کیا انسان صرف حکمران ہیں؟۔۔۔نذر محمد چوہان

بچپن سے یہ سوال مجھے بہت تنگ کرتا رہا ہے ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ ، کا قول کے اگر کتا بھی بھوکا رہا تو حساب ہو گا ، صرف زبانی جمع خرچ کے لیے مولوی اور سیاستدان نے استعمال کیا ۔ دراصل برصغیر پاک و ہند میں قدیم عرصہ سے دیوتاؤں کو پُوجا جاتا رہا ۔ ہندؤں میں تو بدترین caste system بھی رائج رہا اور ابھی تک ہے ۔ لوگوں کی کثیر تعداد دلت آج بھی untouchable ہیں ۔ اس کے بعد مسلمان بادشاہوں نے بھی وہی شہنشایت برقرار رکھی اور پھر ایسٹ انڈیا کمپنی کے انگریز تو تھے ہی بیگانے انہوں نے تو خون چُوسنا ہی تھا ۔ درمیان میں صوفیا نے اس ظلم اور ان تفرقات کو ختم کرنے کی بہت کوشش کی لیکن وہ بھی ناکام رہے اور بعد میں تو ان کی بھی پُوجا نے معاملہ مزید بگاڑ دیا ۔ اسحق ڈار ، داتا صاحب کے غلہ کا مالک بن بیٹھا ، داتا کو بھی لُوٹا اور سرکار کو بھی ۔
۱۹۴۷ کی تقسیم کے بعد دوںوں طرف ایک بہت مضبوط طبقہ ، سرمایہ دارانہ نظام اور بھونڈی جمہوریت کے بل بوتے پر اُبھرا اور ستر سال سے دو ارب لوگوں کی زندگیاں اجیرن کیے ہوئے ہے ۔ اقوام متحدہ کے تازہ ترین اعدادوشمار کے مطابق چین میں کوئی  ایک شخص بھی اب غربت کی لکیر سے نیچے نہیں اور اسی بنا پر چین کے موجودہ صدر کو کمیونسٹ پارٹی نے تاحیات چیرمین چُنا ہے ۔ ایک اور ڈیٹا کے مطابق چار اسلامی ملکوں کو per capita آمدن کے حساب سے سر فہرست رکھا گیا ہے جن میں قطر بھی شامل ہے جو ہمارے ملک پاکستان کو حکمرانوں کے ساتھ ملکر تو ڈبل ریٹ پر ایل این جی دے رہے ہیں لیکن اپنے ملک میں پوری کی پوری عوام کو مال و مال کر رہے ہیں ۔ یہاں امریکہ میں بھی کوئی ایسی سہولت نہیں جو حکمران کے پاس ہو اور ایک عام آدمی کے پاس نہ ہو ۔ پچھلے دنوں ایک مئیر کو ایک عورت نے گریبان سے پکڑ کر گھسیٹا ۔ یہاں بھی لیکن چند کارپوریٹ سیٹھوں نے عام لوگوں کی زندگیاں اجیرن بنائی  ہوئی  ہیں ۔ اب ان کے بھی گنتی کے دن ہیں ، اب ان کی باری ہے انقلاب کے نیچے آنے کی ۔ اگلا امریکی صدر یقیناً برنی سینڈرز ہو گا یا اس جیسا کوئی  اور ۔ ابھی سے یہ طے ہو گیا ہے کہ  اب ان سیٹھوں کو رگڑنا ہے جو کہ لوگوں کا خون چوُس رہے ہیں ، پناما اور بہاما ان ہی اقدامات کا پیش خیمہ ہے ۔ ایک چھوٹے سے ملک بھوٹان کی ہارورڈ سے تعلیم یافتہ ملکہ نے کہا کے میں نہیں جانتی کسی معیار کو سوائے GNH کے ۔ جی ہاں گراس نیشنل ہیپینیس کے ۔ یہ ہوتی ہے عوام کے لیے فکر ، نہ کہ  ۴۵ کروڑ کی گھڑی کلائی  میں باندھ کر کہنا کہ  میرا دادا ہندوستان کا ارب پتی شخص تھا ۔
ہم شاید اتنے ہزار سال سے غلامانہ حیثیت میں زندہ رہے لہٰذا ہماری جینز میں یہ غلامی سرایت کر گئی ۔ اب مزید ایسا نہیں لگ رہا ، ہر ارتقاء ، انتہا کے بعد ہوتا ہے ۔ اب انتہا کی بھی ساری حدیں پار ہو گئی  ہیں ۔ ہندوستان ٹوٹ پُھوٹ کا شکار ہے ۔ کشمیر آزاد ہو کر رہے گا اور خالصتان بنانا پڑے گا ۔ کوئی  اور چارہ نہیں ۔ چین اقوام متحدہ میں ایک تحریک لا رہا ہے جس میں وہ دونوں ملکوں پاکستان اور ہندوستان کو ڈی نیوکلارائز کرنے کی بات کر رہا ہے ۔ پچھلے دنوں چین کے ایک اعلی سفارت کار نے کہا کہ  پاکستان اور ہندوستان کے ایٹمی ہتھیاروں سے دنیا کی آدھی آبادی ختم ہونے کا خطرہ ہے لہذا ان سے یہ واپس لیے جائیں ۔ چین کو پتہ ہے کہ  اگر خطہ میں ایٹمی جنگ ہوتی ہے تو اس کا سب سے زیادہ نقصان چین کو ہو گا ۔
پوری دنیا ایک نئے عمرانی معاہدہ کی طرف جا رہی ہے ، جو انسانی قدروں کو فوکس کرے گا ۔ جس میں روحانیت کی بات ہو گی ۔ جہاں قبالا والوں کی پوری کی پوری دس dimensions سے زندگیاں گزاری جا سکیں گی ۔ کتنی دیر انسان انسان کا خون ان چند گماشتوں کے ہاتھ بہاتا رہے گا ۔ یہاں امریکہ میں ابھی بھی معاملہ پانچ ڈائیمینشنز تک تو پہنچ گیا ہے ۔
عمران خان کو اس کی ٹیم نے بری طرح ناکام کیا ، ابھی بھی میں عمران خان کو مورد الزام نہیں ٹھہراتا لیکن بحر کیف وہ ٹیم اسی کی چُنی ہوئی  ہے قصور تو ہے ، ذمہ دار تو وہی ہے ۔ اسی نے لوگوں سے وعدے کیے ، میں نے نہیں کیے اور اُلٹا گیس ، بجلی اور تیل کی قیمتیں بڑھا بڑھا کر عوام کا جینا حرام کر دیا ہے ۔ یہ ڈرامے اب زیادہ دیر چلیں گے نہیں ۔ کھایا ہوا پیسہ نکلوائے بغیر کوئی چارہ نہیں ۔ میں نے پچھلے سال مارچ میں ۲۰۰ ارب ڈالر نکلوانے کی آفر کی تھی اور اس مارچ نواز شریف کو بالکل تندرست کر کے اس سے سارا پیسہ نکلوانے کی آفر دی ہے ۔ جی ہاں ، اسے بالکل گھوڑے کی طرح فٹ بھی کر دوں گا اور پیسہ بھی نکلوا دوں گا ۔ کاش عمران خان کی اس چیز میں will ہو ، کھلاڑی ہونے کی باوجود وہ will مِسنگ ہے جو مہاتر میں ۹۳ سال کی عمر میں بھی ہے ۔ اس نے سابقہ حکمران سے پیسہ نکلوا لیا ۔ عمران خان تو افسر شاہی کا کچھ نہیں کر سکا جس نے دراصل اس ملک کو لُوٹا اور میں نے تو اس لسٹ میں نام ہی افسروں کے دیے تھے ، میں نے تو پیسہ ہی ان سے نکلوانا تھا ۔
یہ سب کچھ تب ممکن ہے جب حکمران عوام کو انسان سمجھیں یا پھر عوام تنگ آ کر اپنے حقوق کی جنگ خود لڑیں ۔ اب وہ فیصلہ کی گھڑی شاید آن پہنچی ہے ۔ اب مزید آئیں بائیں شائیں نہیں چلے گی ۔ یا عمران خان کرے گا یا اگلا ملٹری جنرل ۔ کوئی  اس کے علاوہ سیاستدان تو یہ کام کرنے سے رہا کیونکہ یہ سارے میٹر ریڈر ہیں ، سارے کا سارا ان ہی کا کیا دھرا ہے ۔ سوشل میڈیا نے اس سب پر جلتی میں تیل کا کام کر رہا ہے اور کرتا رہے گا ۔ یہ آگ اب بجھنے کو نہیں ۔ ۲۲ کروڑ روحوں کا معاملہ ہے ۔ خدائے بزرگ و برتر سے میری التجا ہے کے اس مشکل گھڑی میں ہم وطنوں کی مدد فرما ۔ لیکن یاد رہے نوالا ہم کو خود توڑ کر منہ میں ڈالنا ہو گا وہ کوئی  اور نہیں ڈالے گا ۔ اللہ نگہبان ۔ پاکستان  پائندہ باد۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply