مرجان شیر کے لئے عامر کی مخصوص دعا۔۔۔۔غیور شاہ

سنہ 2018 کی ہی ایک تحقیق کے مطابق افغانستان میں امریکہ کی زیرِ قیادت اتحادی افواج نے جن طالبان کو شکست دینے کے لئے اربوں ڈالر خرچ کئے وہ اب ملک کے 70 فیصد علاقوں میں کھلے عام سرگرم ہیں جن میں مشرقی افغانستان کا شہر اور صوبہ ننگر پار کا دارالحکومت جلال آباد بھی شامل ہے – جلال آباد سے کابل کا فاصلہ 95 کلومیٹر ہے اور تقریبا” اتنا ہی فاصلہ پشاور سے بھی ہے – پشاور اور جلال آباد کا موسم, طرز معاشرت, رہن سہن اور کھانوں کا ذائقہ بھی ایک جیسا ہی ہے – خدائی خدمت گار عبدالغفار خاں المعروف باچا خاں کا مزار بھی جلال آباد میں ہی ہے جہاں انہیں ان کی اپنی وصیت کے مطابق دفن کیا گیا تھا –

طالبان کا پورے صوبے اور خصوصاًًً  جلال آباد پر مضبوط کنٹرول ہے اور حکومتی مشینری طالبان کی طاقت کے سامنے بےبس نظر آتی ہے – طالبان کی نوجوان سپاہیوں میں اکثریت نوعمر بچوں کی ہے جو “حوروں سے شادی” کے لئیے ہر وقت مرنے کے لئیے تیار مسلح ہوکر جہاد کے لئیے گھومتے رہتے ہیں – اسامہ اور اس کا بھائی خالد بھی ان ہی نوعمر طالبان دہشت گردوں میں شامل تھے جو “حوروں” کی طلب میں جنت کے طلب گار ہیں –

اسامہ اور خالد ایک دن جلال آباد کے چڑیا گھر میں مرجان نامی شیر کے بہت بڑے پنجرے کے پاس کھڑے تھے جس میں مرجان کے لئے غار بھی تھا اور اس کے ٹہلنے کے لئے بڑے پتھر, درخت اور پانی کی چھوٹی سی نالیاں بھی تھیں – نوجوان طالبان مرجان کو بہت تنگ کر رہے تھے اور اسے چھوٹے موٹے پتھر مار رہے تھے – جب کوئی پتھر بھی مرجان کو لگتا تو دونوں طالب نوجوان خوشی سے قہقہے لگاتے – افغانستان کے محکمہ تحفظ جنگلی حیات کے حکام نے اس مرجان نامی شیر کو کابل کے ایک بااثر شخص کے گھر سے برآمد کیا تھا جس نے 20 ہزار ڈالرز میں خریدے ہوئے مرجان کو سٹیٹس سمبل (status symbol) کے طور پر اپنے گھر کی کھلی چھت پر بنے ایک خصوصی جنگلے  میں رکھا ہوا تھا – جہاں سے برآمدگی کے بعد اسے جلال آباد چڑیا گھر منتقل کر دیا گیا تھا – کچھ عرصہ پہلے مرجان افغانی بچوں کا پسندیدہ شیر تھا – جلال آباد کے علاوہ دوسرے شہروں سے بھی بچے اپنے والدین اور رشتہ داروں کے ہمراہ اسے دیکھنے آیا کرتے تھے اور اس کی طاقت, جوانی اور بھرپور توانا جسم کو دیکھ کر بہت خوش ہوتے تھے – مگر 40 سال سے مسلسل جاری اس فساد نے ملک کے مکینوں کی اخلاقی حالت تباہ کرکے رکھ دی ہے – افغان سرکاری اہلکاروں کی بدعنوانی جاری و ساری رہی ہے جس کا ثبوت چڑیا گھر کے جانوروں کی خوراک میں بےایمانی ہے – مرجان بھی ناقص اور کم خوراک کی وجہ سے روز بروز کمزور ہوتا جا رہا تھا اور لگ یہ رہا تھا کہ اس کمزوری اور بھوک سے کسی بھی دن اس کی موت واقع ہو جائے گی –

نوجوان طالبان کے پتھراؤ سے پریشان کمزور مرجان اپنے جنگلے  میں یہاں وہاں بھاگنے کی کوشش کرتا اور جب پتھر اسے لگتے تو وہ کمزور آواز میں غراتا جیسا کہ اس ظلم پر احتجاج کر رہا ہو – چڑیا گھر کے کسی ملازم اور سیاح میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ وہ ان طالبان جنگجوؤں کو ایسا کرنے سے منع کر سکے اور وہ بےبسی سے مرجان کو اس مصیبت میں پریشان دیکھ کر بےبسی سے دیکھتے ہی رہ گئے –

اسی ہنسی مذاق کے دوران اپنی بہادری کی دھاک جمانے کے لئے اور مرجان کو کمزور سمجھتے ہوئے طالب اسامہ, مرجان کے جنگلہ میں داخل ہو گیا اور اس نے اعلان کیا کہ وہ مرجان سے پنجہ لڑائے گا – اسامہ کی اس بےوقوفی کا نتیجہ یہ نکلا کہ چند لمحوں میں ہی مرجان نے اسے “حوروں” سے ملاقات کے لئیے زندگی سے محروم کر دیا – اپنے بھائی کا یہ حشر دیکھ کر خالد کو شدید غصہ آیا اور اس نے اپنے شولڈر بیگ سے ایک دستی بم نکال کر مرجان کی طرف پھینک دیا – دستی بم کے دھاتی حصے  کی فرش پر لگنے والی کھنک کو مرجان کھانے کی ٹرے کی کھنک سمجھ کر اس کی طرف پلٹا اور قریب پہنچتے ہی ایک شدید دھماکہ ہو گیا –

چڑیا گھر کے ایک نیک دل افغانی سرکاری ملازم ساجد نے شیر کی صحت کی بحالی کے لئیے بہت محنت کی اور معجزانہ طور پر مرجان کی زندگی بچ گئی مگر دھماکہ سے مرجان کی ایک آنکھ اڑ گئی جبکہ دوسری سے بھی اسے بہت کم دکھائی دیتا تھا – اس کے علاوہ اسے اب کچھ سنائی بھی نہیں دیتا تھا –

مرجان کو بچانے اور اس کی صحت یابی میں خدمات سر  انجام دینے کی وجہ سے ساجد کو عام افغانی لوگ اور بچے بہت پسند کرنے لگے اور ہر جگہ اس کی رحم دلی اور خدمت کی تعریفیں ہونے لگیں – بچے بھی مرجان کی صحت یابی سے بہت خوش تھے اور لوگ کہنے لگے کہ طالبان کی وحشت و بربریت کے درمیان بھی زندہ رہنا ممکن ہے –

ساجد نے مرجان سمیت زندہ بچ رہنے والے چند جانوروں کی دیکھ بھال کرنا جاری رکھا حالانکہ اسامہ کی ہلاکت کے بعد طالبان کی طرف سے چڑیا گھر کے تمام جانوروں کے قتل کے فتاوی دئیے جا چکے تھے – مرجان کی دیکھ بھال پر خصوصی توجہ کی وجہ سے طالبان نے ساجد کو کافر اور واجب القتل قرار دے دیا تھا – ایک دن طالبان کے ایک بڑے جتھے نے چڑیا گھر پر حملہ کیا اور اس کے دفتر سے ساجد کو نکال کر لے گئے – شہر کے مرکزی چوک پر ساجد کو لٹکا دیا گیا اور سب کے سامنے اسے شریعت کی خلاف ورزی پر درے مارے گئے حتی کہ اس کے جسم سے خون بہہ بہہ کر اس کی ٹانگوں سے بہتا ہوا اس کے بوٹوں سے ٹپک ٹپک کر گرنا شروع ہو گیا – اس کے باوجود بھی ساجد نے جانوروں کی دیکھ بھال کرنا نہیں چھوڑا اور رات کے اندھیرے میں چھپ چھپ کر جانوروں کی دیکھ بھال زیادہ محنت اور لگن سے جاری رکھی – ایک دن خالد نے ساجد کو چڑیا گھر میں مرجان کے لئیے گوشت لے جاتے دیکھ لیا جبکہ طالبان کے حکم کے مطابق مرجان کو صرف دوپہر میں آدھا کھانا دیا جاتا تھا – ساجد کو طالبان لے گئے اور تب سے کسی نے اسے دوبارہ نہیں دیکھا –

ساجد کی اس کمشدگی کے بعد اس کا بیٹا عامر گھر کا اکیلا مرد رہ گیا جس کے ذمہ اپنی ادھیڑ عمر ماں اور تین نوجوان بہنوں کی دیکھ بھال کا بھاری بھرکم فرض آ گیا – طالبان کے حکم کے تحت جو نوجوان لڑکی بھی باہر کام کرنے یا پڑھنے کے لئیے نکلتی اسے ثابت کرنا پڑتا کہ وہ کنواری ہے جس کے بعد اس کی شادی طالبان امیر کی مرضی سے کسی طالب سے زبردستی کروا دی جاتی – اگر باہر نکلنے والی لڑکی شادی شدہ ہوتی تو اسے اکیلے باہر نکلنے پر درے مارے جاتے کیونکہ محرم کے ساتھ کے بغیر عورت کا باہر نکلنا طالبان نے آج تک حرام قرار دیا ہوا ہے – لہذا عامر کے گھر کی خواتین دوسرے مجبور افغانیوں کی وجہ سے گھروں میں قید رہنے پر مجبور رہتی تھیں –

ساجد کی پرسرار کمشدگی (طالبان کی طرف سے جبرا” اغواء) کے بعد عامر کو صرف 14 سال کی عمر میں ہی اپنے باپ کی جگہ چڑیا گھر کی نوکری قبول کرنی پڑی – عامر نے بھی باپ کی طرح چھپ چھپ کر مرجان کی دیکھ بھال شروع کر دی مگر مرجان کو پوری خوراک نہیں مل رہی تھی جس کی وجہ سے وہ روزبروز کمزور ہوتا جا رہا تھا – ایک دن عامر کو شہر کے مضافات میں ایک مرے ہوئے گھوڑے کی لاش ملی – عامر نے گھوڑے کی لاش سے وافر مقدار میں گوشت کاٹا اور اسے کاندھے پر لاد کر چڑیا گھر لے آیا – اس نے رات ڈھلنے کا انتظار کیا اور جب رات آدھی سے زیادہ گزر چکی تو وہ کندھے پر گوشت لاد کر جب وہ چڑیا گھر کی پچھلی ٹوٹی دیواروں سے گزرتا ہوا   مرجان کے جنگلے کی طرف بڑھا تو دہشت گردی کی ایک کارروائی سے واپس آتے ہوئے خالد نے اسے دیکھ لیا – عامر نے جنگلے  کا دروازہ کھولا اور نزدیک جا کر اس نے مرجان کے سامنے گوشت رکھنا شروع کر دیا – اس کے دل میں مرجان سے کوئی خوف نہیں تھا بلکہ وہ دوسرے بچوں کی طرح مرجان سے بہت محبت کرتا تھا – مرجان نے دستی بم دھماکہ میں زخمی ہونے کے بعد خوراک پر یک دم حملہ کرنا چھوڑ دیا تھا – پہلے وہ فضاء میں خوراک کی خوشبو سونگھتا اور بہت آہستہ آہستہ رینگ کر خوراک کے پاس جایا کرتا تھا – اب چونکہ وہ سن بھی نہیں سکتا تھا اور اسے دکھائی بھی کم ہی دیتا تھا اس لئیے سونگھنے کی حس ہی اس کے لئیے معلومات حاصل کرنے کا بنیادی ذریعہ تھی – عامر کی طرف سے رکھی خوراک کے پاس پہنچ کر مرجان نے اسے پہلے زبان سے اچھی طرح چاٹ کر اس کی خوراک ہونے کی ہی تصدیق کی – بعد میں اسے اپنی طرف کھینچ کر اسے کھانا شروع کر دیا –

یہ دیکھ کر عامر کو بہت خوشی ہوئی اور اس نے ضرورت سے زیادہ وقت مرجان کو دیکھتے ہوئے گزار دیا – جب وہ مرجان کو اطمنیان سے کھاتا دیکھ کر اس کی غار سے نکل کر باہر جانے کے لئے پتھروں کی طرف والے دروازہ کی طرف مڑا تو اچانک خالد نے پیچھے سے اس کی گردن دبوچ لی جو پیچھا کرتے ہوئے مرجان کے جنگلے  میں آ گیا تھا – اور پوچھا, “تم یہاں کیا کر رہے ہو” – عامر نے جب پیچھے مڑ کر دیکھا تو اسے مسلح خالد نظر آیا جو اس پر غرا رہا تھا – عامر نے خوفزدہ ہوئے بغیر اسے کہا کہ وہ مرجان کے لئیے دعا کر رہا تھا اور اسے کھانا دے رہا تھا – عامر کے اس جواب نے خالد کو سخت مشتعل کر دیا اور اس نے چلا کر کہا کہ, “بےگناہ انسانوں کے قاتل اس خبیث درندہ کو نہ تو کوئی نام دیا جا سکتا ہے اور نہ ہی اس کے لئیے دعا کی جا سکتی ہے اور نہ اسے مقررہ مقدار سے زیادہ خوراک دی جا سکتی ہے” – عامر نے خوفزدہ ہوئے بغیر کہا کہ,”اس حساب سے تو افغانستان کے بہت سارے لوگ ایسے ہیں جنہیں بےگناہ انسانوں کے قتل کی وجہ سے خوراک, دعا اور نام سے محروم کر دینا چاہئے” –

عامر کا یہ آئینہ دکھانا تو خالد کو سخت مشتعل کر گیا – اور اس نے پہلے تو عامر کو کھینچ کر ایک تھپڑ مارا جس سے عامر دور جا گرا – پھر اس نے آگے بڑھ کر عامر کی قمیض کو گریبان سے پکڑ لیا اور چلا کر اسے کہنے لگا کہ, “یہ اللہ کی مخلوق نہیں ہے بلکہ کافروں نے اسے یہاں بھیجا تھا تاکہ مسلمان نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات سے دور ہو جائیں” –

عامر نے کہا کہ, “مرجان جنگل کا بادشاہ ہے اور یہاں اس بےچارے کو کچرے میں پڑی خوراک کھا کر زندہ رہنا پڑتا ہے – وہ ابھی ابھی ایک بہت بڑے زخم سے صحت یاب ہوا ہے جس سے اس کی جان بھی جا سکتی تھی” –

خالد یہ سن کر مزید آگ بگولہ ہو گیا اور اس نے عامر کا گریبان چھوڑ کر اسے دھکا دیتے ہوئے کہا کہ,”پہلے تو یہ ملعون درندہ بچ گیا تھا مگر اب نہیں بچے گا” – یہ کہتے ہی اس نے اپنی رائفل کندھے سے اتاری اور مرجان کے غار کے منہ کی طرف اس کا رخ کرکے ٹریگر دبا دیا – مگر عامر نے چھلانگ لگا کر اس کے بیرل کا رخ نیچے کی طرف کر دیا – گولیاں غار کے منہ کی طرف سے اندر جانے کی بجائے سائیڈ والی دیواروں سے ٹکرائیں اور اس طرف جا گریں جہاں مرجان کے سامنے گوشت پڑا ہوا تھا –

عامر بہت مضبوطی سے خالد کی رائفل سے چمٹا ہوا تھا تاکہ وہ مرجان پر فائرنگ نہ کر سکے جبکہ خالد مرجان کی طرف پیٹھ کرکے عامر سے رائفل چھڑوانے کی کوشش کر رہا تھا – عامر نے مرجان کی جان بچانے کے لئے خالد سے کہا کہ وہ اس بےزبان کی جان بخش دے اور بدلہ میں عامر اس کے لئے دعا کرے گا – خالد اپنی مکروہ ہنسی ہنستے ہوئے بولا, “میرے لئے نہیں بلکہ اب اپنے لئے دعا کرو کیونکہ اس درندے کے بعد میں تمہیں بھی وہاں پہنچا دوں گا جہاں تمہارے باپ ساجد کو پہنچایا تھا” – عامر اس کے منہ سے یہ سن کر ششدر رہ گیا اور اس نے رائفل کا بیرل چھوڑ دیا – خالد اس تھوڑی سی دیر کی دھینگا مشتی سے ہانپ رہا تھا اور اس نے رائفل اپنی سائیڈ پر رکھ کر عامر کی طرف دیکھا جو خوف اور حیرت سے آنکھیں پھاڑ کر خالد کی طرف دیکھ رہا تھا – عامر کو خوفزدہ دیکھ کر خالد کو اپنی زندگی کی آخری مسرت حاصل ہوئی کیونکہ جب وہ رائفل اٹھا کر غار کی طرف پلٹا تو اس کے عین سامنے مرجان کھڑا ہوا تھا – اس سے پہلے کہ خالد کا رائفل والا ہاتھ فضاء میں بلند ہوتا مرجان نے ایک جست میں ہی خالد کو جا لیا – اس دوران عامر نے خود کو سنبھالا اور چپکے سے پیچھے کی طرف کھلے دروازہ سے باہر نکل گیا اور دروازہ بند کر دیا –

عامر ابھی اپنے گھر کے آدھے راستہ تک ہی پہنچا تھا جب اسے محسوس ہوا کہ وہ بہت تیزی سے بھاگ رہا ہے – وہ یکایک رک گیا اور پیدل چلتا ہوا کچھ ہی منٹوں میں گھر داخل ہو گیا – گھر آتے ہی اسے مؤذن کی آواز سنائی دی اور اس نے وضو کرکے جائے نماز نکالی – نماز ادا کرکے عامر نے ہمیشہ کی طرح اپنی مخصوص دعا نہیں کی بلکہ وہ دوسری معمول کی دعائیں کرتا رہا – وہ یہ دعا اپنے لئیے نہیں کرتا تھا بلکہ اپنے بابا کی کمشدگی کے بعد سے مرجان کی طاقت میں اضافہ اور اس کو صرف ایک دفعہ سب کچھ صحیح طرح دکھائی دئیے جانے کے لئے مخصوص دعا کرتا تھا –

Advertisements
julia rana solicitors

نوٹ:- اس مضمون میں نام اور مقام تبدیل کئے گئے ہیں مگر طالبان اور عامر کے بارے سب سچ لکھا گیا ہے!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply