ہائے وہ دسمبر۔۔۔۔۔محمد طلحہ سعید

دسمبر کی بات آئے تو ہم میں سے بیشتر لوگوں کے ذہنوں میں ایک ہی خیال آتا ہے کہ یہ وہ مہینہ ہے جب ہماری اردو کے کچھ دل جلے کچھ منچلے شاعر اور ادیب رضائیوں میں بیٹھ کر اپنے حالات کا نوحہ کریں گے۔دماغ یہی سوچتا ہے کہ یہ ماہ ہماری اردو کے کچھ ادیبوں کے لیے سالانہ نوحہ فیسٹول ہے اور ہم جیسے  بھلے دل   لوگوں کے لیے ایک کامیڈی فیسٹول کہ ہم انکی “تخلیقات” سے محظوظ ہوتے ہیں۔
یہ تصویر کا وہ رخ ہے جو آنکھ و دل دونوں کو بھلا لگتا ہے۔۔۔۔مگر ایک رخ وہ بھی ہے کہ جسے دیکھا جائے تو دل بوجھل ہوتا ہے، ایک رخ وہ بھی ہے جسے دیکھا جائے تو دماغ ماؤف ہوتا ہے،دل و ذہن میں یہی بات گردش کرتی ہے کہ میری قوم نے کتنے درد سہے۔کتنے مظالم میری اس قوم پر ڈھائے گئے۔کس قدر اس کو محکوم کرنے کی کاوشیں کی گئیں۔۔۔؟
یہ وہی دسمبر ہے جب لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ پر بننے والے ملک میں بغاوتیں اور غداریوں کی المناک داستانیں کھیلی گئیں۔یہ۔وہی دسمبر ھے جب لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ پر بننے والے ملک میں حکومت کے حصول کیلیے اسی ملک کے دشمنوں سے دوستیاں رچائی گئیں۔یہ وہی دسمبر ہے جب لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ پر بننے والے ملک کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا۔جب لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ پر بننے والے ملک کا ایک بازو کاٹ کر علحیدہ کر دیا گیا۔
جب دنیا نے دیکھا کہ جس قوم میں نفرت کے بیج بو کر اس قوم سے نے اتفاق و اتحاد و یگانگت کی برکتیں چھین لی گئیں،آپ کو سیکولر اور امن پسند کہنے والے،اپنے آپ کو خطے میں امن کا سفیر کہنے والے،،وہی پڑوسی ملک میں داخل ہوئے،،،پڑوسی ملک میں بغاوت کو اور عروج دیا اور ہاں پڑوسی ملک میں اک نہ مندمل ہونے والا زخم خزاں عطا کرکے اسے دو لخت کردیا۔جب سقوط ڈھاکہ کا سانحہ پیش آیا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

پھول لے کر گیا آیا روتا ہوا
بات ایسی ہے کہنے کا یارا نہیں
قبرِ اقبال سے آرہی تھی صدا
یہ وطن مجھ کو آدھا گوارا نہیں
شہرِ ماتم تھا اقبال کا مقبرہ
تھے عدم کے مسافر بھی آئے ہوئے
خوں میں لت پت کھڑے تھے لیاقت علی
رُوح ِقائد بھی سر کو جھکائے ہوئے
چاند تارے کے پر چم میں لپٹے ہوئے
چاند تارے کے لاشے بھی موجود تھے
سرنگوں تھا قبر پہ مینارِ وطن
کہہ رہاتھا کہ اے تاجدارِ وطن
یہ چمن مجھ کو آدھا گوارا نہیں!
میرا  ملک  اس موسم خزاں سے مشکل سے ابھی بہار کی رنگینیوں میں آیا ہی تھا کہ میرے ملک میں دوبارہ وہی جنگ مسلط کردی گئی۔میرے ملک کے نام سے تنظیمیں بنائی گئیں جو حقیقت میں میرے ملک سے کوئی تعلق نہیں رکھتی تھیں۔اور ان تنظیموں کا کام بھی میرے ملک کے اندر انتشار برپا کرنا تھا۔یہ کام بھی حسب روایت میرے ملک کے روایتی، میرے ملک کے نسلی دشمن “پڑوسی” کا ہے کیا دھرا تھا۔میرے ملک کی افواج بھی حسب روایت ان سے لڑ رہی تھیں۔مگر اس دشمن کی ذہنی سوچ تو دیکھیے کہ جب وہ اپنے مقابل آہن فوج کے سامنے بے بس ہوا تو اس نے معصوم مثل پھول بچوں کو نشانہ بنایا۔جن پھولوں نے اپنی خوشبو سے چمن کو معطر کرنا تھا انہیں پہلے ہی پودے سے توڑ لیا گیا۔دنیا نے دیکھا کہ ایک ملک نے پڑوسی ملک سے دشمنی میں کتنی گھناؤنی سازش رچی کہ اس کے بچوں کو نشانہ بنایا گیا۔بچے تو جانوروں کے بھی اچھے لگتے ہیں مگر یہ دشمن، اسنے انسان کے بچے کی جنکا کوئ نعم البدل نہیں انہیں۔۔۔۔۔۔! ان سے دشمنی کی داستانیں رقم کیں۔میرے ملک کو دوبارہ نہ مندمل ہونے والا زخم دیا گیا۔
ستم در ستم کہ جن بچوں کو ابھی دینی معاملات کی سمجھ بوجھ بھی نہ تھی،جن کے لیے ابھی کئی  ارکان اسلام فرض بھی نہ ہوئے تھے انہیں کافر کہہ کر   مارا گیا اور مارنے والے خود کو مسلمان کہنے لگے۔تاریخ گواہ ہے  کہ جب مسلمان اٹھا تو اللہ کا نام لے کر اٹھا اور جس طرف گیا سکون و آشتی کا پیغام بن گیا۔وہ دشمن سے مردانہ وار ٹکراتا رہا۔مگر  عورتوں’بچوں’معذوروں’بوڑھوں’فصلوں’مکانوں’ اور جانوروں کی حفاظت کرتا رہا۔تو پھر یہ لوگ جنہوں نے میرے ملک کے بچوں کو شہید کیا یہ کیسے مسلمان ہوسکتے ہیں۔ہاں یہ مسلمان نہیں ہیں یہ خارجی ہیں ا۔
اے قوم۔۔۔۔!ہم پر آج بھی وہی جنگ مسلط ہے، آج بھی ہمارا دشمن وہی ہے “بھارت” اور ہماری افواج اب بھی اس کا مردانہ وار مقابلہ کر رہی ہیں۔ہمارے ایک اور بازو “بلوچستان” کو توڑنے کی کوششیں کی گئیں جس کا ثبوت “کلبھوشن یادیو” خود ہے مگر ہم سازش سے بڑی مشکل سے نکلے ہیں مگر یاد رکھیں وہی دشمن ہے وہی جنگ مگر اس بار یہ جنگ صرف فوج کی نہیں بلکہ یہ جنگ ہر سوشل میڈیا ایکٹیویسٹ، ہر استاد،ہر شاگرد، ہر بزنس مین اور ہر مزدور نے لڑنی ہے۔تو آئیں ہم اپنی علمی،قلمی اور عملی صلاحیتوں سے چمن کو منور و معطر کرجائیں۔اس وطن عزیز کے کام آجائیں۔اور ہاں آئیے ہم اپنے تمام شہداء کا قرض چکا جائیں۔اللہ پاکستان کا حامی و ناصر۔
پاک فوج زندہ باد
پاکستان پائندہ باد!

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply