پہلا, دوسرا اور تیسرا رخ— بلال شوکت آزاد

آسیہ بی بی کے کیس کا فیصلہ کن دس اور اہم نکات کو ٹیکنیکل کج روی ثابت کرکے دیا گیا وہ درج ذیل ہیں۔

یہ ان باتوں اور سوالوں کا جواب ہے  کہ سپریم کورٹ نے کیوں آسیہ بی بی کو معصوم قرار دیکر باعزت بری کیا۔۔۔ چیف جسٹس ثاقب نثار نے آسیہ بی بی کو بری کرنے کی جو وجوہات تحریر کی ہیں وہ من وعن یہ ہیں۔

1-وقوعہ 14 جون 2009 کو پیش آیا لیکن اس کی ایف آئی آر پانچ دن بعد 19 جون کو درج کی گئی جس کی وجہ سے مقدمہ کمزور ہو گیا۔

2-اس مقدمے میں عینی شاہد معافیہ بی بی اور اسما بی بی ہیں جنہوں نے گواہی دی کہ آسیہ بی بی نے ان کے سامنے توہین آمیز الفاظ ادا کیے۔ اس موقع پر 25 سے 35 کے درمیان خواتین موجود تھیں لیکن ان میں سے کوئی بھی گواہی دینے نہیں آیا۔

3-دونوں خواتین گواہوں نے کہا کہ آسیہ بی بی کے ساتھ ان کا پانی پلانے پر کوئی جھگڑا نہیں ہوا تھا جبکہ دیگر گواہوں نے تسلیم کیا کہ یہ جھگڑا ہوا تھا۔

4-سب سے اہم بات یہ تھی مختلف گواہوں کے بیانات میں فرق تھا۔ جب آسیہ بی بی کا معاملہ پھیلا تو ایک عوامی اجتماع بلایا گیا جہاں آسیہ بی بی سے اقرار جرم کرایا گیا۔ یاد رہے کہ اسی اقرار جرم پر ہی ابتدائی عدالت نے ملزمہ کو موت کی سزا سنائی تھی۔ اس لیے یہ اجتماع بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔ ایک گواہ نے کہا کہ اس اجتماع میں 100 افراد شریک تھے، دوسرے نے کہا کہ اس میں 1000 افراد شریک تھے، تیسرے گواہ نے یہ تعداد 2000 بتائی جبکہ چوتھے نے 200 سے 250 کے اعدادوشمار دیے۔ ان بیانات کے فرق کی وجہ سے شکوک پیدا ہوئے اور دنیا کے ہر قانون کے مطابق شک کا فائدہ ملزم کو ملتا ہے۔

5-اس عوامی اجتماع کے بارے میں ایک گواہ نے کہا کہ یہ اجتماع مختاراحمد کے گھر منعقد ہوا تھا۔ دوسرے نے کہا کہ یہ عبدالستار کے گھر ہوا تھا، تیسرے نے کہا کہ اجتماع رانا رزاق کے گھر ہوا تھا جبکہ چوتھے گواہ کا بیان ہے کہ اجتماع حاجی علی احمد کے ڈیرے پر منعقد ہوا تھا۔

6-اجتماع میں آسیہ بی بی کو لانے کے حوالے سے بھی گواہوں کے بیانات میں تضاد تھا۔ ایک نے کہا کہ اسے یاد نہیں کہ ملزمہ کو کون لایا تھا، دوسرے نے کہا کہ وہ پیدل چل کر آئی تھی، تیسرے نے کہا کہ اسے موٹر سائیکل پر لایا گیا تھا۔

7-اس اجتماع کے وقت اور دورانیے کے بارے میں بھی گواہوں کے بیانات میں اختلاف تھا۔

8-ملزمہ کی گرفتاری کے وقت کے متعلق سب انسپکڑ محمد ارشد کے بیانات میں تضاد پایا گیا۔

9-ملزمہ سے اعتراف جرم ایک ایسے مجمع کے سامنے کرایا گیا جس میں سینکڑوں لوگ شامل تھے اور جو اسے مارنے پر تلے ہوئے تھے۔ اس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں تھی۔ اسے نہ ہی رضاکارانہ بیان قرار دیا جا سکتا ہے اور نہ ہی قانون کے مطابق سزائے موت جیسی انتہائی سزا کے لیے ایسا بیان قابل قبول ہو سکتا ہے۔

10-آسیہ بی بی نے قانون کے تحت جو بیان دیا اس میں انہوں نے حضور پاک ﷺ اور قرآن پاک کی مکمل تعظیم کا اظہار کیا اور کہا کہ وہ تفتیشی افسر کے سامنے بائبل پر حلف اٹھانے کو تیار ہے تاکہ اپنی معصومیت ثابت کر سکے لیکن تفتیشی افسر نے ایسا کرنے کی اجازت نہیں دی۔

مندرجہ بالا نکات صرف عدالتی بحث کا نچوڑ نہیں بلکہ ریکارڈڈ ہیں, ان کے دستیاب ثبوت اور گواہان نے ان نکات کو تقویت دی ہے۔

فیصلہ پڑھا اور اس کی روشنی میں میں باقی سب کی طرح کنفیوز ہوں کہ عوام بغیر پڑھے اور اس مقدمے کو فالو کیئے بغیر بس دو باتوں کو بنیاد بنا کر سزا کے درپے رہی بشمول میرے کہ ایک وہ عیسائی عورت ہے دوم مسلمانوں کے جم غفیر نے اس پر الزام عائد کرکے کیس چلایا۔

لیکن اب جب فیصلہ مکمل پڑھا اور استغاثہ کے گواہان کے بیان میں کمزوری اور تصادم دیکھا اور آہستہ آہستہ مدعیوں کی عدم دلچسپی دیکھی اس کیس میں تو یہی سمجھ آیا کہ شاید صرف ذاتی رنجش کو توہین رسالت ص میں بدلا گیا جان بوجھ کر اور اتنا کھڑاگ کھڑا کیا گیا۔یا پھر جو سب سے بڑا فیکٹ ہے کہ چھوٹی عدالتوں کا ٹریک ریکارڈ درست نہیں۔یہ اکثر جلد بازی کا مظاہرہ کرتی ہیں اور اکثر دباؤ میں آجاتی ہیں شاید ججوں کو اپنی زندگی خطرے میں نظر آتی ہے ایسی کیسز میں اس لیئے وہ جانبدار ہوجاتے ہیں۔

میں متفق ہوں, اور آپ سب کی بات سے قطعی انکار نہیں پر ہم اس وقت عالمی دباؤ کو دومنٹ بھول کر اگر دستیاب زمینی حقائق اور اس کیس کی ہسٹری دیکھیں اور سمجھیں تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اس کیس میں استغاثہ کا کردار پہلے دن سے کمزور اور مشکوک رہا ہے بانسبت ملزمہ کے, بہت سے دلائل اور گواہان کے بیانات میں سقم اور جھوٹ کی رمق موجود ہے۔بحث اگر سقم دور کرنے کی خاطر ہو تو باعث رحمت ہے پر اگر ذاتی انا کی تسکین اور علمی دھاک کی خاطر ہو تو زحمت ہے۔آپ احباب کی کسی بات سے میں نے اختلاف نہیں کیا بس میں چونکہ دستیاب معلومات پر رہ کر بات کررہا ہوں تو مجھے جو سمجھ آئی وہی بیان کردیا۔

پھر ایک اہم نکتہ غور طلب ہے کہ ماتحت عدالتوں میں جو کانفیڈنس استغاثہ نے دکھایا وہ اعلی عدالت میں کہیں نظر نہیں آیا۔بہرحال ہمیں پسند ہو یا ناپسند لیکن عدالت اپنا فیصلہ دے چکی اور اب سانپ کے گزرنے کے بعد لکیر پیٹنے والی بات ہی ہے۔چلو لکیر پیٹ کر بھی کوئی فائدہ ہو تو یہ جاری رہنا چاہیئے پر جو صبح سے ابتک ہورہا ہے اس کے تناظر میں یہی سمجھ آئی کہ حکومت, عدلیہ اور عوام ایک ہی پیج پر ہیں, مطلب انارکی اور انتشار۔سچ کہا ہے کسی نے کہ نادان دوست کی دوستی سے دانا دشمن کی دشمنی بھلی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

نوٹ: میرا موقف عوام سے قطعی مختلف نہیں اور نہ ہی میں آسیہ مسیح کا وکیل صفائی ہوں پر بحیثیت مسلمان میں حق اور سچ کی بات کہنے اور تحقیق کرنے کا پابند ہوں اور اسی بات کے پابند ہم سب ہیں۔ بہرحال اس کیس کو دوبارہ کھلوا کر از سر نو اوپن ٹرائل ہونا چاہیئے تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو۔

Facebook Comments

بلال شوکت آزاد
بلال شوکت آزاد نام ہے۔ آزاد تخلص اور آزادیات قلمی عنوان ہے۔ شاعری, نثر, مزاحیات, تحقیق, کالم نگاری اور بلاگنگ کی اصناف پر عبور حاصل ہے ۔ ایک فوجی, تعلیمی اور سلجھے ہوئے خاندان سے تعلق ہے۔ مطالعہ کتب اور دوست بنانے کا شوق ہے۔ سیاحت سے بہت شغف ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply