استنبول کی ایا صوفیہ۔۔۔۔سلمیٰ اعوان

پیٹ پوجا اور یاری دوستیاں نپٹا کرجب ہم واپس ہوٹل پہنچے.ریسپشن پر کھڑے لڑکے نے ایک بروشر ہمارے ہاتھوں میں تھما دیا۔یہ شہر کی خوبصورت جگہوں کی سیر کا پیکج تھا۔میں نے بے اعتنائی سے اُسے دیکھا۔چھوٹتے ہی انکار کردیا اور آگے بڑھ گئی۔
کسی بھی جگہ کی سیر کیلئے میرا طریق کا ر ہمیشہ بڑا مختلف رہا۔لیکن مجھے مڑ کر دیکھناپڑا تھا۔سیما اپنی جگہ جمی کھڑی تھی۔حسین تھی۔چہرے پر غصے اور رعُونت کے آڑھے ترچھے عکس بکھرے ہونے کے باوجود بڑی دلکش لگ رہی تھی۔کہیں میرے جیسی صورت ہوتی تو نری چمارن لگتی۔
وہ غرّائی تھی۔۔۔
”نہ تمہیں خجل خوار ہونے کا بڑا چاؤ ہے ناں۔تو وہ بھی ہو لیں گے،بلکہ بسم اللہ تو ہوگئی ہے۔دیکھو پلیز۔شُتر بے مہار وں کی طرح ادھر اُدھر بھٹکنے کی بجائے چلو کسی گروپ کے ساتھ نتھی ہوجائیں اور قاعدے طریقے سے کچھ دیکھ لیں۔“
اُس کے پاس باتوں اور دلائل کا ایک ڈھیر تھا۔یہ اور بات تھی کہ وہ سب میرے نزدیک فضول تھے۔
”دیکھو نا کتنے لوگ دھڑا دھڑ بکنگ کروا رہے ہیں۔۔یہ سب پاگل تو نہیں۔“
بہرحال میں نے اُس کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے 50یورو فی کس کے حساب سے ایک دن کے پروگرام پر ٹک لگا دی۔اب پھڈا تو ڈالنا نہیں تھا۔
ڈائننگ روم شاندار ہی نہ تھا۔زمانے بھر کی چیزوں سے بھی ناکوں ناک بھرا پڑا تھا۔مغربی گوشہ،ترکی کی سپیشل ڈشوں سے سجا،مشرقی کونہ مغربی لوازمات سے آراستہ۔ میرے جیسی ازلی حریص سبھوں پر ہاتھ صاف کرنا چاہتی تھی۔ہر ذائقہ سے زبان کی خاطر مدارت اور اس کی شناسائی کی خواہش مند تھی۔اُس بھونرے کی طرح جو پھول پھول اور ڈالی ڈالی پر منڈلاتا ہے۔میں بھی ڈھکن اٹھا اٹھا کر کھانوں کے رنگوں،شکلوں، اُن کے اندر سے اٹھتی خوشبوؤں کا معائنہ کرتی جاتی تھی۔جوسز کی اقسام کا کوئی شمار نہ تھا۔دودھ دہی،سریل پھر جیسے میری نظر ایک بڑی سی ہنڈیا نما برتن پر پڑی۔ڈھکن اٹھایا تو خوشبوؤں نے جیسے استقبا ل کیا۔پاس سے گزرتے ویٹر سے پوچھا۔
”یہ سپیشل ترکی ڈش گوکGuvecہے۔اناطولیہ کے ہر گھر میں ہفتے کے تین دن پکنی ضروری ہے۔“
پلیٹ میں ڈالی اور کھائی۔کیا شاندار ڈش تھی۔آلوؤں،گاجروں،پھلیوں اور گوشت کے قتلوں سے سجی۔کسقدر چٹخارے سے بھری تھی۔
میٹھے میں بقلاوہ بھی چکھا۔مگر بادام اور پستہ سے بھرا ہوا حلوہ تو بڑا منفرد سفید براق ٹکیوں کی سی صورت والاجیسے ہمارے ہاں کا سوہن حلوہ ہو۔مگر نہیں جی اِس کی تو بات ہی نرالی تھی۔گورا چٹا اور ذائقے سے لبالب بھرا پڑا۔فوراً اس کی دو ٹکیاں ٹشو پیپر میں لپیٹ کر بیگ میں رکھیں کہ دوپہر میں میٹھے کا کوٹہ پورا ہو۔
اپنی طرف سے دوپہر کے کھانے کی گنجائش نہیں چھوڑی تھی۔تیار ہوکر نیچے آئے تو بس آچکی تھی۔ساری بس میں دیسی تو بس ہم دو عورتیں ہی تھیں۔باقی پر تو میموں اور صاحب لوگوں کا ہی قبضہ تھا۔
یہ گائیڈ لوگ بھی بڑے کائیاں ہوتے ہیں۔ٹورسٹوں کو اپنی مرضی سے پٹخنیاں دیتے ہیں۔پہلے دو ڈھائی گھنٹے تو اُس نے کارپٹ اور ہینڈی کرافٹ کی اُن دوکانوں میں دستی کاریگری دکھانے میں لگائے جن سے یقینا ًًً اُن کا کمیشن طے تھا۔
ترکی قالین یقیناًًً  بے مثا ل تھے پر اسے کمال تک پہنچانے میں پہلے نمبر پر سیلز مینوں کی معلوماتی چرب زبانی تھی۔کِس خوبصورت میٹھے اور شرینی سے بھرے لہجے میں کہتے۔
”یہ قالین قونیہ کے نواحی قصبے قرہ مان کا ہے۔آپ تو قونیہ کی تاریخ سے بخوبی واقف ہوں گی۔“
مجھے ہنسی آئی تھی۔بھلااُس کی روحانی فضاؤں کے ذکر کا قالین بافی سے کیا تعلق؟ہاں انہیں دیکھیں ذرا۔۔اُس نے دو بڑے قالین لہرا کر ہمارے سامنے بچھادئیے۔یہ اسپارٹا کے ہیں۔“
واقعی گہرے عنابی اور  آف وائٹ رنگوں کا دلکش امتزاج،ڈیزائن اور بنت لاجواب۔انہیں بنانے میں بہت دیر لگتی ہے۔توصیفی جذبات بھی آنکھوں میں گھول لئیے تھے۔ اب وہ ہمارے سامنے سمرنا کے قالین کھول رہا تھا۔سمرنا ازمیر کا پرانا نام ہے۔لیجئیے صاحب آدھا تُرکی تو کسی نہ کسی صورت میں سامنے آگیا تھا۔
یہ بھی رنگوں اور نمونوں کے اعتبار سے لاجواب تھے۔ جی چاہتا تھا سب اٹھا کر لے جائیں۔تاہم یہ بھی ماننا پڑے گا کہ ان کے تمثیلی مظاہروں میں جو جدت سٹائل اور مہارت تھی وہ اُن کے حسن کو دوچند کرتی تھی۔
کس سٹائل سے وہ بھاری بھرکم قالین کو زمین پر گراتے تھے۔مجھے بے اختیار وسطی پنجاب کے گاؤں کی وہ الہڑ مٹیاریں یاد آئی تھیں جو گند م کے آٹے کے پیڑوں کو منڈے(پھلکے)بنانے کیلئے ہاتھوں میں لہراتے گھماتے ہوئے اسی دلربایانہ انداز میں توی پر پکنے کیلئے ڈالتی ہیں۔
مٹی سے ظروف سازی اور اس پر تزئین کاری کا عمل بھی ہمارے ہاں کے کمہاروں جیسا ہی تھا۔وہی چاک پر مٹی کے لوتھڑے کو گھمانے اوراُسے شکل دینے کا عمل۔تاہم یہاں کام میں جدت اور ماڈرن ازم تھا۔
ہینڈی کرافٹ کی دوکان میں لڑکوں نے ڈانگریاں پہن رکھی تھیں۔رنگوں سے یوں لُتھڑی ہوئی جسے فوجیوں کی کیموفلاج والی وردیاں ہوں۔بڑے لڑکے نے اپنے بارے اور اِس آرٹ بارے بتایا کہ وہ ترکی کے ایک چھوٹے سے قصبے کوتاہیہ سے ہے۔جو اس فن کا گھر ہے۔یہاں یہ پیشہ آباواجداد سے ورثے میں ملتا ہے۔یہ ضرور ہے کہ ہم نئی نسل نے تعلیم حاصل کی اور اس میں روایت کے ساتھ ساتھ جدت کے استعمال نے اسے قابل فخر بنا دیا۔ہماری یہ چیزیں سجاوٹی زیادہ ہیں۔کمرے میں رکھی گئی نمائشی اشیا نے رنگ و نور کی بارش برسا رکھی تھی۔
پون گھنٹہ نہ ہوگا تو گھنٹہ سوالگا لیجئیے۔جب ہمیں سلطان احمت سکوائر کے عین وسط میں بنے ات میدان میں لاکھڑا کیا۔بازنطینی اسے ہپو ڈرومHipodrome کہتے تھے۔بس سے اُترنے سے قبل کمال کا دلکش منظر میری بصارتوں سے ٹکرایا تھا۔ایک طرف ایا صوفیہ اپنے میناروں اور منفرد گنبد کے ساتھ،دوسری طرف نیلی مسجد اپنے اوپر نیچے کے گنبدوں اور چھ میناروں کے ساتھ۔ذرا دور وہ عظیم الشان فصیل توجہ کھینچتی تھی۔
بس سے نیچے اُتر کر نئے منظر،نئی رعنائیوں کے ساتھ سامنے آئے تھے۔اس وقت دھوپ تیز تھی اور اِس تیزی میں اس کے سرسبز لانوں،ان میں اُگے گل بوٹوں،شاہ بلوط اور چناروں کے درختوں کی ہریالیوں،اس کے چمکتے میدان،ان میں سربلند زمانوں کی تاریخ اٹھائے چوکور بلند و بالا کالموں کو دیکھنا کسقدر فسوں خیز تھا۔غیرملکیوں کے پُرے گائیڈوں کو دائروں میں سمیٹے بے چاروں کو تاریخ سے ہلکان ہوتے دیکھتے اور سنتے تھے۔
میں زمان و مکان سے بالا کہیں اُس عظیم بازنطینی شہنشاہ کونسٹینن کی دنیا میں سانس لیتی تھی۔جب وہ اس شہر کو رومن سلطنت کا دوسرا دارلخلافہ بنانے کیلئے اِسے اُسی معیار کا بناناچاہتا تھا۔اس میں تعمیراتی کام کا آغاز تو شہر فتح ہونے کے فوراً بعد septimus severus کے زمانے میں ہی شروع ہوگیا تھا۔تاہم اسے عروج تک پہنچانے میں کونسٹینین کو ہی خراج پیش کرنا ہوگا۔
سچ تو یہ ہے کہ اُس نے ہپوڈروم کو بھی ویسے ہی بنایا سجایا۔ریس ٹریکوں میں بنے بمپروں کو آرٹ کے نمونوں سے حسن دیا۔یہ رتھ ڈور کاہی نہیں جو بازنطینوں کی زندگیوں میں کھانے پینے جیسی اہم ضرورت جیسا جز تھا،بلکہ ہر نوع کی کھیلوں، ثقافتی سرگرمیوں اور میلوں ٹھیلوں کا مرکز بھی تھا۔شاہی شادیوں کا اگرجنج گھر تھاتوعوام کا اتوار بازار یا جمعہ بازار بھی تھا۔جو جی چاہتا ہے کہہ لیجئیے۔اُس دور کی ہر قسم کی ایجی ٹیشن سرگرمیوں کیلئے بھی اِسے ہی چنا جاتا۔یہیں خوفناک قسم کے جھگڑے ہوتے۔مارکٹائیاں ہی نہیں بلکہ بڑے پیمانے پر قتل و غارت بھی ہوتا۔
وہ دلچسپ واقعہ بھی اِسی ہپو ڈروم سے ہی متعلق ہے کہ سلطان ابراھیم کا وزیر اعظم جو حد درجہ فربہی جسامت کا مالک تھا۔اُس کی معزولی اور پھانسی کے بعد اس کی لاش کو اسی میدان میں پھینک دیا گیا۔صُبح سویرے ایک ینی چری(عثمانی فوج کا خاص سپاہی)
نے لاش کو دیکھا۔اب یہ تو اللہ جانے کہ اس نے یہ سُن رکھا تھا یا یہ اس کی ذہنی اختراع تھی کہ موٹے شخص کا گوشت جوڑوں کے درد کا موثر علا ج ہے۔اُس نے فوراً لاش کے ٹکڑے ٹکڑے کرکے انہیں بیچنا شروع کردیا۔دس پیاستر کا ایک ٹکڑا۔
سیما کِس انہماک سے گلا پھاڑتے گائیڈسے یہ کہانی سُن رہی تھی۔میں نالائق دائیں بائیں دیکھتی تھی۔خوبصورت آہنی جنگلوں میں مقید مصری obelisk،سرفنٹائن اور کانسٹنٹائن کالم دیکھنے اور ان کی تاریخ سے تھوڑی سی جانکاری کرنا بھی بڑے مزے کا کام تھا۔
ایک تو وقت کے بادشاہوں کو اپنے ناموں کے جھنڈے گاڑنے کا بڑا چسکا اور بڑا ارمان ہوتا ہے۔چیزوں کی اکھاڑ پچھاڑ۔یہاں سے پُٹو وہاں لگادو۔ان کیلئے ایسے کام بڑے پسندیدہ ہوتے ہیں۔اب یہ گلابی گرینائٹ والی ابیلسیکobeliskجسے فرعون تھوتھمس سوم نے دریائے نیل کی ایک چٹان سے کٹوا کر بنوائی اور مصر کے جنوبی شہر لکسر کے کرنک ٹمپل میں گاڑھی۔اس پر اس وقت کی رائج تحریری رسم الخط ہیرو گلیفکسHieroglyphics میں کندہ کاری بھی کروائی۔میں نے لکسر شہر کے کرنک ٹمپل میں ایسے کئی نمونے دیکھے تھے۔اب بازنطینی شہنشاہ تھیوڈوسTheodosiusاوّل نے اسے وہا ں سے اکھاڑا اور لا یہاں نصب کیا۔

Advertisements
julia rana solicitors

تمغہ کس کے گلے میں ڈالا جائے۔تھوتھمس کے یا تھیوڈوس کے۔اُس وقت میں بھی وقت کی ٹنل میں کھڑی تھی۔میں نے ہنستے ہوئے اِسے دونوں کے گلوں میں ڈال دیا۔
کانسٹنٹائن کالم Constantine کانسٹنٹائن ہفتم نے پیتل اور تانبے سے بنوایا تھا۔بیچارے کی زلزلوں،برفانی ہواؤں اور طوفانوں نے مت مار دی۔مگر شیر کا بچہ ابھی بھی کھڑا ہے۔چیلنج کرتا ہوا۔
سب سے دلچسپ پر اس کے ساتھ ساتھ خوفناک اور ڈراؤنے تاثر کو ابھارتا سرفنٹائن serfentineکالم ہے۔یہ ات میدانی کا دوسرا بڑا کالم ہے۔جسے کانسٹنٹائن ڈیلفی (Dephi) کے اپالونApollonٹمپل سے لایا تھا۔یہ یونانیوں کی اُس فتح کی یاد میں ہے۔جوانہیں فارسیوں پر نصیب ہوئی تھی۔گائیڈ بتا تا تھا کہ کبھی یہ تین سروں والا اژدہا تھا۔مگر اب سر ور غائب تھے۔ایک کنڈ ل سا باقی تھا۔یوں دیکھنے میں بڑا ہی ڈراؤنا ساتھا۔سب سے زیادہ سیاحوں کا رش اسی کے گرد تھا۔
”ہائے یہ ات میدان تو ڈاؤن ٹاؤن کا دل ہے۔“میں نے گردوپیش پر ایک بھرپور نظرڈالتے ہوئے خود سے کہا۔
اتنا حسین،اتنا تاریخی۔۔ جرمن قیصر ولیم کا فوارہ بھی دیکھنے کی چیز تھی۔استنبول آیاتو سلطان عبدالحمید ثانی نے دیدہ و دل اس کی راہوں میں بچھائے۔یروشلم گیا تو باب جیفہ تک اُس کی بگھی کیلئے پکّی سڑک بنوائی۔قیصر میزبانی سے ایسا متاثر ہوا کہ واپس جا کر یہ بنوایا اور ٹرین سے بجھوایاجو یہاں نصب ہوا۔
بھئی جرمنی اور ترکی میں بڑی محبت تھی۔سیما اور میرے درمیان مکالمہ ہوا۔ مفادات بھی ایک دوسرے سے جوڑے رکھتے تھے۔اِس دوستی نے ہی تو ترکی کو بُرے دن دکھائے۔وہ جو کہتے ہیں ہم تو ڈوبے ہیں صنم تجھے بھی لے ڈوبیں گے۔تو جب جنگ عظیم کا طبل بجا تو سیاسی بصیرت اور وژن نہیں تھا کہیں۔ دوستی اور ماضی کے تعلقات پیش نظر تھے۔
چلو گھنٹہ بھر میں اس کی سیر سے بھی نپٹے۔حالانکہ ضرورت تھی کہ یہاں کچھ وقت مزید گزارا جاتا۔بہت خوبصورت ماحول تھا۔مگر نہیں جی ہوا کے گھوڑے پر سوار والی بات تھی۔ چل سوچل۔
میرے صبر کا پیمانہ اُس وقت لبریز ہوگیاجب ایا صوفیہ کو دیکھنے کیلئے صرف آدھ گھنٹہ ملا۔ایاصوفیہ سے میری جذباتی وابستگی زمانوں سے تھی۔اس کی فینٹسی نے ہمیشہ مجھے مسحور رکھا۔ساتویں جماعت میں پڑھنے والی وہ لڑکی ہمیشہ میری یاداشتوں میں محفوظ رہی جو اپنی اردو کی کتاب میں ایا صوفیہ کی کہانی پڑھ کر اپنی کلاس میں ہی بیٹھی اس کی تصویر کو دیکھتی اور سر عبدالقادر کا لکھا ہوا احوال پڑھتی رہی تھی۔ سکول خالی ہوگیا تھا۔وہ لڑکی میں تھی اور ایا صوفیہ آج میرے سامنے مجسم تھی۔
ایک پر وقار ہیبت، ایک انوکھے طلسم قدم قدم پر منجمند کرنے والے سحر سے بھری ایا صوفیہ بہت سے ادوار کی کہانیاں سُناتی ہے۔وہ کہانیاں جنہیں سُننے کی مجھے شدید تمنا تھی۔بازنطینی طرز تعمیر اور مشرقی رومن ایمپائر کے دبدبے اور عظمت کی مظہریہ جسے چرچ آف ڈیوائن وزڈمChurch of Divine Wisdomکہا گیا ہے۔یہ جس کی فضاؤں میں عثمانی سلاطین کی مذہبی رواداری کی خوشبو ہے۔اس خوشبو کو محسوس کرنے اور سونگھنے کیلئے وقت درکار تھا۔
میں ہجوم سے الگ ہوگئی تھی۔میں تھی،ایا صوفیہ تھی اور اندر باہر پاکستانی پاکستانی کی سارے میں ڈھنڈ یا پڑی تھی۔گائیڈ مجھے تلاش کرتے کرتے بے حال تھا۔سیما میرے یوں گواچی گاں کی طرح منہ ماری پر تلملا رہی تھی۔
”تمہارے ہمیشہ سے ہی ایسے لچّھن رہے ہیں۔سوات میں بھی تم نے مجھے اور نیلم کو یوں ہی ذلیل کیا۔دریا سے جھپیاں ڈالنے بیٹھ گئیں اور ہم روتی رہیں کہ ہائے ہماری پیاری سہیلی کو لہروں نے نگل لیا۔“
”لعنت ہے تمہارے اوپر۔مجھے بھی تپ چڑھی ہوئی تھی۔تاریخ سے کچھ واقفیت ہو تو جانو کہ استنبول کی جگہیں ٹھنڈے میٹھے روح افزا کے وہ گلا س ہیں جنہیں مزے لے لے کر گھونٹ گھونٹ پینے کی ضرورت ہے۔یہ الّو کے پٹھے پورا گلاس سانس لئیے بغیر ہمارے حلق میں انڈیل دینا چاہتے ہیں۔مجھے اچھّو نہیں لگوانااور ہاں سُنو مجھے اپھارہ بھی کروانا۔“
”لو وڈی امّاں بنی پھرتی ہے تاریخ کی اور سُنا بھی مجھے رہی ہے جو تاریخ اور سیاست پڑھنے والے شوہر سے صُبح شام لیکچر سُن سن کر اِس تاریخ سے ناکوں ناک آئی پڑی ہے۔“
اس وقت میں ایا صوفیہ کے سحر میں گُم تھی۔ جوابی حملہ کر ہی نہیں سکی۔ مگر میں نے بس میں چڑھنے کے ساتھ ہی گائیڈ کودیکھتے ہی زوردارآواز میں اعلان کردیا تھا۔
”ہم آپ کا پیکج ہاف ڈے کا کررہے ہیں۔ہوٹل والوں کو مطلع کردیجئیے۔“
ہاف پیکج کا آخری آئٹم گرینڈ بازار کی سیر تھی۔
گاڑی گرینڈ بازار کے قریب ایک پارکنگ میں آکر رُک گئی تھی۔
پہلے ایک عظیم الشان مسجد نظروں میں آئی۔نور عثمانیہ مسجد۔بائیں ہاتھ منی چینج آفس کی عمارت دکھائی دی۔
”چلو اچھا ہے کرنسی بدلوانے کی کوئی صورت تو نکلے گی۔“ میں نے خود سے کہا۔
گرینڈ بازار کے بیرونی دروازے کے ساتھ ہی منی چینج آفس تھا۔ میں اور سیماں فوراً اس میں گھس گئیں۔ جگہ تنگ اور لوگ زیادہ۔میں آخری کونے میں جا کر کھڑی ہوگئی۔ شیشے کی چھوٹی سی دیوار میں بنے قوس نما کٹ میں سے سر کو جھکا تے ہوئے سیٹ پر بیٹھے با ئیس ’22‘تیئس ’23‘سالہ خوش شکل سے لڑ کے سے میں نے ڈالر اور یورو کا ریٹ پوچھا۔
”1.42اور 1.82“ جواب ملا۔
”پر یہ تو کم ہے۔ 1.46اور 1.85ریٹ ہے۔
پھر کچھ سو چتے ہوئے اپنایت کے اظہار کے طور پر میں نے پاکستانی ہونے کا بتایا۔ لڑکا کھلکھلا کر ہنسا اور بولا۔
”پھر تو 1.40ہونا چاہیے۔“
میں کچھ حیرت زدہ سی ہوئی۔ ترک پاکستان اور پاکستانیوں سے بہت محبت کر تے ہیں۔ سُنی سنائی اور پڑھی پڑ ھائی باتوں کے بر عکس ہمار ا ڈیڑھ دن کا تجربہ اگر  زیادہ حوصلہ افزانہیں تو مایوس کن بھی نہ تھا۔ پر یہ تو خاصی دل شکنی والی بات تھی۔ تاہم میں نے سر جھٹکا اور نوٹ گننے لگی جو 1.42کے حساب سے 284لیرا ہی تھے۔
284لیرے جو پرس کی اندرونی جیب میں آسانی سے کھڈے لائن لگ گئے تھے۔ دوسو ڈالر کی تو میرے ملک میں نوٹوں کی اچھی خاصی تھدی بنتی ہے۔ بیرون ملک بیشتر پاکستانیوں کی طرح میرے سینے سے بھی لمبی لمبی آہیں نکلتی ہیں۔ مقابلوں اور موازنوں میں ”کاش“ کی ہُو ک کلیجہ تڑپاتی ہے۔
سب سے پہلے تو جس چیز نے نگاہ و دل کو قابو کیا وہ بازار کا کشادہ محرابی داخلی دروازہ تھا۔پیشانی پر کیپلی کارسیKapalicarsi سنہ1461 ؁ء درج تھا۔ زمانوں کی تاریخ اور ورثہ سنبھالنے والا یہ بازار۔
اُف مرعوبیت انتہاؤں پر تھی۔
عربی رسم الخط میں دو لمبی قطاروں میں خلافت اسلامیہ،سلطنت فلاں ابن فلاں کی تفصیل چمکتی تھی۔اندر الف لیلوی کہانیوں کی طرح تھا۔بیضوی چھتوں کے ساتھ آگے اور دائیں بائیں، اطراف سے محراب در محراب پھیلتا ہلکے زردئی رنگ میں ڈوبا ہوا جس پر شوخ رنگوں کی نقش و نگاری اسے بازاروں کی دنیا میں ایک انفرادیت دیتی تھی۔ برقی قمقموں کی تیز جگمگاتی روشینوں میں اسکی سجی ہوئی دوکانیں سیاحوں کے دلوں پر برق بن کر گررہی تھیں۔
شاپنگ کبھی میرا کریز نہیں رہا۔ پر سیما کی یہ کمزوری ہے۔ابھی ہمیں استنبول وارد ہوئے دوسرا دن ہے اور اُسے ہوٹل والی گلی میں جیولری کی دوکان نظرآگئی ہے اور اُس کا دل ہیرے کی انگوٹھی پر بھی آگیا ہے۔یہ اور بات ہے کہ ابھی بھاؤ نہیں بنا۔مگر مجھے امید ہے کہ بارہ دن جب ہماری واپسی ہوگی وہ اس کی انگلی میں لشکارے ماررہی ہو گی۔
اُس نے بُسرا نامی کوئی سپیشل کپڑا بھی خریدنا ہے جس کی فرمائش اس کی لاڈلی بیٹی عروج نے کی ہے۔
”دیکھو میں یہ فضول کام ہرگز نہیں کرسکتی۔“واشگاف الفاظ میں میرا اعلان تھا۔
کپڑے کی چند دکانوں کے سامنے اُسے کھڑا کرتے ہوئے کہا۔”چلو اپنا شوق پورا کرو۔میں کوئی پون گھنٹے بعد تمہارے پاس ہوں گی۔“
”اب گُم نہ ہوجانا۔“اُس نے تنبیہی نظروں سے مجھے گھورا۔اُس سے زیادہ میری منہ ماری کی عادت سے بھلا کون واقف تھا۔
بازار بُھول بُھلّیوں،پیچ در پیچ سلسلوں اور رنگ و بو کے طلسم سے بھری ایسی دنیا تھی جہاں بھٹکنے کا ننانوے نہیں سو فیصد چانس تھا۔میں نے احتیاط برتی۔ہر خم میں داخل ہوتے ہوئے اُس کی خصوصیات ذہن نشین کیں۔تھوڑا سا آگے جا کر واپس پلٹی۔پھر اِس عمل کو دہراتے   ہوئے کِسی اور طرف بڑھی۔زیادہ مہم جوئی سے گریز کیاکہ سیما کا خیال اور اسکی ناراضگی پیروں کی بیٹری بن گئی تھی۔قریبی کیفے میں بیٹھ کر شیشے کے چھوٹے سے گلاس میں بغیر دودھ کے کسیلا قہوہ جسے میں نے پانچ چھ چینی کی کیوبز سے میٹھا کر لیا تھا پیتے ہوئے غیر ملکی سیاحوں کے پُرے دیکھتی تھی۔اتنا سیاح کہ دل سے بار بار ہوک اٹھتی تھی۔میرے مولا میرا وطن کب اِن نظاروں سے بھرے گا۔
نور عثمانیہ مسجد بہت شاندار اور خوبصورت تھی۔ظہر کی نماز پڑھنے اندر گئیں۔اِسکے اندر کے حُسن کو سراہا ضرور مگر تفصیلی ملاقات پھر کِسی وقت کیلئے اٹھارکھی۔
پچھلی جانب کے کشادہ کھلے میدان میں بنی فوڈ سٹریٹ کے ایک کھوکھے سے پُرتکال (مالٹا) کا جوس پیا اور ایا صوفیہ دیکھنے کیلئے روانہ ہوئیں۔
بازار سے باہر ایک ریڑھی والے سے مکئی کے بھٹے خریدے۔ یا اللہ 80 اسّی لیرے کا سُن کر اپنے ملک کو دعائیں دیں۔ بے چارہ ماٹھا سا ہمارا دیس جسے ہر کوئی گالیوں اور کوسنوں کی سان پر چڑ ھائے رکھتا ہے۔دیکھو تو کتنا سستاہے۔ یہی چھلّی دس پندرہ روپے کی مل جاتی ہے۔ گرما گرم نمک مرچوں کے کرارے آمیزے اور کھٹے میں لتھڑی ہوئی۔
ہم اب پھر ایا صوفیہ کے سامنے کھڑے تھے۔ ٹکٹ دوبارہ لیئے۔ یہ کبھی کا یونانی آرتھو ڈوکس چرچ،عثمانی سلاطین کی مسجد،حال کاعجائب گھرسیما نے لاکھ کہا۔
”دیکھ تو لی ہے اب کیا اِسے چاٹنا ہے؟“
”ہائے سیما میرے زمانوں کا رومانس۔“
نظروں کے والہانہ پن سے میں اس کے مرکزی گنبد کو دیکھتی تھی۔زعفرانی رنگ میں ڈوبے دوسرے گنبدوں کو تکتی تھی۔ تیز روشن کرنوں میں اس پر چمکتے سنہری جھلکیاں مارتے اس کے طلائی نشان کے ہوائی بوسے لیتی تھی۔ اس کے چاروں کھونٹ گڑے میزائلوں جیسے میناروں پر میری چاہت بھری نظریں تھیں۔
مرکزی دروازے سے اندر داخل ہوتے ہی عظیم الشان گنبد نے گردن اٹھانے کیلئے کہا۔ماں بیٹے کی تصویریں۔بارنطینی دور کی پینٹینگ کیسی خوبصورت اور باکمال۔آنکھوں میں جلتی عقیدت اور محبت کی مشعلوں کی روشنی اُن تک پہنچائی اور آگے بڑھی۔وسیع عریض ہال میں داخل ہوتے ہی جیسے ایک طلسم کدہ آنکھوں کے سامنے وا ہوتا ہے۔آنکھیں حیرت زدہ سی چکرا چکرا کر کہیں اس کی بلندو بالا محرابوں سے ٹکراتی کہیں اُن میں ستونوں سے سجی بالکونیوں پر رُکتی ہیں۔پھر گردن سر کو اوپر اٹھا دیتی ہے اور چھت اپنی فسوں خیزی کے ساتھ آنکھوں میں اُتر آتی ہے۔اس کی ہیبت نے دیر تک جکڑے رکھا۔پھر محراب و منبر نے متوجہ کیا۔پھر وہ واحد،رشتوں سے بے نیاز میرارب میرا پیارا آقا ؐ اور وہ میری چاروں عزیز ہستیاں۔ ہیں کرنیں ایک ہی مشعل کی۔ ابوبکر،عمر،عثمان و علی“ نظر آئی تھیں۔آنکھوں میں مشعلیں سی جلیں۔دل کا کنول کھلا۔
سوچوں نے ایک منظر کھولا۔
وہ منظر جب وہ اکیس سالہ جیالا یہاں داخل ہوا تھا۔عفو و درگزر کا پیکر بن کر جس نے یہاں پناہ لینے والوں کوتحفظّ دیا تھا۔ اذان گونجی اور نماز ادا کی گئی۔گویا بشارت رسول ؐکی تکمیل ہوئی۔ سبحان اللہ دل تو میرا بھی چاہتا تھا کہ میں یہاں سجدہ دوں۔ مگر یہ اب میوزیم ہے دنیا کے دو بڑے مذاہب کا ورثہ سنبھالنے والا۔
دیواروں اور ستونوں پر محرابی صورت گیلریاں، بلند و بالا کھڑکیوں سے آتی روشنی فرش پر بتاشے سے بناتی، انتہائی قیمتی اور جہازی سائز شیلنڈلیئرز کی روشنیوں کے باوجود اندھیرا ٹھنڈک اور ایک باوقار سا طلسم اس کی ر گ رگ میں پھیلا ہوا محسوس ہوتا ہے۔پورے دو گھنٹے ہم نے وہاں گزارے۔ منظروں کو اپنی آنکھوں میں سموتے بالا ئی حصّہ بھی دیکھا۔ جو عورتوں کیلئے استعمال ہوتا تھا۔دروازوں پر کندہ کاری بے مثل محراب در محراب ساخت والی چھتیں،کھڑکیوں پر دلکش نقاشی اور مقدس ہستیوں کی تصویر کشی صدیاں گزرجانے پر بھی آب و تاب کی لو دیتی ہوئی۔ سیڑھیاں بہت زیادہ،اندھیرا اور پر اسراریت کا طلسم یہاں بھی کار فرما تھا۔
میرے لئیے وہ سب پینٹنگ بہت دلچسپی لئیے ہوئے تھیں۔جہاں شہنشاہComnenos II اور ملکہ آئرن تھیں۔کہیں شہنشاہ کونسٹینن منومیکبس اور ملکہ زوئے بیٹے کے ساتھ کھڑی تھیں۔کہیں وہ پیاری سی ورجن میری جسٹینن اور کونسیٹنن کے ساتھ تھیں۔بازنطینی دور کے آرٹ اور عقیدے کے شاہکار۔
تعمیر کی تاریخ بھی بڑی دلچسپ اور معجزاتی ہے۔شہنشاہ کے خواب میں فرشتے نے آکر اس کا نقشہ پیش کیا۔کام کے طریق کار کی وضاحت کی اور ہدایت کی کہ پانچ ہزار مستری اور مزدور دائیں طرف اور اتنے ہی بائیں طرف کام کریں۔ایک مرحلے پر جب پیسے کی کمی آئی اور تعمیر رُک گئی۔فرشتہ کِسی ہیجڑے کے روپ میں آیا اور اُس غار تک رہنمائی کی جہاں سے ٹنوں کے حساب سے سونا ملا۔معجزوں کی تفصیل بھی بڑی لمبی چوڑی ہے۔عیسائیوں کی ہی نہیں،مسلمانوں کی بھی۔
میرا خیال ہے مجھے سچائی کے ساتھ یہ اعتراف کرنا چاہیے کہ میرے اندر اس کے مسجد بننے کے عمل کی پسندیدگی کہیں نہیں تھی۔بعینہٰ اسی طرح جیسے مجھے مسجد قرطبہ میں گرجا گھر بنانا کبھی اچھا نہیں لگا۔آخر آپ تاریخ کے ساتھ کھیل تماشے کرنے کا کیا حق رکھتے ہیں۔گو اس میں بھی کوئی شک نہیں تھا کہ اس کی فضاؤں و ہواؤں میں اذانوں کے دلکش سحر کی بازگشت مجھے ہانٹ کررہی تھی۔میرے اندر کی جذباتی وارفتگی میں میر ی مسلمانیت کا بھی کچھ دخل ضرور تھا۔اور مجھے یہ لکھتے ہوئے بھی کوئی عار نہیں کہ میں نے اپنی دونوں مختصرسی ملاقاتوں میں چند سیاحوں کی عیسائی ذہنیت کا بھی کچھ ایسا ہی مظاہرہ دیکھا کہ ان کے کیمروں کے فوکس حضرت مریم اور حضرت عیسیٰ اور اُن سے متعلق دیگر ہستیاں اور واقعات ہی تھے۔یہ بھی عین ممکن ہے کہ سیاحوں میں اُس وقت اتفاقیہ طور پر زیادہ تعداد آرتھوڈوکس کھیتڈرل کے ماننے والوں کی ہو۔
چلیے اس بحث کو چھوڑیں۔اب پانچ سو برس سے مسجد کا چولا پہننے والی ایا صوفیہ کو ترکی کی جدید حکومت نے میوزیم کا درجہ دیتے ہوئے اسے مسجد اور گرجے کے جھنجٹ سے نکال کر اپنی روشن خیالی اور سیکولر پالیسی پر گامزن ہونے کا عندیہ دے دیا۔یہ اچھا ہی ہے۔جس کا جی چاہے وہ آئے اور اپنے دل کا رانجھا راضی کرلے۔
ہمارا ہوٹل وہاں سے قریب ہی تھا۔ سوچا چلتے ہیں۔ ایک دو گھنٹے کے آرام کے بعد پھر نکلیں گے۔ مگر بھوک زوروں پر تھی۔ کیا کھایا جائے؟ ایک سوالیہ نشان۔ شکر ہے وہاں قریب ہی کنٹین تھی۔ دو ڈونر کباب سینڈوچ بنوائے۔آئرن (لسی) کوترجیح دی۔
بھوک آداب نہیں جانتی۔بڑی کڑوی حقیقت۔کِس والہانہ بیتابی و شتابی سے منہ ماری کی۔پہلا لقمہ اندر گیا۔ہری مرچ کا کوئی ٹکڑا دانتوں تلے آگیاتھا۔سی سی کے ساتھ جو لطف آیا وہ بھی بے مثال تھا۔سوچا اِسے کھول کر تو دیکھوں۔نان کے ٹکڑے پر پہلی تہہ کریم کی تھی یا دہی کی۔پتہ نہیں چلتا تھا۔ٹماٹر کی چٹنی اپنا پتہ بتاتی تھی۔اِن سب پر ڈونرکباب اپنے پہلو میں ہر ی مرچیں لئیے قابض تھا۔ہم نے لپیٹ لیا۔
”ہائے میں صدقے کتنا مزیدار ہے۔“کہتے ہوئے دوسری بائٹ لی اور لسی کا گھونٹ بھرا۔
دفعتاً مجھے پڑھی ہوئی ایک بات یاد آئی تھی۔
”ارے سیما۔ایا صوفیہ کے بیرونی حصّے کی ایک دیوار میں ایک سوراخ ہے جس کے بارے میں روایت ہے کہ حضرت خضر ؑ نے اسمیں اُنگلی ڈال کر اس عمارت کا رُخ قبلہ کی جانب کردیا تھا۔بھئی وہ تو دیکھنا تھا۔“
سیما نے اٹھتے ہوئے بے نیازی سے کہا۔
”عمارت قبلہ رُخ ہوگئی۔یہ بات کافی نہیں دل کی تسکین کیلئے۔مزید اسمیں نمازیں اور اذانیں بھی گونجیں۔ماشاء اللہ سونے پر سہاگہ۔تجھے رج ہی نہیں آنا۔چل ہوٹل ٹانگیں ٹوٹنے والی ہورہی ہیں۔اُس کی ایسی شاندار لتاڑ مجھے مُوت کی جھاگ کی طرح بٹھانے کو کافی تھی۔
میری غرض تو کمر سیدھی کرنے سے تھی۔ہاں سیماتھوڑی سی اُونگھ بھی چاہتی تھی کہ تازہ دم ہوجائے کہ پھر بس،ٹرام یا میٹرو کِسی پر چڑھ کر تھوڑی سی اور آوارہ گردی کا پروگرام تھا۔میری بُری عادتوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ دن میں سونے یا آرام کرنے سے میں بڑی الرجک سی ہوں۔سیماتو لیٹتے ہی کَسی دوسری دنیا میں پہنچ گئی۔میں نے تھوڑی دیر پلسیٹے(کروٹیں) مارے پھر اٹھ کر لفٹ سے نیچے لاؤنج میں آگئی۔تپائیوں پر دو تین اخبار پڑے تھے۔چند چینی جاپانی بھی دکھتے تھے۔میں نے ان کی طرف توجہ دینے کی بجائے اخبارات کی پھولا پھرولی کیلئے ایک کو اٹھایا ہی تھا جب میرے عین سامنے آکر بیٹھنے والے فربہی سے ایک مرد نے مجھ سے اُردو میں “پاکستان سے ہیں۔”کا پوچھا۔
ظاہر ہے اب اخبار کا چھٹنا فطری بات تھی۔گورا چٹا اونچا لمبااحسن کلیم جو پاکستانی نژاد ضرور تھا پر جرمن شہری تھا۔بزنس مین تھا۔پاکستان کیلئے اس کے پاس دُکھ اور غُصے بھرے جذبات تھے۔
”سیاستدانوں کے پاس وژن نہیں۔جرنیلوں نے ملک کے مشرقی ہمسائے کو دشمن اور مغربی کوسٹریٹیجک strategic نگاہ سے اپنا حلیف بنا کر رکھنے پر زور دیا۔ساٹھ کی دہائی میں پاکستان تیسری دنیا کے تیز ترین ترقی کرنے والے ملکوں کی قطار میں سب سے آگے تھا۔ یہی چیز اس کے بدخواہوں اور دشمنوں کی آنکھوں میں کٹکھتی تھی۔ کولڈ وار میں گھسیٹ کر ایسا الجھایا کہ پرائی جنگ کو اپنے گھر میں ڈال بیٹھا۔
میں اُس وقت سیاسی اور فوجی حکمرانوں کی غلط پالیسیوں جس نے مذہبی جنونیت،گروہی اور لسانی تعصبات،معاشرے میں بڑھتی ہوئی خون ریزی اور تشّددکو جنم دے کر پاکستان کو دہشت گردی کے حوالے سے دنیا میں بدنام کردیا پر کچھ سُننے کی خواہشمند نہیں تھی کہ یہ جی کو نہیں خون کو جلانے والی باتیں تھیں اور ہم وطن میں یہی کام کرتے تھے۔
اُس کی اگلی بات اور بھی ڈرامائی انداز کی تھی۔
یہ ترکی جسے پاکستان اپنا رول ماڈل سمجھتا ہے اسے بھی بڑی طاقتیں اب اسی ڈگر پر چلانے کا پروگرام رکھتی ہیں۔اسے بھی انہی اندھیروں میں دھکیلنے کیلئے کام ہورہا ہے جو پاکستان کا مقدر بنا دیا گیا ہے۔ طیب اردوگان نے نورسی تحریک یا فتح اللہ گولین سے وابستگی کے باوجود ابھی تک اپنے آپ کو ایک اعتدال پسند لیڈر کے طور پر پیش کیا ہے اور ملک کو معاشرتی اور اصلاحی حوالوں سے مضبوط کرنے کے پروگرام پر سرگرمی سے عمل پیرا ہے۔مگر کہیں اُس کے اندر عالم اسلام کا لیڈر بننے کا ارمان ضرور ہے۔ اپنے ہمسایہ ملک شام کے بہت سے معاملات میں مداخلت کرنے،مشرق وسطیٰ میں اٹھی عرب بہار کی فضا میں اُسکا بشارالاسد سے اقتدار میں عوام کی شرکت کیلئے اصرار اور بشار کے مخالفین کی درپردہ حمایت یہ سب خوش آئند نہیں ہیں۔
لمبی چوڑی بحث مباحثے میں پڑنے کی بجائے میں نے مختصراً اتنا ضرور کہا۔
جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے۔ایسا سب ہونا شاید اس کے مقدر میں لکھا گیا تھا۔روس افغانستان میں آکر بیٹھ جاتاتو دفاعی نظر سے یہ بھی ایک عذاب سے کم نہ تھا۔تاریخ گواہ ہے برّصغیر کو جتنی بار روندا گیا وہ سب افغانستان کے راستے سے ہوا۔پاکستانیوں کو ابھی
ایک قوم بننے کیلئے مدّت اور لیڈر درکار ہیں۔
ترک تو ایک سکہ بند قوم ہے جو بڑے بڑے بحرانوں سے سرخرو ہوکر نکلی ہے۔
رہا ترکی تو یہ بھی تاریخ بتاتی ہے کہ قومیں ایک وقت کے بعد اپنے اصل مرکز کی طرف لوٹتی ہیں۔روس کو دیکھ لیئجیے۔چین کی واپسی بھی بہت آہستہ آہستہ شروع ہوگئی ہے اور ترکی بھی اگر اپنے مرکز کی طرف مراجعت کرے گا تو کیا نئی بات ہوگی؟
ویسے تو یہ وقت عالم اسلام پر زوال کا ہے۔ مدت کتنی ہے؟اس کا انحصار اوپر والے کی مرضی پر ہے۔
اٹھنے میں عافیت سمجھی۔کمرے میں آئی تو سیما اب باقاعدہ خراٹے لے رہی تھی۔اُسے بے آرام کرنے کی بجائے میں خود بھی بستر پر لیٹ گئی۔اور پھر ہوا یہ کہ آنکھیں جو بند ہوئیں وہ اُس وقت کھلیں جب دس بج رہے تھے۔
سیما بھی جاگ چکی تھی۔تھوڑی دیر اِس بحث مباحثے میں گزاری کہ استنبول کی راتیں جوان ہیں۔یہاں کوئی ڈر ڈکر نہیں۔چلتے ہیں ٹرام میں بیٹھ کر ایک لمبے روٹ پر اور اُترتے ہیں یدی کولے yedikuleجس کے بارے ریسپشن والے لڑکے نے بتایا تھا کہ وہاں کی زیادہ آبادی آرمینیائی ہے۔اس کے ہوٹلوں میں ایسی خوبصورت موسیقی سُننے کو ملتی ہے کہ بند ے کا جی اسی میں غرق ہوجانے کو چاہتا ہے۔مچھلی کھائیے۔ایک خوبصورت رات سے بھرپور انداز میں ملیے۔
جتنے حربے استعمال کرسکتی تھی سب کئیے۔حُسن و خوبصورتی کے جتنے باغ دکھا سکتی تھی دکھائے مگر وہاں انکار تھا۔ایک پکا انکار۔ پرائے دیس میں بھول جانے کا،کِسی انہونی کے ہوجانے کا،ایک لمبی قطار خدشات کی۔میں نے لعنت بھیجتے ہوئے منہ پر چادر ڈال دی۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply