ڈیم کی تعمیر کو ممکن بنائیں۔۔۔۔ملک گوہر اقبال خان رما خیل

جب نوجوانی میں اس نے عشق کے میدان میں قدم رکھا تو ایک دن اس نے اپنی محبوبہ سے شادی کا ارادہ ظاہر کرنے کی غرض سے اس کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں تھام کر جونہی بات شروع کی تو اچانک اس کا دماغ ریاضی کی گھتیاں سلجھانے میں اتنا الجھ گیا کہ اسی الجھن میں اس نے محبوبہ کی انگلیاں مروڑ ڈالیں ۔ محبوبہ کی چیخ سے چونک کر شرمندگی کے احساس میں اس نے کہا “شاید مجھے عمر بھر شادی کے بغیر ہی رہنا چاہیے”

عزیزانِ من۔ ہمہ وقت اپنے تخیل کی اڑان سے معلوم علم کی حدود کو پھاندتا قدرت کی گہرائیوں تک پہنچ کر اس کے راز ڈھونڈے میں مستغرق رہنے والا یہ شخص عظیم سائنسدان “نیوٹن” ہی تھا۔ 1642 عیسوی میں روم کی جیل میں مشہور فلکیات دان گلیلیو جب اپنی زندگی کی آخری سانسیں لے رہا تھا تو انگلینڈ کے ایک چھوٹے سے گاؤں میں باپ کی وفات کے بعد ایک بیوہ ماں کے بطن سے زمانہ حاضرہ کا بابائے سائنس ایک لاغر اور بیمار بچے کی شکل میں اس دنیا میں وارد ہوا۔ ماں اسے فنکار بنانا چاہتی تھی لیکن کھیت کے کام سے فرار ہو کر چوری چھپے کتابیں پڑھتے دیکھ کر ماں اسے مزید تعلیم کے لئے کیمبرج بھیجنے کے لیے رضامند ہو گئی۔ جہاں سے بی اے کی ڈگری حاصل کرتے ہی کیمبرج نے نیوٹن کو معلم کی نوکری دے دی۔ 20سال اپنے تجربوں اور تحقیق کو چھپا کر رکھنے کے بعد جب اس کے دوست نے اسے چھاپنے کے لیے قائل کیا تب اس نے اپنی تحقیقات پر مبنی کتاب کی تین جلدیں شائع کیں جس کا عنوان تھا “سائنس کے ریاضی اصول” جس کے بعد سے آج تک نیوٹن کے دریافت کیے ہوئے تین اصول ہر پڑھے لکھے شخص کے بزبان عام ہوئے ہیں۔ پہلا اصول یہ ہے کہ کوئی ساکن چیز تب تک متحرک نہیں ہوگی اور کوئی متحرک چیز تب تک ساکن نہیں ہوگی جب تک اس پر طاقت کا استعمال نہ کیا جائے۔ دوسرے اصول کے مطابق حرکت کی رفتار طاقت کی تناسب سے بدلتی ہے۔ تیسرے اصول میں اس نے بتایا کہ ہر عمل کا مساوی الٹا رد عمل ہوتا ہے. اور نیوٹن نے دنیا کو بتایا کہ مادہ کا ہر زرہ دوسرے زرے کو اپنی طرف کھینچتا ہے اس باہمی کشش سے یہ نظامِ شمسی اور ستاروں اور سیاروں کے نظام قائم ہے اور اپنے مخصوص طریقہ سے متحرک ہیں۔ کشش ثقل کی اس دریافت کا راز نیوٹن نے ایک سیب کو گرتے دیکھ کر بتایا تھا۔ نیوٹن کے ان اصولوں نے نہ صرف سائنس کے علم کو ایک نئی وسعت دی بلکہ عملی ایجادوں کو بھی فروغ دیا۔

نیوٹن کی یہ سرگزشت بیان کرنے کی غرض صرف یہ ہے کہ آج جتنے بھی سائنس دان ہیں سب کے سب نیوٹن ہی کے بتائے ہوئے اصولوں پر چل کر نئی دریافتیں کر رہے ہیں۔ کیونکہ نیوٹن نے ریاضی کے علم میں کچھ نئے اضافے کیے جن سے آج سبھی علوم مستفید ہورہے ہیں۔ اور اس نئی حدوں کو چھونے کے بعد ریاضی کا اطلاق زیادہ وسیع قسم کے مسائل پر ہونا ممکن ہوگیا ہے۔ دنیا کی مہذب اقوام ایسا ہی کرتی ہیں اور اپنے بڑوں کے بتائے ہوئے اصولوں پر عمل کرکے ہی آگے بڑھتی ہے۔ اگر آج مسلمان اپنے اسلاف کی سیرت و کردار کا بنظر غائر مطالعہ کریں تو بہت سے ایسے مسائل ہیں جو ان سے حل نہیں ہورہے مجھے یقین ہے کہ وہ حل ہو جائینگے۔ مثال کے طور پر آج پاکستان کے اہم مسائل میں سے ایک ڈیم کا بنانا ہے۔ جس کے لیے سابق چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار صاحب بہت فکرمند تھے اور انہوں نے کافی دوڑ دھوپ کرنے کے بعد مشکل سے چند کروڑ ڈالر جمع کیے جو ناکافی ہیں۔ محترم ثاقب نثار صاحب اپنے انگریز اکابرین کے علوم پڑھنے کے ساتھ ساتھ اگر اپنے مذہبی اسلاف کے کردار کا بھی کچھ مطالعہ کرتے تو آج انہیں عوام کو یہ جواب نہیں دینا پڑتا کہ ہم نے تو ڈیم بنانے کے لیے نہیں بلکہ صرف آگاہی کے لیے چندہ مانگا تھا۔

امام ابوحنیفہ کے پاس لوگ امانتیں رکھتے تھے۔ ایک دن امام صاحب نے امانتیں رکھنے والوں کو بلایا اور کہا کہ تم لوگ یہ امانتیں مجھے قرض کے طور پر دیدو اس سے آپ کو دو فائدے حاصل ہوں گے۔ ایک یہ کہ قدرتی آفات سے ضائع ہونے والی امانت قابلِ واپسی نہیں لیکن قرض ہر حال میں واپس کرنا ہوتا ہے لہذا آپ کی رقوم محفوظ رہیں  گی۔ اور دوسرا فائدہ آپ کو اجر و ثواب کا ہوگا کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی  احادیث کے مطابق صدقہ کا ثواب دس گنا اور قرض حسنہ کا ثواب اٹھارہ گنا ہے ۔ چنانچہ وہ لوگ قائل ہوئے اور اس رقم سے امام صاحب نے اپنے کپڑے کے کاروبار کو وسعت دی انہوں نے وہاں کپڑے کا بڑا کارخانہ لگایا ایک بڑی دکان قائم کی اسی سرمائے سے بغداد نیشاپور وغیرہ شہروں میں مال بھیجتے اور منگواتے تھے۔ اس کاروبار کے منافع سے امام صاحب کئی کام کرتے تھے جسے آج کے دور میں آپ پبلک فنانسنگ کہہ سکتے ہیں مثلاً ضرورت مندوں کو قرض دیتے، سرکاری ضروریات صحت اور تعلیم وغیرہ کے لیے فنڈ قائم کرتے اور اگر کوئی شخص ان کو امانت کی بجائے کاروبار میں شراکت کرنا چاہتا تو وہ حصہ دار بنا کر منافع دیتے رہتے یہاں تک کہ آپ نے اس منافع سے زید بن علی کو جہاد کے لیے سرمایہ بھی فراہم کیا۔ یہ پورا نظام آج کی بینکاری کا بہترین متبادل ہے جو امام صاحب نے اس زمانے میں قائم کیا تھا۔ آج ڈیم کی تعمیر جو ایک اہم ضرورت ہے اگر اس کے لیے امام صاحب کے متعارف کیے ہوئے ماڈل پر عمل کیا جائے تو نہ چندے اور بھیک کی ضرورت ہوگی اور نہ بیرونی امداد کی۔

حکومت کو چاہیے کہ ان پیسوں کی تحفظ کو انشور کرے اور اس کی ذمہ داری قبول کرے اور پھر بڑے مگرمچھوں یعنی بڑے سرمایہ داروں کو سرمایہ کاری کی دعوت دیں یا ان سے قرض لیں۔ پبلک کو ریاستی ادارے میں شیئرز دینے میں کوئی ریاستی نقصان نہیں ہے۔ ایک مسئلہ یہ ضرور ہوسکتا ہے کہ کیا آمدن اور منافع اتنا ہوگا کہ لوگ مطمئن ہو سکیں گے۔ تو اس مقصد کو حاصل کرنے کے کئی طریقے ہوسکتے ہیں۔ ڈیم کے گرد و نواح میں پانی کا لیول بلند ہونے سے زمین بھی کچھ نہ کچھ حد تک متاثر ضرور ہوتی ہے اگر منرل واٹر کی کمپنیاں ان علاقوں میں شفٹ کردی جائے یا نئی لگا دی جائے تو اس سے بھی آمدن ہوگی اور ڈیم سے جو پانی نہروں میں بھیج کر فصلوں اور کھیتوں کی آبپاشی میں استعمال ہو اس پانی کی آمدن کا ایک حصہ بھی شیئر ہولڈر کو منافع کے طور پر دیا جاسکتا ہے۔ اور حکومت یہ بھی شرط لگا دے کہ جو شخص بعد میں شیئرز بیچنا چاہے وہ کسی بھی دوسرے شخص کو بیچنے کی بجائے پہلے حکومت کو ہی بیچے۔ اس طرح جیسے جیسے حکومت شیئرز خریدنے کے قابل ہوتی جائے گی ڈیم دوبارہ حکومت کے پاس چلا جائے گا۔

Advertisements
julia rana solicitors

عزیزانِ من جس طرح آج سائنس دان نیوٹن کے بتائے ہوئے اصولوں پر عمل کرنے کی بدولت سائنس میں ترقی کر رہے ہیں اگر آج ہم امام ابوحنیفہ کے اس ماڈل کو مزید بہتر کرکے اور اس کو آج کے دور سے ہم آہنگ کرکے ڈیم کی تعمیر پر آزمائے تو یقیناً ہم ڈیم بھی بنالیں گے اور ہم ہر کسی کے آگے کشکول رکھنے سے بھی بچ جائیں گے۔ اور جب یہ ماڈل کامیاب ہو جائے تو کچھ بعید نہیں کہ ہم اس سودی نظام کو ترک کر کے اسی کو متبادل نظام بنائیں۔ اور آخر میں میری گزارش ہے کہ جو حضرات اس میدان کے شہسوار ہیں وہ آگے بڑھ کر اپنی پوری قوت صرف کرکے حکومت اور عوام کی توجہ اسی طرف مبذول کرائیں اور اس ڈیم کی تعمیر کو ممکن بنائیں تاکہ مستقبل میں پیش آنے والے اس آزمائش کا سد باب کیا جاسکے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply