حب الوطنی بھی ایماں ہے۔۔۔نذر محمد چوہان

پاکستان کو بنے ستر سال ہو گئے ہیں لیکن نہ تو عوام ، نہ ہی حکمران ، حُب الوطنی کے جذبے سے سرشار نظر آئے ۔ مسجد کی ٹوُٹیاں ، پنکھے اور جُوتیاں آج بھی چُرائی  جا رہی ہیں ۔ گلاسوں اور واٹر کولر کو زنجیروں سے باندھا جاتا ہے۔ وُکلا اپنے چیمبر کی کرسیوں اور میزوں کو بھی جانوروں کی طرح باندھتے دکھائی  دیتے ہیں ۔ اوورسیز پاکستانی نہ اپنی جائیدادیں کرائے پر چڑھا سکتے ہیں نہ رشتہ داروں کو امین بنا کر بٹھا سکتے ہیں ۔ عدالتیں اس سارے سرکس کا حصہ ہیں ۔ لوگوں نے گورنر ہاؤس کا بھی اسٹے لیا ہوا ہے ۔
کل سپریم کورٹ میں پنجاب کے دو سابقہ وُزرااعلی نوازش شریف اور پرویز الہی ننگے ہو گئے ۔ ایک نے ۱۹۸۵ میں دربار سے ملحقہ زمین جس کا کیس سپریم کورٹ میں زیر التوا تھا کا اوقاف کا نوٹیفیکیشن کینسل کر کے لینڈ مافیا کو دے دی اور دوسرے نے ۲۰۰۵ میں جنگلات کی زمین ملک ریاض کو ۔ عدل کا نظام تو ان معاشروں کے لیے ہوتا ہے جہاں اچھے  ذہن اور اخلاقیات کے مالک محب وطن لوگ ہوتے ہیں ۔ یہاں تو ملا عمر کا قاضی کا ہاتھ کاٹنے والا نظام چاہیے ۔ وگرنہ تو قدرت کا انتقامی تماشا ہی بچتا ہے ۔ نئے پاکستان کے نئے وزیر قانون ، کونسا نیا قانون لا رہے ہیں ؟ کیا وہ قوانین عوام اور اشرافیہ کی ستر سال کی پلیتیاں دھو سکیں گے ؟ من پلیت ہو تو غلاظت اور مکھیاں ہی آتی ہیں ۔ یہاں تو اب من کی صفائی  ٹھہری جناب !
کچھ دن پہلے کابل میں امریکہ کی ریاست Utah کے ایک شہر کے سابق مئیر اپنے ہی طالب علموں کے ہاتھوں مارے گئے ۔ برینٹ ٹیلر افغان ملٹری کے جوانوں کو کمانڈو ٹریننگ پر معمور تھا اور شدت سے دوبارہ میئر شپ جائن کرنے کا منتظر ۔ اس کی فیملی اور بچے واپسی کی راہ تک رہے تھے ۔ امریکی جریدے ٹائم نے اس کے جذبات کو بہت خوب اس کی فیملی کے حوالے سے کچھ یوں بیان کیا ؛
‏His three priorities were , God , family and country
ہم پاکستانیوں کی ترجیحات ، پیسہ ، عہدہ اور طاقت ۔ کل ہی ایک پاکستانی حاضر سروس ایس پی کی مسخ شدہ لاش افغانستان سے ملی اور اس کی بیٹی اپنے والد کی تصویر ہاتھوں میں لیے سوشل میڈیا پر وائرل ، سراپا احتجاج ۔ اسی ہفتہ کے ٹائم میگزین کا ایک اور اقتباس۔
Jamal Khashoggi was dead moment he walked into the Saudi consulate . Marie Colvin was dead the moment Assad’s artillery picked up her satellite broadcast”
۲۰۱۲ میں بہت مشہور امریکی جرنلسٹ کولون کو اس وقت آرٹیلری کی بمباری سے شام میں مارا گیا جب وہ سیٹیلائٹ ٹیلیفون سے عالمی  ذرائع ابلاغ کو ایک شہر میں بچوں اور نہتے شہریوں پر بشار الاسد کے تشدد کا مراسلہ بھیج کر ہٹی تھی ۔ یہ سب لوگ جنہوں نے انسانیت کی خاطر قربانیاں دیں ، یہ سب زندہ ہیں ۔ کل حسین حقانی نے یہ ٹویٹ کر کے کہ پاکستانی ایمبیسی اسے جمال کی طرح مارنے کے لیے بُلا رہی ہے ۔سستی شہرت حاصل کرنے کی ناکام اور بھونڈی کوشش ۔ بہتر ہے کہ  وہ اپنے آقا زرداری کے راستے پر ہی مگن رہے ۔ حسینی شہادت تو خوش نصیبوں کو میسّر ہوتی ہے ۔ اُس کے لیے مسلمان اور پاکستانی ہونا ضروری نہیں ، صرف انسانیت کی علمبرداری شرط ہے ۔
ہم ایک دائرہ میں زندہ ہیں ، وہ خدا ، فیملی ، وطن اور انسانیت کے محور کے گرد گھومتا ہے ۔ اس میں خلل نہ ڈالا جائے تو یہ دنیا ہی جنت وگرنہ دوزخ ۔ نعروں ، قوانین اور شعبدہ بازیوں سے کچھ حاصل نہیں ہو گا ۔ سیدھا راستہ بہت آسان اور سادہ ہے ۔ نعرے ، تحویلیں اور توجیہات باندھنا بلکل بیکار ، جہالت اور بدنیتی کے سوا کچھ نہیں ۔ پاکستان پائیندہ باد ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply