• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • تنظیمِ اسلامی کا زوال اور اُس کے اسباب۔۔۔۔۔سیدمحمد عمران بخاری /قسط2

تنظیمِ اسلامی کا زوال اور اُس کے اسباب۔۔۔۔۔سیدمحمد عمران بخاری /قسط2

ڈاکٹر اسرار احمد اور تنظیمِ اسلامی

ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم نے انیس سو چھپن میں جماعتِ اسلامی سے علیحدگی اختیار کی کہ جماعت اپنے اصل منہج یا راستے سے ہٹ چکی ہے۔ فکر اور نظریے کے ساتھ اُن کی کمٹمنٹ نے انہیں جماعت سے علیحدہ ہو کر بھی چین سے نہیں بیٹھنے دیا۔ اُن کے ساتھ جماعت سے علیحدہ ہونے والے لوگ اس قدر دلبرداشتہ ہوئے یا کم ہمتی کا شکار ہوئے کہ کسی نے بھی کمرِ ہمت نہیں کسی کہ اُسی منہج پر ایک دوسری اجتماعیت کی داغ بیل ڈال سکیں۔ اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود ان اکابرین کو ایک نئی اجتماعیت کی تشکیل پر آمادہ نہ کر سکنے پر بالآخر ڈاکٹر اسرار نے عزیمت کا یہ بار اپنے کاندھوں پر اٹھانے کا فیصلہ کیا اور انیس سو پچہتر میں تنظیمِ اسلامی کی بنیاد ڈالی۔ تنظیمِ اسلامی کی تشکیل کے پیچھے کارفرما نظریہ یا فکر ڈاکٹر اسرار احمد کا یہ احساسِ ذمہ داری تھا کہ انسان اللٰہ کا خلیفہ ہے اور ہر انسان پر اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی کے ہر گوشے میں اللٰہ کی اطاعت فرض ہے۔ جس طرح فرد پر یہ لازم ہے کہ وہ اپنے انفرادی معاملات کو اللٰہ کی بیان کردہ حدود کے دائرے میں لائے اسی طرح اُس پر یہ بھی فرض ہے کہ وہ اپنے اجتماعی معاملات میں بھی اللٰہ کی بیان کردہ حدود سے تجاوز کرنے سے گریز کرے۔ یعنی جہاں اس پر یہ فرض ہے کہ نماز پڑھے، روزے رکھے، وہاں اُس پر یہ بھی فرض ہے کہ اجتماعیت کے سیاسی، معاشی اور معاشرتی گوشوں میں بھی اللٰہ کے حکم کی پیروی کرے۔

یہ بھی پڑھیے :  تنظیمِ اسلامی کا زوال اور اُس کے اسباب ۔۔۔۔۔عمران بخاری/قسط1

انسانی نفسیات دو عوامل سے اثر انداز ہوتی ہے۔ ایک اُس کے وراثتی جینز اور دوسرا اُس کا ماحول۔ انسانی جینز اُس کی استعداد اور صلاحیتوں کا تعین کرتے ہیں اور ماحول اُن صلاحیتوں کے بروئے کار لانے کے ذرائع مہیا کرتا ہے۔ اگر ماحول سازگار ہو گا تو ہی انسان اپنی استعداد اور صلاحیتوں کو حتی الامکان حد تک بروئے کار لا سکے گا۔ یعنی فرد کا نمو اور ترفع اُس کے ماحول کے محتاج ہیں۔ اگر ماحول سازگار نہ ہو گا تو فرد کے لیے یہ ممکن ہی نہیں کہ وہ اپنی استعداد اور صلاحیتوں کو کمال تک پہنچا سکے۔ اِس لیے فرد کے انفرادی نمو اور ترقی کے لیے لازم ہے کہ اُس کے لیے موافق ماحول کا انتظام کیا جائے۔ اِس تمام گفتگو میں بنیادی سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ فرد کی استعداد اور صلاحیتوں کی معراج یا درجۂ کمال کیا ہے؟ اس کے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ اِس تخلیق (انسان) کا مقصدِ تخلیق کیا ہے۔ اِس کے دو جوابات ہو سکتے ہیں۔ اگر تو انسان اِس دنیا کی زندگی کے بعد کسی زندگی کا قائل نہیں تو اُس کا جواب مادیت پرستی کے دائرے میں گھومتا نظر آئے گا۔ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ موجودہ دور مادہ پرستی کا دور ہے اور اس سوال کا جواب دیتے غالب نظریات مادہ پرستی پر ہی مشتمل ہیں۔ اِس کے برعکس اگر انسان اس دنیا کی زندگی کے بعد کی بھی کسی زندگی کا قائل ہے اور اسِ دنیا کی زندگی کو اپنے لیے امتحانی آزمائش گاہ سمجھتا ہے تو اُس کے لیے مقصدِ حیات اُس ہستی کی رضا کا حصول ہو گا کہ جس کے سامنے موجودہ حیاتِ زندگی کے بعد جواب دہی کے لیے حاضر ہونا ہے۔ اگر وہ ہستی اللٰہ کی ذات ہے تو پھر مقصدِ حیات بندگیِ رب کے سوا کچھ نہیں۔ یعنی انسان کا مقصدِ حیات اللٰہ کا بندہ بن کے رہنا ہے۔ اگر مقصدِ حیات بندگیِ رب قرار ٹھہرا ہے تو لازم ہے کہ انسان کو اُس استعداد اور صلاحیت سے بھی نوازا جائے کہ جو اِس اعلیٰ و ارفع مقصد کے حصول کے لیے ضروری ہے۔ جب یہ طے پا گیا کہ ہر انسان اِس بنیادی استعداد کا حامل ہے اور یہ استعداد اُس کے پیدا ہونے سے پہلے ہی اُس کے جینز میں شامل کر دی جاتی ہے تو اب ضروری ہے کہ اِس استعداد یا صلاحیت کے اپنے درجۂ کمال (بندگیِ رب) تک پہنچنے کے لیے سازگار ماحول بھی میسر ہو۔ یہی فلسفہ یا نظریہ وہ اساس ہے کہ جس کو بنیاد بنا کر ڈاکٹر اسرار احمد نے تنظیمِ اسلامی کی تشکیل کی۔ یعنی اِس جماعت کا مقصد سیاسی، معاشی اور معاشرتی سطح پر وہ اجتماعی ماحول پیدا کرنے کی جدوجہد ہے جو فرد کے لیے ممکن بنا سکے کہ وہ بالفاظِ قرآنی “اپنے رب کی بندگی کر سکے کسی کو اُس کا شریک نہ بناتے ہوئے”۔ اِس جدوجہد کے طریقۂ کار کے لیے تاریخ اور فلسفۂ تاریخ کے اصولوں کو سامنے رکھتے ہوئے ڈاکٹر اسرار احمد نے سیرتِ نبویٌ سے اصول اخذ کیے اور منہجِ انقلابِ نبویٌ کے عنوان سے اپنی جدوجہد کا طریقۂ کار وضع کیا۔ اِس موضوع (منہجِ انقلابِ نبویٌ) پر ڈاکٹر اسرار صاحب کے وڈیو اور آڈیو لیکچرز بھی موجود ہیں اور ایک ضخیم کتاب بھی موجود ہے۔

انیس سو پچھتر سے دو ہزار دو تک ڈاکٹر اسرار احمد تنظیمِ اسلامی کے بانی و امیر رہے اور دوہزار دو کے بعد وہ صرف بانی رہ گئے۔ امارت اُن کے بیٹے حافظ عاکف سعید کو منتقل ہو گئی جو تاحال اُنہی کے پاس ہے۔ اپنی امارت کے ستائیس سالہ دور میں کئی دفعہ ڈاکٹر اسرار احمد نے اپنے ہی بیان کردہ منہج کے برخلاف کچھ شارٹ کٹ لیے جو کسی طرح بھی مفید ثابت نہ ہوئے لیکن بشکرِ تعالیٰ انہوں نے امارت کی منتقلی کے وقت شوریٰ سے بحیثیت امیر اپنے آخری خطاب میں اپنی وہ تمام غلطیاں گن گن کر بتائیں اور نئے بننے والے امیر اور تمام رفقاء کو تلقین کی کہ اُن غلطیوں کو دوبارہ نہ دہرایا جائے اور اپنی تمام تر توجہ اپنے اصل منہج پر مرکوز رکھی جائے۔ وہ تقریر میثاق (تنظیمِ اسلامی کا ماہانہ رسالہ) دوہزار دو کے اکتوبر کے ایشو میں چھپی اور آج بھی موجود ہے لیکن افسوس کہ موجودہ قیادت اور رفقاء کو کبھی یہ توفیق نہیں ہوئی کہ اُن موتیوں کو چُن سکتے۔ میں دعوے کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ تنظیمِ اسلامی کے نوے فیصد رفقاء کو تو اس تقریر کا علم ہی نہیں ہو گا۔

Advertisements
julia rana solicitors

لیکن ایک غلطی ایسی تھی کہ ڈاکٹر اسرار احمد جب تک اس دنیا میں رہے اُس کا ازالہ نہ کر سکے اور اُس کا بوجھ اپنے ساتھ ہی اگلے جہان لے گئے۔ ہماری زندگیوں کے رُخ بدلنے کا جو احسان ڈاکٹر اسرار احمد نے ہم پر کیا ہے اُس احسان کی بدولت ہم اپنے ربِ تعالیٰ سے اُن کی مغفرت اور درجات کی بلندی کے لیے دعا گو ہیں اور رہیں گے۔ وہ غلطی تھی اُن کا اپنے بیٹے کو امیر بنانے کی۔ بیٹے کو امیر بنانے کی روداد اگرچہ ڈاکٹر اسرار احمد نے اپنی کتاب “حسابِ کم و بیش” میں تفصیل سے لکھ دی ہے کہ وہ خود دراصل حافظ عاکف سعید (موجودہ امیرِ تنظیم) کی بجائے ڈاکٹر عبدالخالق کو امیر بنانا چاہتے تھے، کیونکہ ڈاکٹر اسرار صاحب کی نظر میں اُن کے عمرانی فکر کو ڈاکٹر عبدالخالق سے زیادہ بہتر کوئی نہیں سمجھتا تھا، لیکن تنظیمِ کے چند رفقاء نے اُنہیں اس بات پر قائل کیا کہ حافظ عاکف سعید ہی بہتر چوائس ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کی رائے میں تبدیلی کی دو توجیہات پیش کی جاتی ہیں۔ ایک توجیہ یہ دی جاتی ہے کہ چونکہ ڈاکٹر صاحب جمہوری سوچ کے حامل تھے تو انہوں نے اپنی رائے پر دوسروں کی رائے کو ترجیح دی۔ اور دوسری توجیہ یہ دی جاتی ہے کہ ڈاکٹر اسرار صاحب اولاد کے فتنہ کا شکار ہو گئے اور پدرانہ شفقت کا جذبہ بالآخر اُن پر غالب آ گیا۔ میرے خیال میں پہلی توجیہ کمزور ہے کیونکہ جاننے والے جانتے ہیں کہ اپنی فکری سطح اور ذہنی استعداد کی بلندی کے سبب تنظیمِ اسلامی میں فیصلہ کن قوت ڈاکٹر اسرار صاحب ہمیشہ خود ہی رہے ہیں، جب تک کہ وہ امیر رہے۔ وہ ہمیشہ اپنے ساتھیوں کو اپنے مؤقف پر قائل کر لیا کرتے تھے۔ ڈاکٹر عبدالخالق کے حق میں اور حافظ عاکف سعید کے مخالفت میں ڈاکٹر صاحب نے جو دلائل اپنی کتاب “حسابِ کم و بیش” میں دیے ہیں اگر اُن کا ہی بغور جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ دلائل بہت وزنی تھے۔ اتنے وزنی دلائل کے بعد بھی صرف دو چار بندوں کے اصرار پر اپنے بیٹے کے حق میں رائے بدل لینا دلالت کرتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب پدرانہ شفقت کے فتنے میں مبتلا ہوئے۔ میری رائے میں جہاں دوسری توجیح زیادہ وزنی ہے وہاں ایک تیسرا عنصر بھی تھا۔ وہ عنصر تھا ڈاکٹر اسرار احمد کا خاندان۔ واقفانِ حال جانتے ہیں کہ ساری زندگی ڈاکٹر اسرار احمد اور اُن کے خاندان میں موافقت نہیں رہی۔ پہلے پہل یہ جنگ ڈاکٹر اسرار اور اُن کے خاندان میں کاروبار کے بٹوارے کی وجہ سے تھی کہ ڈاکٹر اسرار احمد نے اپنے خاندانی کاروبار سے اپنا حصہ الگ کر لیا تھا اور اپنے حصے کی تمام دولت دین کی راہ میں خرچ کر دی۔ کاروباری ذہن رکھنے والوں کے لیے یہ فیصلہ کسی حماقت سے کم نہیں تھا۔ اس مخالفت کے اثرات بھائیوں سے شروع ہو کر ڈاکٹر اسرار صاحب کی اولاد تک پہنچے۔ ڈاکٹر اسرار احمد کی اولاد کے پھلتے پھولتے کاروباروں سے اس بات کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ اظہار لمیٹڈ، بنو مختار، مختار سنز ان ناموں سے کون واقف نہیں۔ یہ بڑی کمپنیاں ڈاکٹر اسرار احمد کے بھائیوں کی اور اب اُن کی اولادوں کی ملکیت ہیں۔ کوئی بھی نفسیات کا طالبعلم ڈاکٹر اسرار احمد کی اولاد کے اُس احساسِ محرومی کا اندازہ لگا سکتا ہے جس کا سامنا انہیں اُس وقت کرنا پڑتا ہو گا جب وہ اپنا موازنہ اپنے اربوں پتی کزنوں کے ساتھ کرتے ہوں گے۔ اگر اولاد میں یہ احساسِ محرومی والد کے لیے ردِعمل پیدا کر سکتا ہے تو یہ بھی فطری بات ہے کہ بچوں کی ماں بھی اپنے بچوں کی اس محرومی کا ذمہ دار اپنے خاوند کو ہی سمجھتی ہو گی۔ ہر عروج کو زوال ہے۔ ایک وقت آیا کہ غالب مغلوب ہو گیا اور خاندان ڈاکٹر اسرار احمد پر غالب آ گیا۔ میرے خیال میں ڈاکٹر اسرار کو خاندان کی مخالفت کا سامنا شروع دن سے ہی تھا لیکن وہ اس پریشر کو فیس کرتے رہے کہ اُن کو اس پریشر کا سامنا کرنے کی قوت اور حوصلہ اپنی جماعت اور جماعتی جدوجہد سے بہم ملتے رہے۔ جب جماعت ہی نے اُن کی توقعات کو پاش پاش کر دیا تو وہ دلبرداشتہ ہو کر سائیڈ پر ہو گئے۔ ورنہ ڈاکٹر اسرار احمد خود کہا کرتے تھے کہ میں نے مولانا مودودی کی زندگی سے یہ سبق سیکھا ہے کہ میں اگر موت کے بستر پر بھی ہوا تب بھی تنظیم کی امارت نہیں چھوڑوں گا۔ بہرحال وجوہات جو بھی ہوں ڈاکٹر اسرار احمد صاحب کے پاس آٹھ برس تک موقع تھا کہ اپنی اس غلطی کا ازالہ کرتے اور لوگوں کو اپنی اس غلطی سے بھی آگاہ کرتے لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا اور خاموشی اختیار کی۔ اُن کی کمزوری کا خمیازہ پوری جماعت نے بھگتا۔ اُن کا حال بھی مولانا مودودی جیسا ہوا۔ تنظیمی فیصلہ سازی کے عمل میں انہیں کارنر کر دیا گیا۔ جب ایک رفیق (شاہد اسلم صاحب) نے ڈاکٹر صاحب سے شکوہ کیا کہ آپ کا بیٹا آپ کی فکر سے منحرف ہو چکا ہے تو ڈاکٹر صاحب نے اپنی بے بسی کا اظہار ان الفاظ میں کیا کہ “میں جانتا ہوں یہ سب۔ لیکن جب میں عاکف سعید اور اس کے ناظمِ اعلیٰ (اظہر بختیار خلجی) کو بلاتا ہوں یہ بات ڈسکس کرنے کے لیے تو یہ دونوں میرے پاس آتے ہی نہیں”۔ اور بھی بہت سے شواہد ہیں جو یہ بات ثابت کرتے ہیں کہ ڈاکٹر اسرار احمد کو حافظ عاکف سعید کی سوچ سے اختلاف تھا جس کا اظہار وہ پبلکلی نہیں کرتے تھے۔ ایسے دو موقعوں کا تو میں خود شاہد ہوں۔ ڈاکٹر صاحب کی وفات سے دو ماہ پہلے میری ڈاکٹر اسرار صاحب سے خالد محمود عباسی صاحب کی موجودگی میں اسلام آباد میں ڈاکٹر صاحب کے ایک دیرینہ ساتھی کے گھر کافی طویل نشست ہوئی تھی۔ اس میں ڈاکٹر صاحب نے وکلاء تحریک کے بارے تنظیم کے مؤقف پر تنقید کی تھی۔ پھر وفات سے ایک ہفتہ پہلے فیصل آباد میں بھی رفقاء کے ایک اجتماع میں ڈاکٹر اسرار صاحب نے حافظ عاکف سعید کی موجودگی میں ان پر وکلا تحریک میں شامل نہ ہونے کے تنظیم کے فیصلے پر تنقید کی تھی جسے موجودہ خوفزدہ امیر (عاکف سعید) نے وڈیو سے ایڈیٹ کروا کے نکال دیا ہے تاکہ ان کا تنقید سے بالاتر امیج قائم رہ سکے۔ میرے خیال میں اللٰہ نے ڈاکٹر اسرار احمد صاحب کو اپنے اس غلط فیصلے کے ثمرات اُن کی آنکھوں کے سامنے تنظیم کی تباہی کی صورت دکھا کر اسی دنیا میں ہی اُن کے کفارے کا سامان کر دیا۔ اللٰہ سے دعا ہے کہ آخرت میں اُن کی اس غلطی کو درگزر فرمائے اور انہیں اپنے منظورِ نظر لوگوں میں شامل فرمائے۔ ڈاکٹر اسرار احمد اور مولانا مودودی کی اولادوں میں ایک قدر مشترک ہے اور ایک قدر مختلف۔ دونوں کی اولادوں نے اپنے والد کے فکری منہج پر اپنی زندگیاں گزارنے سے انکار کیا۔ قدرِ مختلف یہ ہے کہ مولانا مودودی کی اولاد نے اپنے والد کی فکری وراثت کو قبول کرنے سے ہی انکار کر دیا جبکہ ڈاکٹر اسرار احمد کی اولاد نے اپنے والد کی فکری وراثت کو اپنے کاروبار کا ذریعہ بنایا۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو مولانا مودودی کی اولاد اخلاقی اعتبار سے ڈاکٹر اسرار احمد کی اولاد سے کہیں تر بلند مقام رکھتی ہے کہ انہوں نے اپنے باپ کے نام پر کاروبار نہیں کیا۔

Facebook Comments

عمران بخاری!
لیکچرار، قومی ادارہءِ نفسیات، قائدِ اعظم یونیورسٹی اسلام آباد

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply