کون سنائے گا کہ ’’ اٹھاں والے ٹر جان گے‘‘۔ لالہ پیار کرنے والے انسان ہیں ، وہیں بیٹھے بیٹھے دو دفعہ سنا دیا ’’ نی اٹھاں والے ٹر جان گے، فیر لبھدی پھریں گی ہانڑیں ، نی سسیے جاگدی رئیں،رات اج دی نیند نہ مانڑیں ، نی اٹھاں والے ٹر جان گے‘‘۔اور بیری والا گھر تو لالے ہی کو نہیں ، ہم جیسوں کو بھی یاد ہے۔

لالے نے کہا ایسا کرو پنجابی میں سب لوک فنکاروں کو سنو۔ یہ نہیں کہا صرف مجھے سنو، کہا سب کو سنو ۔ ایک روز سرگودھاجانے سے پہلے میں آب پارہ مارکیٹ گیا اور ایک لڑکے سے کہا پنجابی میں تمام لوک فنکاروں کا کلام یو ایس بی میں ڈال کر دو۔ یو ایس بی گاڑی میں لگائی، پہلا گانا تھا:
’’ اسی ماڑے سرکار تسی چنگے او
ساڈی کی اے تکرار،تسی چنگے او‘‘
پوٹھوہار کا سارا لینڈ سکیپ یہی گانا سنتے گزر گیا۔ ختم ہوتا میں ری وائند کر دیتا۔پھر کلر کہار آ گیا۔ میں نے چائے کا کپ لیا اور باہر دھوپ میں آ بیٹھا۔ موبائل اٹھایا اور گوگل کیا کہ معلوم تو ہو یہ گانا کس نے گایا ہے؟ معلوم ہوا طالب حسین درد نے ۔ حیرتوں کا ایک جہان تھا اور میں تھا ۔جسے میں نے کبھی سنجیدہ نہیں لیا، یہ لوک فنکار کیا واقعی اتنا اچھا گاتا تھا۔

میں نے وہیں بیٹھے بیٹھے طے کر لیا ، لالے سے کہنا ہے طالب حسین درد سے ملوائے۔ مجھے اس کے سامنے بیٹھ کر اسی سے سننا تھا : اسی ماڑے سرکار تسی چنگے او۔ میں سوچتا ہی رہ گیا اور اس لوک فنکار نے آنکھیں بند کر لیں۔اب تو یہ بھی نہیں کہا جا سکتا : ’’ پچھاں پرت مہاراں، ماہی ساون آیا ای‘‘۔

Advertisements
julia rana solicitors

ہاں اک دست دعا ہے سو دراز ہے۔

Facebook Comments

آصف محمود
حق کی تلاش میں سرگرداں صحافی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply