ہمیں اب آگے بڑھنا ہوگا۔۔۔۔محمد عامر خاکوانی

پاک بھارت کشیدگی میں کمی آتے ہی اس سے منسلک دیگر اہم ایشو نمایاں ہونے لگے ہیں۔ مجھے اندازہ نہیں کہ بھارت میں جنگی جنون تھمنے اور الیکشن کا عمل آگے بڑھنے کے بعد وہاں کی انٹیلی جنشیا اور فعال طبقات مسئلہ کشمیر کے حوالے سے غیر جذباتی سوچ بچار کے قابل ہوپاتے ہیں یا اس حوالے سے وہاں تمام دروازے بند ہوچکے ہیں۔ کامن سینس تو یہ کہتی ہے کہ بھارت جیسے ملک کو جسے عالمی قوت بننے کا جنون ہو، اسے ہر قیمت پر کشمیر جیسے تنازعات کو نمٹا دینا چاہیے۔ خیر بھارتی جانیں اور ان کا کام ، ہمیں اپنی طرف بھی کئی چیزیں ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے۔ کالعدم تنظیموں والا معاملہ اس بار پوری سنجیدگی اور توجہ سے نمٹانا ہوگا۔ چندغیر محتاط نوجوانوں کی جانب سے اٹھائے گئے کسی قدم کی وجہ سے بیس اکیس کروڑپاکستانیوں پر مصیبت نازل نہیں ہوجانی چاہیے ۔ اب یہی دیکھ لیجئے کہ پلوامہ اٹیک میں ایک کشمیری نوجوان ملوث تھا، بارود ، گاڑی مقامی وسائل سے حاصل کی گئی۔ اس حملہ کے بعد تمام تر دبائو پاکستان پر آگیا۔ صرف اس لئے کہ حملہ آور نے ایک ویڈیو بنوائی تھی، جس میں اس نے اپنا تعلق جیش محمد سے ظاہر کیا ۔اس ویڈیو سے پہلے جیش محمد کے ایک مبینہ ترجمان نے ویڈیو جاری کی،جس میں حملہ آور کے نام کا انکشاف کرتے ہوئے اس حملہ کا کریڈٹ لیا۔ یوں بیٹھے بٹھائے پاکستان پر ایک طوفان امنڈ آیا۔ اس سے پہلے کے حالات پاکستان کے حق میں جا رہے تھے۔ پلوامہ حملے اور اس کے بعد پاکستان کے خلاف چلائے جانیوالی بھارتی مہم نے سب دھندلا دیا۔پاکستان اس حملے میں انوالو تھا ہی نہیں، یہ مقامی سطح پر ہونے والی کشمیری کارروائی تھی، اس لئے عالمی سطح پر یہ مہم کامیاب نہ ہوسکی۔ بھارت نے بلاجواز جارحیت کی اور پاکستان نے جوابی کامیاب حملہ کر کے الٹا بھارت پر ایک پوائنٹ سکو ر کر لیا۔ یہ سب بہت اچھا، خوشگوار لگتا ہے۔ یہ مگر نہیں بھولنا چاہیے کہ جنگ ایک ہنڈولا ہے، کبھی نیچے جاتا ہے تو کبھی اوپر۔ اللہ کا شکر ہے جس نے پاکستان اور پاکستانیوں کو سرخرو کیا اور ہم سب کی عزت رہ گئی۔اپنی فوج پر ہمیں فخر اور اعتماد ہے۔ اللہ کے فضل سے وہ ہر امتحان میں سرخرو ہوں گی۔ یہ کوشش تو مگرہم کر سکتے ہیں کہ ان کے لئے ہر قدم پر امتحان کھڑا نہ ہو اور انہیں اپنی قوت نان ایشوز میں نہ ضائع کرنا پڑے ۔ جہادی تنظیموں اور عسکریت پسندی پر ایک عرصے سے لکھنے والے اخبارنویس کے طور پر مجھے شرمندگی ہوئی ، جب تین دن پہلے حکومت پاکستان نے جیش محمد ، جماعت الدعوہ پر پابندیاں لگانے کا اعلان کیا ، مختلف لوگوں کو حراست میں لیا۔ اس قسم کی پابندیوں کا اعلان پہلے بھی کئی بار ہوچکا ہے۔ جیش محمد کا تو جہادی نیٹ ورک ہی ختم ہوچکا ہے۔ اس کے باوجود کہیں نہ کہیں قانونی ، عملی سطح پر ایسے خلا(loopholes)موجود تھے، جو اب پر کرنے کی کوشش کی گئی ۔ بہتر ہوتا کہ یہ تمام تکنیکی اعتبار سے کمزوریاں (loose ends) پہلے ہی دور کر لئے گئے ہوتے۔ چلیں اب دیرآید درست آید ، اس کام کو درست طریقے سے نمٹا لینا چاہیے۔ کالعدم تنظیموں کے حوالے سے ہمارے پاس تین آپشنز ہیں۔ پہلی آپشن تو یہ ہے کہ مقبوضہ کشمیر میںمسلح تنظیموں کی جانب سے کئے گئے آپریشنز کا دفاع کرتے ہوئے اسے جائز قرار دیا جائے۔ گزشتہ روز مجھے بھارت میں سابق پاکستانی سفیر اشرف جہانگیر قاضی کا بھارتی اینکر کَرن تھاپر کو دیا گیا انٹرویو دیکھنے کا موقعہ ملا۔ یہ تسلیم کرنا چاہیے کہ تجربہ کار سفارت کار نے نہایت عمدگی سے بات کی اور کرن تھاپر جیسے تیز طرار اینکر کو مدلل جواب دئیے۔یوٹیوب پر یہ انٹرویو موجود ہے، دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔اشرف قاضی نے پلوامہ حملے کو جائز قرار دیتے ہوئے کہا کہ جنرل اسمبلی کی قرارداوں کی روشنی میں ظلم سہنے والوں کو اپنی جدوجہد کرنے کا پورا حق حاصل ہے ۔بھارتی صحافی اس پر چکرا گیا۔ اس نے نوکیلے سوالات کی بوچھاڑ کی ، مگر اشرف قاضی اپنے موقف پر ڈٹے رہے ۔ یہ ایک دلچسپ موقف ہے، پاکستان میں ایک حلقہ اس کی وکالت کرتا ہے۔دیکھنا یہ ہے کہ موجودہ عالمی منظرنامے، امریکہ کی اختیارکردہ مستقل پوزیشن،اقوام متحدہ کے تازہ موڈ اور چین، سعودی عرب، ترکی اور اب روس جیسے دوست ممالک کے نقطہ نظر سے یہ موقف کس حد تک قابل عمل ہے؟مجھے تو اس حوالے سے بہت کم گنجائش نظر آتی ہے۔ دوسری آپشن یہ کہ نہایت سختی سے ان تمام تنظیموں کو کچل دیا جائے اور ان سے وابستہ افراد کے لئے زیرو ٹالرنس رویہ اپنایا جائے۔ یہ وہ موقف ہے جو پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے اپنی حالیہ قومی اسمبلی کی تقریر میں اپنایا۔ جذبات سے لبریز اورعقل وفہم سے عاری اپنی تقریر میں بلاول بھٹو نے عسکریت پسندوں کو قومی دھارے میں شامل کرنے کی پالیسی کو رد کیا۔ ایک عجیب وغریب دلیل یہ دی کہ منتخب وزیراعظم کو پھانسی دی جا سکتی ہے توکالعدم تنظیموں کے خلاف کارروائی نہیں کی جا سکتی۔ نرم سے نرم الفاظ میں اس موازنے اور دلیل کو بچکانہ کہا جا سکتا ہے۔ ایک ایسا بے فکرا ، لاابالی نوجوان ہی یہ کہہ سکتا ہے جسے زمینی حقائق کا کچھ پتہ نہیں، خوابوں کے سنہری محل میں وہ رہتااور نااہلوں کی صحبت میں وقت گزارتا ہے۔ بھٹو صاحب کے کیس کا آج کی کسی جہادی تنظیم سے کیا موازنہ ؟بلاول بھٹو ہوں ، اے این پی کے سیکولر قوم پرست یا ان کے دیگر بھائی بند، ان کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ ابھی تک ریاست پاکستان سے لڑنے والی ٹی ٹی پی جیسی دہشت گرد تنظیموں اور کشمیری جہادی تنظیموںمیں فرق نہیں سمجھ سکیں یا دانستہ نہیں سمجھنا چاہتیں۔ جماعت الدعوہ ، جیش محمد جیسی جہادی تنظیموں کا معاملہ یہ ہے کہ انہوں نے کبھی ریاست پاکستان کے خلاف ہتھیار نہیں اٹھائے۔ان کے ساتھ تو مسئلہ یہ ہوا کہ نائن الیون کے بعد دنیا بھر کا نقطہ نظر تبدیل ہوگیا۔ ہر قسم کی مسلح جدوجہد دہشت گردی کہی جانے لگی، خواہ وہ کتنے ہی جائز یا درست مقصد کے لئے لڑی جا رہی ہے۔ اس پیراڈائیم شفٹ یا زاویہ نظر کی تبدیلی نے آج کی جدید دنیا میں مسلح جدوجہد اور عسکریت پسند تنظیموں کے لئے گنجائش مکمل ختم کر دی۔ سوال یہ ہے کہ جو لوگ پہلے سے اس میں شامل تھے، اپنی زندگیاں، کیرئر وہ دائو پر لگا چکے تھے، ان کا کیا قصور؟ ان کے ساتھ کیا معاملہ کیا جائے؟ بلاول بھٹو جیسے اہم سیاسی لیڈروں سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ ان سنجیدہ سوالات کا جواب دیں گے۔ انہیں اچھی طرح معلوم ہوگا یا معلوم ہونا چاہیے کہ برطانیہ جیسے ملک نے اپنے اندر شدت پسند ، مذہبی عناصر کو معتدل بنانے کے لئے کتنے پروگرام شروع کئے، کئی تھنک ٹینک بنائے گئے جن کا کام ہی ان سخت گیر مذہبی نوجوانوں کو مکالمہ اور تربیت کے ذریعے معتدل اور پرامن بنانا ہے۔ یاد رکھنا چاہیے کہ ریاست ہر معاملے میں بے رحم قاتل مشین کی طرح کام نہیںکرتی۔ کئی جگہوں پر حکمت اور تدبر سے کام لینے کی ضرورت پڑتی ہے۔عسکریت پسندتنظیموں اور ایسے رجحانات رکھنے والوں کوبھی سلیقے سے ہینڈل کرنا ہوگا۔ انہیں قومی دھارے میں شامل کرنے کا ایک طریقہ ہمارے ہاں سوچا گیا، حافظ سعید کے ساتھیوں نے ایک سیاسی جماعت بھی بنائی۔ لگتا ہے کہ عالمی سطح پر ہم یہ آپشن درست طریقے سے سمجھا ، قائل نہیں کر پائے۔ اس آپشن کو اگر آگے بڑھانا ہے تو اس سے پہلے مسعود اظہر، حافظ سعید جیسے لوگوں کو ایک واضح اعلان ، ایک ڈس کلیمر کے ساتھ سامنے آنا پڑے گا۔واضح بیانیہ کہ ہم آئندہ سے کسی بھی قسم کے عسکری حل کے حمایت نہیں کریں گے، جہاد ریاست کا کام ہے ، وہی اعلان کرے تو یہ فرض ہوتا ہے اور اب ہم اپنی تمام تر توجہ فلاحی کاموں، تعلیم وصحت جیسے نیک کاموں پر لگانا چاہتے ہیں، وغیرہ وغیرہ۔ اس کے بعد یہ ممکن ہے کہ دنیا اس اعلان کو سنجیدگی سے لے۔ وہ کڑی نظر رکھیں گے، لیکن اگر سختی سے عمل ہوا تو آخر سب قائل ہو جائیں گے۔ اس دوسری آپشن سے منسلک ایک تیسری آپشن بھی ہے کہ ہم ان تمام امور کو دنیا کے سامنے رکھیں۔ ہم نے بھارتی الزامات کے بعد بہت سے لوگ پکڑ لئے ۔ اب بھارت سے ثبوت مانگنے چاہئیں، وہ ثبوت دنیا کے سامنے رکھے جائیں اور اس معاملے کو کسی منطقی انجام تک پہنچایا جائے۔ بھارت ان کالعدم تنظیموں کے معاملے کو بار بار پاکستان کے خلاف استعمال کرتا رہا، آئندہ بھی ایسا ہوگا۔ وہاں ہونے والے کسی سچے،جھوٹے واقعے، کسی عسکری گروہ کی کارروائی یا فالس فلیگ آپریشن (نام نہاد کارروائی)کے بعد ملبہ پھر پاکستان پر گرایا جائے گا۔ ہمیں اب اس گرداب سے نکلنا چاہیے۔ ماضی میں ہم نے ایک پالیسی اپنائی، وہ غلط تھی یا درست، اس بحث میں پڑے بغیراب زمانہ بدل گیا، حالات بدل گئے۔ہمیں اپنی افواج پر بھروسہ ہے، وہ الحمدللہ ملک وقوم کا دفاع کر سکتی ہیں، لیکن کیا ضروری ہے کہ ہر چند ماہ یا سال دو سال بعد جنگی صورتحال پیدا ہوجائے؟ ہم نے سی پیک مکمل کرنا ہے، سعودی اور دیگر ممالک کی انویسٹمنٹ کو آگے بڑھانا ہے۔اب غیر متوقع ناخوشگوار صورتحال سے بچنے کے اقدامات کرنے کا وقت آ گیا ہے۔ وزیراعظم عمران خان اور عسکری قیادت ان تمام سنجیدہ سوالات کو اب ہمیشہ کے لئے نمٹا ئے۔ ہر بڑے واقعے میں امکانات بھی پوشیدہ ہوتے ہیں۔ ان سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔

Advertisements
julia rana solicitors

بشکریہ  92 نیوز

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply