میں زہر ہلاہل کو کبھی کہہ نہ سکا قند۔۔۔ سعدیہ سلیم بٹ

پیالی میں طوفان اتنا شدید تھا کہ لگتا تھا سب کچھ اس طوفان کی زد میں بہہ جائے گا۔ لیکن تھم ہی گیا۔
میرے ناقدین سر آنکھوں پر۔ لیکن کچھ حامیوں کا مشورہ تھا کہ اس طوفان کی مکمل سرگزشت کو ایک مکمل دستاویز کی شکل دی جائے۔ سو اس کو بلاگ کی شکل میں مرتب کر رہی۔ جنہوں نے طوفان اٹھانا ہے وہ نہ پڑھیں کیونکہ یہاں نیا کچھ بھی نہیں۔ یہاں کی گئی باتوں پر آپ واویلا کر چکے۔
یہ کہانی شروع عامر لیاقت کی بیٹی کی ٹویٹ سے ہوئی۔ ایک وال پر عامر لیاقت کی بیٹی کا ٹویٹ پوسٹ تھا۔ جس میں عامر لیاقت کی بیٹی نے اپنے گھر کے پوتڑے سر بازار دھوئے تھے۔ اس پوسٹ پر عامر لیاقت کو اور دوسری شادی پر کافی کچھ سننا پڑا۔ میری غلطی وہاں تھی کہ میں نے اس پوسٹ کو کمنٹ کر دیا۔ وہاں سے بات بڑھ گئی اور بحث شروع ہو گئی۔ وہاں میں غلط تھی۔ مجھے نظر انداز کر دینا چاہیے تھا لیکن میرے سامنے کچھ حقائق تھے۔ جو مجھ سے غلطی کروا گئے۔ ہم میں موجود ایک بڑے نے کہا کہ بات اب دلائل سے نکل کر مباحثے کی طرف جا رہی ہے۔ اس لیئے اب گفتگو روک دی جائے۔ میں خاموش ہو کے نکل آئی۔ لیکن چند لمحوں بعد ایک اور مکمل پوسٹ لگی۔
میں نے کوشش کی گزارنے کی۔ لیکن اب حقیقتیں میرے پیر سے لپٹ گئی۔ کچھ گھنٹوں کی جنگ کے بعد حقیقتیں جیت گئیں۔ اور انیس نومبر کو میں نے اس سلسلے کی پہلی پوسٹ لکھی۔ پوسٹ نہیں تھی شاید اعلان جنگ تھا۔ میں نے قرآن کی آیت کے حوالے دئیے تھے تاکہ خواتین دوسری شادی پر جو لعن طعن کر رہی ہیں وہ سمجھیں کہ یہ حرام نہیں ہے۔ لیکن مجھے نہیں معلوم تھا کہ اب قرآن کی وہ حیثیت نہیں ہے۔ علم بہت آگے جا چکا ہے۔
میرے سامنے حقائق کیا تھے؟
میں شاید اٹھارہ سال کی تھی تو مجھے پہلی بار ایک دوسری بیوی سے ملنے کا اتفاق ہوا۔ شوہر اس سے ملنے آتا تو سارے محلے کی عورتیں منہ میں پلا دبا کے دروازوں کی جالیوں میں کھڑی ہو جاتی اور باتیں کرتی۔ بھائی چھوٹے تھے لیکن انہیں بر لگتا کہ یہ کیا طریقہ ہے۔ وہ بیوی ہے اس کی۔ کوئی اس نے رکھیل تو نہیں رکھی ہوئی یہاں لا کے۔ مجھے پہلی بار معلوم ہوا کہ دوسری بیوی ہونا کیسا تماشہ ہو سکتا۔
میری ایک عزیز کے عزیز (باپ / بھائی / بیٹا میں درست رشتہ چھپانے کی غرض سے مکمل نہیں لکھ رہی) دوسری شادی کرنا چاہتے تھے اور وہ کسی عامل کا پتہ ڈھونڈ رہی تھی۔ بات چیت پر میرے کانوں نے سنا ہاں ٹھیک ہے جائز ہے لیکن دنیا کو بھی دیکھنا ہوتا۔ اب بندہ اس دور میں ہر جائز کام کرنے تو نہیں بیٹھ سکتا۔
میری ایک اور عزیز کے شوہر نے دوسری شادی کی تو وہ غریب پاگل پن کے مقام پر تھی کہ دنیا میرے بارے میں کیا کہے گی کہ میرے میں کیا کمی تھی۔
میرا مقصد یہ ہر گز نہیں تھا کہ جا کے ہر مرد کو کہوں کہ اٹھو اور دوسری بیوی لاؤ۔ میرا مدعا یہ تھا کہ جس نے کر لی ہے اس کی زندگی کو نارمل بنایا جائے۔ اس فیملی کے بچوں کو اس احساس کمتری سے نکالا جائے کہ ان کی زندگی میں کچھ ایسا ہے جو شرمناک ہے۔ ایسی پہلی بیویاں جو کہ خود ترسی ہے اندھیروں میں جا گری ہیں انہیں اس اندھی کھائی سے نکالا جائے کہ یہ کوئی دھبہ نہیں ہے جس پر شرمسار ہوا جائے۔ وہ دوسری بیویاں جو لوگوں میں آنے سے گھبراتی ہیں کہ ہر کوئی دشنام کے نشتر لیئے ملتا ہے، ان کی زندگی کو آسان کیا جائے۔
کیا ہر مرد دوسری شادی کرتا ہے؟
ہر مرد دوسری شادی نہ تو کرنا چاہتا ہے اور نہ کر سکتا ہے۔ شادی کوئی مذاق نہیں ہے کہ اٹھے اور کر لی۔ زوجین کا رشتہ یک جہتی رشتہ نہیں ہے۔ اس کی ہمہ گیریت سے انکار صاحب عقل کے لیئے ممکن نہیں۔ کچھ مردوں کے معاشی حالات ایسے نہیں تو کچھ کو ضرورت نہیں کہ دوسری شادی کریں۔
اس کے باوجود مرد اگر سمجھتا ہے کہ دوسری شادی اس کی ضرورت ہے (اور یہ صرف انسان خود سمجھ سکتا ہے۔ کوئی دوسرا اسے ڈکٹیٹ نہیں کر سکتا) اور وہ دوسری شادی کر لیتا ہے تو اس شادی پر اسے لعن طعن نہیں کی جا سکتی ہے۔
ایک انسان جو آپ کی ہر ضرورت پوری کر رہا ہے اور آپ کو خوش رکھ رہا ہے اور وہ آپ کا حق نہیں مار رہا تو اگر اسے اپنی خوشی کے لیئے کسی کی ضرورت ہے تو اسے یہ حق اللہ نے دیا ہوا ہے۔
مرد کیوں صحیح وجہ نہیں بتاتا:
مرد دوسری شادی کی درست وجہ اس لیئے نہیں بتاتا کہ اس میں پہلی بیوی کی دل شکنی ہے۔ اس لیئے وہ الزام در الزام لیئے جاتا ہے لیکن سچ چھپانے کی کوشش کرتا ہے۔ اگر کوئی بول دے تو بےوفا کے علاؤہ بھی بہت کچھ ہو جاتا ہے۔
مرد پہلی بیوی کو چھوڑتا کیوں ہے؟
ایسا مرد جو دوسری شادی کے بعد پہلی بیوی سے بالکل hands off ہو جائے اس کی وجہ سادی سی ہے کہ وہ ذہنی طور پر اس کے ساتھ نہیں رہ گیا ہوا۔ اب یہ اس عورت پر منحصر ہے وہ کیا فیصلہ لے۔ چاہے تو مرد کو چھوڑ دے چاہے تو نام برقرار رکھے۔ یہ فیصلہ لینے کا حق شریعت عورت کو دیتی ہے۔ اگر تو عورت سمجھتی ہے کہ اسے خلع لیکر دوبارہ گھر بسا لینا چاہیے تو اسے فورا ایسا کر لینا چاہیے۔ اگر وہ ایسا نہیں کر سکتی تو پھر اپنے گھر کا ماحول خراب ہونے سے بچانا اسی کی ذمے داری ہے۔
کیا عورت بچوں کی جنگ لڑ رہی ہوتی ہے؟
عموماً جو عورت بچوں کی جنگ لڑ رہی ہوتی ہے وہ بہت جلد اپنے پیر پر کھڑی ہو جاتی ہے تاکہ بچوں کو سنبھال سکے۔ بچے نہ صرف مرد کے ہوتے ہیں نہ صرف عورت کے۔
یہاں سے آگے میں وہ سب دلائل جمع کر رہی ہوں جو مجھے اپنی پہلی پوسٹ کے بعد مجبورا ایک کے بعد ایک دینے پڑے کیونکہ ہر کوئی قرآن کو اپنے مفاد کے لیئے استعمال کر رہا تھا۔
میرے پر لگائے جانے والے الزام اور میرے دلائل کو لیکر مجھ سے منسوب غلط بیانیاں میں نے سب دیکھی ہیں۔ میں ان کو بحث میں لانا مناسب نہیں سمجھتی۔ جو لوگ اللہ کے حکم کو عورت پر ظلم، خرافات، مردوں کا دین وغیرہ کہتے رہے ہیں، میں کون ہوں اور کیا ہے میرا داغ قبا بھی۔ صرف ایک حنیف ڈار صاحب کو لیکر جو مجھے ایک طعنہ دیا گیا اس کا جواب دوں گی لیکن وہ اس کالم کے آخر پر۔
انیس نومبر کی پوسٹ
دنیا تیرے مزاج کا بندہ نہیں ہوں میں۔۔۔
آپ کو احکام الٰہی سے مسئلہ ہے تو آپ اپنا مسلمانیت کا لبادہ اتار پھینکیں۔ کھل کے سامنے آئیں کہ ہم اللہ کے فلاں فلاں حکم کے منکر ہیں۔ کیونکہ ہماری عقل اور سمجھ اور تجربہ نعوذ باللہ اس معاملے میں اللہ سے زیادہ ہے سو ہمارے مطابق تو یہ ایسے ہی ہونا چاہیے۔ باقی رہا اللہ کا حکم تو وہ ہم نہیں مانتے کیونکہ ہمارے مفادات سے متصادم ہے۔ اپنا اسلام بنانے تک تو جائز تھا لیکن اپنے اسلام کو عین اسلام ثابت کرنا کہاں کا انصاف ہے۔ حیرت ہے کہ کسی انسان سے نہیں، اللہ سے مقابلہ ہو رہا اور ہر دوسری وال پر ہو رہا۔ کس کس اہانت کو رویا جائے۔ میرے پاس اب کوئی راستہ نہیں بچا سوائے اس کے کہ ہر اس دوست سے کنارہ کیا جائے جو احکام الٰہی کے مقابلے میں دلائل و بحث کے انبار لگا رہا۔ مسئلہ فتویٰ کا نہیں ہے۔ آپ کی مسلمانی آپ کو مبارک لیکن میری طبیعت میں اتنی لچک نہیں ہے۔
دوسری شادی اور عدل:
دوسری شادی میں اللہ نے مرد کو پابند کیا ہے تو صرف انصاف کا۔ انصاف تبھی ہو گا جب دوسری بیوی ہو گی۔ پہلی تو ویسے ہی پردھان ہوتی۔ مرد انصاف نہ کر سکے تو وہ بیوی جس کا حق مارا جائے اسے حق ہے کہ خلع کے لیئے جائے۔
انصاف ہو گا یا نہیں، یہ شادی کے بعد ہی پتہ لگ سکتا۔ شادی ہوئے بغیر انصاف کا واویلا پرو ایکٹو اپروچ ضرور ہے اور کچھ نہیں۔
انصاف نہ کرنے پر بھی کہا گیا کہ نہیں کر سکتے تو بیوی نہ رکھو۔ کنیزوں پر پابندی نہیں۔
قرآن تو یہی بتاتا۔
قرآن یہ بھی نہیں کہتا کہ کسی بوڑھی سے اپاہج سے کرو۔ آیت کہتی کہ جو بھلی لگے اس سے کرو۔
اس کے علاؤہ سب شرائط عورتوں یا فیمنزم کے ماروں کی ہیں۔ اللہ کی نہیں۔
تئیس نومبر کی پوسٹ
زمانہ طالب علمی میں سورۃ الاحزاب کا ترجمہ اور تفسیر نصاب کا حصہ تھی۔ سورۃ الاحزاب میں اللہ تعالیٰ نبی پاک پر ایک کڑے امتحان کا ذکر کر رہے ہیں۔
حضرت زید جو کہ نبی پاک کے منہ بولے بیٹے تھے، ان کی اپنی بیوی سے طلاق ہونے کے بعد حکم دیا گیا کہ اب نبی پاک ان کی مطلقہ سے شادی کریں۔
قرآن کا اسلوب بتاتا ہے کہ اللہ پاک کو نبی پاک کو باقاعدہ ہمت دینی پڑی کہ اللہ سے ڈرو اور لوگوں سے نہیں ڈرو۔ کیونکہ اس معاشرے میں یہ رواج نہیں تھا۔ منہ بولے بیٹے کو اصل بیٹے کے مکمل حقوق حاصل تھے۔ اور اس کی بیوہ یا مطلقہ سے شادی ناممکن تھی۔ اللہ کو یہ اصول تڑوانا تھا۔ سو مکمل اختیار سے نبی پاک کو حوصلہ دیا۔ اللہ کے الفاظ وہاں جو ہیں، ان کا ترجمہ یہ ہے کہ اللہ کا حق ہے س سے ڈرا جائے۔ ایک آیت کہتی ہے مسلمان وہ ہیں جن کے لیئے اللہ یا رسول  کسی بات کا فیصلہ کر دیں تو وہ تنگ دل نہیں ہوتے۔ اسی قرآن کا فیصلہ ہے کہ یہ ہر زمانے کے لیئے ہے۔ ہم تو خیر اللہ کی باتوں سے ویسے ہی خائف مسلمان ہیں۔
پچھلے دنوں جب عامر لیاقت پر ایک طوفان برپا ہوا، سب اپنی اپنی پٹاری کھولے آ گئے۔ میرے مسائل یہ ہیں کہ میں دیں و دنیا میں بٹی بندی نہیں ہوں۔ میرا دل اس بات پر ثابت ہے کہ اللہ کی دی اجازت اور اللہ کا دیا حکم بہترین ہے۔ اور جہاں اللہ کا فیصلہ موجود ہو، وہاں زبان کھولنا کم از کم ایک مسلمان کو جائز نہیں۔ میں اسے بلازفیمی سمجھتی ہوں۔ سو میں بھی قرآن کی انگلی پکڑے آ گئی کہ نہیں ایسا تو نہیں ہے جیسا سب کہہ رہے ہو۔ اللہ تو یہ کہتا۔
ایک طوفان برپا ہوا پڑا ہے۔ عورتوں کو اپنے شوہروں کی فکر ہے۔ کسی کو وسائل کا رونا یاد آ گیا ہے۔ کوئی اس پر پریشان ہے کہ فیملی ٹوٹ جائے گی بچوں کا کیا ہو گا۔ ایسے میں ظاہر ہے میری ذات طنز سے ماوری کیسے جا سکتی تھی سو ہو رہے۔
بت ٹوٹ رہے ہیں۔ لوگ کھل رہے ہیں۔ میں پڑھ سب رہی ہوں۔ جواب کسی کو نہیں دے رہی۔ میری مخالفت میں جو لوگ اللہ کی حکمت کا رد اپنی عقل سے کر رہے ہیں، ان پر ہنسا ہی جا سکتا۔ لکم دینکم ولی الدین ہر چیز کا فیصلہ کر چکا۔
دین کو لیکر ہم میں سے کوئی بھی ایسا نہیں جو سو فیصد مانتا ہو۔ ہماری وہ تربیت ہی نہیں۔ میں بھی غلطیوں سے ماوری نہیں لیکن دین کا حق یہ ہے کہ جو چیز ہماری طاقت سے باہر ہو اس پر اللہ سے عاجزی سے دعا کریں کہ ربنا ولا تحملنا ما لا طاقۃ لنا به نہ کہ اکڑ جائیں کہ فلاں حکم منسوخ اور فلاں حکم مشروط ہے۔ اور اگر ہم ایسا کریں تو اللہ کو کیا فرق پڑتا۔
مزے کی بات اللہ تو اللہ، جنہوں نے کرنی ہے، ان کو بھی کیا فرق پڑتا ہے۔ فرق کس کو پڑ رہا، ذرا سوچیئے!

چوبیس نومبر کی پوسٹ:
کیا اسلام روایت شکن نہیں:
دوسری شادی کو لیکر سب سے بڑا عذر آج کل کی خواتین یہ پیش کرتی ہیں کہ عرب میں کلچر تھا۔ وہاں یہ معیوب نہیں تھا۔ لیکن برصغیر میں کلچر نہیں ہے۔
کیا کلچر یا علاقائی تمدن اسلام کے منافی ہو سکتا؟ چونکہ اسلام کو قیامت تک کے لیئے ضابطہ حیات بنایا جانا تھا تو اللہ نے اس کی فطرت میں لچک رکھی۔ اس کو اتنا absorbent بنایا کہ یہ چھوٹی چھوٹی چیزوں کو ضم کر سکے۔ ساتھ ہی اجتہاد کا دروازہ کھلا رکھا گیا تاکہ ہر دور کر علماء اپنے زمانے کے حساب سے اس کے قوانین کو بنیاد سے ہٹائے بغیر اپنے وقت کے حالات پر نافذ کروا سکیں۔ اسلام سے پہلے مذاہب میں اکثر مذہب سے قریب لوگ رہبانیت کی طرف جاتے تھے۔ دین فطرت نے اس کو منسوخ کیا کہ انسان ضروریات کے ساتھ پیدا کیا گیا ہے۔
اب ایسا نہیں ہو سکتا کہ اسلام کسی علاقے میں جائے تو وہاں کی بےضرر خوشیوں کو چھیڑ دے۔ اگر اس علاقے کے لوگ اگر کوئی خوشی کا موقع منعقد کرتے ہیں تو اس کو روک دے۔ البتہ ہر چیز کے لیئے ایک ڈومین واضح کر دی۔ مثلا اسلام سے پہلے کعبتہ اللہ کے برہنہ طواف کی رسم تھی۔ اسلام نے اس رسم کے خلاف آواز اٹھائی۔ اسلام سے پہلے بچیوں کو ژندہ درگور کرنے کا رواج تھا، اسلام نے منع کیا۔ کل ہی ذکر کیا کہ سورۃ الاحزاب میں اس وقت کی ایک بہت بڑی رسم کا بت توڑا گیا اور وہ اس قدر بھاری تھی کہ اللہ کو نبی پاک کی بارہا ہمت بڑھانی پڑی۔ کیا عرب کا معاشرتی جس میں بت پرستی کا کلچر تھا، وہاں اسلام کی دعوت دینا روایت شکنی نہ تھی؟ اللہ کا دین جس بھی معاشرے میں گیا، وہاں کی غلط رسوم سے ٹکر لیتا۔ حضرت محمد محترم تو انبیاء کے سر کا تاج ہیں ہی، ان سے پچھلے انبیاء بھی رسوم شکن تھے۔ کیا قوم لوط میں ہم جنسی کا رواج نہ تھا؟ کیا مدین میں کم تولنے کا رواج نہ تھا؟
تو یہ کہنا کہ چونکہ اب یہ ہمارے معاشرے کا رواج نہیں ہے، کسی بھی چیز کے ناجائز ہونے کی بنیاد نہیں۔ دین مکمل ہو چکا ہے اور وہ مکمل ہی رہے گا۔ معاشرے کی جو رسم دیں سے متصادم ہو گی، وہ غلط ہی رہے گی۔
آج معاشرے میں ہم جنس پرستی بھی ہو رہی، شراب نوشی بھی ہو رہی، زنا بھی ہو رہا، اگر معاشرے میں کسی چیز کی قبولیت نہ ہونے کی وجہ سے وہ چیز حرام ہو گئی تو پھر معاشرے میں کسی چیز کی قبولیت آنے پر اسے حلال بھی سمجھنا ہو گا؟
میں یہ بتا دوں یہاں آ کے میں رک گئی تھی۔ لیکن جس وال سے بات شروع ہوئی وہاں دوبارہ دوسری شادی پر ایک پوسٹ ہوئی۔ میں اگنور کر گئی۔ لیکن وہاں ایک خاتون نے بلا اشتعال بدتمیزی شروع کی۔ میں نے ان کو کہا کہ میں اس بار آپ کو یہاں جواب نہیں دوں گی۔ لیکن اب جب جواب لکھے تو پھر تفصیلی لکھوں گی۔ لیکن جب وہ دلائل میں گرتے ہوئے سرخ لائن کراس کر گئیں تو پھر آٹھ دسمبر سے میرے دلائل کا ایک نیا سلسلہ شروع ہوا:
دوسری شادی اور ٹھرک:
ہم میں کامن ترین تبصرہ ہے کہ دوسری شادی کرنے والے مرد ٹھرکی ہوتے ہیں۔ چونکہ زمانہ ایسا ہے کہ دوسری شادی کو ذلیل کرنا فیشن میں ہے اور فیمنزم کا دور دورہ ہے تو ہم سب ہی اس بیانیے کو قبول کیے بیٹھے ہیں۔ بعض دفعہ کچھ چیزوں کو سوچنے بیٹھیں تو حقیقت مختلف نکلتی ہے ۔
سب سے پہلی بات: شادی پہلی ہو دوسری ہو تیسری ہو یا چوتھی، کس کا بھی مقصد عورت کو بہن اور مرد کو بھائی بنانا نہیں ہوتا۔ ہر شادی میں underlying مقصد ایک ہی ہوتا ہے۔ افزائش نسل اور ساتھ کا حصول۔
میں اگر دماغی صحت مند لوگوں کے معاشرے کی بات کروں تو عورت شادی کر کے upper edge پر آ جاتی ہے۔ کیوں؟ کیونکہ شرعی طور پر اس کو ایک نان نفقہ لباس اور چھت مہیا کرنے کا ذمے دار میسر ہو جاتا ہے۔ اولاد کا سلسلہ چل نکلتا ہے۔ ایک گھر کی مالکن وہ بن جاتی ہے۔ ذمے داریاں بلا شبہ اس پر پڑتی ہیں لیکن اس کا حصول بھی لمبا چوڑا ہے۔
مرد جو کہ خود محدود ضروریات رکھتا ہے، وہ شادی کر کے اپنے پر ایک کنبے کی معاشی ذمے داری اٹھاتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی اس پر دہرا بوجھ پڑ جاتا ہے۔ اسے اپنے ہی گھر میں رہ کر بیوی اور اپنے ماں باپ بھائیوں کے درمیان عدل قائم کرنا ہے۔ اکثر اپنے کنبے اور اپنے ماں باپ کے کنبے کی ذمے داری اٹھانی ہے۔
یہ چھوٹی سی بات بھی یہ دکھا دیتی کہ مرد کے لیئے شادیbed of roses نہیں ہے کہ وہ ایک کے بعد ایک کرتا چلا جائے۔
اگر مرد ٹھرکی ہے اور صرف ہوس اور حرص ہی اس کا مطمع نظر ہے تو اسے شادی بالکل نہیں کرنی چاہیے۔ ٹھرک پوری کرنی آج کے زمانے میں اس قدر آسان ہے جس قدر آسان آج کل روٹی کمانا نہیں ہے۔ یہ فیس بک اور موبائل ہی کافی ہے۔
ایسے میں اگر ایک شخص مکمل ذمے داری اٹھا رہا ہے اور عزت سے نکاح کر کے پہلے کنبے کے ساتھ ساتھ ایک اور وجود اور اسے آنے والے ممکنہ خاندان کا بوجھ اٹھا رہا ہے تو ایسے مرد کو ٹھرکی یا ہوس کا پجاری کہنا ناانصافی ہے۔
غلط وہاں ہوتا ہے جب دوسری کے آنے پر پہلی کو پھینک دیا جائے۔ یا پہلی اور دوسری میں وسائل کا عدل نہ ہو۔ دل پر بہرحال پکڑ نہیں۔
نو دسمبر کی پوسٹ
دوسری شادی – غلطی کہاں پر:
ہمارا مزاج ایسا بنا دیا گیا ہے کہ دوسری شادی کا لفظ سنتے ہی ایسا لگتا ہے جیسے کوئی بم پھٹ گیا ہے۔ کوئی قیامت آ گئی ہے۔ ہمیں انسانوں پر ملکیت کا سبق ایسا رٹا دیا گیا ہے اور مرد اور عورت کی برابری کی ایسی پٹی پڑھائی گئی ہے کہ اب دین کا ریگ مال بھی کام نہیں کرتا۔
ہوتا یہ ہے کہ مرد دوسری شادی کرنا چاہتا ہے۔ اس کی پہلی کوشش ہوتی ہے پہلی بیوی کو پتہ نہ لگے۔ وجہ: اوپر دیا گیا پیراگراف اس کی وجہ ہے۔ وہ طوفان کھڑا ہوتا ہے کہ الامان الحفیظ۔ مرد عموما دوسری شادی اپنی زندگی کی lost fantasies کو revive کرنے کے لیئے کرتا ہے۔ ایسے میں ظاہر ہے وہ فساد سے حتی الامکان گریز کرنا چاہتا ہے۔
پہلی بیوی سے مرد خود جا کے پوچھے تو ایک فساد ہے۔ پہلی بیوی کو باہر سے پتہ لگے وہ ایک اور طرح کا عذاب ہے۔ مرد کے ایک حلال راستے کو جب مسدود کیا جائے تو پنجابی میں کہتے ہیں وگدا پانی اپنی راہ آپ ہی لب لیندا اے۔ نتیجہ concealed marriages. (ایک عورت کیوں ان پر راضی ہوتی ہے، یہ اگلی بار)
ظاہر ہے کوئی عورت ہی ایسی ہو گی جو خود جا کے اپنی سوکن بیاہ کے لا سکے۔ لیکن یہ بھی یاد رکھیں کوئی عورت ہی ہو گی جو مرد کو اس کی آئی سے باز رکھ سکے۔
اب آنے والی آ جاتی ہے تو دو میں سے ایک کام ہوتا ہے:
یا آنے والی آ کے اپنے نئے ہونے کا فایدہ اٹھاتی ہے۔ اس کی کوشش ہوتی ہے مرد سے جو کچھ بھی اپنے نام کروا سکے کروا لے۔ فٹا فٹ بچے پیدا ہو جائیں۔ جیسے ہی وہ کسی مضبوط پوزیشن میں آتی ہے وہ پہلی والی کا حقہ پانی بند کروا دیتی ہے۔
دوسری صورت میں (گو کہ یہ کم ہی ہوتا ہے) پہلی والی اپنے بچوں اور خاندان کا رعب لیکر چڑھ جاتی ہے۔ وہ اگلی والی کو ذلیل بھی کرتی ہے۔ طعنے بھی دیتی ہے۔ اپنے بچوں کو بھی استعمال کرتی ہے۔ اور کوشش کرتی ہے کہ شوہر کے وقت اور اخراجات میں ایسی نقب زنی کرے کہ اگلی آنے والی ہمہ وقت فساد برپا کرے۔
مرد کتنے ہی عقلمند ہوں، عورت کہ سیاست سے نابلد ہے۔ وہ اپنی طرف سے انصاف کرنا بھی چاہے لیکن دو میں سے ایک اسے ایسا کرنے نہیں دیتی۔
مجھے دکھ اس بات کا ہوتا ہے کہ ہر دو طرف میں مرد کو انسان کوئی نہیں سمجھ رہا ہوتا۔ دونوں طرف اقتدار کی جنگ اور وسائل کی کشاکش ہوتی ہے۔ کیا واقعی ہمارے لیئے ہمارے مرد پیسہ بنانے کی مشین رہ گئے ہیں؟ ہماری لامحدود خواہشوں اور ضرورتوں کی دستیابی کے لیئے ہم وقت گھومنے والا رہٹ کا بیل؟
دس دسمبر کی پوسٹ
معزز خواتین میری وال پر اور جہاں جہاں میری پوسٹ شیئر ہوئی ہے وہاں دوسری شادی کی اجازت کو جن شرائط سے مشروط کر رہی، بنی اسرائیل یاد آ رہے جن کو اللہ نے گائے کی قربانی کا کہا تو کہنے لگے قد کیسا ہو، رنگ کیسا ہو، نسل کیسی ہو۔
اللہ نے بنی اسرائیل کے لیئے کہا تھا کہ وہ تقریبا نہیں چاہتے تھے کہ انہیں یہ قربانی کرنی پڑے۔
میں نے کچھ دن پہلے بھی کہا تھا جو آزادی اللہ نے دی ہے اسے کوئی سلب نہیں کر سکتا۔ نہ ہی انصاف کے علاؤہ کوئی شرط رکھی گئی ہے۔ اور یہ اجازت بھی ہے کہ اگر بیوی اپنے کوئی حق معاف کر دے تو شوہر پر اس کی پکڑ نہیں۔
ہر مرد دوسری شادی نہیں کرتا۔ لیکن جو اس حق کو استعمال کرے، وہ بالکل بھی مصلوب یا معتوب ہونے کا سزاوار نہیں۔
دس دسمبر دوسری پوسٹ
مرد دوسری شادی کیوں کرتا ہے؟
جس سوال کا جواب بتانے کا پابند اللہ اور شریعت نے نہیں بنایا، اس سوال کا جواب کیوں مانگتے ہیں ہم؟
اللہ کی حکمت سے ٹکرانے والے لوگ  یہ نہیں سوچتے کہ اگر مرد واقعی جواز بتا کے شادی کرنے کا پابند ہوتا تو عورتوں کی کیسی تذلیل ہوتی۔ عورتیں خود مانتی بھی ہیں کہ ہم بچے، جاب، گھر کیا کیا دیکھیں۔ ہاں مرد یہ بتانے کا پابند ہے کہ اس نے اگر ایک سے زیادہ شادیاں کیں تو عدل کیوں نہ کیا۔ وہ یہ بتانے کا پابند ہے کہ وہ کانوں یا دماغ کا اتنا کچا کیوں ہوتا ہے کہ بیویوں میں سے جس کا جو دل کرتا ہے وہ اس کے دماغ میں بھرتی چلی جائے۔
کیا دوسری شادی جذبات کا بہاؤ ہے؟ حیرت ہے کہ فی زمانہ جب کہ گناہ آسان اور نکاح مشکل ہے کوئی جذبات میں بہہ کر بھی نیکی کا راستہ کیسے چن لیتا ہے؟ اور اگر یہ جذبات کا بہاؤ ہے تو مرد چھوڑ کیوں نہیں دیتے دوسری کو؟ اکثر کیسز میں تو مرد مخالفت مول لیکر بھی شادیاں چلاتے ہیں۔ کیا یہ ان کی کوئی adventurous nature ہے جو ان کو مجبور کرتی ہے کہ ہر وقت ہر ایک سے ذلیل ہوں؟
یہاں مردوں کی غلطی بھی ہے۔ وہ شادی کر کے جس طرح کے عجیب و غریب عذر پیش کرتے ہیں، ایسا لگنے لگتا ہے شادی نہیں گناہ کر کے آ رہے ہیں۔ وہ بھی عذر گناہ بدتر از گناہ والا معاملہ کر کے۔ کوئی کہتا ہے زبردستی کروائی۔ کوئی کہتا ہے میرے پیچھے پڑ گئی تھی۔ آج کل تو فیشن چل رہا کہ مجھے نشہ پلوا کے نکاح پڑھوا لیا۔ اب پتہ نہیں کون سے نشے کا ذکر کرتے۔
مردوں کو ذلیل کر کر کے ایسا بکری بنا دیا ہے کہ اب انہیں یہ یاد ہی نہیں کہ یہ ان کو دی گئی ایک مشروط آزادی ہے۔ اگر وہ بے عدل ہوئے بنا اس حق کو استعمال کرتے ہیں تو ان پر کوئی پکڑ نہیں۔ بلکہ شرعی طور پر انہیں معتوب و مغضوب کرنے والوں پر پکڑ ہے۔ پنچ لائن ایک ہے۔ وسائل اور وجود کی دستیابی کا عدل۔ اس سے آگے کوئی شرط نہیں۔
عدل کوئی ایک رویہ سڑک نہیں ہے۔ سوائے دل کی چاہت کے ہر چیز کی جواب دہی ہے۔ حکم یہ ہے کہ کسی ایک کی طرف ایسے نہ جھک جانا کہ دوسری لٹک جائے۔ اگر مردوں نے یہ راستہ چنا ہے تو یاد رکھیں اس رشتے کی عزت عدل سے بنے گی۔ آپ نئی والی کی طرف جھک گئے تو واقعی عیاشی ہے۔ آپ پچھلی والی کے گلٹ میں چلے گئے تو ظلم ہے۔
گیارہ دسمبر کی پوسٹ
اس پوسٹ کو کرنے کی وجہ یہ تھی کہ مجھے کہا جا رہا تھا کہ نبی پاک نے بھی تو بیبی فاطمہ کے ہوتے حضرت علی کو دوسری شادی نہ کرنے دی۔ میں نے اس اعتراض کا یہ جواب دیا جو نیچے ہے۔ البتہ چند دن بعد ایک بہن نے ا کے اس دلیل کو علمی طور پر رد کیا۔ وہ گفتگو اس کالم کے آخر پر دے دی جائے گی۔ اللہ اس بہن کو ایک مشکل وقت میں حق ظاہر کرنے پر جزا دے۔
پوسٹ
اہل بیت پر مخصوص احکام کو اپنے لیئے دلیل نہ بنایا جائے۔
نبی پاک کی عورتوں کو کہا گیا کہ اگر تم میں سے کوئی نعوذباللہ بدکرداری کی مرتکب ہوئی تو دگنی سزا پائے گی
نبی پاک کو کہا گیا کہ جو بیوی فقر میں گزارا کرے اسے رکھیئے باقیوں کو دنیا کی زینت و سامان دیکر رخصت کریں۔
نبی پاک کو بذات خود تیرہ شادیوں کی اجازت دی گئی۔
نبی پاک کی بیویوں سے ان کے وصال کے بعد نکاح حرام ٹھہرا
اہل بیت کو زکوٰۃ اب بھی نہیں دی جا سکتی۔
اس لیئے حضرت علی کو بیبی فاطمہ کے ہوتے نکاح ثانی نہ کرنے دینے کو تنسیخ اجازت نہ سمجھا جائے۔

کیا ایسا نہیں ہے کہ اب جواز سمٹ کر صرف “میرا جسم میری مرضی” جیسے دلائل پر آ گئے ہیں۔
مسلسل چند کمنٹ خواتین دہرا رہی ہیں۔
ایک: اگر عورت بھی دوسرا مرد لے آئے – ضرور لائے لیکن اسے اسلام یا پہلا شوہر چھوڑنا ہو گا۔
دو: عورت شوہر کی دوسری شادی کی صورت میں طلاق لینا چاہے – مرد نہ دینا چاہے تو عورت خلع ہی لے سکتی۔ خلع عورت کا حق ہے۔ خلع لیکر بھی کسی کی دوسری بیوی ہی بننا ہے تو اس کی مرضی۔
تین: عدل نا ممکن ہے – قرآن کہہ چکا ہے کہ تم کر بھی نہیں سکتے سو بس ایک کی طرف نہ جھک جانا۔
اس کے بعد پیچھے معاشی تحفظ رہ جاتا۔ وہ مانگنا عورت کا حق ہے۔ ضرور مانگے۔ لیکن معاشی تحفظ ایک ماہ کے چار چار جوڑے بنوانا نہیں ہے۔
گیارہ دسمبر کی پوسٹ:
چند ضروری وضاحتیں:
میرا پروفائل یہاں موجود ہے۔ گیارہ سال سے میں پروفیشنل لائف میں ہوں۔ بینک کی جاب ہے اور میں اس وقت الحمدللہ خود کو سپورٹ کر سکتی ہوں۔ سو پہلی بات مجھے کوئی لاچار مجبور عورت نہ سمجھیں جسے زندگی میں کوئی ملا نہیں تو اب اپنی بےبسی کا انتقام لے رہی ہے۔ میں الحمدللہ ایسی زندگی گزار رہی ہوں کہ جو جانے وہ چاہے کہ ایسی زندگی ہو۔
میں کسی عورت کو یہ نہیں کہہ رہی اپنا مرد اٹھا کے بازار میں لیجائے اور دوسری بیوی ڈھونڈے۔ قطعی نہیں۔ اوور ایکشن کی کوئی ضرورت نہیں۔
میں پہلی بیوی کو دوسری کے مقابلے میں نہیں لا رہی۔ یہ جہالت ہے۔ عورت ہر رنگ میں عورت ہے۔ خاندانی لوگ تو طوائفوں کو عزت دیتے۔ میں خاندانی عورت ہو کے دوسری خاندانی عورتوں کو پست کیوں کروں۔
میرا مسئلہ اگر یہ لگ رہا کہ مجھے تعریف یا شناخت کی بھوک ہے تو یہ میرا مسئلہ نہیں۔ میں آدم بیزار نسل ہوں۔ مجھے ضرورت نہ ہو تو میں ایک کمرے سے بھی باہر نہیں نکلتی۔ گمنامی مجھے راس ہے۔ میں نے یہاں اپنی پکچر تک کبھی خود سے نہیں دی۔ سو مجھے پچاس لوگ جان بھی جائیں تو صرف نام کی حد تک۔
میں ایک ٹیبو توڑ رہی۔ کیوں؟ کیونکہ میں نے معاشرے میں دوسری شادی کرنے والے مرد کا استحصال ہوتے دیکھا ہے۔ میں اس معاشرے کی مغرب زدگی سے بالکل متاثر نہیں ہو سکی۔ اور میں نے اس معاشرے کی گندگی کو اور منافقت کو اتنے قریب سے دیکھا ہے کہ میں اسے اگنور نہیں کر سکی۔
میں نے کسی بھی مخالف پر ذاتی حملے نہیں کیا۔ میں اکثر کو جواب بھی نہیں دے رہی۔ میں تو اس گھٹن زدہ معاشرے کے کھڑکیاں کھول رہی اور پردے ہٹا رہی۔
آپ کو کیا لگتا ہے میری پوسٹ پر لوگوں کو صرف برا لگ رہا۔ یہاں کئی ایسی دوسری بیویاں خاموشی سے پڑھ رہی ہیں جن کو پہلی بار اندازہ ہو رہا ہے کہ وہ ڈائن یا چڑیل نہیں۔ ان کا کوئی جرم نہیں۔ یہاں کئی ایسے مرد پڑھ رہے جو معاشرے میں یہ کہنے سے ڈر رہے کہ انہیں ضرورت ہے۔ گناہ اور ٹھرک کا بوجھ اٹھائے تعفن پھیلا رہے۔ ہاں انہیں ہمت ملی ہے کہ گناہ ترک کریں اور حلال کا راستہ دیکھیں۔ شاید کوئی پہلی بیوی پڑھ کے سمجھے کہ کوئی ایسا طوفان نہیں آیا زندگی میں جو وہ جینا ترک کر بیٹھی ہے۔
میں کوئی عالم دین نہیں۔ لیکن مجھے اتنا دین سکھایا گیا کہ روزمرہ کے لیئے مجھے قرآن سے ہدایت مل جائے۔
دوسری شادی کو زہر قاتل ہمارے روئیے نے بنایا ہے۔ روئیے کی اصلاح کریں۔ حلال کو حرام نہ کریں۔
گیارہ دسمبر کی پوسٹ
عورت کو کیا کرنا چاہیے:

سب سے پہلے تو دوسری، تیسری یا چوتھی بیگم

بیبیو! صبر کرو۔ ٹھندی کر کے کھانا سیکھیں۔ احتجاج ہونا ہے۔ لازمی ہونا ہے۔ صبر کرنا سیکھیں۔ آپ نے جرم نہیں کیا لیکن جس معاشرے میں آپ ہیں وہاں یہ گناہ ہے۔ اس لیئے ردعمل آئے گا۔ آپ نے جب یہ قدم اٹھا لیا ہے تو حوصلے سے چلیں۔
کسی کی زندگی کے بیچ میں آئی ہیں تو مل کے چلنے کا حوصلہ پیدا کریں۔ آتے ساتھ ہی پہلے دن سے یہ خواب نہ سجا لیں کہ پہلی بیگم کو اور اس کے بچوں کو گھر سے باہر کرنا ہے۔
مرد آپ کے ساتھ زیادہ وقت گزارنا چاہے گا۔ لیکن آپ پر ذمےداری کا بوجھ ہے۔ اس سے پہلے کہ آپ کسی سے امئد کریں کہ آپ کو قبول کرے، پہلے ایسا کچھ کریں تو سہی کہ ایک غبار میں ڈوبا ذہن آپ کو قبول کرے۔
پہلی بیگم آپ کی عزت کی حقدار ہے۔ محبوب کا تو جانور اور جسم سے لپٹا لباس بھی محبوب ہوتا ہے۔
اسی معاشرے سے نکلی ہوئی دوسری بیگمات تھی جنہوں نے اپنے روئیے کو ایسا زہر آلود کیا کہ ایک حلال چیز حرام ہوئی۔
آپ کا حق آپ کے شوہر تک ہے۔ اب پہلی بیوی لڑتی ہے تو وہ اپنے شوہر سے لڑ رہی ہے۔ اپنے حق سے لڑ رہی ہے۔ آپ کو اس کی سیأت پر گھر نہیں بسانا۔ اپنی حسنات پر بسانا ہے۔
پہلی بیوی آپ پر دشنام طرازی کرے تو اسے اپنی منفی طاقت نہیں بناتے۔ نہ اس کا سہارا لیکر پہلی کو گھر بدر کرواتے ہیں۔ شاید آپ کا موجودہ میاں اس وقت ککھ بھی نہیں تھا جب وہ آئی۔ اس کی اس محنت کی قدر کریں۔ اور اس کی ہر چیز پر نظر نہ جمائیں۔ اس کی اولاد سے محبت کریں۔
بعض دفعہ اپنا جائز حق چھوڑ کے انسان جو کچھ پا لیتا ہے، وہ اس حق کے لیئے لڑ کر بھی نہیں ملتا۔ اس معاشرے میں رہ کر اگر اتنا بڑا قدم اٹھانا ہے تو چٹان کا حوصلہ لیکر چلیں۔
زندگی کو چند سال دینا سیکھیں۔ چند سال میں بھی اگر پہلی اچھے سلوک کے بعد بھی آپ کو قبول نہیں کرے گی تو یاد رکھیں اللہ زمیں سے کہیں نہیں گیا۔
گیارہ دسمبر آخری پوسٹ
پہلی بیگم:
پہلی بیوی کو سب سے پہلا دکھ اپنی تذلیل کا لگتا ہے کہ اس پر سوتن آئی تو اس کا مطلب ہے اس میں کمی تھی۔
مرد اور عورت کو اللہ نے برابر نہیں پیدا کیا۔ ان کے لیئے احکامات ایک نہیں۔ ان کے لیئے آزادیاں ایک نہیں۔ ان کے لیئے پابندیاں ایک نہیں۔ خواتین کو عبادات کی اتنی چھوٹ اللہ نے دی ہے۔ مرد کو نہیں دی۔ مرد کی ضروریات اور عورت کی ضروریات الگ ہیں۔ مزاج الگ ہیں۔ اللہ نے مرد کو اجازت کیوں دی، یہ ایسی ہی بحث ہے کہ اللہ نے عورت کو بچہ جننے کی صلاحیت کیوں دی۔ عورت کو وراثت میں ایک حصہ کیوں ملتا ہے۔ عورت کو عبادات کی چھوٹ کیوں ہے۔
ساری مسلم دنیا کے مرد اس سہولت کا فایدہ اٹھاتے ہیں۔ وہاں کی عورت تذلیل نہیں محسوس کرتی۔ برصغیر کی عورت ہی محسوس کرتی ہے۔ اس لیئے ہم کہہ سکتے کہ مسئلہ برصغیر کی عورت میں ہے۔
اگر آپ کے میاں نے دوسری شادی کر کے آپ کو گھر سے نہیں نکالا، طلاق نہیں دی، خرچہ نہیں روکا، تو اس نے آپ پر کوئی ظلم نہیں کیا۔ خود ترسی سے نکلیئے۔
دوسری بات ایسے موقع پر اپنے شوہر کو خود سے دور آپ خود کرتی ہیں۔ ایک کام اس نے کر لیا۔ اب وہ گھر آتا ہے آپ بات نہیں کرتی۔ مسلسل لڑتی ہیں۔ روتی چیختی چلاتی ہیں۔ وہ کچھ وقت برداشت کرے گا پھر چڑ جائے گا۔ دوسری طرف شادی نئی ہے۔ آپ کی یہ لڑائی اگلی کا گھر مضبوط کرے گی۔ آپ کو فایدہ نہیں دے گی۔ اگر آپ اس کو آپ ی تذلیل سمجھیں گی تو آنا میں آئیں گی اور آنا کا زخم خوردہ شخص صرف اپنا نقصان کرتا۔ آپ روٹھیں۔ آپ کا حق ہے۔ لیکن ایک حد تک۔ آپ کا silent treatment شوہر کو آپ کی طرف مائل کرے گا۔ یہ وہ وقت ہو گا جب آپ اپنا معاشی تحفظ یقینی بنا سکتی۔ شوہر سے صاف کہیں کہ دیکھیں شادی آپ کا حق تھی، آپ نے کی۔ عدل میرا حق ہے۔ میں اپنا حق معاف نہیں کروں گی۔
شوہر کے لیئے عدل کو مشکل نہ کریں۔ ورنہ اگر کسی کشمکش میں شوہر بیزار ہوا تو نقصان اکیلی آپ کی سوتن کا نہیں۔ آپ کا بھی ہے۔
اس سب میں اپنے بچوں کو نہ استعمال کریں۔ یاد رکھیں اولاد صرف شادی تک وفادار ہے۔ شوہر بیوفا بھی ہو تو بھی سر کی چھت ہے۔ آج آپ اولاد کو باپ کے خلاف کھڑا کریں گی، کل کو اولاد کی پریکٹس ہو گئی ہو گی۔ ان کی بیوی آئے گی تو ذرا سی چنگاری دکھا کے آپ کے خلاف کھڑا کر دے گی۔
آپ کی اولادیں اصل میں ذہنی مریض دوسری شادی کی وجہ سے نہیں بنتی۔ فریقین میں کسی ایک کی غلط تربیت اور غلط روئیوں کی وجہ سے بنتی ہیں۔ کسی بھی انسان کا روئیہ غلط ہو تو اس روئیے کو درست کرنے کی ضرورت ہے۔ نہ کہ اللہ کی حکمت پر انگلی اٹھانے کی۔
آخر پر ایک بات، شوہر انصاف نہیں کرتا تو آپ الگ ہونے میں حق بجانب۔ سوکن آپ کے خلاف ورغلا رہی تو آپ مظلوم۔ لیکن اگر واحد ضد یہ ہے کہ میں نے نہیں بانٹنا کیونکہ میں نے نہیں بانٹنا تو بیبیو مر کے اللہ کے پاس ہی جانا ہے۔ یہ ساری ضدیں دنیا میں چل جاتی ہیں۔ جس بات کی اللہ نے اجازت دے رکھی، اس کی اللہ کے دربار میں دہائی کیسے دو گی۔
میں اس کے ساتھ ہی سب دلائل اور بحث سمیٹ رہی۔ اسلام کے احکام مکمل ہیں۔ یہ کچھ بھولے اسباق تھے۔ اس لیئے یاد کروا دئیے کہ شاید کسی کو بھول گئے ہوں۔ اور ذرا سا دہرا دئیے جائیں تو لوگ ایک حلال پر لوگوں کی زندگیاں حرام کرنی بند کر دیں۔ باقی ہدایت کی ذمے داری انبیاء کی بھی نہیں تھی۔ وما علینا الاالبلاغ
یہ میرے دلائل کی آخری پوسٹ تھی۔
مجھے اس کے بعد ایک پوسٹ مزید کرنا پڑی۔ کیونکہ حنیف ڈار صاحب نے ایک اسٹیٹس لگایا اور مجھے کسی خاتون نے آ کے کہا کہ کہ آپ کی کیمپیئن غبارے میں سے ہوا نکال دی ہے حنیف صاحب نے۔
میرا جواب یہ ہے کہ میں نے حنیف صاحب کی شہہ پر نہیں لکھا تھا نہ ان کی مخالفت سے مجھے فرق پڑا۔ اگر آپ حنیف صاحب سے متفق تو میں ایسے علماء سے جن کو مرد مجبور ہو کے کہتے ہیں کہ دل گناہ پر مائل ہوتا ہے اور ان کو علماء کہتے ہیں بیوی کو جان دینی ہے تو گناہ کر لو اللہ کو دینی ہے تو شادی کر لو۔
وہ آخری پوسٹ یہ تھی
چودہ دسمبر کی پوسٹ
يَآ اَيُّـهَا النَّبِىُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَآ اَحَلَّ اللّـٰهُ لَكَ ۖ تَبْتَغِىْ مَرْضَاتَ اَزْوَاجِكَ ۚ وَاللّـٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِـيْـمٌ (1)
اے نبی! آپ کیوں حرام کرتے ہیں جو اللہ نے آپ کے لیے حلال کیا ہے، آپ اپنی بیویوں کی خوشنودی چاہتے ہیں اور اللہ بخشنے والا نہایت رحم والا ہے۔
اس آیت پر مجھے کہا گیا کہ یہ شہد پر ہے۔ میری جوابی دلیل یہ تھی۔
ہر آیت ایک مخصوص شان نزول کے ساتھ ہے۔ اگر صرف شان نزول کی ساتھ نتھی کیا جائے تو پھر قرآن کی عالمگیریت کا جواز نہیں بچتا۔ اصل میں بنیاد فراہم کر دی گئی ہے حلال اور حرام کی۔
حضرت علی اور بیبی فاطمہ کے بارے میں کہی جانے والی بات بطور دلیل:
مولا علی(ع) کا ابوجہل کی بیٹی سے شادی کا جھوٹا افسانہ

سوال) السلام علیکم!کیا اس حدیث میں جو واقعہ بیان کیا گیا ہے وہ صحیح ہے؟؟ برادر ابوزین اس حدیث میں بیان کئے گئے واقعے سے متعلق علماء تشیع کا کیا موقف ہے کیا حضرت امیر المومنین ع نے واقعی ابوجہل کی بیٹی سے نکاح کا ارادہ کیا تھا؟

متن حدیث:عن المسور بن مخرمة أنه قال :” إن عليا خطب بنت أبي جهل ، فسمعت بذلك فاطمة فأتت رسول الله صلى الله عليه وسلم فقالت : يزعم قومك أنك لا تغضب لبناتك ، وهذا علي ناكح بنت أبي جهل ، فقام رسول الله صلى الله عليه وسلم ، فسمعته حين تشهد يقول : أما بعد ، أنكحت أبا العاص بن الربيع فحدثني وصدقني ، وإن فاطمة بضعة مني وإني أكره أن يسوءها ، والله لا تجتمع بنت رسول الله صلى الله عليه وسلم وبنت عدو الله عند رجل واحد ، فترك علي الخطبة ” وفي رواية للبخاري ” فاطمة بضعة مني فمن أغضبها أغضبني ” …. !!!البخاري رقم 3523 ، 3556 ، ومسلم برقم 2449

حضرت مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:

علی رضی اللہ عنہ نے ابوجہل کی لڑکی کو (جو مسلمان تھیں) پیغام نکاح دیا، اس کی اطلاع جب فاطمہ رضی اللہ عنہا کو ہوئی تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں اور عرض کیا کہ آپ کی قوم کا خیال ہے کہ آپ کو اپنی بیٹیوں کی خاطر (جب انہیں کوئی تکلیف دے) کسی پر غصہ نہیں آتا۔ اب دیکھئیے یہ علی ابوجہل کی بیٹی سے نکاح کرنا چاہتے ہیں، اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو خطاب فرمایا:میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خطبہ پڑھتے سنا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: امابعد:

“میں نے ابوالعاص بن ربیع سے (زینب رضی اللہ عنہا کی، آپ کی سب سے بڑی صاحبزادی) شادی کرائی تو انہوں نے جو بات بھی کہی اس میں وہ سچے اترے اور بلاشبہ فاطمہ بھی میرے (جسم کا)ایک ٹکڑا ہے اور مجھے یہ پسند نہیں کہ کوئی بھی اسے تکلیف دے۔ اللہ کی قسم! رسول اللہ کی بیٹی اور اللہ تعالیٰ کے ایک دشمن کی بیٹی ایک شخص کے پاس جمع نہیں ہو سکتیں۔ چنانچہ علی رضی اللہ عنہ نے اس شادی کا ارادہ ترک کر دیا۔ “(صحیح بخاری كتاب فضائل الصحابة حدیث نمبر: ٣٨٢٩)۔۔

محمد بن عمرو بن حلحلہ نے ابن شہاب سے یہ اضافہ کیا ہے، انہوں نے علی بن حسین سے اور انہوں نے مسور رضی اللہ عنہ سے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ نے بنی عبدشمس کے اپنے ایک داماد کا ذکر کیا اور حقوق دامادی کی ادائیگی کی تعریف فرمائی۔ پھر فرمایا کہ انہوں نے مجھ سے جو بات بھی کہی سچی کہی اور جو وعدہ بھی کیا پورا کر دکھایا۔”

جواب) یہ حدیث اہلسنّت کے علمی پیمانوں پر پورا نہیں اترتی، اور ہمارے ہاں تو اس سلسلے میں کوئی معتبر حدیث ہے ہی نہیں۔ اس میں سب سے پہلا راوی مسور بن مخرمہ ہے جو امام علی(ع) کا دشمن شمار ہوتا تھا۔ یہ عبداللہ ابن زبیر کے ساتھیوں میں سے تھا اور جب خانۂ کعبہ میں یزید کی فوج نے منجنیقوں سے حملہ کیا تو مسور بن مخرمہ مارا گیا تھا۔ مشہور سنّی عالم ذھبی کہتے ہیں کہ یہ خوارج کے ساتھیوں میں سے بھی تھا؛

قال الزبير بن بكار كانت [الخوارج] تغشاه وينتحلونه (سیر اعلام النبلاء، ج3 ص391)

ذھبی نیز یہ بھی کہتے ہیں: قال عروة فلم أسمع المسور ذكر معاوية إلا صلى عليه۔۔۔۔۔ یعنی عروہ کہتے ہیں کہ میں نے کبھی مسور بن مخرمہ کو معاویہ کا نام لیتے ہوئے نہیں سنا مگر یہ کہ معاویہ پر درود بھیجے۔

اب ایسے شخص کی روایت تو ویسے ہی رد ہو جاتی ہے اور جبکہ وہ روایت اپنے دشمن کے بارے میں کرے تو اس کو عقل بھی قبول نہیں کرتی۔

اور یہ بھی عجیب بات ہے کہ مسور بن مخرمہ اس واقعے کے وقت بچہ تھا۔ علماء نے نقل کیا ہے کہ مسور دوسری صدی ہجری میں پیدا ہوا، اور یہ واقعہ کم و بیش 8 ہجری کا بتایا جاتا ہے۔ تو چھ سالہ بچہ کیسے روایت نقل کر سکتا ہے؟

اس جھوٹی روایت کو رد کرنے کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ یہ قرآن سے متصادم ہے، قرآن واضح طور پر چار شادی کی اجازت دیتا ہے اور اس سلسلے میں کوئی تخصیص نہیں کرتا۔ تو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ رسول اللہ ص اوروں کی بیٹیوں پر سوکنیں بٹھانے کی اجازت دیں اور اپنی بیٹی پر نہ دیں۔۔۔ کیا یہ عدل کے منافی نہیں؟ اور رسول اللہ(ص) جو تمام عالم اسلام کے لئے نبی ہیں اپنی بیٹی کو اس طرح کی تخصیص دے دیں۔

پس یہ روایت جھوٹی ہے، اور اس کا اعتبار کرنا درست نہیں۔
حرف آخر:
مجھ سے کچھ غلط باتیں منسوب کی جا رہی تھی کہ میں دوسری شادی کو حکم ثابت کر رہی۔ مردوں کو باقاعدہ ترغیب دے رہی ہوں۔ اور دوسری شادی نہ کرنے والوں پر کفر کے فتوی لگا رہی۔ مزید یہ کہ میں پہلی بیوی کی تذلیل کر رہی۔ اور بیویوں کے مابین عدل کی غیر ضروری کہہ رہی۔ ان سب کی وضاحت اوپر کے کالم سے ہو جائے گی۔ مزید بحث لایعنی ہے۔
نیلم ملک صاحبہ مجھے اپنے کالم میں اپنی دوست بتا رہی تھی۔ میں ان کو بطور دوست اون نہیں کرتی۔ وہ میری فیس بک لسٹ میں ہیں۔ چند کمنٹس سے زیادہ ہمارا کوئی تعلق نہیں۔
عدل کے معاملے کو لیکر میں نے سورۃ النساء کی آیت 129 ہر جگہ دی ہے۔
آیت 129
وَلَن تَسْتَطِيعُواْ أَن تَعْدِلُواْ بَيْنَ النِّسَاء وَلَوْ حَرَصْتُمْ فَلاَ تَمِيلُواْ كُلَّ الْمَيْلِ فَتَذَرُوهَا كَالْمُعَلَّقَةِ وَإِن تُصْلِحُواْ وَتَتَّقُواْ فَإِنَّ اللَّهَ كَانَ غَفُورًا رَّحِيمًا

Advertisements
julia rana solicitors

اور عورتوں کے درمیان مکمل برابری رکھنا تو تمہارے بس میں نہیں ، چاہے تم ایساچاہتے بھی ہو، البتہ کسی ایک طرف پورے پورے نہ جھک جاؤ کہ دوسری کو ایسا بناکر چھوڑ دو جیسے کوئی بیچ میں لٹکی ہوئی چیز۔ اور اگر تم اصلاح اور تقویٰ سے کام لو گے تو یقین رکھو کہ اﷲ بہت بخشنے والا، بڑا مہربان ہے۔
ساتھ ہی میں نے نبی پاک کی مثال عرض کی کہ حضور نے اپنی تمام ازواج کے لیے ہر چیز گِن گِن کر طے کی ہوئی تھی۔ شب بسری کے لیے سب کی باریاں مقر ر تھیں۔ دن میں بھی آپ ہر گھر میں چکر لگاتے تھے۔ عصر اور مغرب کے درمیان تھوڑی تھوڑی دیر ہر زوجہ محترمہ کے پاس ٹھہرتے تھے۔ اگر کہیں زیادہ دیر ہو جاتی تو گویا کھلبلی مچ جاتی تھی کہ آج وہاں زیادہ دیر کیوں ٹھہر گئے؟ یہ چیزیں انسانی معاشرے میں ساتھ ساتھ چلتی ہیں۔ حضور کی ازواجِ مطہرات کا آپس کا معاملہ بہت اچھا تھا‘ لیکن سوکناپے کے اثرات کچھ نہ کچھ تو ہوتے ہیں‘ یہ عورت کی فطرت ہے‘ جو اس کے اختیار میں نہیں ہے۔ تو اس لیے فرمایا کہ مکمل انصاف کرنا تمہارے بس میں نہیں۔ اس سے مراد دراصل قلبی میلان ہے ۔ ایک حدیث میں بھی اس کی وضاحت ملتی ہے کہ نبی اکرم فرمایا کرتے تھے کہ اے اللہ میں نے ظاہری چیز وں میں پورا پورا عدل کیا ہے‘ باقی جہاں تک میرے دل کے میلان کا تعلق ہے تو مجھے امید ہے کہ اس بارے میں تُو مجھ سے مواخذہ نہیں کرے گا۔ اسی لیے یہاں فرمایا گیا کہ تم چاہو بھی تو عدل نہیں کر سکتے۔
اور ایک طعنہ کہ کیا میں اپنے شوہر کی کرواؤں گی:
آپ کے لیئے محبت کیا ہے کیا نہیں میں نہیں جانتی۔ میں نے تو جسے اپنا لیا دل وجان سے اپنا لیا۔ محبت لینے دینے کا نام نہیں ہے۔ محبت برابری کا نام نہیں ہے۔ یہ کسی کے پیروں کی دھول ہو جانا ہے۔ تو مجھے جس سے محبت ہے اس کا تو مجھے جوتا تک عزیز ہے۔ وہ اپنی خوشی سے کسی کو لائے گا تو میرے سر آنکھوں پر۔
جے ماہی میرا دکھ وچ راضی
تے میں سکھ نوں چولہے پاواں۔
والسلام

Facebook Comments

سعدیہ سلیم بٹ
کیہ جاناں میں کون او بلھیا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 2 تبصرے برائے تحریر ”میں زہر ہلاہل کو کبھی کہہ نہ سکا قند۔۔۔ سعدیہ سلیم بٹ

  1. آپ کو دینداری کا زعم ھے ۔آپکے اس مضمون سے آپکی خود پسندی شدت سے نمایاں ھے ۔ اور جو آپکی باتوں سے اختلاف کرے اسکو آپ بعض مقامات پر واضع اور کئی جگہ پر ڈھکے چھپے الفاظ میں حقیر اور دین ِاسلام سے باہر قرار دے رہی ہیں ۔ آپکے زیادہ تر جاننے والے دوسری شادی کے فریقین میں سے ھیں ، کافی عجیب اتفاق ھے ۔۔۔۔۔ عامر لیاقت کی بیٹی اپنے گھر کے پوترے سبکے سامنے دھوتی ھے ۔۔۔۔معاف کیجئے گا بڑی گھٹیا سوچ ھے آپکی ۔۔۔۔ ؤہ بےھودہ انسان پوری دنیا کے سامنے اپنے extra marital affair کے قصے سنا رھا ھے جس میں آپ جیسی خاتون یہ موقف دے گی کہ وہ مرد کے ذھنی سکون کا باعث نہیں بنی اسلئیے اسکی وجہ سے اس کے شوھر نے باھر کا راستہ دیکھا ۔کسی کا گھر ٹوٹا ۔اسکے بیوی بچے ذہنی انتشار سے گزرے اور آپ ان پر فقرے کس رہیں ھیں ۔۔ بی بی اگر عورت کو یہ ذھنی سکون کو میسر نہ ھو تو وہ کیا کرے ؟ یہ جن مردوں کے حق میں آپ دلائل دے رہی ھیں (قرآن
    و سنت کے حوالے ) تو کیا یہ ان اسباب کی وجہ سے دوسری ،تیسری شادی کرتے ھیں یا پھر دل پشوری کے لئے ؟ شادی شدہ مرد کو معاشقے چلانے کی اجازت اللہ نے ھرگز نہیں دی ۔۔۔۔ اگر آپکی دانست میں لڑکیوں کے رشتوں کا کال ھے تو پہلی شادی کسی بڑی عمر ،بیوہ یاطلاق یافتہ سے کیو ں نہیں ھوتی ؟انکا نمبر رنڈووں اور طلاق دینے کی صورت میں دوسری بیوی کے طور پر ھی کیوں ھوتا ھے؟ جائیداد میںاسکو شرعی حصہ دیں ،اسکو خود مختار بنائیں یا کسی مرد کے سر منڈھنا ھی علاج ھے ،چاہے وہ جانوروں سے بھی بدتر سلوک کرے ۔۔۔
    آپکو گمنامی کی چاہ ھے تبھی آپ یہاں اپنا biodata بتا رہی ھیں ۔۔۔۔آگر نیلم ملک آپکی facebook friend listمیں شامل ھیں تو ایسی صورت میں آپ انکی facebook friend ھی ھیں ۔ انہوں نے تو آپکا نام نہیں لیا تھا لیکن آپ نے انکا نام لے کر ان پر تنقید کی ھے جو کہ انتہا ئی غیر اخلاقی حرکت ھے ۔بہتر ھو گا کہ آپ اپنی وال کی settings public سے change کر کہ غیر ضروری لوگوں کو بھی block یا delete کر دیں کیونکہ آپکو تو ویسے بھی fame کی خواھش نہیں
    ۔ اب یقیناً میرے ایمان پر بھی انگلیاں اٹھیں
    گی کیوں کہ دو extremes ھیں ۔۔۔اگر ایک طرف آزاد خیال، مادر پدر آزاد لوگ ھیں تو دوسری طرف مذ ھب کے
    ” ٹھکیدار“ جو آدھی بات
    کرتے ھیں اور اپنے مفاد کے لئے دین اور اللھ کے احکامات کو ردو بدل کے ساتھ پیش کرتے ھیں اور اگر انکی توجہ اس جانب کرائی جائے تو یہ اس شخص کو دین ِ اسلام سے ھی باھر نکال دیتے ھیں ۔۔۔ کیا یہ نہیں جانتے کہ یہ کتنے بڑے گناہ کا ارتکاب کرتے ھیں ۔۔۔ اللھ ھم سبکو دوسروں کی کردار کشی سے بچنے کی توفیق ادا فرمائے اور صراط مستقیم پر چلنے کی توفیق دے ،آمین ۔

Leave a Reply