کیا حقیقت کیا افسانہ۔۔۔۔۔عرفان صادق

26 نومبر کا دن پاک بھارت تعلقات میں نہایت اہمیت کا حامل دن ہے۔ سن 2008 میں اسی دن بھارت کے ساحلی اور اہم ترین تجارتی شہر ممبئی پر 10 دہشت گردوں نے حملہ کیا۔جس میں ممبئی کے اہم اور حساس ترین مقامات مثلاًًً  اوبرائے ہوٹل ، تاج محل ہوٹل ، کاما ہسپتال ، نریمن ہاؤس، لیوپلڈ کیفے اور شیوا جی ریلوے اسٹیشن کو نشانہ بنایا گیا۔ یہ حملہ 26 نومبر بروز بدھ کو شروع ہوا اور 29 نومبر بروز ہفتہ تک جاری رہا۔ اس حملے میں ایک محتاط اندازے کے مطابق 164 لوگ ہلاک ہوئے اور 308 لوگ زخمی ہوئے۔
9 حملہ آور وہیں مختلف مقامات پر مارے گئے۔ اور اجمل عامر قصاب نامی ایک نوجوان کو زخمی حالت میں گرفتار کر لیا گیا۔ انڈیا نے واقعے کے فورا ًًً بعد ہی پاکستان پر الزامات کی بوچھاڑ کر دی۔

حملوں کے متصل بعد انڈیا سمیت پوری دنیا نے پاکستان پر پریشر ڈالنا شروع کر دیا صرف الزامات کی بنیاد پہ پاکستان میں پکڑ دھکڑ شروع کر دی گئی 25 نومبر 2009 کو ذکی الرحمن لکھوی سمیت 6 افراد کو ممبئی حملوں کی پلاننگ کے الزام میں اڈیالہ جیل میں قید کر دیا گیا۔ پھر اسلام آباد ہائی کورٹ میں 6 سال تک یہ کیس چلتا رہا لیکن نہ تو انڈیا کوئی پختہ ثبوت پیش کر سکا اور نہ ہی پاکستان حکومت لہذا 13 مارچ 2013 کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے ذکی الرحمن لکھوی کو رہا کرنے کا حکم دے دیا۔
18 اکتوبر 2009 کو ایک کینیڈین شخص تصور حسین رانا کو بھی ممبئی حملوں میں ملوث ہونے پر گرفتار کیا گیا لیکن اس پہ بھی کوئی الزام ثابت نہ ہو سکا اور 9 جون 2011 کو رانا تصور کو بھی آزاد کر دیا گیا۔

اجمل قصاب جو کہ ممبئی حملوں کا واحد زندہ کردار تھا پر 25 فروری 2009 کو باقاعدہ کیس شروع کیا گیا پھر 3 مئی 2010 کو اجمل قصاب پر قتل ، انتشار اور انڈیا کو جنگ میں دھکیلنے جیسے الزامات میں مجرم قرار دیا گیا اور 6 مئی 2010 کو ممبئی حملوں کے واحد باقی ماندہ زندہ کردار کو پھانسی کی سزا سنا دی گئی اور پھر 21 نومبر 2012 کو صبح 7:30 پر پھانسی دے دی گئی۔

اس کے علاوہ پاکستان میں کشمیر کاز پر سب سے زیادہ اخلاقی مدد فراہم کرنے والی جماعت جماعت الدعوہ پر عرصہ حیات تنگ کیا گیا ان کے قائدین کو پابندِ سلاسل کیا گیا دفاتر سیل کیے گئے حتی کہ امیر جماعت الدعوہ پاکستان حافظ سعید کو ان کی مرکزی قیادت سمیت نظر بند بھی کر دیا گیا۔ پاکستان کی جانب سے یہ سب کاروائی ان الزامات کی بنیاد پر کی گئی جن کو آج تک انڈیا کہیں بھی ثابت نہ کر سکا۔ اور واحد گرفتار کیا جانے والا ملوث بھی پھانسی کی بھینٹ چڑھا دیا گیا۔
ممبئی حملوں کے حوالے سے انڈین فلم انڈسٹری بالی وڈ نے ایک فلم ۔
“The Attcks of 26/11”
کے نام سے 2013 میں بنائی جس میں انہوں نے ایک خود ساختہ کہانی گھڑ کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ اس حملے میں حملہ آور پاکستان سے براستہ کراچی آئے تھے جبکہ ہالی وڈ نے ممبئی حملوں کے اوپر ایک فلم “Hotel Mumbai ” بنائی جو کہ 7 ستمبر 2018 کو ٹورنٹو انٹرنیشنل فلم فیسٹیول میں پہلی بار ریلیز کی گئی اس فلم میں ممبئی حملوں میں پاکستان کی مداخلت کا انکار کیا گیا جس کی وجہ سے انڈیا کی جانب سے اس فلم پر بہت تنقید بھی کی گئی۔
ایلیس ڈیوڈسن ایک مشہور جرمن تجزیہ نگار جنہوں نے 9/11 کے حوالے سے بھی حقائق اپنی کتاب
“Hijacking America’s Mind on 9/11”
میں دنیا کے سامنے رکھے انہوں ممبئی حملوں کے حقائق پر مبنی ایک کتاب
“The Betrayal of India: Revisiting the 26/11 Evidence”
کے نام سے لکھی۔ ڈیوڈ سن نے عدالت میں پیش کیے جانے والے دلائل اور درجنوں فیصلوں کو بغور پڑھا اس کے علاوہ تمام میڈیا رپورٹس کو جمع کر کے دیکھا اور اس موقع  پر کی جانے والی فرانزک تحقیقات کا بھی مشاہدہ کیا۔ اور تمام براہین و دلائل کی غیر جانب دارانہ جانچ پرکھ کرنے کے بعد ایک منصفانہ تجزیہ پیش کیا کہ ممبئی حملے میں انڈیا ،امریکہ اور مبینہ طور پہ اسرائیل کے ادارتی کردار شامل تھے جنہوں نے ممبئی حملوں کو نہ صرف پلان کیا بلکہ مکمل ترتیب دے کر اس کو وقوع پذیر کروایا۔

ایلیس ڈیوڈ سن نے اپنی کتاب میں یہ بھی انکشاف کیا کہ انڈین حکومت نے نہ صرف حملے کے واقعات کو مسخ کیا بلکہ تحقیقات سے پہلے ہی حملہ آوروں کی لاشوں کو بھی نا معلوم مقامات پر منتقل کر کے ٹھکانے لگادیا اور ان لاشوں کو تحقیقات کیلئے پیش نہیں کیا گیا۔
جب کہ حال ہی میں بھارت میں اجمل قصاب کا انڈین ڈومیسائل بھی سامنے آیا جس میں اجمل قصاب کی ولدیت محمد عامر لکھی گئی ہے اور اجمل کو اترپردیش ضلع اورائیا تحصیل بدھونہ کا شہری بتایا گیا ہے۔ اور ڈومیسائل سرٹیفکیٹ نمبر 181620020060722 ہے۔ جس کو میڈیا پر آنے کے بعد انڈین گورنمنٹ کی طرف سے فوری طور پر کینسل کر دیا گیا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

25 لاکھ وار مشین رکھنے والے ایک ملک کے اہم ترین شہر میں صرف 10 حملہ آوروں کے تین دن تک پورے شہر کو یرغمال بنائے رکھنے، حملہ آوروں کی لاشوں کے مسخ کیے جانے ، اجمل قصاب کو فورا ہی پھانسی دینے ، پاکستانی عدالتوں میں ناکافی ثبوتوں کی فراہمی ، منصف مزاج تجزیہ نگاروں کے اس سارے واقعہ کو ڈرامہ قرار دینے اور پھر اب اجمل قصاب کا انڈین شہری ثابت ہونے سے کیا واضح ہوتا ہے کہ فیصلہ آپ خود کریں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply