• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • براہ راست اور بالواسطہ فوجی حکمرانی – معاشرہ سازی کے لئے زہر قاتل —- غیور شاہ ترمذی

براہ راست اور بالواسطہ فوجی حکمرانی – معاشرہ سازی کے لئے زہر قاتل —- غیور شاہ ترمذی

تیسری دنیا کے ممالک میں براہ راست یا بالواسطہ فوجی حکمرانی کا مظہر پاکستان کے علاوہ لاطینی امریکا، ایشیاء اور افریقہ کے کئی ممالک میں بھی موجود رہا ہے– ان ممالک میں ارجنٹائن، برازیل، چلی، برما، انڈونیشیا، تھائی لینڈ، گھانا، نائیجیریا اور یوگنڈا جیسے ممالک شامل ہیں۔ فرق یہ ہے کہ دوسرے ممالک نے فنر، جانووٹز، ہنٹنگٹن اور دیگر سکالرز کی ایک نسل کے فلسفوں سے اخذ کردہ سول-ملٹری تعلقات کی تطہیر کرتے ہوئے ملک میں حقیقی جمہوری نظام قائم کرنے کی طرف تیزی سے کوششیں کی جبکہ ہم آج تک یہی طے نہیں کر سکے کہ آزادانہ جمہوری نظام اور اسٹیبلشمنٹ حمایت یافتہ ٹیکنو کریٹس کے نظام کے بیچ پھنسے ہوئے ہیں-

ایک بڑی حقیقت یہ بھی ہے کہ آنے والی نسلیں پاکستان کی تاریخ پر ہماری اور ہم سے پچھلی نسلوں کا مذاق ضرور اڑائیں گی کیونکہ بدقسمتی سے ہم اپنی نسلوں کو زمینی حقائق پڑھانے کی بجائے مقتدر طاقتوں کو فرشتہ ثابت کرنے کی “من تورا بگویم تو مرا حاجی بگو” کی گردان پڑھا رہے ہیں- کیا یہ سچ نہیں ہے کہ مطالعہ پاکستان پر مشتمل ہماری نصابی تاریخ اقتدار پر فوجی قبضوں، آئینی بحرانوں، منتخب اسمبلیوں کی بدعنوانی کے جعلی الزامات پر برطرفیوں اور ریاست کی تشکیل نو کے لئے کی گئی خود ساختہ اصلاحی کوششوں پر مشتمل ہے-

میجر جنرل اسکندر مرزا کے 23 مارچ 1956ء کو لگائے مارشل لاء سے شروع  کرتے ہوئے, جنرل ایوب خاں, جنرل یحیی  خاں سے ہوتے ہوئے 1970ء کی دہائی کے آخری تین (3) سال اور 1980ء کی دہائی تک پہنچیں تو نام نہاد نجات دھندہ آرمی چیف اور بزور طاقت بنے صدر جنرل ضیاء الحق کا دور ہماری جمہوری تاریخ کا سیاہ ترین دور ثابت ہوتا ہے- اسی آرمی چیف نے میاں نواز شریف کو گود لے کر اقتدار کی اگلی پیچیدہ منزلیں کیسے طے کیں, یہ کل کی کہانی لگتی ہے- کیا ہماری مطالعہ پاکستان والی تاریخ میں نئی نسل کو یہ پڑھانا ضروری نہیں کہ جنرل ایوب کو قائد اعظم محمد علی جناح رح نے فوج سے برطرف کرنے کے احکامات دئیے تھے مگر اس کا تبادلہ مشرقی پاکستان کرکے اسے بچایا گیا اور پھر اسی جنرل ایوب نے طاقت کے زور پر سول حکومت میں باوردی وزیر دفاع کا عہدہ حاصل کرکے دنیا میں انوکھی تاریخ رقم کر دی-

کیا 1990ء کی دبائی میں بےنظیر بھٹو شہید اور میاں نواز شریف کے بیچ حکومتی میوزیکل چئیر کا ڈرامہ نئی نسل کو نہیں پڑھایا جانا چاہئے کہ کیسے جنرل (ر) حمید گل, جنرل (ر) اسد درانی اور جنرل (ر) اسلم بیگ سیاسی و جمہوری حکومتوں کو گرانے اور بنانے کے لئے عوامی وسائل کا بےدریغ اور آزادانہ استعمال کرتے رہے- پھر کمانڈو جنرل (ر) پرویز مشرف کا ڈنڈا اور بےنظیر بھٹو شہید کی موت اور آج تک ان کے قاتلوں کا تعین نہ ہو سکنا مطالعہ پاکستان کا حصہ نہیں ہونا چاہئے-

کیا نئی نسل کے لئے یہ جاننا بھی ضروری نہیں کہ پانامہ اوراقامہ کی حقیقت کیا ہے۔ یہ سینکڑوں, ہزاروں اربوں روپے کی کرپشن کے قصے, کہانیاں جھوٹی ہیں- اگر یہ سب سچ ہے تو اسے نئی نسل کو مطالعہ پاکستان کے نصاب میں پڑھنے کے لئے شامل کر دیجئیے مگر ساتھ ساتھ کمانڈو جنرل (ر) پرویز مشرف کے چک شہزاد سے لے کر دبئی اور لندن تک کی پراپرٹیز کو بھی عیاں کیجئیے اور جنرل (ر) اشفاق پرویز کیانی کے بھائیوں کے کاروبار کی بھی خبریں بیان کر دیجئے۔

ستر (70) سال سے اسٹیبلشمنٹ ملک میں اپنی مرضی سے بہت کچھ کھیل چکی اور براہ راست اور بالواسطہ حکمرانی کے سارے طریقے آزما چکی ہے- ان ستر (70) سالوں کے بعد اسٹیبلشمنٹ یہ تو بہت اچھی طرح جان چکی ہے کہ اب براہ راست مارشل لاء کی ضرورت نہیں رہی بلکہ کسی کو بھی مہرہ بنا کر اپنے مقاصد پورے کئے جاسکتے ہیں- سیاستدانوں نے کرپشن کے جو ریکارڈ قائم کئے اس نے اسٹیبلشمنٹ کو ان سیاستدانوں کو اپنی مرضی کے مطابق موڑنے کی ڈور تھما دی ہے- سیاستدانوں پر اسٹیبلشمنٹ کے اسی کنٹرول نے اصلی کی بجائے منتخب اور من چاہے احتساب کے نام پر فیصلہ سازوں اور اسٹیبلشمنٹ کا گورکھ گٹھ جوڑ پیدا کر دیا ہے جو عوام کےحلق میں ٹھونسا جا رھا ہے۔ مسئلہ اگر کرپشن کی حد تک ہی ہوتا تو پھر کرپشن تو پی ٹی آئی اور اس کے حلیفوں نے بھی رَج کر کی ہے لیکن احتساب کا ڈنڈا ادھر نہیں چلتا؟ پس ثابت ہوا کہ مسئلہ کرپشن کا نہیں بلکہ کرپشن کے مال کی بندر بانٹ کا ہے جس میں سے اسٹیبلشمنٹ اپنا حصہ بقدر جثہ مانگتی ہے-

Advertisements
julia rana solicitors

کیا پاکستان میں آج عملاً بالواسطہ مارشل لاء نافذ ہے؟ اور کیا عدلیہ کا ایک مخصوص حصہ اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھوں کھلے بندوں استعمال ہو رہا ہے اور خوش فہمی یہ ہے کہ احتساب ہو رہا ہے؟ یہ وہ سوالات ہیں جو آج ہر گلی, محلہ کی سطح پر عامہ الناس میں زیر بحث ہیں؟ اب تو عام لوگوں میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ ملک کی عدلیہ جیسے اہم اور عزت دار ادارہ کو ربڑ اسٹمپ کی طرح استعمال کرکے اس کو تہس نہس کر رہی ہے۔ صرف “ن” لیگ اور پیپلز پارٹی کے لیڈران ہی نہیں بلکہ اب تو عام لوگ بھی کہہ رہے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ نے ایک دفعہ پھر ایک سیاسی نابالغ کو گود لیا ہوا ہے- رائج الوقت مطالعہ پاکستان کی بجائے اصلی تاریخ پڑھتے ہوئے ماضی سے اگر سبق سیکھا جائے تو ہر سیاسی نابالغ کا انجام اظہرمن الشمس ہے کیونکہ تاریخ کا اصلی سبق یہی ہے کہ جو قومیں اپنا وجود باقی رکھنا چاہیں ان کو اصلی جمہوریت کی طرف آنا ہی پڑتا ہے- یہ یاد رہے کہ عوام بہت دیر تک بدعنوان سیاسی اور اسٹیبلشمنٹ کے زیر اثر قوتوں کے ہاتھوں بےوقوف نہیں بنتے رہیں گے- اور جس دن بھی عوام اس سوال کا جواب ڈونڈھ لیں گے, اسی دن ان کےحالات بدلنا شروع ھو جائیں گے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply