چینی کہاوت اور طلوعِ ”قمر”

سن 2006 کی بات ہے جب میں نویں جماعت میں پڑھتا تھا۔ ہمارے ماہانہ ٹیسٹ ہوتے تھے، نومبر ٹیسٹ ہوا اور میں نے کلاس کو ٹاپ کیا اور اسی اعزاز میں میرا رول نمبر 1 کر دیا گیا۔ میں بہت خوش تھا، زمین سے اٹھ کر آسمان پر اڑ رہا تھا کہ اگلے مہینے کے ٹیسٹ آئے اور میں پھر زمین پر آگرا۔ بہت پریشان اور شش وپنج میں مبتلا تھا کہ آخر ہوا کیا؟ اچانک میرا کلاس فیلو آیا اور کہا کہ ”سر! تمہیں بلا رہے ہیں”۔ میں نے ہاتھوں کو گرمانا شروع کردیا کہ اب ڈنڈے پڑنے ہیں، ڈرتا ہوا، سہمتا ہوا گیا اور ہاتھ باندھ کر کھڑا ہوگیا۔ سر ممتاز نے اوپر دیکھا اور مجھے پاس آنے کو کہا، میں جب پاس گیا تو انہوں نے نیچے بیٹھنے کو کہا۔ میں نیچے بیٹھا تو انہوں نے فرمایا ” بیٹا تم میں اہلیت ہے لیکن فراموشی اور کنٹرول بہت کم ہے”. میں نے ڈرتے ہوئے کہا” وہ کیسے سر”؟ استاد محترم گویا ہوئے اور فرمایا! ایک چینی کہاوت ہے” آزادی حاصل کرنا آسان ہے، برقرار رکھنابہت مشکل ہے”۔ یہ کہاوت اس وقت تو میرے ذہن اور سمجھ میں نہ آئی لیکن حالیہ نئے آرمی چیف کی تقرری سے یہ کہاوت بڑی حد تک سمجھ میں آرہی ہے۔ نئے چیف جنرل قمر جاوید باجوہ جن کو شائد کیانی اور راحیل شریف والی مشکلات درپیش نہ آئیں لیکن سوال یہ اٹھتا ہے کہ آپریشن ضرب عضب سے حاصل کی گئی آزادی کو باجوہ صاحب برقرار رکھ پائیں گے؟ کیا ہمارے نئے سپہ سالار کراچی آپریشن کو منطقی انجام تک پہنچائیں گے؟ یا پھر پنجاب میں بھی آپریشن کر پائیں گے؟
اس وقت باجوہ صاحب کو وراثت میں ملنے والے مسائل میں عسکریت پسندوں کا صفایا، افغان انڈیا گٹھ جوڑ، آپریشن ضرب عضب کی تکمیل اور پنجاب آپریشن جیسے معاملات سے نبردآزما ہونا ہے۔ نئے مسائل میں سب سے بڑا مسئلہ انڈین فوج کی بارڈر خلاف ورزیاں اور آۓ روز کی گولہ باری جس سے متعدد شہری شہید ہو چکے ہیں۔ ان تمام حالات میں شائد باجوہ صاحب کا شمالی علاقہ جات اور کشمیر بارڈر والا تجربہ قابل استعمال ہو۔ آرمی چیف جو اپنی خاموشی اور کام سے کام کی وجہ سے مشہور ہیں۔ انکی اسی خوبی کی وجہ سے انکو نمبر چار سے اٹھا کر نمبر ون پر بیٹھایا گیا۔ اب سوال یہ ہے کہ ان تمام چیلنجز کو بطور آرمی چیف کیسے حل کریں گے؟
راحیل شریف کے تین سالہ دور میں پاک فوج نے جو کامیابیاں حاصل کی ہیں قابل دید ہیں۔ راحیل شریف ایک سمت کا تعین کرکے جارہے ہیں اب نئے آرمی چیف کو انہی کی بتائی ہوئی سمت میں چلنا چاہیے۔ اس وقت پاکستان کو اندرونی اور بیرونی دونوں طرح کے دشمنوں کا سامنا ہے۔ بلوچستان میں عسکریت پسند، پنجاب میں کالعدم تنظیمیں، سندھ میں بھتہ خوری اور پختون خواہ کے مذہبی انتہا پسندوں کو کیسے نکیل ڈالنی ہے؟ اور ساتھ ساتھ بھارت کی جانب سے علیحدگی پسندوں کو دی جانے والی امداد کو کس طرح روکنا اور سد باب کرنا ہے۔ ان تمام معاملات میں جنرل باجوہ کو سیاسی مصلحت کو نظر انداز کرکے دو ٹوک پالیسی اپنانی چاہیے۔ جس پر حکومت وقت سے عمل درآمد کروایا جاۓ۔

Facebook Comments

محمود شفیع بھٹی
ایک معمولی دکاندار کا بیٹا ہوں۔ زندگی کے صرف دو مقاصد ہیں فوجداری کا اچھا وکیل بننا اور بطور کالم نگار لفظوں پر گرفت مضبوط کرنا۔غریب ہوں، حقیر ہوں، مزدور ہوں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply