مسئلہ ایصال ثواب۔۔۔۔۔ڈاکٹر محمد اسلم مبارک پوری

مسئلہ ایصال ثواب اور طریقے

ایصال ثواب کا سادہ مفہوم یہ ہے کہ میت کے فائدے اور ثواب کے لیے کوئی نیک عمل کیاجائے ۔ اس کا ثبوت صحیح احادیث سے موجود ہے ۔مسئلہ ایصال ثواب میں لوگ افراط وتفریط کے شکار رہے ہیں۔ ایک گروہ مطلقاً ایصال ثواب کا قائل نہیں ، جب کہ ایک دوسرے گروہ نے اسے اتنا عام کر دیا کہ ہر طرح کی عبادات کا ثواب فوت شدگان کو پہنچانے کا قائل ہو گیا۔ یہ ان مسائل میں سے ہے جن میں اجتہاد کی کوئی گنجائش نہیں ہے ،اس لیے جس حد تک ثبوت ہوگا اسی حد تک زیر عمل لایا جائے گا ۔ قیاس واجتہاد سے کوئی بات اس میں شامل نہیں کی جا سکتی، یعنی مثلاً ایصال ثواب کے لیے میت کی طرف سے صدقہ کرنے ، میت کے لیے دعائے مغفرت کرنے ، میت پر نذر ہو ، حج ہو ، روزہ ہو ، قرض ہو تو اسے ادا کرنے کا ثبوت ملتا ہے ۔ لہٰذا یہ سب کام میت کی طرف سے کیے جا سکتے ہیں اور اس کا نفع اور ثواب میت کو پہنچے گا ۔
علمائے اہل سنت وجماعت کا اتفاق ہے کہ زندوں کے عمل اور ان کی کوشش سے مردہ دو صورتوں میں فائدہ اٹھاتے ہیں۔اس اتفاق کو ابن قیم الجوزیہ ،شارح طحاویہ ابن ابی العز اور ملا علی قاری نے بیان کیا ہے۔(۱)
پہلی صورت: وہ اعمال جس میں مردہ کا عمل دخل ہے اور یہ وہ اعمال ہیں جسے

(۱)کتاب الروح (ص : ۱۵۸)شرح عقیدہ طحاویہ (ص: ۴۵۲)شرح فقہ اکبر (۱۹۶)
مردہ نے اپنی حیات میں انجام دیا ہو۔حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: إذا مات الانسان انقطع عنہ عملہإلا من ثلاثۃ ،إلا من صدقۃٍ جاریۃ ، أو علم ینتفع بہ ، أو ولد صالح یدعو لہ(۱) جب انسان مر جاتا ہے تو اس کا عمل ختم ہو جاتا ہے سوائے تین اعمال کے (اس کا ثواب میت کو پہنچتا رہتا ہے)صدقہ جاریہ، وہ علم جس سے نفع اٹھایا جائے ، صالح اولاد جو اس کے لیے دعا کرے۔
حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: خیر ما یخلف الرجل من بعدہ ثلاث : ولد صالح یدعو لہ ، وصدقۃ تجری یبلغہ أجرھا ، وعلم یعمل بہ من بعدہ(۲)
سب سے بہتر ین چیز جسے آدمی اپنے بعد چھوڑتا جاتا ہے ، تین چیزیں ہیں: صالح اولاد جو اس کے لیے دعا کرے۔، صدقہ جاریہ جس کا ثواب اسے ملتا ہے اور ایسا علم جس پر عمل کیا جائے۔
’’صدقہ جاریہ‘‘ کا مطلب ہے :وہ اعمال جن کا ثواب کسی نہ کسی انداز سے

(۱)صحیح مسلم (۱۶۳۱)
(۲)سنن ابن ماجہ (۲۴۱)طبرانی صغیر (۱/۱۴۱)اس حدیث کی سند کو منذری نے ترغیب وترہیب (۱/۱۴۳)میں اور ابو محمد شرف الدین دمیاطی نے المتجرالرابح (ص: ۲۴)میں حسن کہا ہے۔ علامہ البانی رحمہ اللہ نے صحیح الجامع (۲۳۲)صحیح سنن ابن ماجہ (۱/۴۶)اور احکام الجنائز (ص : ۲۲۴) میں صحیح کہا ہے۔اس مفہوم کی ایک روایت ابن عبد البر نے جامع بیان العلم (۱/۱۵)میں حسن سند کے ساتھ روایت کیا ہے۔
میت کو ملتا رہتا ہے،جن کی تفصیل درج ذیل ہے:
* وقف : وقف کہتے ہیں: تحبیس الأصل وتسبیل الثمرۃ(۱) یعنی وقف شدہ چیز کو روکنا اور اس سے ہونے والی آمدنی کو خیرات کرنا۔
* مسجدومدرسہ کی تعمیر
* قبرستان کے لیے زمین کی فراہمی
* کنواں کھودنا اور اس کی تعمیر کرانا
* مسافروں کے لیے سرائے تعمیر کرنا
* مفاد عامہ کے لیے اسپتال ، شادی خانہ اور پل وغیرہ کی تعمیر
* شجر کاری کرنا
* اسلامی سلطنت کی حدودکی حفاظت کرنا
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا :
إن مما یلحق المؤمن من عملہ وحسناتہ بعد موتہ : علماً نشرہ ، وولداً صالحاً ترکہ ، ومصحفاً ورثہ ، أو مسجداً بناہ ، أو بیتاً لابن السبیل ، أو نھراً أجراہ ، أو صدقۃ أخرجھا من مالہ في صحتہ وحیاتہ من لحقہ من بعد موتہ(۲)مومن کو اس کی موت کے بعد اس کے اعمال وحسنات کا جو صلہ ملتا ہے ان

(۱)الکافی لابن قدامہ (۲/۴۴۸)
(۲)سنن ابن ماجہ (۲۴۲)اس کی سند غریب ہے، لیکن شواہد کی وجہ سے یہ حدیث حسن ہے۔
میں: وہ علم ہے جو اس نے لوگوں کو سکھایا اور اسے پھیلایا،یا وہ نیک اولادجو چھوڑ گیا ،یا قرآن پاک کا نسخہ کسی کو( پڑھنے کے لیے )دے گیا،یا کوئی مسجد بنوا دیا،یا کوئی مسافر خانہ تعمیر کر ادیا،یا کوئی نہر کھدوا دیا، یاوہ صدقہ جو اس نے اپنی زندگی اور صحت میں دیا ۔ یہ چیزیں اس کو اس کی موت کے بعد ملیں گی۔
دوسری صورت:
جس میں مردہ کا کوئی عمل دخل نہ ہو، بلکہ زندہ شخص اسے انجام دے، جیسے صدقہ وخیرات ، دعا اور استغفار ،قرض اورحج کرنا وغیرہ۔(۱)
* صدقہ اور خیرات: ایصال ثواب کی نیت سے فوت شدہ کی طرف سے صدقہ وخیرات کرنا جائز ہے ۔ احادیث کریمہ میں اس کے جواز کا ثبوت ملتا ہے،اس لیے ایصال ثواب کا یہ طریقہ مشروع ہے۔حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا :
إن أبی مات وترک مالاً ولم یوص فھل یکفر عنہ أن نصدق عنہ ، قال : نعم(۲) میرے والد انتقال کر گئے ہیں اور مال چھوڑا ہے لیکن کوئی وصیت نہیں کی ہے۔ کیاان کی طرف سے صدقہ کیا جائے تو یہ ان کے گناہوں کی بخشش کا ذریعہ بنے گا ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ہاں ۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا:

(۱)شرح عقیدہ طحاویہ(ص : ۴۵۲)
(۲)صحیح مسلم (۱۶۳۰)
إن أمی افتلتت نفسھا ، ولم توص ، وإنی لأظنھا لو تکلمت تصدقت ، أ فلھا أجر إن تصدقت عنھا ، قال : نعم(۱)
ایک آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ میری والدہ اچانک انتقال کرگئیں اور کوئی وصیت نہیں کی ۔ میرا خیال ہے کہ اگر وہ بولتیں تو صدقہ کرتیں ، تو کیا میں ان کی طرف سے صدقہ کردوں تو انہیں اجر ملے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں ، تم ان کی طرف سے صدقہ کرو ۔
یہ ملحوظ رہے کہ میت نے کوئی وصیت نہ کی تھی ، صاحب زادے نے محض اپنے طور پر صدقہ کیا تھا ۔ نیز میت نے جو مال چھوڑا تھا وفات کے بعد اس کا نہ رہا بلکہ اس کے ورثاء کا ہو گیا ۔ اس لیے صاحب زادے نے جو صدقہ کیا اب وہ اس کے اپنے مال سے تھا ۔
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا :إن أمہ توفیت أینفعھا إن تصدقت عنھا ؟ قال : نعم . قال : فإن لی مخرافاً ، فأنا أشھدک أنی قد تصدقت بہ عنھا(۲)
ایک آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ میری والدہ انتقال کر گئیں ، کیا میں ان کی جانب سے صدقہ کروں تو انہیں اس کا فائدہ پہنچے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے
فرمایا : ہاں ، انہوں نے کہا کہ میرا ایک باغ ہے میں آپ کو گواہ بناتا ہوں کہ میں نے

(۱)صحیح بخاری (۱۳۸۸،۲۷۶۰)صحیح مسلم (۱۰۰۴)
(۲)حیح بخاری (۲۷۷۰)
اپنی والدہ کی طرف سے صدقہ کر دیا ہے۔
حافظ ابن حجر لکھتے ہیں کہ اس حدیث میں آدمی سے مراد حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ ہیں(۱)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ایک خاتون نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ اے اللہ کے رسول :
إن أمی افتلتت نفسھا ولولا ذلک لتصدقت وأعطت ، أفیجزي أن أتصدق عنھا ، فقال النبي صلی اللہ علیہ وسلم : نعم ، فتصدقي عنھا(۲)
میری والدہ کی روح اچانک پرواز کر گئی ۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو یقیناًوہ صدقہ کرتی اورعطیہ دیتی ۔ کیا میں اس کی طرف سے صدقہ کردوں تو کار آمد ہوگا ؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ہاں ، تم ان کی طرف سے صدقہ کر دو ۔
حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ان کی والدہ فوت ہوگئیں تو انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیااور کہا کہ اے اللہ کے رسول :
إن أمی ماتت ، أفأتصدق عنھا ؟ قال : نعم . قال : فأي الصدقۃ أفضل ؟ قال : سقي الماء(۳) میری ماں انتقال کر گئیں ۔کیا میں ان کی

(۱)فتح الباری شرح صحیح البخاری (۵/۴۶۷)
(۲)سنن ابو داود (۲۸۸۱)یہ حدیث صحیح ہے۔
(۳)سنن نسائی (۳۶۹۴)یہ روایت اپنے شواہد کی بنا پر حسن ہے ۔
طرف سے صدقہ کردوں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں ۔انہوں نے کہا تو کون سا صدقہ افضل ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پانی پلانا ۔
حدیث میں پانی پلانے سے مرادپانی پلانے کے ساتھ ساتھ پینے کے پانی کا انتظام کر دینایعنی کنواں کھدوانا یا نل لگوانا،اس میں شامل ہے۔
قال الحسن : فتلک سقایۃ آل سعد بالمدینۃ(۱) حسن کہتے ہیں کہ مدینے میں آل سعد کا کنواں یہی ہے ۔
حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کے صاحب زادے سعید کی روایت میں ہے: قال : خرج سعد بن عبادۃ مع النبي ﷺ فی بعض مغازیہ ، وحضرت أمہ الوفاۃ بالمدینۃ ، فقیل لھا : أوصي ، فقالت : فیم أوصي؟ المال مال سعد ، فتوفیت قبل أن یقدم سعد ، فلما قدم سعد ذکر ذلک لہ ، فقال یا رسول اللہ ﷺ : ھل ینفعھا إن تصدقت عنھا، فقال النبي ﷺ : نعم ، فقال سعد : حائط کذا وکذا ، صدقۃ عنھا لحائط سماہ(۲)
یعنی سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ بعض غزوات میں تشریف لے گئے اور مدینہ میں ان کی والدہ کی وفات کا وقت آگیا ۔ ان سے کہا گیا

(۱)مسند احمد (۵/۲۸۵،۶/۷) سنن نسائی (۳۶۹۶)
(۲)موطا امام مالک (ص:۵۸۲)سنن نسائی (۳۶۸۰)صحیح ابن خزیمہ (۲۵۰۰)یہ حدیث صحیح ہے اور اس کے شواہد ہیں۔
کہ آپ کچھ وصیت کردیں ۔ انہوں نے کہا کہ میں کاہے کی وصیت کردوں ،مال تو سعد کا مال ہے ۔ بہر حال وہ حضرت سعد کی آمد سے پہلے انتقال کر گئیں ۔ جب حضرت سعد آئے تو ان سے اس کا ذکر کیا گیا۔ انہوں نے کہا : اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! کیا میں ان کی طرف سے صدقہ کردوں تو اس کا ثواب ان کو پہنچے گا ؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ہاں، حضرت سعد نے ایک باغ کا نام لے کر کہا کہ فلاں باغ ان کی طرف سے صدقہ ہے ۔
احادیث میں صدقات کا لفظ خیرات اور رفاہ عام دونوں طرح کے کار خیر پر کیا گیا ہے ۔ ان احادیث میں بھی صدقے کا لفظ عام ہے اور کم از کم حضرت سعدرضی اللہ عنہ کا کنواں تو بہر حال رفاہ عام ہی کے لیے تھا ۔ پھر حضرت سعد کا یہ سوال کہ کون سا صدقہ افضل ہے؟ اس بات کا پتہ دیتا ہے کہ کوئی بھی صدقہ کر دیا جائے میت کو اس کا ثواب ملے گا ، کیوں کہ اگر ہر صدقہ درست نہ ہوتا تو اس میں سے افضل کی تعیین کا سوال ہی بیکار تھا تب تو یہ سوال کیا جاتا کہ کون سا صدقہ درست ہے ؟ اس سے معلوم ہوا کہ میت کے ایصال ثواب کے لیے خیرات یا رفاہ عام کا جو کام بھی کیا جائے اگر وہ عام اصول شریعت کی رو سے درست ہے تو ایصال کے لیے بھی درست ہے ۔لہٰذاایصال ثواب کے لیے کھانا کھلانا ، کنواں کھدوانا ، سرائے بنوانا یا مدرسہ چلانا یہ سارے کام درست ہیں ۔
میت کی طرف سے صدقہ کرنے کے بارے میں بعض علماء نے میت کے اقارب یا وارث کی شرط لگائی ہے۔ قرآن کے بیان کردہ اصول(وَأَن لَّیْْسَ لِلْانْسَانِ إِلَّا مَا سَعَی) [ الحشر:۱۰] کی روشنی میں یہ موقف زیادہ صحیح لگتا ہے ۔ اولاد حدیث کہ رو سے انسان کی اپنی بہترین کمائی اور کسب وسعی ہے ۔ اس کے علاوہ مذکورہ احادیث میں جو واقعات بیان ہوئے ہیں وہ بھی قریبی رشہ داروں ہی کے ہیں اور یہ فطری امر ہے اور مشاہدہ بھی ہے کہ مرنے والے کے لیے صدقات وخیرات کا اہتمام عموماً اقرباء اور اعزہ ہی کرتے ہیں اس لیے اولاد میں سے جو بھی میت کے ایصال ثواب کے لیے کوئی صدقہ کرے گا میت کو اس کا ثواب پہنچے گا (۱) اور صدقہ کرنے والے کو بھی ثواب ملے گا۔اس بات پر علمائے اہل سنت کا اتفاق ہے ۔شارح صحیح مسلم امام نووی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
وفی ھذا الأحادیث جواز الصدقۃ عن المیت واستحبابھا وأن ثوابھا یصلہ وینفعہ وینفع المتصدق أیضاً .
یعنی اس حدیث سے یہ مسئلہ مستنبط ہوتا ہے کہ میت کی طرف سے صدقہ کرنا درست اور مستحب ہے اور اس کا ثواب میت کو پہنچتا ہے اور اسے فائدہ پہنچتا ہے اور صدقہ کرنے والے کو بھی فائدہ پہنچتا ہے ۔
پھر اس کے بعد لکھتے ہیں :
وھذا کلہ أجمع علیہ المسلمون(۲)
یعنی اس ساری بات پر مسلمانوں کا اجماع ہے ۔
* دعا: یعنی فوت شدگان کے لیے مغفرت اور رفع درجات کی دعا کرنا۔ یہ ایک نیک عمل بلکہ خلاصۂ عبادت ہے ۔یہ عمل زندہ آدمی کرتا ہے لیکن اس کا فائدہ مردے

(۱)فتح الباری (۳/۲۹۹)مترجم سنن نسائی (۵/۴۹۲)
(۲)شرح مسلم نووی (۱۱/۸۴)
کو پہنچتا ہے ۔ اس پر تمام علماء کا اتفاق ہے اور قرآن وحدیث سے ثابت ہے۔ قرآن کریم میں والدین کے لیے مغفرت اور طلب رحمت کی دعا سکھلائی گئی ہے ۔ (رَبِّ ارْحَمْھُمَا کَمَا رَبَّیَانِیْ صَغِیْراً) [ بنی اسرائیل:۲۴]اے اللہ !ان پر اس طرح رحم فرماجیسے بچپن میں انہوں نے مجھے شفقت ومحبت سے پالاہے۔
یہ دعا صرف زندگی ہی کے لیے نہیں بلکہ جب تک انسان زندہ ہے ‘اسے حکم ہے کہ وہ والدین کے لیے یہ دعا کرتا رہے ۔اب اگر دعا کا فائدہ ہی میت کو نہ ہو تو اس دعا کے کرنے کا کیا مطلب؟ اگر فوت شدگان کے لیے دعا کی افادیت ہی نہ ہو تو قرآن مجید کا یہ حکم فعل عبث قرار پائے گاحالانکہ تمام علماء کا اتفاق ہے کہ قرآن مقدس اس سے منزہ اور پاک ہے۔ اسی طرح تمام مومنوں کے لیے مغفرت کی دعا کرنے کا حکم ہے۔(رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِاِخْوَانِنَا الَّذِیْنَ سَبَقُونَا بِالْاِیْمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِیْ قُلُوبِنَا غِلّاً لِّلَّذِیْنَ آمَنُوا رَبَّنَا إِنَّکَ رَؤُوفٌ رَّحِیْم) [ الحشر:۱۰] اے اللہ ! ہمیں بخش دے اور ہمارے ان برادران کوبھی جنہوں نے ایمان لانے میں ہم سے پہل کی ہے۔
اس آیت میں تمام مومنین شامل ہیں جو ہم سے پہلے ایمانی دولت سے سرفراز چکے ہیں جس میں زندہ اور مردہ سب شامل ہیں حتی کہ صدیوں برس قبل کے فوت شدہ لوگ بھی شامل ہیں۔ اللہ تعالی نے عرش کے اٹھانے والے فرشتوں کی بابت فرمایا ہے کہ وہ اہل ایمان ان کے آباء واجداد اور ان کی ازواج وذریات کے لیے مغفرت اور جنت میں داخل ہونے دعا کرتے ہیں۔ارشاد ہے: (الَّذِیْنَ یَحْمِلُونَ الْعَرْشَ وَمَنْ حَوْلَہُ یُسَبِّحُونَ بِحَمْدِ رَبِّہِمْ وَیُؤْمِنُونَ بِہِ وَیَسْتَغْفِرُونَ لِلَّذِیْنَ آمَنُوا رَبَّنَا وَسِعْتَ کُلَّ شَیْْءٍ رَّحْمَۃً وَعِلْماً فَاغْفِرْ لِلَّذِیْنَ تَابُوا وَاتَّبَعُوا سَبِیْلَکَ وَقِہِمْ عَذَابَ الْجَحِیْم) [غافر:۷]جو(فرشتے) عرش کو اٹھائے ہوئے اور اس کے اردگرد (حلقہ باندھے ہوئے ) ہیں وہ اپنے پروردگار کی تعریف کے ساتھ تسبیح بیان کرتے رہتے ہیں اور مومنوں کے لیے بخشش مانگتے رہتے ہیں کہ اے ہمارے رب تیری رحمت اور تیرا علم ہر چیز کو احاطہ کیے ہوئے ہے تو جن لوگوں نے توبہ کی اور تیرے بتائے ہوئے راہ پر چلے ان کو بخش دے اور دوزخ کے عذاب سے بچا لے۔
فرشتوں کی یہ دعا صرف زندہ مسلمانوں ہی کے لیے نہیں ہے بلکہ ایمان پر مرنے والے سب مسلمانوں کے لیے ہے ۔
قرآن کریم کی مذکورہ اور بعض دیگر آیات بینات سے واضح ہے کہ دعا کا فائدہ جس طرح زندہ فرد کو پہنچتا ہے اسی طرح مردہ کو بھی پہنچتا ہے ، اسی لیے رب قدیر نے سب کے لیے بلا تخصیص دعا کرنے کا حکم دیا ہے اور نوری مخلوق فرشتے بھی زندوں کے ساتھ مردوں کے لیے دعا کرتے رہتے ہیں۔
احادیث میں بھی فوت شدہ کے لیے نہایت خلوص سے دعا کرنے کا حکم ہے ۔ نماز جنازہ میت کے لیے مغفرت اور طلب رحمت کی دعا ہے ۔ قبرستان جا کر جو دعا پڑھی جاتی ہے جس کے الفاظ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمائے ہیں اس میں بھی مردہ کے لیے مغفرت ، عافیت اور سلامتی کی دعا ہے۔ اگر مردوں کے لیے دعا کا فائدہ نہ ہوتا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خود یہ دعائیں نہ پڑھتے اور نہ اپنی امت کو پڑھنے کی تلقین کرتے۔ علمائے اہل سنت کا اتفاق ہے کہ میت کو دعا کا ثواب پہنچتا ہے۔
* نذر کا ثواب بھی میت کو پہنچتا ہے۔ حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے اپنی ماں کی نذر پوری کی ۔ یہ حضرت سعد رضی اللہ عنہ کا اپنا عمل تھا لیکن اس ایفائے نذر کا ثواب یا فائدہ ان کی ماں کو پہنچا ۔ عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ مسئلہ دریافت کیا کہ میری ماں کا انتقال ہو گیا ہے اور ان کے اوپر نذر ہے جسے وہ پوری نہ کرسکیں تو کیا میں ان کی طرف سے پوری کردوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اقضہ عنہا(۱) تم ان کی جانب سے (یہ نذر)پوری کردو۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی دوسری روایت میں ہے کہ ایک عورت بحری سفر پر نکلی ۔اس نے نذر مانی تھی کہ اگر وہ بخیریت (منزل مقصود)تک پہنچ گئی تو وہ مہینہ بھر کا روزہ رکھے گی ۔ اللہ تعالی نے اسے بخیر وعافیت پہنچا دیا مگر روزہ نہ رکھ سکی اور انتقال کر گئی۔ اس کی بیٹی یا بہن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مسئلہ پوچھنے کے لیے آئی تو آپ نے اسے روزہ رکھنے کا حکم فرمایا۔ (۲)
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ حقوق مالیہ کو پورا کرنا میت کے وارثوں کے ذمہ

(۱)صحیح بخاری (۲۷۶۱،۶۶۹۸،۶۹۵۹)صحیح مسلم (۱۶۳۸ )
حضرت سعد رضی اللہ عنہ کی ماں کی نذر کیا تھی ؟ اس سلسلہ میں کافی اختلاف پایا جاتا ہے۔ صحیح یہ ہے کہ یہ مطلق نذر تھی۔ منۃ المنعم شرح صحیح مسلم(۳/۹۶)بعض شراح حدیث نے سنن نسائی (۳۶۸۶)کی ایک صحیح روایت سے استنباط کیا ہے کہ وہ نذر غلام آزاد کرنے کی تھی مگر اس روایت میں بھی صراحت نہیں ہے کہ نذر آزاد کرنے کی تھی ۔اس میں صرف غلام آزاد کرنے کا ذکر ہے ۔ امکان ہے کہ وہ غلام کفارۂ نذر میں آزاد کیا گیا ہو نہ کہ نذرمیں۔تفصیل کے لیے ملاحظہ فرمائیں: فتح الباری (۵/۴۵۸)
(۲)سنن ابو داود (۳۳۰۸)سنن نسائی (۳۸۴۷)یہ حدیث صحیح ہے ۔
واجب ہے اوراس کے لیے میت کی طرف سے اسے پورا کرنے کی وصیت ضروری نہیں ہے ۔ ورثاء کو از خود ہی اپنی ذمہ داری کا احساس ہونا چاہیے۔
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ انتقال ہوجانے کے بعد جب میت کے اعمال منقطع ہوجاتے ہیں تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نذر کو پوری کرنے کا حکم کیوں دیا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ خالص ایصال ثواب کے لیے ہے کیوں کہ ایفائے نذر کا ثواب یا فائدہ ان کی ماں کو پہنچا۔اس کی تائید اس روایت سے ہوتی ہے جسے سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے روایت کیا ہے کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ میری والدہ فوت ہوگئیں ہیں۔ ان کے ذمہ ایک نذر تھی ۔اگر میں ان کی طرف سے غلام(یا لونڈی ) آزاد کردوں توکیا ان سے (نذر کی) ادائیگی ہو جائے گی ؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
اعتق عن أمک(۱) تم اپنی والدہ کی طرف سے غلام آزاد کرو۔
* حج : صاحب استطاعت ہونے کے باوجود اگر کوئی شخص کسی مجبوری کی وجہ سے حج نہیں کر سکا اور فوت ہوگیا یا اس نے حج کرنے کی نذر مانی تھی لیکن اسے پوری کرنے پر قدرت نہ پا سکااور انتقال کر گیا تو ان دونوں صورتوں میں میت کی طرف سے حج کرنا جائز ہی نہیں‘ بلکہ واجب ہے ،کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اللہ کا ایسا حق قرار دیا ہے جس کا قرض کی طرح ادا کرنا ضروری ہے۔
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ فضل بن عباس رضی

(۱)مسند احمد (۶/۷)سنن نسائی (۳۶۸۶)معجم طبرانی کبیر (۵۳۶۸)یہ روایت صحیح ہے۔
اللہ عنہ ‘رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ پیچھے سوار تھے ۔ قبیلہ خثعم کی ایک خاتون آپ کے پاس فتوی پوچھنے کے لیے آئی تو فضل بن عباس اسے دیکھنے لگے اور وہ فضل کو دیکھنے لگی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فضل کا چہرہ عورت کی طرف سے ہٹا کر دوسری طرف پھیر دیا ۔اس نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول : إن فریضۃ اللہ علی عبادہ فی الحج أدرکت أبي شیخاً کبیراً لا یثبت علی الراحلۃ ، أفأحج عنہ ؟ قال : نعم . وذلک في حجۃ الوداع(۱) بیشک اللہ تعالی کے اپنے بندوں پر عائد کردہ فریضہ حج میرے والد کو اس حال میں پایا ہے کہ وہ بہت بوڑھے ہو چکے ہیں ۔اونٹ کی سواری پر نہیں بیٹھ سکتے کیا میں ان کی جانب سے حج کرلوں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ہاں ، اور یہ واقعہ حجۃ الواداع میں پیش آیا۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جس پر حج فرض ہو مگر وہ کسی مستقل بیماری یا بڑھاپے کی وجہ سے حج کرنے کی طاقت نہ پاتا ہو تو اس کی طرف سے حج بدل کرناجائز ہے لیکن عارضی بیماری میں جس کے دور ہو جانے کا امکان ہو، نیابت درست نہیں ہے۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی دوسری روایت ہے کہ قبیلہ جہینہ کی ایک خاتون اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا کہ میری والدہ نے حج کرنے کی نذر مانی تھی مگر اسے پوری نہ کر سکی اور رحلت فرما گئیں۔کیا میں اس کی طرف سے حج کرلوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

(۱)صحیح بخاری(۱۵۱۳،۱۸۵۴،۱۸۵۵،۴۳۹۹،۶۲۲۸)صحیح مسلم (۱۳۳۴)
نعم حجي عنھا ، أرأیت لو کان علی أمکِ دین أ کنت قاضیتہ؟ اقضوا اللہ ، فاللہ أحق بالوفاء (۱) ہاں ، اس کی طرف سے حج کر لو۔یہ بتاؤ کہ اگر تیری ماں پر قرض ہوتا تو کیا اسے ادا کر دیتی؟ (اسی طرح)اللہ کا قرض ادا کرو۔ اللہ تعالی اس بات کا زیادہ مستحق ہے کہ اس کا حق پورا کیا جائے۔
اس حدیث کی شرح میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
فیہ أن من مات وعلیہ حج وجب علی ولیہ أن یجھز من یحجعنہ من رأس مالہ کما أن علیہ قضاء دیونہ ، فقد أجمعوا علی أن دین الآدمي من رأس المال فکذلک ما شبہ بہ فی القضاء ، ویلتحق بالحج کل حق ثبت فی ذمتہ من کفارۃ أو نذر أو زکاۃ أو غیر ذلک(۲)
اس سے معلوم ہوا کہ جو شخص فوت ہو جائے اور اس کے ذمہ حج کرنا ہو تو اس کے وارث پر واجب ہے کہ اس کے مال میں سے اس کی طرف سے حج کرنے کا انتظام کرے جیسے اس کے ذمے قرض ہوتو اسے ادا کرنا اس کے لیے لازم ہے ۔نیزاس پر اجماع ہے کہ آدمی کا قرض اس کے اصل مال سے ادا کرنا ضروری ہے اسی طرح اور بھی قضاء کے اعتبار سے جو اس کے مشابہ حق ہیں ان کی ادائیگی ضروری ہے اور حج کے ساتھ ہر وہ حق بھی اس میں شامل ہوگا جو مرنے والے کے ذمہ ہومثلا کفارہ یا نذر یا زکاۃ وغیرہ ۔

(۱)صحیح بخاری (۱۸۵۲)
(۲)فتح الباری شرح صحیح البخاری(۴/۷۹)
جس طرح میت کی طرف سے حج کرنا درست ہے اسی طرح اس کی طرف سے عمرہ کی ادائیگی بھی درست ہے۔ چنانچہ صحابی رسول ابو رزین لقیط بن عامر عقیلی رضی اللہ عنہ نے سوال کیا کہ اے اللہ کے رسول ﷺ :
إن أبي شیخ کبیر لایستطیع الحج ولا العمرۃ ولا الظعن قال : احجج عن أبیک واعتمر (۱) میرے والد محترم بہت بوڑھے ہیں جو نہ حج کی طاقت رکھتے ہیں ‘نہ عمرہ کی اور نہ سوارہونے کی طاقت ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اپنے والد کی جانب سے حج اور عمرہ کرو۔
یہ واضح رہے کہ حج بدل کرنے والے شخص کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنا حج ادا کر چکا ہوجیسا کہ شبرمہ والی حدیث میں ہے(۲) نیز مرد اور عورت دونوں ایک دوسرے کی طرف سے حج بدل کر سکتے ہیں اگر چہ مرد اور عورت کے احکام میں کچھ فرق ہے مگر وہ فرق احرام میں ہے ‘افعال حج میں نہیں۔
* روزہ : میت کی طرف سے روزہ رکھنے کی کئی صورتیں ہیں:
۱۔ میت پر نذر کا روزہ ہو تو اس کا پورا کرنا ضروری ہے کیوں کہ نبی ﷺ نے اسے قرض سے تشبیہ دی ہے ۔جس طرح قرض کا ادا کرنا ضروری ہے اسی طرح نذر کا روزہ ادا کرنا ضروری ہے ۔چنانچہ ایک حدیث میں نبی ﷺسے میت کی طرف سے نذر

(۱)مسند احمد (۴/۱۰،۱۱،۱۲)سنن ابو داود(۱۸۱۰)سنن ترمذی (۹۳۰)سنن نسائی (۲۶۳۸)سنن ابن ماجہ (۳۹۰۶)یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
(۲)سنن ابو داود(۱۸۱۱)امام احمد ،امام ابن حبان،امام بیہقی اور دیگر ائمہ حدیث نے اسے صحیح کہا ہے اورتحقیق سے یہی صحیح ہے۔
کاروزہ رکھنے کی بابت سوال کیا گیا کہ اے اللہ کے رسولﷺ !
إن أمی ماتت وعلیھا صوم شھر . وفي روایۃ : صوم خمسۃ عشر یوماً . وفي روایۃ : صوم نذر . أفأقضیہ عنھا ؟ قال: نعم فدین اللہ أحق أن یقضی (۱)
میری ماں فوت ہوگئی ہے اور اس کے ذمہ ایک ماہ کا روزہ ہے ۔ایک روایت میں پندرہ دن کے روزے کا ذکر ہے۔ایک دوسری روایت میں ہے کہ نذر کا روزہ ہے۔ کیا میں اس کی طرف سے روزہ رکھ سکتا ہوں؟ آپ ﷺنے ارشاد فرمایا:ہاں ، یہ اللہ کاقرض ہے۔وہ زیادہ مستحق ہے کہ اسے پورا کیا جائے۔
۲۔ اگر مریض کو رمضان کے بعد صحت ہو گئی یا مرض میں اتنی تخفیف ہو گئی کہ روزہ رکھ سکے لیکن اس نے قضا نہیں کیا پھر بیمار ہو کر مر گیا یا مسافر کو سفر ختم ہو جانے کے بعد روزہ کی قضا کا موقع ملا لیکن اس نے قضا نہیں کیا اور قضا سے پہلے کسی بیماری یا حادثہ میں انتقال کر گیا تو ان دونوں کے چھوٹے ہوئے روزوں کی قضا ان کے اولیاء کے ذمہ ضروری ہے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کہ نبی ﷺ نے فرمایا: من مات وعلیہ صیام ، صام عنہ ولیہ(۲) جو شخص فوت ہو جائے اور اس پر روزہ ہو تواس کی طرف سے اس کا ولی روزہ رکھے۔
یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ ولی کے لیے میت کی طرف سے روزہ

(۱)صحیح بخاری (۱۹۵۳) صحیح مسلم (۱۱۴۸)
(۲)صحیح بخاری (۱۹۵۲)صحیح مسلم (۱۱۴۷)
رکھنا جائز ہے اور روزہ میں نیابت بھی درست ہے۔
امام ابو حنیفہ اورامام مالک ۔رحمہما اللہ ۔ فرماتے ہیں کہ میت کی طرف سے روزہ ہے ہی نہیں ‘بلکہ اس کی طرف سے ایک مسکین کو کھاناکھلاناچاہیے ۔(۱)
حضرت عبد اللہ بن عباس اور عائشہ رضی اللہ عنہما کا فتوی بھی یہی ہے۔اس سلسلہ میں ایک مرفوع حدیث بھی ہے جو صحیح نہیں ہے۔(۲)
علاوہ ازیں حضرت ابن عباس اور عائشہ ۔رضی اللہ عنہما۔ کا فتوی اگر چہ صحیح ہے‘ لیکن ان سے مروی صحیح حدیث کے خلاف ہے‘ اور قاعدہ ہے کہ جب رائے اور روایت میں اختلاف ہو تو روایت کو ترجیح حاصل ہو گی۔(۳)
امام احمد ،امام اسحاق بن راہویہ،امام ابوداود،امام ابو عبید، امام لیث بن سعد اور اہل ظاہرکا خیال ہے کہ نذر کے علاوہ کوئی اورروزہ نہیں رکھا جائے گا(۴) ان علماء نے روزوں کی قضا سے متعلق حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاوالی روایت کو نذر والی روایت کے ساتھ خاص کر دیا ہے ۔امام ابو داودرحمہ اللہ نے اس حدیث کو روایت کرنے کے بعد کہا ہے کہ یہ نذر کے بارے میں ہے۔(۵)

(۱)تبیین الحقائق (ا/ ۳۳۴)مجمع الانہر (۱/۲۴۹)
(۲)کفایۃ الاخیار(۱/۲۵)جائزۃ الاحوذی (۲/۸۶)شرح عقیدہ طحاویہ ۔ تخریج الالبانی(ص: ۴۵۲) فتاوی شیخ الحدیث مبارک پوری (۲/۱۴۰)
(۳)فتح الباری شرح صحیح بخاری(۴/۲۲۸)
(۴)مسائل امام احمدبن حنبل واسحاق بن راہویہ بروایت منصور الکوسج (۱/۲۸۸) مغنی ابن قدامہ (۴/۳۹۸)اختلاف العلماء (ص : ۶۸) (۵) سنن ابو داود (۲۴۰۰)
چنانچہ علامہ البانی رحمہ اللہ اس ضمن میں لکھتے ہیں: والأرجح أن ذلک في صوم النذر ، وأما صوم رمضان فلا(۱) زیادہ راجح بات یہ ہے کہ قضا کا یہ حکم نذر کے روزوں سے متعلق ہے‘ نہ کہ رمضان کے روزوں سے ۔
امام ابو ثور،امام طاوس ، امام زہری ،محدثین شافعیہ اور علمائے اہل حدیث کا خیال ہے اور یہی امام شافعی کا جدید قول (۲) ہے کہ میت کی طرف سے چھوٹے ہوئے روزوں کی قضاکی جائے گی۔اس کے علاوہ کوئی اور بدنی عبادت میت کی طرف سے نہیں کی جائے گی۔چنانچہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ حدیث عائشہ کی شرح میں لکھتے ہیں: لأن الأصل عدم النیابۃ فی العبادۃ البدنیۃ، ولأنھا عبادۃ لا تدخلھا النیابۃ فی الحیاۃ ، فکذلک فی الموت الا ما ورد فیہ الدلیل فیقتصر علی ما ورد فیہ ، ویبقی الباقی علی الأصل ، وھذا ھو الراجح(۳) بدنی عبادت میں اصل یہ ہے کہ اس میں نیابت نہیں ہو سکتی اور روزہ بدنی عبادت ہے اس میں زندگی میں نیابت نہیں ہو سکتی ‘اسی طرح مرنے کے بعد نہیں ہو سکتی۔ سوائے اس صورت کے جس کی بابت کوئی دلیل ہو۔ لہٰذا جس کے متعلق دلیل ہوگی نیابت اسی صورت تک محدود ہو گی ۔ باقی عبادات اپنی اصل پر باقی رہیں گی یعنی ان میں کوئی نیابت نہ ہوگی(مگرحضرت عائشہ کی اس صریح اور صحیح حدیث سے ثابت

(۱)تعلیقات ریاض الصالحین(ص: ۶۲۷)
(۲)اختلاف العلماء (ص : ۶۸)مجموع شرح مہذب (۶/۴۲۸)شرح مسلم نووی(۸/۲۵،۲۶)
(۳)فتح الباری (۴/۲۲۸)
ہوتا ہے کہ روزہ میں نیابت جائز ہے)اوریہی بات راجح ہے۔اسی کو مولانااحمد اللہ صاحب قرشی پرتاب گڑھی، مولانامحمد عبد الرحمن محدث مبارک پوری ،شیخ الحدیث عبید اللہ رحمانی اور مولانا صفی الرحمن مبارک پوری نے بھی راجح کہا ہے۔(۱)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی اسی حدیث سے امام طحاوی رحمہ اللہ نے استدلال کیا ہے کہ روزہ کا ثواب میت کو پہنچتا ہے(۲) اس کے علاوہ میت کی طرف سے کوئی اور بدنی عبادت جائز نہیں ہوگی اور نہ یہ کہنا درست ہو گا کہ چونکہ ایک عبادت کا میت کی طرف سے کرنا اور اس کا ثواب پہنچناثابت ہے تو اسی پر قیاس کرتے ہوئے دوسری عبادات کا بھی پہنچنا ثابت ہوگا،کیونکہ عبادات توقیفی ہیں ۔ان میں قیاس کا دخل نہیں۔واضح رہے کہ یہ لازم نہیں کہ ولی ہی میت کی طرف سے روزہ رکھے بلکہ کوئی دوسرا بھی رکھ سکتا ہے۔
۳۔ اگرکوئی مریض یا مسافر رمضان المبارک میں روزہ نہ رکھ سکا اوررمضان کے بعد مریض کی بیماری یا مسافر کا سفر جاری رہا یہاں تک کہ ان کو قضا کا موقع نہیں ملا اور اسی بیماری یا اسی سفر میں انتقال ہو گیا تو ان کے اولیا ء کے ذمہ ان کے چھوٹے ہوئے روزوں کی قضا نہیں ہے اور نہ ہی فدیہ ہے۔اس پرعلامہ ابو الطیب شمس الحق عظیم آبادی نے علماء کا اتفاق نقل کیا ہے۔(۳)

(۱)محدث دہلی (جلد :۱،شمارہ :۹)ماہ جنوری(۱۹۳۴ء) تحفۃ الاحوذی (۳/۳۳۵)فتاوی شیخ الحدیث مبارک پوری (۲/۱۰۸ ، ۱۴۲)اتحاف الکرام (۱/۴۴۶)
(۲)شرح عقیدہ طحاویہ (ص : ۴۵۴)
(۳)عون المعبود (۲/۲۸۹)
* قرض : قرض کی ادائیگی ایک زندہ آدمی کا عمل ہے، جسے اس نے اپنے مال سے کیا ہے ، لیکن اس کا فائدہ مردے کو پہنچتاہے۔اولاد کے لیے ضروری ہے کہ وہ سب سے پہلے میت کے ذمہ قرض کی ادائیگی کا اہتمام کرے ۔اگر اس کی اولاد استطاعت نہیں رکھتی ہے تو اسے کوئی بھی ادا کر سکتا ہے جیسا کہ احادیث صحیحہ میں صراحت ہے۔(۱)
قرض کی ادائیگی نہ ہونے کی صورت میں میت کی مغفرت کا معاملہ معلق رہتا ہے حتی کہ شہید کے ذمہ بھی پائے جانے والے قرض کی ادائیگی نہ ہونے کی وجہ سے اس کی مغفرت معلق رہتی ہے۔حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوا اور کہنے لگا : اے اللہ کے رسول ﷺ!
أرأیت ان قتلت فی سبیل اللہ تکفر عنی خطایای؟
آپ کا کیا خیا ل ہے کہ اگر میں اللہ کے راستے میں قتل کر دیا جاؤں توکیا اللہ تعالی میری تمام غلطیوں کو معاف فرمائے گا؟رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں۔ اگر تم اللہ تعالی کے راستے میں ثابت قدمی کے ساتھ لڑتے ہوئے شہید ہوجاؤ اور نیت بھی ثواب کی ہو ۔ میدان جنگ سے منہ بھی نہ موڑو۔ جب وہ شخص واپس چلا گیا تو اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آواز دی یا آپ نے کسی کو حکم دیا اور اسے آواز دی گئی ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تونے کیسے کہاتھا؟ اس نے اپنی پوری بات دہرائی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

(۱)صحیح بخاری (۶۶۹۹،۲۲۸۹)سنن ابو داود (۳۳۴۱)سنن نسائی (۱۹۶۳)
إلا الدین ، فان جبریل علیہ السلام قال لی ذلک(۱)
(ٹھیک ہے) مگر قرض معاف نہیں ہوگا۔ بے شک جبریل علیہ السلام نے مجھے ایسے ہی بتایا ہے۔
* قربانی : میت کی جانب سے قربانی کی مشروعیت کے بارے میں اختلاف ہے۔بعض علماء اس کے جواز کے قائل ہیں تو بعض اسے درست نہیں کہتے ‘تاہم کسی بھی صحیح احادیث میں میت کی جانب سے قربانی کا ذکر نہیں ۔جن علماء نے اجازت دی ہے انہوں نے اسے صدقہ پر محمول کیا ہے ،اس لیے انہوں نے صراحت فرما دی کہ اگر میت کی جانب سے کوئی قربانی کرے تو اسے پورا گوشت غرباء ومساکین میں صدقہ کردینا چاہیے۔اس میں سے کچھ نہ کھایا جائے اور نہ رکھا جائے۔
میت کی طرف سے قربانی جائز قرار دینے والوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی اس روایت سے استدلال کیا ہے جس میں ہے کہ نبی ﷺ نے انہیں وصیت فرمائی ہے کہ آپ کی جانب سے وہ ہرسال قربانی کرتے رہیں(۲) لیکن یہ روایت سنداً ضعیف ہے(۳) اگر اسے صحیح بھی مان لیا جائے تو اس سے مطلقاً میت کی جانب سے قربانی کے جواز کا ثبوت نہیں ملتا۔ زیادہ سے زیادہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ اگر خیراور بھلائی کی وصیت کرکے فوت ہو جائے تو ورثاء کو اس کی وصیت نافذ کرنی چاہیے۔

(۱)صحیح مسلم (۱۸۸۵)
(۲)سنن الترمذی (۱۴۹۵)امام ترمذی نے اسے غریب کہا ہے۔
(۳)ضعیف سنن الترمذی(۲۵۵)مرعاۃ المفاتیح( ۵/۹۴)
مولانا محمد عبد الرحمن محدث مبارک پوری رحمہ اللہ رقم طراز ہیں:
لم أجد فی التضحیۃ عن المیت منفرداً حدیثاً مرفوعاً صحیحاً ، وأماً حدیث علی فضعیف ، فاذا ضحی الرجل عن المیت منفرداً فالاحتیاط أن یتصدق بھا کلھا(۱)
تنہا میت کی جانب سے قربانی کے بارے میں مجھے کوئی ایک حدیث صحیح مرفوع نہیں ملی۔حضرت علی رضی اللہ عنہ کی حدیث تو یہ ضعیف ہے‘ اس لیے جو شخص صرف میت کی جانب سے قربانی کرے تو احتیاط اسی میں ہے کہ پورا گوشت صدقہ کردے ۔
بعض لوگ اپنی طرف سے قربانی نہ کرکے میت کی طرف سے قربانی کرتے ہیں ۔ یہ خلاف اصل ہے ۔ اصل یہ ہے کہ قربانی زندہ شخص پر ہے۔اگروسعت رکھتا ہے تواپنی طرف سے قربانی کرے ۔اگر مزید گنجائش ہے تو اپنے ساتھ مردوں کی طرف سے تبعاً قربانی کردے۔ یہ محض رخصت اوراجازت ہے‘ واجب نہیں ہے۔ مردوں کی طرف سے قربانی کرنے والی احادیث میں ان کے خود اپنی طرف سے قربانی کرنے کی تصریح ہے۔(۲)
میت کی جانب سے قربانی کا مقصد ظاہر ہے کہ اسے ثواب پہنچانے کی نیت سے کیا جا تا ہے‘ اس لیے اگر یہ مقصد عام مالی صدقہ کے ذریعہ حاصل کیا جائے تو بہتر ہے اور اس کے بارے میں علماء کرام میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔

(۱)تحفۃ الاحوذی (۵/۶۶)
(۲)فتاوی شیخ الحدیث مبارک پوری (۲/۳۹۲)
حضرت علی رضی اللہ عنہ جو قربانی کرتے تھے وہ ان کا اپنا عمل تھا ۔اسے وہ اپنے مال سے کرتے تھے (کیوں کہ انبیاء کا مال وراثت میں تقسیم نہیں کیا جاتا بلکہ صدقہ ہوجاتا ہے) لیکن اس عمل قربانی کاثواب نبی کریمﷺ کو پہنچتا تھا ۔ یہ قربانی آپ ﷺ کی طرف سے نیابتاً نہ تھی ۔ نیابتاً تو اس وقت ہوتی جب مال رسول اللہﷺ کا ہوتا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام سے اسے قربان کر دیتے ، جیسے جانور کسی آدمی کا ہو‘ اور کوئی حافظ یا مولوی اسے اس آدمی کے نام سے ذبح کر دے ۔ قربانی کے اس معاملے کومخصوص قرار دینا بھی غلط ہے ، کیوں کہ یہ خلاف اصل ہے ۔ اصل یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جو کچھ کہتے یا کرتے تھے وہ پوری امت کے لیے مشروع تھا ۔ آپ کی رسالت کا مقصد ہی یہ تھا کہ آپ تمام لوگوں کو اللہ کے احکام ومرضیات سے آگاہ کردیں ،اس لیے جب تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی عمل کے مخصوص ہونے کی دلیل نہ پیش کی جائے ، تخصیص کا دعوی قابل قبول نہیں ہو سکتا ۔
* ایصال ثواب سے متعلق جو احادیث نقل کی گئی ہیں ان سے اس عمل کا صاف اور سادہ طریقہ یہ نکلتا ہے کہ صدقہ وخیرات کرتے ہوئے یہ نیت کر لی جائے کہ فلاں کی طرف سے ہے ، بس اتنا کافی ہے ۔ اس کے لیے یہ ناپ تول لغو ہے کہ پہلے خود ایک نیک کام کرو ، پھر یہ سمجھ کر کہ اب اس کے ثواب کا میں حق دار ہو چکا ، اس ثواب کو مردے کے لیے بخشو۔ حدیث میں ثواب حاصل کرکے اسے بخشنے کے بجائے براہ راست مردے کی طرف سے صدقہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ پھراس صدقہ وخیرات کے لیے کوئی وقت اور کوئی کیفیت مشروع نہیں کی گئی ہے۔ پس جس وقت جیسے اتفاق پڑ جائے کرے ۔ اب اگر اس کے لیے کسی وقتِ مخصوص کو مشروع کیا جائے مثلاً تیسرے یا چالیسویں دن صدقہ ہونا چاہیے یا کوئی کیفیت مشروع کی جائے مثلاً اجتماعی طور پر بیٹھ کر قرآن خوانی کرکے شیرینی تقسیم کیا جائے اور اسی ’’جشن مرگ‘‘ کے دوران کوئی بزرگ سارے حاضرین سے ان کے اعمال صالحہ کا کچھ حصہ وصول کرکرکے سب کا ثواب اکٹھا کریں اور مردے کو بخش دیں تو یہ سخت خرافات اور واہیات قسم کی بدعت ہے، کیوں کہ یہ شریعت الہٰیہ میں بندے کی طرف سے اضافہ ہے۔
حضرت مولانا محمد عبد الرحمن محدث مبارک پوری رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
’’ثواب رسانی کے واسطے شریعت سے نہ کوئی خاص دن مقرر ہے اور نہ کوئی خاص وقت ۔جب اور جس وقت چاہے مردوں کے واسطے صدقہ کرے اور ان کے لیے دعا واستغفار کرے ۔ثواب رسانی کے واسطے تیسرے دن یا دسویں دن یا بیسویں دن یا چالیسویں دن کیا کسی اور دن کو مخصوص کرنایا ہفتہ میں پنجشنبہ کو خاص کرنا نا جائز کام ہے‘‘(۱)
یہاں دو بات ملحوظ رہے :
پہلی بات یہ ہے کہ میت کو ایصال ثواب کا فائدہ اسی وقت پہنچے گا جب وہ مومن ہو ۔اگر مومن نہیں ہے تو اسے کچھ بھی فائدہ نہ ہوگا۔حضرت عبد اللہ بن عمروبن عاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ ان کے دادا عاص بن وائل سہمی کے بارے میں فرماتے ہیں:

(۱)کتاب الجنائز (ص : ۱۰۱۔۱۰۲)
أنہ لو کان مسلماً فأعتقتم أو تصدقتم أو حججتم عنہ بلغہ ذلک(۱) اگر وہ(باپ) مسلمان ہوتا اور تم لوگ ان کی جانب سے غلاموں کو آزاد کرتے یا ان کی طرف سے صدقہ کرتے یا ان کی طرف سے حج کرتے تو انہیں ان کا ثواب پہنچتا۔
دوسری بات یہ ہے کہ زندہ کے لیے ثواب رسانی درست نہیں ہے تاہم اس مسئلہ میں اختلاف ہے ۔علامہ مجد الدین ابو البرکات ابن تیمیہ لکھتے ہیں : ومن تطوع بقربۃ وأھدی ثوابھا لمیتٍ مسلمٍ نفعہ ذلک(۲) جس نے تقرب کے لیے کوئی نفل کام کیا اور اس کا ثواب مسلم میت کو دیا تو اسے فائدہ پہنچے گا۔
ظاھرہ أنہ لو أھدی ثواب فرض أو أھدی الی حي لا ینفعہ ذلک (۳) اس مذکورہ عبارت کا ظاہری مطلب یہ ہے کہ اگر کسی فرض کاثواب ہدیہ کیا یا کسی زندہ کے لیے ثواب رسانی کی تو یہ نفع بخش نہ ہوگا۔
کیونکہ زندوں کے لیے ایصال ثواب کو جائز قرار دینا درحقیقت ایک بڑے فساد کو دعوت دینا ہے بقول ابن قیم الجوزیہ اہل ثروت کے لیے ایسے چور دروازوں کو وا کرنا ہے جس کی اللہ نے اجازت نہیں دی ہے ۔اگر اہل ثروت کو معلوم ہوجائے کہ زندوں کے لیے ایصال ثواب جائز ہے تو بہت سے ایسے قاریوں کو با تنخواہ اجرت پر رکھ لیں گے جو ان کے لیے ثواب رسانی کا کام کرتا رہے گا ۔اس

(۱)سنن ابو داود(۲۸۸۳)یہ حدیث حسن ہے۔
(۲)محرر فی الفقہ (۱/۲۰۹)
(۳)النکت والفوائد السنیہ (۱/۲۰۹)
صورت میں عبادتیں عبادت نہیں رہ جائیں گی بلکہ لوگ قراء پر تکیہ کرنے لگیں گے اور اللہ سبحانہ وتعالی کا تقرب حاصل کرنے کے بجائے بنی آدم کا تقرب حاصل کرنے کی فکر اور دوڑ شروع ہو جائے گی ۔ نتیجہ یہ ہوگا کہ عبادات وطاعات اور نوافل دھری کی دھری رہ جائیں گی۔(۱)

(۱)کتاب الروح (ص: ۱۷۶)

مجلس تعزیت اور قرآن خوانی

قرآن پڑھنا اللہ تعالی کے نزدیک سب سے محبوب اور پیارا عمل ہے۔ متعدد آیات اور احادیث شریفہ میں بکثرت قرآن پڑھنے کی ترغیب آئی ہے۔ قرآن مجید کے نزول کا اصل مقصد بھی یہی ہے کہ اس کی بکثرت تلاوت کی جائے۔اس سے تزکیہ نفس حاصل کیا جائے اور اس کی تعلیمات مبارکہ سے قلوب واذہان کو مجلی ومصفی کیا جائے اور زندگی کے لیے دستور حیات اور لائحہ عمل بنایا جائے۔
مگر قرآن خوانی کا مفہوم ومطلب جو ہمارے معاشرہ میں رائج ہے ‘اس سے بالکل علاحدہ ہے ۔ اسے تو مُردوں کے لیے پڑھا جاتا ہے اور قبروں پر پڑھنے کو خیر کا باعث سمجھا جاتا ہے اور اسے آمدنی کا ذریعہ بنایا جاتا ہے ۔تعویذوں میں استعمال کرکے گلے کی زینت بنایا جاتا ہے‘ جب کہ قرآن مجید کا نزول زندوں کے لیے ہوا تھا‘تاکہ اس سے روشنی حاصل کریں اور اس کے سانچے میں اپنی زندگی ڈھالیں۔اس کی تلاوت کے ذریعہ اللہ تعالی کا تقرب حاصل کریں۔ اس کے اوامر اور نواہی کو جانیں۔ نیکیوں کو بجا لائیں اور برائیوں سے اجتناب کریں‘ لیکن اب تو ہمیں قرآن کی ضرورت اس وقت پڑتی ہے جب اپنے مردوں کے لیے بخشواناہو۔ قرآن خوانی کرانی ہواور کرایے پر پڑھواکر نجات کرانی ہو۔کیا یہ قرآن کا احترام ہے یا اس کا استہزاء اور مذاق؟ قرآن مجید کے نزول کا جواصل مقصد تھا‘ وہ ہماری نگاہوں سے اوجھل ہو گیا اوربدعات ومحدثات کو اصل قرار دے دیا گیا۔ مروّجہ قرآن خوانی کا تعلق بھی اسی طرح ہے۔میت کے لیے قرآن خوانی کے سلسلہ میں دورحاضر میں ہی نہیں‘ قدیم زمانہ سے اختلاف رہا ہے اور تلاوت قرآن کو عام صدقہ کی جنس میں شامل کرکے ایصال ثواب کے لیے جائز قرار دیا گیا۔ ہمارے نزدیک یہ موقف صحیح نہیں ہے،بلکہ بلا دلیل اسے جائز کہہ کرقرآن کریم سے بے اعتنائی کا سبق دیا جا رہا ہے کہ جب قرآن خوانی ہی کے ذریعہ سے نجات ہوجائے گی تو پھراس کے احکام کے مطابق زندگی گزارنے اور اس میں بیان کردہ حلال وحرام کی پابندی کی کیا ضرورت ہے؟حقیقت یہ ہے کہ قرآن خوانی کا رواج عام طور سے انہی لوگوں میں زیادہ ہے جو زندگی میں قرآن کے احکام وقوانین کو چنداں اہمیت نہیں دیتے اور ساری زندگی اس کی خلاف ورزی کرتے ہوئے گزار دیتے ہیں۔ اس طرح لوگوں کو یہ باور کرایا جاتا ہے کہ قرآن کریم حیات بخش کتاب نہیں ‘بلکہ مردہ بخش کتاب ہے ۔ یہ زندوں کی رہنمائی کے لیے نہیں‘ بلکہ صرف مردے بخشوانے کے لیے نازل ہوئی ہے ۔یوں قرآن خوانی کی رسم سے قرآن کریم کے نزول کا مقصد لوگوں کے ذہنوں سے نکالا جارہا ہے۔(۱)
کچھ اہل علم جن میں علمائے اہل حدیث ، امام مالک اور امام شافعی وغیرہ ہیں ، یہ کہا ہے کہ یہ امر توفیقی ہے یعنی تلاوت قرآن بھی ایک عبادت ہے جس کے لیے دلیل کی ضرورت ہے۔ مسلمانوں کے لیے قطعاًدرست نہیں ہے کہ شریعت جن عبادتوں کی ترغیب نہ دیتی ہو‘ اسے انجام دیں۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

(۱)ترجمہ سنن نسائی (۵/۴۹۹)
ً من عمل عملاً لیس علیہ أمرنا فھو رد(۱) جس نے ایسا عمل کیا جس پر ہمارا معاملہ نہ ہو تو وہ عمل مردود اور ناقابل قبول ہے۔
مُردوں کے لیے قرآن خوانی کے بارے میں کوئی معتبر دلیل نہیں ملتی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول وفعل سے اس کا ثبوت نہ صراحۃً ملتا ہے نہ اشارۃً۔ لہٰذایہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ اس فعل کی انجام دہی مُردوں کے لیے جائز نہیں ہے‘ جب کہ ان کی جانب سے صدقہ کی ادائیگی ، ان کے لیے دعا واستغفار کرنا، حج کرنا اور قرض ادا کرنا احادیث صحیحہ سے ثابت ہیں اور میت کو نفع پہنچاتی ہیں۔
اعمال قربات کی صحت چونکہ نصوص پر موقوف ہیں ‘اس لیے ان میں قیاس وآراء کا دخل نہیں ہو سکتا ،کیونکہ کسی چیز کا ثواب اور کار خیر ہونا قرآن یا حدیث سے ثابت ہو سکتاہے ، نہ کہ قیاس سے ۔شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
باب العبادات والدیانات متلقی عن اللہ ورسولہ، فلیس لأحد أن یجعل شیئاً عبادۃً أو قربۃً الا بدلیلٍ شرعي، فالبدع المذمومۃ شرعاً ھی ما لم یشرعہ اللہ(۲) عبادات ودیانات کے امور اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ماخوذ ہیں،اس لیے کسی کے لیے جائز نہیں ہے کہ بغیر دلیل شرعی کسی چیز کو عبادت اور تقرب کا ذریعہ بنا لے۔بدعت تو وہی ہے جسے اللہ نے مشروع قرار نہیں دیاہے۔

(۱)صحیح مسلم (۱۷۱۸)
(۲)مختصرفتاوی مصریہ(ص: ۴۰۰)نیز دیکھیں: الاستغاثہ (۱/۱۶۵)
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ تعالی لکھتے ہیں: باب القربات یقتصر فیہ علی النصوص، ولا یتصرف فیہ بأنواع الأقیسۃ والآراء(۲) اعمال قربات میں نصوص پر اکتفا کیا جاتا ہے۔اس میں رائے اور قیاس کا کوئی دخل نہیں ہے۔
نیز قرآن خوانی بدنی عبادت ہے جیسے نماز ، روزہ بدنی عبادات ہیں ، اس لیے اس میں نیابت جائز نہیں ۔ جب زندگی میں ان میں نیابت کی گنجائش نہیں تو مرنے کے بعد اس کا جواز بلا دلیل کیوں کر تسلیم کیا جا سکتا ہے؟
شارح صحیح بخاری حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
لأن الأصل عدم النیابۃ فی العبادۃ البدنیۃ، ولأنھا عبادۃلا تدخلھا النیابۃ فی الحیاۃ، فکذلک فی الموت الا ما ورد فیہ الدلیل فیقتصر علی ما ورد فیہ، ویبقی الباقی علی الأصل ، وھذا ھو الراجح (۲) بدنی عبادات میں اصل یہ ہے کہ اس میں نیابت جائز نہیں ہے۔ روزہ ایک عبادت ہے اس میں زندگی میں نیابت کی گنجائش نہیں ہے ۔ اسی طرح موت میں (یعنی مرنے کے بعد )بھی نہیں ہو سکتی، سوائے اس صورت کے جس کی بابت کوئی دلیل ہو ۔ پس جس کی بابت کوئی دلیل وارد ہوگی نیابت اسی صورت تک محدود ہوگی اور باقی عبادات اپنے اصل پر باقی رہیں گی یعنی ان میں نیابت جائز نہ ہوگی ۔ یہی راجح ہے۔

(۱)تفسیر ابن کثیر (۴/۳۷۶)
(۲)فتح الباری شرح صحیح بخاری(۴/۲۲۸ ۔ ۲۲۹)
نیز یہ قیاس نص شرعی کے خلاف ہے ۔ اللہ سبحانہ و تعالی نے فرمایا: ( وَأن لَیْسَ لِلاِنْسَانِ اِلاَّ مَا سَعَیٰ) [ النجم: ۳۶]یعنی انسان کے لیے صرف اپنی ہی کوشش ہے ۔ انسان کو دوسرے انسان کی کدوکاوش کا کوئی حصہ نہ ملے گا ، اس لیے قاعدہ عامہ کی رو سے مردوں کو کسی عمل کا ثواب نہیں پہنچتا سوائے اس کے جو شریعت یعنی قرآن وحدیث میں ثابت ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ مردہ زندوں کے اسی عمل سے فائدہ اٹھا سکتا ہے جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمائے ہیں اور جو بیان نہیں فرمائے ہیں وہ اپنے عموم پرمحمول ہوں گے اور انسان دوسرے کے عمل سے مستفید نہیں ہو سکتا۔ امام ابن کثیر رحمہ اللہ آیت مذکورہ کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
استنبط الشافعي ۔ رحمہ اللہ ۔ ومن اتبعہ أن القراء ۃ لا یصل اھداء ثوابھا الی الموتی؛ لأنہ لیس من عملھم ولا کسبھم ولھذا لم یندب الیہ رسول اللہ ﷺ أمتہ ولا حثھم علیہ ولا أرشد الیہ بنص ولا ایماء ، ولم ینقل ذلک عن أحد من الصحابۃ رضی اللہ عنھم ، ولو کان خیراً لسبقونا الیہ(۱) آیت کریمہ ( وَأن لَیْسَ لِلاِنْسَانِ اِلاَّ مَا سَعَیٰ) سے امام شافعی اور ان کے متبعین نے یہ استنباط کیا ہے کہ قرآن خوانی کاثواب میت کو نہیں پہنچتا ہے، کیونکہ یہ ان کاعمل اور کسب نہیں ہے ۔اسی لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو نہ اس کی ہدایت دی اور نہ ہی اس پرکسی نص اور اشارۃ النص سے ابھارا۔یہ کسی صحابہ سے منقول

(۱)تفسیر ابن کثیر (۴/۳۷۶)
بھی نہیں ہے۔ اگر اس میں خیر اور بہتری ہوتی تو صحابہ کرام اس کی طرف ضرور سبقت کرتے ۔ اگر انہوں نے ایسا نہیں کیا (اور یقیناً نہیں کیا)تویہ کسی بھی لحاظ سے مستحسن اور جائز عمل قرار نہیں دیا جا سکتا۔
منکرین حدیث اور فرق ضالہ جو ایصال ثواب کے مطلقاً قائل نہیں ، کہتے ہیں کہ اس نص قرآنی سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان کو روز قیامت اسی عمل کی جزا ملے گی جو اس نے خود کیا ہوگا۔ اچھے عمل کی اچھی جزا اور برے عمل کی بری جزا ۔ یہ نہیں ہوگا کہ برائیوں کے مرتکب شخص کو جزا اس کے مرنے کے بعد ایصال ثواب کی نیت سے کیے گیے کاموں اور عملوں سے تبدیل ہوجائے ۔ قرآن کریم کی یہ آیت اور اس کا مفہوم بالکل صحیح ہے لیکن قرآن کریم کی یہ آیت عام ہے ‘ جب کہ اللہ رب العالمین کا یہ فرمان ( رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِاخْوَانِنَا الَّذِیْنَ سَبَقُوْنَا بِالْاِیْمَان) [ الحشر:۱۰]اس سے زیادہ خاص ہے ، اس لیے ا س خاص کو اس عام پر مقدم کیا جائے گا (۱) قرآن کے بہت سے عموم کی تخصیص یا اس کے اجمال کی تفصیل احادیث سے کی گئی ہے، اس لیے دین وہ ہے جو دونوں کے مجموعہ سے ثابت ہے۔ احادیث شریفہ کو نظر انداز کرکے محض قرآن کے عموم یا اجمال سے کسی مسئلہ کا اثبات گمراہی ہے۔
البتہ آیت مذکورہ سے ان علماء کا استدلال صحیح ہے جو کہتے ہیں کہ قرآن خوانی کا ثواب میت کو نہیں پہنچتا‘ اس لیے کہ یہ نہ مردہ کا عمل ہے، نہ اس کی محنت ،اورنہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی امت کو مردوں کے لیے قرآن خوانی کی ترغیب دی نہ کسی نص یا اشارۃ

(۱)الرسالہ از امام شافعی (ص: ۲۳۔۲۴)نیل المرام (ص: ۳۱۸۔ ۳۱۹)
النص سے اس کی طرف رہنمائی فرمائی ۔ اسی طرح صحابہ کرام سے بھی یہ عمل منقول نہیں ہے۔ اگر یہ عمل ، عمل خیر ہوتا تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اسے ضرور اختیار کرتے(۱) ان لوگوں کا اسے ترک کردینا اس کے دین نہ ہونے کی دلیل ہے۔
حاشیہ دسوقی میں سلف کا مذہب بیان کرتے ہوئے یہ عبارت تحریر ہے :
فقد کان عملھم التصدق والدعاء ، لا القراء ۃ(۲) سلف (صالحین)کا عمل صدقہ اور دعا کرنا ہے ایصال ثواب کے لیے قرآن خوانی نہیں ہے۔
یہی بات ابن القیم نے کتاب الروح میں اور احمد بن حجر آل بوطامی نے بیان کی ہے(۳)
حضرت مولانا صفی الرحمن صاحب مبارک پوری رحمہ اللہ لکھتے ہیں:’’ قر آن خوانی اور فاتحہ خوانی کے ذریعہ ایصال ثواب کے ثبوت میں میری نظر سے کوئی قابل اعتبار حدیث نہیں گزری ، اس لیے ان کی مشروعیت تسلیم کرنے میں تأمل ہے ‘‘(۴)
اجرت پر قرآن خوانی کے بارے امام بدر الدین عینی رحمہ اللہ تاج الشریعہ کے حوالہ سے لکھتے ہیں: ان القرآن بالأجرۃ لا یستحق الثواب ، لا للمیت ولا للقارئ(۵)

(۱)تفسیراحسن البیان (ص: ۱۴۹۸)
(۲)حاشیۃ الدسوقی (۱/۴۲۳)
(۳)کتاب الروح (۱۰۸۔۱۰۹)دس دینی اہم مسائل (ص: ۲۲۷)
(۴)ماہنامہ ’’محدث‘‘بنارس، اکتوبر (۱۹۸۳ء)
(۵)البنایہ فی شرح الہدایہ (۷/۹۳۹)
اجرت دے کر قرآن خوانی کا ثواب نہ میت کو ملتا ہے اور نہ پڑھنے والے کو ملتا ہے۔حاشیہ ابن عابدین میں ہے:
فالحاصل أن ما شاع في زماننا من قراء ۃ الأجزاء بالأجرۃ لا یجوز ؛ لأن فیہ الأمر بالقراء ۃ واعطاء الثواب للآمر والقراء ۃ لأجل المال . فإذا لم یکن للقارئ ثواب لعدم النیۃ الصحیحۃ فأین یصل الثواب الی المستأجر . ولولا الأجرۃ ما قرأ أحد لأحد في ھذا الزمان ، بل جعلوا القرآن العظیم مکسباً ووسیلۃ الی جمع الدنیا ، إنا للہ وإنا إلیہ راجعون(۱) .
خلاصہ کلام یہ ہے کہ ہمارے زمانہ میں اجرت دے کر قرآن پڑھنے کاجو رواج ہے ، جائز نہیں ہے‘ کیونکہ اس میں پڑھنے کا حکم اور حکم دینے والے کو ثواب دینا اور پیسے کی خاطر قرآن پڑھنا ہے ۔ صحیح نیت نہ ہونے کی وجہ سے جب قرآن پڑھنے والے کو کوئی ثواب نہیں ملے گا تو قرآن پڑھانے والے کوکیا ملے گا؟اگر اجرت کا یہ کاروبار نہ ہوتا تو اس زمانہ میں کوئی کسی کے لیے قرآن نہ پڑھتا بلکہ لوگوں نے قرآن عظیم کو دنیا اکٹھا کرنے اور دنیا کمانے کا ایک ذریعہ بنا لیا ہے۔
شیخ الحدیث علامہ عبید اللہ رحمانی مبارک پوری رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ایصال ثواب کے لیے اجتماع کرکے قرآن پڑھنے کو علمائے شافعیہ وحنفیہ نے بھی مکروہ اوربدعت کہا ہے(۲)

Advertisements
julia rana solicitors

(۱)حاشیہ ابن عابدین (۶/۵۶)
(۲)فتاوی شیخ الحدیث مبارک پوری (۱/۴۵۸)
ایک دوسری جگہ لکھتے ہیں:
ایصال ثواب کا مروجہ طریقہ یعنی ثواب پہنچانے کی غرض سے قبر کے پاس یا گھر میں یا مسجد میں لوگوں کا جمع ہونا اور حلقے باندھ کر قرآن پڑھنا یا کچھ پیسے دے کر یا بغیر دیئے ہوئے مجاور یا غیر مجاور سے قبر پرپڑھوانا بے اصل اور بدعت ہے(۱)

Facebook Comments

ڈاکٹر محمد اسلم مبارکپوری
ڈاکٹر محمد اسلم مبارک پوری نام: محمد اسلم بن محمد انور بن (مولانا) عبد الصمد مبارک پوری قلمی نام: ڈاکٹر محمد اسلم مبارک پوری پیدائش: جنوری 1973ء مقام: موضع اودے بھان پور , حسین آباد, مبارک پور, یوپی تعلیم: فضیلت: مدرسہ عربیہ دار التعلیم ، صوفی پورہ، مبارک پور بی اے: جامعہ اسلامیہ ، مدینہ منورہ ایم اے، پی ایچ ڈی: لکھنو یونیورسٹی تخصص: عربی ادب و فقہ اسلامی مشغلہ: استاد جامعہ سلفیہ بنارس مدیر ماہنامہ محدث بنارس تصنیف و تالیف و ترجمہ صحافت و مضمون نویسی دعوت و تبلیغ معروف قلمی خدمات(مقالات و کتب): 15 سے زائد تراجم و تصانیف و تحقیقات سیکڑوں مضامین و مقالات محدث کی ادارت رہائش: دار الضیافہ، جامعہ سلفیہ بنارس ، ہندوستان رابطہ: +918009165813 +919453586292

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply