کلبھوشن یادیو کا سٹے آرڈر

عالمی عدالت انصاف نے کلبھوشن یادیو کے کیس میں حکم امتناعی یا سٹے آرڈر دے دیا، یعنی عدالت کا فیصلہ آنے تک پھانسی کی سزا پہ عملدارمد نہ کیا جائے۔ یہ حکم قدرتی اور متوقع تھا۔ جو انصاف کے تقاضوں کے مطابق بھی تھا کہ دوران کارروائی ہی اگر پھانسی دے دی گئی تو عدالت سے رجوع کا مقصد ہی فوت ہوگیا۔لیکن اس سارے عمل میں غیر متوقع کچھ اور تھا جس کا آگے چل کے جائزہ لیتے ہیں۔ پہلے اس پہ نظرڈال لیں کہ زیادہ سے زیادہ ایسا کیا فیصلہ سامنے آسکتا ہے جو پاکستان کے لئے ناپسندیدہ ہو؟۔۔۔۔۔۔مثلاً قونصلر تک رسائی نہ ہونے کے سبب مقدمہ کی تمام کارروائی ہی خلاف انصاف قرار دے دی گئی تو بھی کلبھوشن کو بھارتی قونصلر تک ایک دفعہ رسائی دے کر مقدمہ کی کارروائی نئے سرے سے شروع کردی جائے گی۔ مقدمہ بہرطور پاکستان میں ہی چلنا ہے اور اپیل کا آخری فورم بھی پاکستانی ہی ہونا ہے۔جی تو اس تمام عمل میں غیر متوقع کیا تھا؟
یہ تھا بھارتی حکومت کا عالمی عدالت انصاف سے رجوع کرلینا۔ معاہدہ تاشقند اور شملہ معاہدہ کے دور سے ہی بھارت کا مسلسل موقف رہا ہے کہ بھارت اور پاکستان کے تمام معاملات دوطرفہ بنیادوں پہ ہی طے ہوں گے اور بھارت نے اس سلسلہ میں کسی تیسرے فریق سے رجوع کی ہمیشہ اصولی مخالفت کی ہے۔ اس کیس میں پہلی دفعہ بھارت اپنے اس موقف سے ہٹ گیا ہے۔ پاکستان کے بارے میں کانگریس کی پالیسی بھی معاندانہ ہی لیکن گہری اور ٹھنڈی تھی۔ جو عملی طور پہ بھارت کی سرکاری پالیسی رہی۔ حکومتیں آتی اور جاتی رہیں لیکن یہ پالیسی اور طرزعمل یکساں رہا جو بھارتی اسٹیبلشمنٹ کا سرکاری نظریہ یا فلسفہ بن چکا تھا۔ مودی کے دور میں بنیادی تبدیلی یہ ہوئی کہ نہ صرف کانگریس کے اس آزمودہ فلسفہ اور سوچ سے انحراف کرلیا گیا بلکہ یہ اب نئے بھارت کی اسٹیبلشمنٹ کی سوچ کا بھی رفتہ رفتہ حصہ بن رہا ہے۔ پاکستان نے جو جوابی رویہ اختیار کیا ہے کلبھوشن کے معاملہ پہ اس پر یہ رائے بھی موجود ہے کہ نواز کی ذاتی دلچسپی اور مفاد کی وجہ سے اس معاملہ پہ لچک دکھائی گئی۔ سجن دیول کی یکدم پاکستان آمد اور مری میں اس کی نواز سے خفیہ ملاقات کو اس واقعہ سے جوڑا جارہا ہے جو عین ممکن بھی ہے۔ لیکن ایک دیگر اور اتنی ہی مضبوط رائے یہ بھی موجود ہے کہ فوج اور حکومت کے درمیان اس معاملے کے بشمول کئی معاملات پہ مفاہمت ہوچکی اور اس کے بعد یہ قدم اٹھایا گیا، طالب علم کا احساس بھی اس ضمن میں یہی ہے۔
دیکھنا یہ ہے کہ جب بھارت اور پاکستان کے باہمی معاملات میں بھارت نے خود ہی عالمی عدالت انصاف کے دائرہ اختیار کو تسلیم کرلیا تو کیا مستقبل میں یہ ایک نظیر بن سکتی ہے اور پاکستان باہمی معاملات میں مذکورہ عدالت سے رجوع کرسکتا ہے جہاں کہیں بھی اسے بھارت سے شکایت ہو؟ ۔اس کے لئے سب سے پہلے تو عدالت کے تفصیلی فیصلہ کا انتظار کرنا ہوگا کہ اختیار سماعت پہ پاکستانی اعتراضات کا عدالت نے کیا جواب دیا اور اس پہ کیا اصول قائم کیا۔اسی طرح ایک اور دلچسپ بات اختیار سماعت کے معاملہ میں دیکھنے والی یہ ہے کہ ۲۰۰۸ کے پاکستان بھارت معاہدہ میں یہ طے کیا گیا تھا کہ جاسوسی اور دہشت گردی کے ملزمین تک قونصلر رسائی سے انکار کیا جاسکتا ہے۔ تفصیلی فیصلہ میں یہ بات بھی دیکھنے والی ہوگی کہ دو ملکوں کے مابین دوطرفہ معاہدےکے ہوتے ہوئے بھی عدالت اپنا اختیار سماعت کس اصول کی بنا پہ قائم کرتی ہے؟ اور کیا پاکستان اس کو نظیر بنا کے پاک و ہند کے دیگر متنازعہ معاملات میں عالمی عدالت انصاف سے رجوع کرسکتا ہے؟ اور دیگر معاملات کو عدالت کے دائرہ سماعت میں لا سکتا ہے؟
تفصیلی فیصلہ جس طرح بھی لکھا گیا ہو۔ انڈیا کی کوشش یہی ہوگی کہ اس کو اپنے محدود تر معنوں میں دیکھا جائے اور صرف اسی کیس تک محدود کیا جائے جبکہ پاکستان کی کوشش مستقبل میں یہی ہوگی کہ اختیار سماعت کے فیصلے کو وسیع تر معنوں میں سمجھا جائے اور عالمی عدالت انصاف کے دائرہ کو دیگر متنازعہ معاملات تک پھیلایا جائے۔ اگر اس زاویہ سے دیکھا جائے تو سودا کچھ اتنا برا بھی نہیں کیونکہ پاکستان کے لئے منفی زیادہ سے زیادہ یہ ہوسکتا ہے کہ کلبھوشن کا ٹرائل دوبارہ کرنا پڑجائے لیکن جواب میں پاکستان کے پاس یہ موقع آگیا کہ بار بار مختلف متنازعہ معاملات میں عالمی عدالت کا دروازہ کھٹکھٹا سکے جس کا بھارت پہلے سختی سے انکاری تھا لیکن اب وہ کمزور اخلاقی جواز کے ساتھ عدالت میں ہوگا۔ یہ تو معاملے کا قانونی پہلو ہوا۔ اب نظر ڈالتے ہیں اس کے سیاسی اور سفارتی پہلو پہ۔
ہمیں اس حقیقت کا اعتراف کرلینا چاہئے کہ اقوام متحدہ یا عالمی عدالت سمیت دیگر عالمی اداروں پہ مغرب کا بہت گہرا اثر ہے۔ مغرب جتنا بھی ان کے غیرجانبدار ہونے کا دعوی کرے۔ امریکہ یا یک قطبیت کی حامل طاقتیں ان اداروں کو بہت حد تک اپنے یا اپنے حمایتیوں کے حق میں استعمال کرتی ہیں۔ یہ وہ الزام ہے جو بار بار کثیرالقطبیت کی حامل طاقتیں روس اور چین وغیرہ مغرب پہ لگاتے آئے ہیں۔ ایک تیزی سے بدلتی ہوئی دنیا میں طاقت کا توازن بھی اسی تیزی سے بدل رہا ہے۔ جہاں کثیر قطبیت کی حامل طاقتیں عالمی نظام میں اپنی جگہ منوانے کو کوشاں ہیں۔یہ صورت حال پاکستان کے لئے ایک موقع بھی ثابت ہوسکتی ہے جہاں بھارت کے ساتھ اپنے متنازعہ مسائل پر اس فیصلے کو نظیر بناکے بار بار عالمی عدالت انصاف سے رجوع کرے۔ پاکستان کوئی غیر اہم ملک بھی نہیں ہے اور اسے یکسر نظرانداز کرنا ممکن بھی نہیں۔ پاکستان ماضی میں مغرب کا قریبی حلیف بھی رہا اور اس سسٹم میں پوری طرح ہم آہنگ بھی۔ اس فیصلہ کے بعد اختیار سماعت کے محدود ہونے کے جواز بتا کے پاکستان کو بار بار انکار کرنا عالمی عدالت کے لئے آسان بھی نہ ہوگا۔ لگ یہی رہا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان متنازعہ مسائل مستقبل میں ایک نئے فورم کا دروازہ بھی کھٹکھٹاتے رہیں گے ۔

Facebook Comments

عمیر فاروق
اپنی تلاش میں بھٹکتا ہوا ایک راہی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply