عشق جاناں۔۔۔وکی

یہ عشق عجب لمحہ ء توقیر ہے جاناں
خود میرا خدا اس کی ہی تفسیر ہے جاناں

جو نام ہتھیلی کی لکیروں میں نہیں تھا
کیوں آج تلک دل پہ وہ تحریر ہے جاناں

اس خواب کی تعبیر تو ممکن ہی نہیں تھی
آنکھوں میں مگر اس کی ہی تاثیر ہے جاناں

مانا کہ ترے ہاتھوں میں ہیں پھول ابھی تک
لیکن ترے پیروں میں جو زنجیر ہے جاناں

کیا جانئے کس روز بکھر جائے کہیں بھی
اس آس کی دل میں جو اک تنویر ہے جاناں

یہ روگ کہیں مجھ کو ہی مسمار نہ کر دے
آ لوٹ کر آ تُو ہی تو اکسیر ہے جاناں

تو ہجر میں ڈوبی ہوئی نَیّا کا کنارہ
جیون کی ترے پاس ہی تدبیر ہے جاناں

یہ زخم جدائی کے کبھی سلنے نہیں ہیں
تُو جان لے اپنی یہی تقدیر ہے جاناں

اُس آگ کے شعلوں میں وہ پھولوں کا تبسم
اک سجدہء بے مثل کی تصویر ہے جاناں

اب دن کی طلب ہی نہیں شاہین مجھے تو

اک شام ہی اب تو مری جاگیر ہے جاناں
#انتخاب

میں نے جب بھی تجھے دیکھا خزاں کے پتوں کی طرح بکھری بکھری بہار کے انتظار میں دیکھا اور میں اپنے ہاتھوں سے سمیٹتا آنسووں سے ان پتوں کو تر کرنے کی کوشش کرتا ان سوکھے پھولوں کو آنسووں سے محبت بڑھی ان کی پیاس بجھانے کی کوشش کرتا ہوا پھر ان پتوں کوبکھیر دیتی اور میں پھر ان کو بانہوں میں بھرتا ان کوزمانے کی تلخیوں سے بچاتا، ہوا کے تیز دھارے اور لوگوں کے پیروں میں روندھنے سے بچانے کے لیے اپنی چادر میں سمیٹتا جاتا سینے سے لگاتا پیار کرتا اور اس خزاں کے گزرنے کے انتظار میں اس ٹھنڈی رات میں بیٹھا رہتا
کب یہ خزاں رخصت ہو اور بہار آئے ان پتوں کو ہرے کرنا ہے ڈالی سے لگانا ہے ان پر پھولوں کو کھلتے دیکھنا، ان کی خوشبو کو اپنے وجود میں بسانا۔۔۔۔
تم سو گئی؟
اچھا ہے مجھے تمہیں سوتے میں ہی کچھ کہنا تھا
تیری جاگتی آنکھوں کے سامنے نظر نہیں اٹھائی جاتی ،بھلے سے تو مجھ سے دور ہے لیکن جب تجھ سے کلام کرتا  ہوں تو میرے سامنے ہی ہوتی ہے۔۔
اب تو سو رہی ہے تیری آنکھیں بھی بند ہیں. تیرا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر کچھ کہے دیتا ہوں. تیرے کانوں میں پڑی میری آواز تیرے دل تک چلی جائے گی.
کچھ عرصہ پہلے سے ہی میرے دل میں تیری جگہ بنتی جا رہی تھی لیکن اس وقت جب کسی اور سے تیری بات ہوتی تو میں جلتا کڑھتا لیکن بیان نہ کرتا کتنی ہی راتیں اس کرب میں گزار دی
پھر وقت نے پلٹا کھایا اور مکمل تصویر سامنے آ گئی تم میرے سامنے آ گِئی تم نے اظہار کیا پیار کو قبول کیا مجھے اپنایا مجھے محسوس کیا دل کے ادوار کھولے دل کے بند دریچے جو ہر کسی کے لیے بند کر دیے تھے تم نے مجھے اجازت دے دی ان میں ہواوں کی طرح میں پھرتا تیرے دل کی گلیوں میں گھومتا دیوانہ بنجارا تیرے اندر کے جنگل اور صحراوں میں پھرتا رہا
تیرے ماضی میں جھانکا خوشیوں کے پلوں کے ساتھ آنسووں کے سمندر ملے.
پھر تیرے حال کو دیکھا تجھے انتظار میں پایا میں آگے بڑھا تیرا ہاتھ تھاما تجھے گلے سے لگایا تیری اداسیوں کو کم کرنے کے لیے لبوں پر مسکراہٹ بکھیرنے کے لیے ہر کوشش کرتا گیا
تو میرے رنگ میں رنگتی گئی تم نے اپنا جیون مجھے تیاگ دیا اپنا تن من دھن سب مجھ پر نچھاور کر دیا میں بے مروت ہوتا جو تجھے ٹھکراتا
میں نے  تجھے سمویا اپنے آپ میں چھپا لیا تجھے پیار سے دل کی سیج پر بٹھایا اپنی روح سے تجھے چاہنے لگا تجھ سے عشق ہونے لگا
میری محبت اس قدر بڑھ  گئی کہ مجھے شبدوں کی محتاجی ختم ہو گئی
میں ہاتھ بڑھاتا تجھے چھو لیتا۔۔
میں آنکھ بند کرتا تجھے سامنے پاتا دن بدن تیری عزت تیرا مرتبہ میرے دل میں بڑھتا چلا گیا
تو میری عشق جاناں بن گئی ہے
اب میں خود غرض ہوتا جا رہا ہوں
مجھے ڈر لگنا شروع ہو گیا میں تجھے چھپانا چاہتا اپنی بانہوں میں لے کر دنیا سے چھپا لینا چاہتا  ہوں۔تجھے ظاہر نہ کروں کسی کے سامنے بس تجھے اپنے تک کر لوں. تو میری ہو جا میں تیرا ہو جاوں. نہ کوئی فاصلہ درمیان ہو نہ کوئی دوری ہو. لیکن میرا دل جلنے لگا
جب مجھے محسوس ہوتا کہ تو کسی اور سے بات کر رہی ہے  پہلے ایسا نہیں ہوتا تھا اب ہونے لگا جاناں
تیری ہر بات میں من و عن قبول کرتا
دل جاناں مجھے تم سے عشق ہو رہا میرے سینے میں آگ جل رہی ہے
جو تیری دید سے بجھتی تیری بات سے ٹھنڈی ہوتی ہے۔
بس تو میری ہو جا فقط میری.
میری کوئی بات تیری دل آزاری کرے تو میری نادانی سمجھ کر معاف کر دینا کیا کروں عاشق ہوں ایسا ہو جاتا ہوں نہ تیرے چہرے پر کسی کی نظر پڑے نہ تیری آواز کسی کے کان میں  ۔۔
لیکن اگر تجھے لگے یہ قید ہے تو مجھے تو ایسے بھی قبول ہے.
ناراض نہ ہونا جاناں. لیکن مجھے اب اچھا نہیں لگتا تیرا کسی سے بات کرنا چاہے کوئی بھی ہو
بڑی ہمت کر کے یہ کہہ پایا ہوں اگر جاگ رہی ہوتی تو کبھی نہ کہہ پاتا.
مجھے تیری ناراضگی سے ڈر ہے
میں تاب نہ لا سکتا
بس چپکے سے گلے لگ جانا میرا عشق ہے تو جاناں.
کیا موت کے خوف سے جینا چھوڑا جاتا ہے؟
ٹھیک ہے یارا جیسے تیری مرضی.
اب نہیں تنگ کروں گا تمھیں.
بس اپنا خیال رکھنا اور خوش رہنا.
تیرے دل میں تو رہے لیکن تیری دھڑکن نہ بن پائے
روح سے رشتہ تو جڑ گیا لیکن وجود مل نہ پائے.
ڈائری کے آخری صفحے خالی تھے.
میری آنکھ سے آنسو ٹپک کر ان خالی پنوں پر گھم ہو گئے تھے.
پتہ نہیں کون تھے کیا تھے لیکن کیا عشق کیا داستان تھی.
میں نے ڈائری کو پھر اسی جگہ رکھ چھوڑا جہاں پہلے پڑی تھی میری آنکھوں کے سامنے ایک قبر تھی جو کشادہ اور دو کے برابر لگ رہی تھی اس پر لوح لگی تھی جس پر لکھا تھا

Advertisements
julia rana solicitors

عشق جاناں.

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply