غربت کا حل۔۔۔۔ملک گوہر اقبال خان رما خیل

دس ہزار سال میں پہلی بار دنیا میں غریبوں کی تعداد میں کمی ہونے لگی ہے عالمی اقتصادی فورم نے اپنی نئی ماہانہ رپورٹ میں کہا ہے کہ دنیا کی آبادی کے 50 فیصد افراد کا شمار مڈل کلاس یا امیر خاندانوں میں ہونے لگا ہے جبکہ اتنی ہی تعداد میں لوگ غربت یا اس سے بھی نچلے سطح پر زندگی گزار رہے ہیں۔ ماہرین نے اپنی اس رپورٹ میں 188 ممالک کا سروے کیا مڈل کلاس میں داخل ہونے والے ہر 10 میں سے 9 کا تعلق چین بھارت اور جنوب مشرقی ایشیائی ممالک سے ہے۔ اگر مڈل کلاس کی بات کی جائے تو بروکنگ انسٹیٹیوٹ کے مطابق تین افراد پر مشتمل گھرانے کی روزانہ آمدنی 20000 روپے ہو تو اس کا شمار عالمی مڈل کلاس میں ہوگا۔ رپورٹ کے مطابق ہر سیکنڈ میں پانچ لوگ مڈل کلاس گھرانے میں شامل ہو رہےہیں۔ آدھی دنیا کا شمار مڈل کلاس میں ہونے لگا ہے مگر پاکستان میں مڈل کلاس کو ہی ریورس گیئر لگ گیا ہے پاکستان میں مڈل کلاس بڑھنے کے بجائے غربت بڑھ رہی ہے عالمی بینک کے مطابق ہر وہ شخص جس کی روزانہ آمدنی 2ڈالر یا 250 روپے سے کم ہو اس کا شمار خط غربت سے نیچے ہوتا ہے لیکن پاکستان میں صرف 100 روپے روزانہ سے کم کمانے والے کو غریب تصور کیا جاتا ہے جو عالمی پیمانے کے معیار پر بھی پورا نہیں اترتا یوں سمجھ لیں کہ دنیا 250 روپے روزانہ سے کم کمانے والے کو غریب کہتی ہیں اور پاکستان میں 100 روپے روزانہ سے کم کمانے والا غریب تصور ہوتا ہے۔ 250 روپے روزانہ آمدنی کے بین الاقوامی معیار کے مطابق پاکستان کی ستر فیصد آبادی غریب تصور ہوتی ہے لیکن سو روپے روزانہ کے پاکستانی معیار کے مطابق سرکاری کھاتوں میں صرف 24 فیصد آبادی غریب ہے۔ پلاننگ کمیشن کے تازہ سروے کے مطابق پنجاب میں غربت کی شرح 31 فیصد،سندھ میں 43، خیبرپختونخوا میں 49 اور بلوچستان میں 71 فیصد ہے۔
قارئین۔ غربت کی اس بڑھتی شرح کو روکنے کے اسباب کیا ہونگے اس بارے میں کچھ لکھنے کی ضرورت میں نے اس وقت بڑی شدت کے ساتھ محسوس کی جب محترم جاوید چودھری صاحب کی ایک آرٹیکل میری نظر سے گزری جس کا عنوان تھا”غربت کا حل” اس آرٹیکل میں محترم جاوید چودھری صاحب نے غربت کے حل کے لیے دو تجویزیں پیش کئے تھے۔ پہلی تجویز جو یورپ کی سوسائٹی سے اخذ کی گئی تھی کہ ہر شخص اپنی استطاعت کے مطابق ریستوران، میڈیکل سٹور، درزی کے دکان اور سبزی کے دکان وغیرہ میں اضافی رقم جمع کریں جس سے غریبوں کی مدد کچھ اس طرح سے کی جائے کہ ایک غریب جب ریستوران میں کھانا کھائے تو اس کا بل ان پیسوں سے کاٹا جائے جو دوسرے لوگوں نے اضافی جمع کئے تھے۔ بالکل اسی طرح کپڑے، پرچون، جوتوں اور سبزی وغیرہ کے خریدنے پر بھی بل جمع شدہ رقم سے کاٹ لیا جائے گا۔ اور دوسری تجویز جو بہت تفصیل کے ساتھ ہنرمندوں کے بارے میں یہ پیش کی تھی کہ مخیر حضرات اپنی اپنی سطح پر روزگار سکیموں کے لیے فنڈ جمع کریں جس سے ان پیشہ ور غریبوں کے روزگار دوبارہ بحال کئے جائیں جو معاشرے کی تبدیلی کی وجہ سے ختم ہوگئے ہو۔ مثال کے طور پر تانگہ، کھوتی ریڑھی،ڈھول باجوں والے، سٹریٹ تھیڑز، مداری اور سٹریٹ سرکس وغیرہ ان لوگوں کو جدید ٹریننگ دیکر دوبارہ ان کے سابقہ کاروبار بحال کئے جائیں
عزیزانِ من ۔ میں انتہائی ادب کے ساتھ اور بڑی معذرت کے ساتھ محترم جاوید چودھری صاحب کے ان دونوں تجویزوں سے اختلاف کرنے کی جسارت کرتا ہوں ۔ اور میں امید کرتا ہوں کہ محترم جاوید چودھری صاحب میرے اس برملا اظہار کو بے ادبی کے زمرے میں شمار نہیں کرینگے کیونکہ اختلاف تو علم کا حسن ہے اور اختلاف تو علم کو زندگی بخشتا ہے۔ تو جہاں تک پہلی تجویز کا تعلق ہے وہ ہمارے ملک میں کامیاب ہو ہی نہیں سکتی جس کی وجہ یہ ہے کہ بحیثیت مجموعی یورپ کے لوگ تعلیم یافتہ ہے اور اس کے برخلاف ہمارے خواندگی کی شرح کیا ہے؟ ہم آج بھی تعلیم کی شرح کو 60 فیصد تک پہنچانے میں ناکام رہے ہیں یعنی ہماری آدھی آبادی آج بھی ناخواندہ ہے۔ ہیومن ڈویلپمنٹ انڈیکس کی رپورٹ کے مطابق ملک میں غربت کی سب سے بڑی وجہ تعلیم کی محرومی ہے۔ محترم جاوید چودھری صاحب کیا جو قوم کثرت سے جھوٹ بولتی ہو، ملاوٹ کرتی ہو، دوسروں کی حق تلفی میں کوئی شرم محسوس نہیں کرتی ہو وہ کیسے غریبوں کو ان کا حق دینے میں دیانتداری کرینگے؟ کیا آج ٹرسٹ اور سوشل ویلفیئر کے نام پر کاروبار نہیں چلائے جارہے ہیں؟ سکول اور ہسپتال تو دور مسجد اور مدرسے کے نام پر جو قوم پیسے کھاتی ہو وہ غریب کو کیا دیگی۔ ریستوران اور دکان والے صرف اپنے اوپر خرچ کرینگے غریب کو صرف ڈانٹ ہی دینگے اور کچھ نہیں۔ اور اگر اسکا جائزہ دوسرے زاوئیے سے لیا جائے تو اس کا بڑا نقصان یہ ہے کہ اس سے وہ غریب ہمیشہ کے لیے غریب ہی رہ جائینگے وہ مفت کی کھا پی کر مفت کے کپڑے پہن کر کھبی اپنے پیروں پر کھڑے نہیں ہوسکےنگے وہ مفت کے عادی بن جائنگے۔ اگر آپ غور کریں تو سیدنا آدم علیہ السلام کو مفت میں جنت دی گئی اور کہاگیا کہ تم اور تمہاری بیوی اس جنت میں رہو لیکن ایک بھول کی وجہ سے دونوں کو فوراً جنت سے نکال دیا گیا۔ اور جب انسان اپنی محنت سے نیکیاں کما کر جنت جائے گا تو اس کے لیے پروردگار عالم کا فرمان ہوگا (خالدين فيها ابدا) کہ تم اس میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے رہوگے۔ یہ ہے خدا کا قانون محنت کشوں کے لیے۔ اور اس موقع پر ایک حدیث مبارک کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے وقت میں کیا تعلیم دی تھی۔ سنن نسائی کی روایت ہے کہ حضرت انس کہتے ہیں کہ ایک انصاری نے آپ سے سوال کیا آپ نے اس سے پوچھا تمہارے گھر میں کوئی چیز ہے وہ کہنے لگا ہاں ایک ٹاٹ اور ایک پیالہ ہے آپ نے فرمایا وہ دونوں چیزیں میرے پاس لاؤ وہ لے آیا توآپ نے وہ چیزیں دو درہم میں بیچی اور فرمایا کہ ایک درہم سے گھر والوں کےلئے کھانا خرید اور ایک درہم سے کلہاڑی خرید کر میرے پاس لاؤ جب وہ کلہاڑی لے آیا توآپ نے اپنے دست مبارک سے اس میں لکڑی کا دستہ ٹھونکا پھر اسے فرمایا جاؤ جنگل سے لکڑیاں کاٹ کر یہاں لا کر بیچا کرو۔ یعنی جس شخص کا کل سرمایہ ایک ٹاٹ اور پیالہ تھا اسے بھی محمد رسول اللہ نے محنت کی تلقین کی اور اسے اپنے پیروں پر کھڑا کر دیا۔ اور جہاں تک دوسری تجویز کا تعلق ہے وہ بھی کارگر ثابت نہیں ہو سکتی کیونکہ تانگہ اور مداری وغیرہ زمانے کی تبدیلی کی وجہ سے ختم ہو گئے ہے جس کو آج بحال کرنا فائدہ مند نہیں ہے۔ ہم تانگے میں سفر کرینگے اور دنیا بلٹ ٹرین میں۔ آسٹریلیا اور انگلینڈ مریخ پر پہنچ کر ٹونٹی ٹونٹی میچ کھیلے گی اور ہم مداری کے آگے اس انتظار میں کھڑے رہینگے کہ وہ کب سانپ کو اجازے سے باہر کریگا۔ قارئین۔ جو اصل بات ہے اس کی طرف توجہ کرتے ہیں کہ یہ غربت بڑھتی کیوں ہے؟ اس کی ایک وجہ تو تعلیم کی کمی ہے اور دوسری وجہ یہ ہے کہ مڈل کلاس سے لیکر امیر ترین لوگوں تک ہر ایک یا تو جاگیریں بناتے ہوٹلز بناتے یا بڑے بڑے پلازے بنا کر کرایہ پر دیتے ہیں یا کروڑوں روپے اپنے گھروں کی آرائش پر لگاتے ہیں اور وہ لوگ بھی جو غربت کی وجہ سے باہر ملکوں میں 40سال کام کرکے اپنی ساری جمع پونجی گھر بنانے پر خرچ کرکے دنیا سے رخصت ہو جاتے ہیں اور یا اپنے سارے پیسے بینک میں جمع کرتے ہیں پھر وہی بینک وہ رقم دوسری بڑی بینک کو سود پر دیتی ہے اور وہ بڑے بینک وہ پیسے چند سرمایہ داروں یا ملٹی نیشنل کمپنیوں کو سود پر دیتے ہیں جس سے وہ ادارے سوئی سے لیکر ہوائی جہاز تک ہر چیز باہر ملکوں سے امپورٹ کرتے ہیں جس کا سارا فائدہ باہر ملکوں اور ہمارے صرف چند سرمایہ داروں کو ہوتا ہے۔ غریب عوام کو کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ عزیزانِ من۔ چین کے لوگ جو افیون اور ہیروئن کی نشہ میں مبتلا تھے وہ آج دنیا کی ترقی یافتہ قوم ہے ہمیں چین کے لوگوں کی طرح محنت کش بننا ہوگا۔ اور ہندوستان کے لوگ جنہوں نے اپنے ملک کے بنائے ہوئے چند پراڈکٹس کو استعمال کرنے کا عزم کیا ہوا ہے وہ سالانہ 30000 کروڑ روپے باہر جانے سے روکتے ہیں ہمیں چاہیے کہ سوئی سے لیکر ہوائی جہاز تک ہر چیز ہم اپنے ملک میں بنائیں اور استعمال کریں۔ بینکوں میں پیسے رکھنے یا محلات کی آرائش پر خرچ کرنے کے بجائے ہمیں صنعت کے میدان میں گھوڑے دوڑانے ہونگے۔ حکومت کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ صنعت کاری کے لئے سہولیات فراہم کرے اور عوام کو چاہیے کہ وہ اپنی مالی قوت اور افرادی قوت کا بھرپور مظاہرہ کریں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply