کیا حقیقت بھی نظر کا فریب ہے؟۔۔۔نذر محمد چوہان

آئیڈیالزم  اگر دماغ کا فریب ہے تو پھر حقیقت بھی ایک بہت بڑا دھوکہ ہے ۔ یہ ماجرا سارا ہے ہی روحانی ، تخلیق کا جادو سر چڑھ کر بولتا ہے ہر سانپ کی کھال ہر نئی  زندگی میں بدلتی ہے ۔ ہر آنسو ، ہر قہقہہ ہوا اور پانی میں منتقل ہو کر منجمد ہو جاتا ہے پھر دوبارہ پھولوں اور کانٹوں کی سیج سجانے ۔ جرمن فلاسفر نتزشے نے کہا تھا کہ  اپنے مقدر سے محبت ہی کامیابی ہے ۔
امریکی لکھاری رُوفی تھارپ نے ان ہی حقیقتوں پر مبنی ایک ناول “دی گرلز فرام کرونا ڈیل مار “ لکھا ۔ دو سہیلیوں میا اور لاری این پر لکھا ۔ ڈیلمار جنوبی کیلیفورنیا کا ایک ٹاؤن ہوتا ہے جہاں دونوں کی کہانیاں جنم لیتی ہیں ۔ لاری این کا بچپن سے ہی “بدقسمتی کے گدھ “ پیچھا کرتے ہیں ۔ روز صبح خون اور گارا چونچ میں لیے اس کی کھڑکی میں بیٹھ جاتے اور اس کا جینا حرام کر دیتے ۔ لاری بھی ان کو اسی طرح لیتی جس طرح روز کھانا کھانا یا کپڑے پہننے ۔ میا اس سے بالکل مختلف ایک دنیا داری اور دلیل والی زندگی پر یقین رکھتی ۔ میا کو جب حمل ہوا تو اس نے  ضائع کروایا جبکہ لاری نے نہ صرف اسے بچایا بلکہ برکلے یونیورسٹی میں اپنا اسکالرشپ چھوڑا ۔ میا ییل یونیورسٹی کا اسکالر شپ لیتی ہے اور دنیا کی متعین کامیابی والی زندگی کی طرف خوشی خوشی گامزن ۔ دونوں کی زندگیاں ، دونوں کے راستے یکسر مختلف ، لیکن دوستی بہت زیادہ ۔ ہر وقت بحث ، ایک کہتی سب کچھ مقدر کے تابع ہے دوسری کہتی کہ  بالکل نہیں مقدر ہمارے   تابع ہے ۔ لاری کا بچہ لاغر اور کمزور پیدا ہوتا ہے ۔شادی جس مرد سے ہوتی ہے خرچہ اور بچہ کی ہیلتھ انشورنس کی خاطر وہ فوج جوائن کرتا ہے اور عراق کی جنگ میں مارا جاتا ہے ۔ میا اسے کہتی ہے کہ  اسٹار بکس میں ملازمت بھی ہیلتھ انشورنس دے سکتی تھی تو فوج کیوں ۔ جس پر لاری فوج کی تعریف کرتی اور جوابا ً میا کہتی کہ  اسٹاربکس کم از کم بندے مارنے کا تو نہیں کہتی ۔ پورے ناول میں دونوں سہیلیوں کے درمیان بہت دلچسپ مکالمات کا تبادلہ خیال ہوتا ہے ۔ جہاں میا ، لاری کو اپنے لاغر بچہ نہ سنبھالنے کا طعنہ دیتی ہے تو لاری کہتی کہ  وہ لوگ جو کونگو میں مر رہے ہیں کیا وہ انسان نہیں ؟ ان کی خاطر باقی دنیا اپنی خوشیاں کیوں نہیں قربان کرتی ؟ کیا خونی رشتہ ہی انسانی رشتہ ہے ؟ کیا ہم سب ایک برادر ہُڈ میں جُڑے نہیں ہوئے ؟

دونوں سہیلیاں اس کہانی میں کوئی  ایسا موضوع نہیں جو ڈسکس نہیں کرتیں ۔۔۔۔۔
رُوفی تھارپ دراصل اس کہانی میں سُمر تہذیب کا ایک قصہ بیان کرتی ہے جہاں کی ایک دیوی انانا ساری کامیابیوں کے بعد اپنی بہن جو انڈر ورلڈ کی دیوی ہوتی ہے اس کو شکست دینے نکلتی ہے ۔ وہاں اسے مار دیا جاتا ہے اور اس کی باڈی بھی سُمر سے ایک اور شخص دینے پر ملتی ہے ۔ انڈر ورلڈ دنیا کا اس دنیا سے سمجھوتہ ہو جاتا ہے ۔ روفی کے نزدیک یہ بدی کو پاک کرنے کا انانا کا فیصلہ ہی دراصل نیکی اور بدی کی دو مختلف دنیا کی عکاسی کرتا ہے ۔ ناول میں لاری کے ہندوستان میں سفر پر بھی بہت دلچسپ تبصرہ ہے اور ممبئی  کے حاجی علی کی کہانی جن کی درگاہ سمندر میں ہے ۔ جہاں لہریں جب کم ہوتی ہیں  تو پیدل جایا جاتا ہے وگرنہ کشتی پر ۔ حاجی علی بزرگ کا قصہ جو بہت مشہور ہے ایک عورت جس کا تیل گر جاتا ہے وہ اسے اسی جگہ لیجا کر زمین میں انگوٹھا دبانے سے تیل نکال دیتے ہیں ۔ بزرگ حاجی علی بہت غمگین ہوتے ہیں کہ  انہوں نے دھرتی سے بہت زیادتی کی ۔ قدرت کے کاموں میں مداخلت جان لیوا ثابت ہوئی  ۔  کچھ ہی دنوں بعد حاجی علی بیمار ہوتے ہیں اور آخر اسی غم میں مر جاتے ہیں کہ  شاید انہوں نے بیلینس ڈسٹرب کیا ۔

ایک آرمانی شخص جو بھی جنگ میں اپنی ٹانگیں ضائع کر بیٹھتا ہے لاری کے ساتھ ہندوستان ہوتا ہے ۔ وہ امریکہ میں نشہ کا کاروبار کرتا ہے ۔ وہ دونوں ایک ڈسکو جاتے ہیں جہاں ارمان کہتا ہے “انسان کتنے اچھے لگتے ہیں جب وہ رقص کرتے ہیں” لاری کہتی ہے نہیں وہ تو ہر وقت ہی بہت خوبصورت ہیں ۔ لیکن ارمان کہتا نہیں اس وقت نہیں جب وہ ایک دوسرے کو قتل کر رہے ہوتے ہیں ۔
میا کا “اسپیس کیک “ نامی کتا جب کار کے نیچے آ کر مر جاتا ہے تو وہ بہت غمگین ہوتی ہے ۔ میا کہتی ہے کہ  انسان تو اپنے پیار محبت اور تعلقات میں مطلب لے آتے ہیں لیکن جانور صرف بغیر مطلب کے محبت کرتے ہیں ۔ کتا جب پہلی دو کاروں کے نیچے آیا تو بچ سکتا تھا لیکن وہ مایا کے تعاقب میں تین اور کاروں تلے آ گیا ۔ جہاں پیار محبت میں مطلب کی بات ہوتی ہے اور دو جوڑے آپس میں خوش تو ہوتے ہیں لیکن غربت ستاتی ہے تو آسکر وائیلڈ کے ایک اقتباس کو بیان کیا جاتا ہے جس میں اس نے کہا کہ  “ کون ہے جس سے محبت کی جائے ، اور وہ پھر بھی غریب ہو ؟” میا کے نزدیک اس کی سہیلی نے یہ سینٹ ہُڈ اپنے پر جعلی طور پر طاری کیا ہوتا ہے جبکہ لاری کے نزدیک وہ اس کے بہاؤ میں زندگی گزار رہی ہوتی ہے ۔ وہ سفر میں بہت سارے تجربات سے مستفید ہوتی ہے ۔ راتوں کو شہزادے کہتے وہ اس سے شادی کریں گے اور صبح “تم کون اور میں کون” میا اپنے دوست کے ساتھ استنبول میں سُمر تہزیب کی انانا پر ریسرچ کرتی ہے اور اس کی نظموں کے ترجمہ پر اپنے بوائے فرینڈ پروفیسر کے ساتھ کام کرتی ہے ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ناول کے اختتام پر لاری اپنے باپ کی طرح ایک کامیاب راک بینڈ سنگر بن جاتی ہے ۔ کہاں ؟ آئیس لینڈ میں اور وہاں جیون ساتھی بھی ڈھونڈ لیتی ہے ۔ اور راک بینڈ کا نام بھی وہی نتزشے کی فلاسفی والا “آمر فاتی” کلیہ کے اپنے مقدر سے محبت کرنے والا فارمولا ۔
یہ زندگی کا سفر بہت ہی دلچسپ اور خوبصورت ہے ۔ ان دونوں سہیلیوں کی زندگیاں اس دنیا کے تمام رنگ اُجاگر کرتی ہیں ۔ سب ہی موسم ، سب ہی تنہائیاں ، ساری خوشیاں اور سارے غم ۔ مقدر اپنا اپنا ۔ زندگی اپنی اپنی ۔ لیکن پیار اور محبت سانجھا ، مکیش کا گایا گانا ۔۔۔
جانے میرے سارے بھید یہ گہرے
ہو گئے کیسے میرے سپنے سنہرے
یہ میرے سپنے یہی تو ہیں اپنے
مجھ سے جدا نہ ہونگے انکے یہ سائے۔۔ انکے یہ سائے
کہیں دور جب دن ڈھل جائے
سانجھ کی دلہن بدن چرائے
چپکے سے آئے
میرے خیالوں کے آنگن میں
کوئی سپنوں کے دیپ جلائے۔۔ دیپ جائے!!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply