• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • بزعم خویش پاکستانی دانشور کے ساتھ ایک شام …روبینہ فیصل

بزعم خویش پاکستانی دانشور کے ساتھ ایک شام …روبینہ فیصل

اس کمرے میں پاکستان سے آئے ایک مقبول کالم نگار اوراینکر موجود تھے ۔ ان کے نیلے رننگ شوز اور لال سپورٹس جیکٹ دیکھ کر پہلے مجھے وہم ہوا کہ شائد میں غلطی سے جم میں آگئی ہوں ۔ مگر وہ شاہد اور سیما ہاشمی کا محبت سے بھرادولت کدہ ہی تھا، جہاں ان صاحب کے اعزا زمیں عشائیہ تھاْ ۔ شاہد صاحب اور سیما مجھے بہت عزت دیتے ہیں اور اسی چکر میں انہوں نے مجھے اس معزز مہمان کے ساتھ بٹھانے کی غلطی کر دی ،جس کے نیلے پاؤں بار بار مجھے غیر سنجیدہ رویے کی طرف مائل کر رہے تھے ۔ پھر بھی جبر لازم تھا ،اندر کی تمام طاقتیں خود کو سنجیدہ رکھنے میں صرف کرتی رہی مگر پھر بھی کہیں کہیں کبھی کبھی کوئی ہلکا پھلکا فقرہ یا ہنسی کی پھوارنکل جاتی ۔مہمان میں وہ والا حسِ مزاح تھا جس میں انسان کے اندر خود پر ہنسنے کی ہمت ہوتی ہے اور جو، اب ہمارا قومی نشان بنتا جا رہا ہے ۔مہمان کی دلچسپ شخصیت میں اپنائیت بھی کافی تھی۔
وہاں کافی دوست احباب تھے ، اور ہم آپس میں زیادہ باتیں کر رہے تھے ، مہمان تنگ آکر بولے: ایسا لگتاآپ لوگوں کو ایک باہر کا بندہ چاہیے ہو تا ہے جس کا بہانہ بنا کر آپس میں باتیں کرتے رہتے ہیں ۔ہم چپ رہے، ہم ہنس دئیے ، اب کیا بتاتے کہ ایسا ہی ہے ۔۔ کھانا بہت پرتکلف اور مزیدار تھا۔جو ایک دفعہ پھرسے سیما اور شاہد ہاشمی کی میزبانی کی خوبی کو ظاہر کر رہا تھا ۔
کھانے کے بعد امید تھی کہ پاکستان کے حالاتِ حاضرہ پر ٹی وی پر دکھائی جانے والی خبروں سے پرے ہمیں کچھ اندر کی جانکاری ملے گی ۔ آخر کار وہ پاکستان کے ان نامی گرامی دانشوروں میں سے ہیں جن کا آدھے سے زیادہ پاکستان مداح اور پیروکار ہے ۔ میزبان کی خواہش پر کمرے میں موجود نمایاں لوگوں کو مہمان کے ہاتھوں سے پھول تقسیم کروائے گئے ۔ شاہد ہاشمی صاحب کی ایک خصوصیت سے پورا ٹورنٹو واقف ہے کہ وہ کوئی بھی کام شروع کرنے سے پہلے اپنی بیگم ( زور” اپنی” پر ہے ) کے پاؤں کو چھوتے ہیں ، ایک دن میں ان کی بیگم کے ساتھ کھڑی تھی ، نہ جانے غلطی سے یا ۔۔۔ ہاتھ میرے قدموں کو چھو گیا تو گبھرا اٹھے تھے ۔۔خیر ان کی نیت پر شک کرنا گناہ کبیرہ ہے ۔
اسی رسم کے بعد انہوں نے یہ تقسیمِ گل کروائے۔مجھے مہمان ضرورت سے زیادہ لمبے محسوس ہوئے ، حسبِ معمول رہا نہ گیا کہہ ہی ڈالا کہ آپ سے اتنے لمبے قد کی امید نہ تھی ۔برجستہ بولے :بے وقوف لوگ لمبے ہی ہو تے ہیں ۔ میں نے اس بات پر رضامندی سے سر جھکایا اور کہا :مگر یہ راز تو بتائیے کہ پھر بھی آپ کی اتنی فالوننگ کیسے ہیں ۔ اسی سچائی سے بولے : کیوں کہ پاکستانی مجھ سے بھی زیادہ بے وقوف ہیں ۔ اب پاکستان کے لوگوں کی قد میں اوسط لمبائی بڑھتی نظر آئے تو تشویش میں مت پڑیں ۔فارمولہ ، جاوید چوہدری سمجھا گئے ہیں ۔
پھولوں کی منصفانہ تقسیم کے بعد وہ لمحہ آگیا جس کا مجھے کم از کم شدت سے انتظار تھا ۔ یعنی کہ پاکستانی معروف دانشور سے حکمت کے موتی براہ راست اکھٹے کرنے کا وقت۔۔سبحان اللہ ۔
جو مجھے یاد پڑتا ہے وہ کہہ رہے تھے کہ شعور اور شور میں ایک ع کا ہی فرق ہوتا ہے ۔ یہ سب سے گہری بات تھی جو انہوں نے کی،پھر ایک سابقہ سفیر صاحب اپنی سفیرانہ رعونت کے ساتھ سراپا سوال بنے : یہ خادم رضوی کون ہے اور ایکدم کہاں سے آگیا ؟
مہمان کوہچکچاتے دیکھ کر میں نے اپنی طرف سے بات سنبھالی کون ہیں تو چھوڑئیے بس یہ بتا دیں کہ توہینِ عدالت ،توہین حکومتِ اور توہین فوج کے بعد بھی ان کوکوئی پکڑتا کیوں نہیں؟مہمان ہماری کم عقلی اور نالائقی سے گھبرا اٹھے ، کیونکہ وہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ باہر بیٹھے لوگ اتنے بے وقوف ہو سکتے ہیں کہ ایک عام سے نہتے مولوی کی نہتی ننگی گالیوں سے اتنے پریشان ہو نگے ، اس بات کو انہوں نے سوال میں منتقل کر کے ہم پر داغا بھی اور پھر مجھے گھورتے ہو ئے بولے : آپ اپنے پوپ کو کچھ کہتے ہیں ؟ ایسے ذہانت بھرے سوال کو سن کر اب گھبرانے کی باری میری تھی ،میں ہکلائی :میرا پوپ ؟ کب سے ؟ اور اس نے ہمیں کیا کہا ہے ؟
اب مہمان ہماری نالائقی سے نکوں ناک ہو چکے تھے اور اس میں اضافہ کمرے میں بیٹھے دوسرے مقامی دانشور خواتین و حضرات کچھ اس طرح کررہے تھے کہ مجھے چپ رہنے کا اشارہ یہ سوچ کر کیا جا رہا تھا کہ میری باتوں سے ٹورنٹو کی اجتماعی دانش پر کوئی دھبہ نہ لگ جائے ۔ ۔۔پاکستانی دانشور کے سپانسر نے ان کے کے پیچھے سے منہ نکال کر مجھے کہا:آپ چپ کر جائیں کیا چاہتی ہیں کہ یہ پاکستان جائیں اور مولوی انہیں مار دے ؟ ۔۔ہیں ؟؟؟ اتنی سی بات پر ؟ ۔۔ کمرے کی فضا میں تناو بڑھ گیا ، میں نے منہ کو بند کرنے کی ہر ممکن کوشش شروع کر دی جس کے نتیجے میں میرا چہرہ مسخ ہونے لگا ۔ لیکن اس وقت چہرے کی خوبصورتی سے زیادہ کسی انسانی جان کا مسئلہ آن پڑا تھا ۔ میں نے دل میں قسم کھا لی شدت جذبات سے منہ جتنا بھی امریش پوری جیسا ہو جائے اب اس مہمان کی جان بچا کر ہی دم لینا ہے ۔ ایسے میں ایک مقامی خاتون دانش ور مجھ سے بھی سبقت لے گئی ، ایک دم پچھلی سیٹوں سے چیخنے لگیں کہ توہین رسالت پر کوئی برداشت نہیں ۔۔ وغیرہ وغیرہ ۔۔ مولوی کے غصے کو یہ الفاظ شانت کر نے کے لئے کافی تھے، میں نے پیار بھری نظروں سے ان محترمہ کو دیکھا اور دل ہی دل میں ان کا شکریہ ادا کیا ۔ اگر میرے اندر خدا تھوڑا سا اور برداشت اور صبر رکھ دیتا تو میں اس خاتون کو گلے لگا کر شکریہ ادا کرتی ۔ خیر مہمان کی جان بچ گئی اب وہ خیر خیریت سے پاکستان جا کر اس کی سرزمین کو اپنی دانش سے زرخیز کر سکتے ہیں ۔
بوجھ کندھوں سے سرکا ہی تھا کہ ایک دم مہمان کی حقارت بھری آواز آئی کہ آپ بیرون ملک پاکستانیوں کا یہ حال ہے کہ ہمارے پاس بیمار ماں کو چھوڑ آئے ہو اور پھر پوچھ پوچھ کے تنگ کرتے ہو کہ ماں کا خیال رکھنا ۔ اس بات پر سب بیرون ملک پاکستانیوں نے تالیاں بجا بجا کر انہیں یہ یقین دلایا کہ ہمیں اس بے عزتی پر کس قدر خوشی محسوس ہو رہی ہے۔ مجھے اپنیے گنوار پن کا احساس اور شدت سے ہوا مگر پھر بھی جسارت کی : اگر ہم ماں کو تمھارے بھروسے چھوڑ آئے ہیں تو مڑ مڑ کر اپنے لفظوں سے لے کرپیسوں تک کا زرمبادلہ بھیجتے بھی تو ہیں۔
” تو نہ بھیجا کریں” ، ٹکا سا جواب میرے منہ پر پڑا ،آپ لوگ پاکستان کی فکر کرنا چھوڑ دیں” ۔
میں : ڈیم بنانے تک کا چندہ توہم لوگوں سے مانگا جا تاہے ۔
مہمان طیش میں آگئے میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بولے : نہ دیں ڈیم کو چندہ ، مجھے آپ لوگ کیا دیتے ہیں ؟ یہ گملہ ؟ ( جو پھول میزبان نے بہت محبت سے انہیں پیش کئے تھے ) ۔۔
ایسی دانش اور حکمت کی باتیں سن کر میری تو آنکھوں میں پانی کے ساتھ ساتھ کالا موتیا اتر آیا ۔ ایسے میں میزبان نے کہا روبینہ اپنی کتاب انہیں پیش کریں ۔۔ اچھا ؟ یہ بھی ہو نا تھا ۔ میں نے کتاب پیش کی ۔ ایک چلبلے صاحب کہیں کونے سے بولے : ذرا مختصرا نہیں بتابھی دیں کہ کتاب میں کیا ہے ؟”
اب مہمان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا تھا بولے : اتنا تو میں پڑھ ہی لیتا ہوں ۔
آخری کیل تابوت میں اس وقت ٹھکا ، جب ہر دلعزیز کیمرہ مین لائیو ویڈیو بناتے بناتے ایکدم کیمرے کے پیچھے سے نکلے اور مہمان پر لفافہ خوری کا سوال داغ دیا ۔ مہمان نے حلف اٹھایا اور اپنی ماں اور بہن کی جان کی قسم کھا کر کہا کہ میں نے یہ حرکت کبھی نہیں کی ۔۔۔
اب سب نے پھر تالیاں بجا کر مہمان کی بات کی تائید کی ۔ سب سے زور کی تالیاں میزبان اور سپانسر کرنے والوں کی تھیں ۔۔۔۔
آخر میں جب لوگ ان کے ساتھ تصویریں کھنچوا رہے تھے میں اپنی دائمی متلی والی کیفیت ( جو ایسے موقعوں پر ) پر در آتی ہے کو سنبھالنے پیچھے صوفے پر ڈھیر ہو چکی تھی ۔ اور آخری منظر یہ تھا کہ معزز دانشور نے اسی کیمرہ مین کے ساتھ تصویر اتراونے سے انکار کر کے نہ صرف اس سے بلکہ ہم جیسے سارے جاہلوں سے شدید انتقام لے لیا اور پھر سکون سے رخصت ہوئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں نے میزبان سے کہا آئندہ مجھے ایسی علمی گفتگو میں شرکت کی دعوت نہ دیا کریں ۔۔۔۔۔میری جاہلیت آپ کی شرمندگی کا باعث بنتی ہے ۔

Facebook Comments

روبینہ فیصل
کالم نگار، مصنفہ،افسانہ نگار، اینکر ،پاکستان کی دبنگ آواز اٹھانے والی خاتون

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”بزعم خویش پاکستانی دانشور کے ساتھ ایک شام …روبینہ فیصل

Leave a Reply