ریلو کٹوں پر مشتمل پھٹیچر کابینہ۔۔۔علی نقوی

ہمارے ملک کے ہر اسُ بچے کو “ریلو کٹے” کا “بیچ کے بلے” کا مطلب ضرور پتہ ہوگا جس نے کبھی گلی محلے یا سکول کے گروانڈ میں بوتلوں کے کریٹوں یا اینٹوں سے وکٹیں بنا کر کرکٹ کھیلی ہے، جن کو نہیں معلوم انکے لیے مختصراً بیان کر دیتے ہیں ایسا کھلاڑی جو دونوں ٹیموں کی طرف سے بیٹنگ کرے اور دونوں ٹیموں کا وکٹ کیپر بھی ہو اسکو عرف عام میں ہمارے یہاں “ریلو کٹا” یا “بیچ کا بلا” کہتے ہیں… ہمارے یہاں لڑکے اس پوزیشن پر بڑے شوق سے کھیلتے ہیں کیونکہ باریاں دو دو ملتی ہیں لیکن ذمہ داری نہیں اٹھانی پڑتی۔

ہماری گلی محلوں کی کرکٹ میں وکٹ کیپر کی ذمہ داریاں کافی کم کر دی گئیں ہیں کیونکہ اگر وکٹ کے پیچھے دیوار ہے تو پھر تو وکٹ کیپر کی ضرورت ہی نہیں اور اگر کوئی ایسی رکاوٹ نہیں ہے کہ وہ بال کو پیچھے جانے سے روک سکے تو پھر سب سے برُا فیلڈر وہاں یہ سوچ کر کھڑا کر دیا جاتا ہے کہ وہ بال کو زیادہ دور نہ جانے دے اور بال اٹھا کر دیتا رہے، بیچ کا بلا کمزور کھلاڑی کو بنایا جاتا ہے عموماً ہماری گلی محلے کی کرکٹ میں بیچ کے بلے کو بال کرانے کی اجازت نہیں ہوتی یہ کوئی مُسلمہ اصول تو نہیں ہے لیکن نوے فیصد گلی محلے کی کرکٹ اسی طرز پر ہوتی ہے،
بیچ کا بلا بنانے کی ضرورت تب پیش آتی ہے کہ جب کھلاڑیوں کی تعداد طاق ہو مثلاً اگر گیارہ لڑکے کھیل رہے ہیں تو پانچ پانچ کی دو ٹیمز اور گیارہواں لڑکا “بیچ کا بلا” یا “ریلو کٹا” جو دونوں ٹیمز کا وکٹ کیپر بھی ہوگا اور دونوں طرف سے بیٹنگ بھی کرے گا بیچ کا بلا بننے کے کئی فائدے ہیں ایک تو یہ ہے کہ “پھٹیچر” (جن کو کھیلنا نہ آتا ہو) لڑکوں کو بھی کرکٹ کھیلنے کا موقع مل جاتا ہے اور دوسرا یہ ہے کہ کسی بھی ٹیم سے آپکی جذباتی وابستگی نہیں ہوتی آپکی بلا سے کوئی جیتے یا ہارے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ آپ وہ واحد کھلاڑی ہوتے ہیں جو بارگین کرنے کی پوزیشن میں ہوتا ہے، یہاں پر مجھے ایک واقعہ یاد آتا ہے کہ ایک میچ میں ہمارے ایک دوست جو کہ “بیچ کے بلے” کی اہم پوزیشن پر کھیل رہے تھے ایک ٹیم کے کیپٹن کے کان میں کہتے کہ اگر تم مجھے میچ کے بعد برگر اور بوتل پلاؤ تو میں دوسری ٹیم کی باری میں جلدی آؤٹ ہو جاؤں گا اور ہوا بھی کچھ ایسے ہی….

ان دونوں ٹرمز “ریلو کٹے” اور “پھٹیچر” کو جو شہرت موجودہ وزیراعظم عمران خان کے بیان کے بعد ملی وہ پہلے کبھی نہیں ملی تھی کہ جب نواز شریف اور نجم سیٹھی کی دشمنی میں خان صاحب نے پی ایس ایل کھیلنے کے لئے پاکستان آنے والے انٹرنیشنل لیول کے کھلاڑیوں کو “پھٹیچر” اور “ریلو کٹا” کہا تھا
آئیے ان دونوں ٹرمز کی مندرجہ بالا سطور میں بیان کی گئی تعریف کی روشنی میں اسی عمران خان (کہ جو انٹرنیشنل کھلاڑیوں کو “ریلو کٹا” اور “پھٹیچر” کہتے تھے) کی موجودہ وفاقی کیبنیٹ کا جائزہ لیتے ہیں۔۔۔۔اس انقلابی کیبنیٹ میں صرف تین وزراء ایسے ہیں کہ جو پہلے کبھی کسی پارٹی میں نہیں رہے جنابِ اسد عمر، شیریں مزاری اور عامر کیانی صاحب ان پاک و پاکیزہ وزیروں کو الگ رکھیے ان پر بعد میں بات کرتے ہیں

اس انقلابی کیبنیٹ میں بارہ لوگ ایسے ہیں جو جنرل مشرف کی کیبنیٹ کا حصہ تھے ان میں فروغ نسیم، طارق بشیر چیمہ، غلام سرور خان، زبیدہ جلال، فواد چوہدری، شیخ رشید احمد، خالد مقبول صدیقی، شفقت محمود، مخدوم خسرو بختیار، عبدالرزاق داود، ڈاکٹر عشرت حسین اور امین اسلم کے نام شامل ہیں…

پانچ لوگ وہ ہیں کہ جو پاکستان پیپلز پارٹی کی گذشتہ کرپٹ ترین حکومتوں میں اہم وزارتوں پر براجمان رہے ان میں جنابِ پرویز خٹک، بابر اعوان، فہمیدہ مرزا، فواد چوہدری اور سب سے زیادہ اہم وائس چیئرمین پی ٹی آئی مخدوم المخادیم جنابِ شاہ محمود قریشی شامل ہیں..

ہمارے گھروں ایک چیز عموماً دیکھنے کو ملتی ہے کہ اگر خاتون خانہ کو یہ سمجھ نہ آ رہا ہو کہ آج کیا پکایا جائے تو وہ کسی بھی چیز کے ساتھ آلو پکا دیتیں ہیں مثلاً آلو گوشت، آلو قیمہ، آلو انڈے، آلو پالک، آلو گوبھی وغیرہ وغیرہ اسی طرح ہماری اسٹیبلشمنٹ کو جب بھی کوئی کٹھ پتلی حکومت چلانی ہو تو یہ “ریلو کٹوں پر مشتمل پھٹیچر برگیڈ” کیبنیٹ میں گھسا دی جاتی ہے جس کا ذکر اوپر کیا گیا ہے، اس وقت ملک میں جو حکومت ہے اس طرح کی حکومتوں میں جگہ پانے کے لیے دو چیزیں درکار ہیں ایک حد درجے کا بدتمیز ہونا اور دوسرا حد درجے کا ڈھیٹ ہونا کیونکہ اگر آپ ڈھیٹ نہیں ہیں تو آپ اس طرح کی حکومت کو ڈیفنڈ کس طرح کریں گے اور اگر آپ بد تمیز نہیں ہیں تو آپ کبھی جنابِ عمران خان کی قربت حاصل نہیں کر سکیں گے، آپ ذرا خود غور کریں کہ اگر شیخ رشید صاحب حد درجہ ڈھیٹ نہ ہوتے تو کب کے ریٹائر ہوچکے ہوتے یہ حضرت کی جاپانی کوالٹی کی ڈھٹائی ہی ہے جس نے آج تک انکو اسٹیبلشمنٹ کی آنکھ کا تارا بنا کر رکھا ہوا ہے، یہ کس کا حوصلہ ہے کہ وہ عمران خان کہ جو ان کو کل تک اپنا چپڑاسی رکھنے پر بھی راضی نہیں تھا وہ آج اسی عمران خان کے ریلوے منسٹر ہیں، ڈھٹائی کا ریکارڈ تو تب ٹوٹا کہ جب عمران خان نے پنجاب کے سب سے بڑے ڈاکو پرویز الہی کو پنجاب اسمبلی کا سپیکر بنایا، قائد انقلاب عمران خان کے کئی ایم این اے ایسے ہیں کہ جنہوں نے عمران خان کے مطالق ایسی ایسی باتیں میڈیا پر کی ہیں کہ اگر کوئی تھوڑا سا بھی با شرم اور باوقار آدمی ہو تو وہ اس شخص کا کبھی منہ نہ دیکھے ان میں بابر اعوان، عامر لیاقت، خود فواد چوہدری، شیخ رشید اور کئی نام گنوائے جا سکتے ہیں..

میں اپنے وزیر اعظم کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ جنابِ وزیراعظم یہ جو ٹولہ آپ نے ارد گرد جمع کیا یا ہونے دیا ہے یہی ٹولہ اس ملک کا سب سے بڑا ناسور ہے پرویز مشرف کی طاقت اور اختیار کے سامنے آپ کی حیثیت ایک ذرے کی بھی نہیں ہے لیکن یہی لوگ تھے جنہوں نے پرویز مشرف کو اسکے انجام تک پہنچایا یہی شیخ رشید اور پرویز الہی کل تک پرویز مشرف کو سو بار وردی میں منتخب کرنے کی قسمیں اسمبلی کے فلور پر کھڑے ہو کا کھایا کرتے تھے کیا آپ نے کبھی ان سے پوچھا کہ کیا آج بھی وہ ایک فوجی جنرل کے اقتدار کے اسی طرح سے حامی ہیں؟ اور اگر آج انکی رائے تبدیل ہوئی ہے تو کیا وہ اپنی گزشتہ رائے پر قوم کے سامنے شرمندہ ہیں یا نہیں؟ آپ خود کہتے رہے کہ کراچی کی بدامنی کی اصل وجہ ایم کیو ایم ہے تو کس طرح آج وہ آپکی حکومت کا حصہ ہے جبکہ کل تک یہی ایم کیو ایم پرویز مشرف کا دفاع کر رہی تھی؟ آپ سے تو چہرے تک نہ بدلے گئے وہی فروغ نسیم وہی خالد مقبول صدیقی؟

جنابِ پرائم منسٹر آپ نےنواز شریف اور نجم سیٹھی کی دشمنی میں ڈیرن سیمی اور دوسرے انٹرنیشنل کھلاڑیوں کو (جو کہ انُ حالات میں پاکستان آکر کھیل رہے تھے کہ جب کوئی اور آنے کو تیار نہیں تھا) “پھٹیچر” اور “ریلو کٹا” تو کہہ دیا لیکن کیا آپکو اپنی کیبنیٹ میں بیٹھے یہ لوگ جو ہر حکومت میں شامل ہوتے ہیں کبھی “ریلو کٹے” کیوں نہیں لگے حضور والا یہ کیبنیٹ آپکو وہیں لیکر جارہی ہے جہاں یہ گزشتہ حکومتوں کو لیکر گئی تھی کیا آپ کو نظر نہیں آ رہا کہ کس طرح کی بداحتیاطی سے چیزوں کو ہینڈل کیا جا رہا ہے؟ کیا آپکو نظر نہیں آ رہا کہ ہر روز آپکی اسی کیبنیٹ کا کوئی نہ کوئی وزیر میڈیا پر تماشہ بنا ہوا ہوتاہے؟ لیکن آپکی آنکھوں پر چاپلوسی کی وہ پٹی بندھی ہوئی ہے کہ آپکو سوائے آپکی جھوٹی عظمت کے کچھ دکھائی ہی نہیں دیتا؟ ایک صاحب ہیں افتخار درانی جو اس وقت اسپیشل اسسٹنٹ ٹو پرائم منسٹر برائے میڈیا ہیں ساہیوال جیسے دلخراش واقعہ پر گفتگو کرتے ہوئے صرف یہ ثابت کر رہے ہوتے ہیں کہ عمران خان ایک عظیم انسان ہے، عمران خان ایک دیوتا ہے کہ جس سے غلطی سرزد ہو ہی نہیں سکتی ان صاحب کی گفتگو سے صرف یہ ثابت ہوتا ہے کہ وہ اپنی نوکری بچا رہے ہیں، کل کی فیصل جاوید خان کی سینیٹ کی گفتگو یہی بتا رہی ہے کہ عمران خان ایک عظیم رہنما ہے اور جو کوئی بھی اسکے خلاف ہے گمراہ ہے، مراد سعید صاحب کل اسمبلی میں منہ سے اس بات پر جھاگ نکال رہے تھے کہ کہ اپوزیشن پرائم منسٹر کی عزت نہیں کرتی…

Advertisements
julia rana solicitors london

خان صاحب آپکا رتبہ اس ملک کے لوگوں کے دلوں میں اس سے کہیں زیادہ ہے کہ آپکے قد کو بڑھانے کے لیے اس طرح کی تعریفیں کی جائیں، آپ صرف ایک پرائم منسٹر نہیں اس ملک کے کروڑوں لوگوں کی امید ہیں خدارا اس ملک کے لوگوں کا پولیٹیکل سسٹم پر اعتبار بحال کرانے کے لئے سیریس اقدامات کریں آپکے سپورٹرز اب مخالفین کا سامنا کرنے سے کترا رہے ہیں، خان صاحب لوگوں نے آپکو ووٹ کیا ہے یہ ریلو کٹوں پر مشتمل پھٹیچر کابینہ دونوں طرف سے باریاں لے رہی ہے کیونکہ ایک تو انکو کھیلنا نہیں آتا دوسرے ان کی اس ملک سے آپ سے، یہاں کے لوگوں سے کسی قسم کی جذباتی وابستگی نہیں ہے ان میں سے ہر ایک دوسری ٹیم کے کپتان کے کان میں یہ کہہ کر آیا ہے کہ اگر میچ کے بعد یا دوران برگر اور بوتل مل جائے تو میں جلدی آؤٹ ہو جاؤنگا…

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”ریلو کٹوں پر مشتمل پھٹیچر کابینہ۔۔۔علی نقوی

  1. بائیس سال کی جدوجہد کے بعد بائیس ایسے افراد تیار نہ ہو سکے جو ملک کا نظم و نسق سنبھال سکیں،اور مجبوراً ریلو کٹوں سےکام لینا پڑا. تحریک کی اس سے بڑھ کر اور کیا بد نصیبی ہو گی.
    جہاں بانی سے ہے دشوار تر کار جہاں بینی
    جگر خوں ہو تو چشم دل میں ہوتی ہے نظر پیدا

Leave a Reply