تیزاب گردی۔۔۔۔۔روبینہ فیصل

ناکامی، کسی بھی قسم کی ہو، انسان کے اندر منفی جذبات بھر دیتی ہے۔ جس کے نتیجے میں سب سے پہلے وہ ماحول کوپھراپنے سے جڑے رشتوں کو اور پھرتقدیر کو مورد َ الزام ٹھہرانا شروع ہوجا تا ہے۔خون میں منفیت کی مقدار کم ہو تو انسان صرف خود سے ہی انتقا م تک اکتفا کرتا ہے، جیسے کہ اپنی زندگی برباد کر نا اور اگر ناکامی کی شدت زیادہ ہو تو زندگی کو ختم ہی کر لینا۔۔۔ لیکن اگر یہ منفیت، آخری حدوں کو چھو جائے تو وہ دوسروں سے بھی انتقام لیتا ہے، جس کی سب سے کمزور حالت، بددعا دینا اور سب سے طاقتور، جان سے مار دینا اور درمیانی حالت جو سب سے زیادہ اذیت ناک ہے وہ یہ کہ دوسرے کی زندگی ایسی کر دینا کہ وہ نہ زندہ میں رہے نہ مردوں میں۔۔ اور اس کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ کسی سے اس کی شناخت ہی چھین لی جائے، اس کا چہرہ نوچ لیا جائے۔
تیزاب گردی ایسی ہی سوچ اور رویہ کا نتیجہ ہو تی ہے۔نفرت اور غصے سے جب کوئی کسی کے منہ پر تیزاب پھینکتا ہے تو یہ اسی حالت کا نتیجہ ہو تا ہے جس میں نفرت کرنے والا اپنے دشمن کو آسان موت بھی نہیں دینا چاہتا، وہ اسے اپنے سامنے سسکتے ہو ئے، تڑپتے ہو ئے،پچھتاوے میں جھلستا ہوا دیکھنا چاہتا ہے۔ میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ جب کوئی کسی سے کسی کا چہرہ چھیننے کی کوشش کرتا ہے تو یہ انتقام کی بدترین سٹیج ہو تی ہے۔
حال ہی میں ایک نائلہ کیس ہوا ہے۔۔اس سے پہلے نہ جانے کتنے تیزاب گردی کے واقعات ہو چکے ہیں اور نہ جانے اس کے بعد کتنے اور ہونگے۔۔ نائلہ جس کے منہ پر اس کے شوہر اور سسرال والوں نے تیزاب پھینکا،اس کے بارے ریسرچ کرتے کرتے میں ایک ایسی نائلہ تک جا پہنچی جس نے اس لڑکے کے منہ پر تیزاب پھینکا تھا، جس نے اس سے شادی کے وعدے پر نہ صرف جسمانی تعلقات رکھے بلکہ اسے دوسروں کے سامنے مذاق بنایا۔ اس کے بعد جیل سے انٹرویو دیتے ہو ئے اس نے کہا مجھے اس ذلیل انسان کی ایسی حالت کرنے پر کوئی افسوس نہیں، جس نے میرے خلوص، میری وفا اور میرے پیار کا تماشا بنایا۔ اور مجھے استعمال کیا۔دکھ ہے تو صرف یہ کہ میں جو اپنے بوڑھے ماں باپ اور بہن بھائیوں کے لئے پارلر میں نوکری کر کے ان کا پیٹ پالا کرتی تھی، اب میرے جیل جانے سے نہ صرف ان کا گھر کا خرچہ رک جائے گا بلکہ میری وجہ سے انہیں بدنامی اور لوگوں کے طعنے سننے کو ملیں گے۔۔ یہ وہ بیٹی ہو گی، جو دن رات محنت کر کے اپنے لئے بھی کوئی خوشی کا دروازہ ڈھونڈنا چاہتی ہو گی۔۔ اس کی اسی مجبوری سے فائدہ اٹھا کر جب ماسک پہنے کوئی اس کی نرمی،وفا اور محبت کو استعمال  کر کے کچل گیا ہو گا تو ایسی تذلیل پر وہ نفرت اور انتقام سے بھر گئی ہو گی اور یہ سب کر گزری۔۔۔ میں تیزاب سے لڑکے کا منہ جھلسانے والی نائلہ کا دفاع نہیں کر رہی بلکہ مجبوری کو استعمال کر کے محبت جیسا دھوکہ کوئی کرے تو شکار، دغا باز محبوب کے مرنے کی بددعا بھی کرسکتا ہے اور نفرت حد سے بڑھ جائے تو جان سے بھی مار سکتا ہے اور تڑپانا مقصود ہو تو، چہرے پر تیزاب بھی پھینک سکتا ہے۔۔ یہ تو وہ نائلہ ہے جو مجبور،بے بس اور محبت کی ماری لڑکی تھی۔۔۔۔
جس نائلہ کے منہ پر اس کے شوہر نے تیزاب پھینکا، وہ بھی مجبور اور معصوم ہے۔۔آپ کہیں گے تیزاب پھینکنے والی نائلہ، باقی تیزاب پھینکنے والوں کی صف میں کیوں نہیں کھڑی کی گئی۔۔ عدالتی سزا اسے بھی شاید وہی ملے، میری طرف سے بھی یہی سزا ہونی چاہیئے مگر ایک انصاف ہے جو مظلوم کو؛ اگر وہ قاتل بھی بن جائے تو، دل کی آنکھ سے دیکھتا ہے۔۔۔ یہی فرق ہے۔۔ دل کی آنکھ کہتی ہے کہ جن لڑکیوں کے منہ پر تیزاب پھینکا جاتا ہے، وہ مظلوم ہی ہو تی ہیں۔۔ کیوں کہ انہیں محبت کی تذلیل کی وجہ سے نہیں، اپنی انا کی تذلیل کی وجہ سے اس عبرتناک انجام تک پہنچایا جاتا ہے۔ دونوں میں واضح فرق ہے۔۔۔۔
ایک فاخرہ تھی، مصطفے کھر کے بیٹے کی بیوی، جس کے منہ پر تیزاب پھینکا گیا تھا۔۔ یقینی طور پر اس عورت نے بھی محبت کی تذلیل تو نہیں کی ہو گی، بس ہو سکتا ہے اپنے لئے زندہ رہنے کا حق تھوڑا سا زیادہ مانگ لیا ہو، آزادی کے چند سانس اور چاہے ہو ں۔۔ ورنہ کس کی مجال کہ ان طاقتوروں کو ٹھیک سے پیار نہ دے، یا ان کے پیار کو حقیر جانے۔۔ جعلی انا کی دیواروں میں گھرے یہ خود پرست لوگ، انسانوں، خاص کر کے عورتوں کو اپنے آگے گھٹنے ٹیکے دیکھنا چاہتے ہیں۔۔۔ اس فاخرہ کا جھلسا منہ دیکھیں، اور پو چھیں کسی مصطفے کھر یا بلال کھر سے کہ کیا اس کا چہرہ واپس لوٹا دیا گیا ہے؟ یا کم سے کم اس کے اصلی مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچا دیا گیا ہے۔
جس نائلہ نے مجھے تیزاب گردی کے شکار سارے چہروں کے بارے میں سوچنے پر مجبور کیا، شائد اس کے شوہر اور دیور کی بھی ضمانت ہو چکی ہے۔اور نائلہ، سو سرجریاں بھی کروائے گی تو اپنا کھویا ہوا چہرہ واپس نہں پا سکی گی۔۔ وہ چہرہ جو اسے خدا نے دے کر بھیجا تھا، اور جسے کسی انسان نے اس سے چھین لیا۔۔ کیا یہ توہین خدا نہیں؟ کیا ایسے مجرموں کو سر عام کھڑا کر کے ان کا چہرہ اسی تیزاب سے دھلانے کا عدالتی حکم نہیں ہو نا چاہیئے؟
پاکستان میں قصاص کا اسلامی قانون، پہلو بہ پہلو چلتا ہے، تو کیا اسے استعمال نہیں کرنا چاہیئے۔۔ چہرے اور آنکھ کے بدلے، چہرہ اور آنکھ نہیں لینی چاہیئے؟بچوں کے ساتھ زیادتی اور عورتوں کے منہ پر تیزاب پھینکنے والوں کو سخت سے سخت اور سرعام سزائیں نہ دی گئیں تو صرف خبریں دینے سے لوگوں کے اندر جرم سے نفرت کی بجائے جرم کرنے کا خیال آنے لگے گا۔۔ کوئی بھی لڑکی کسی لڑکے کو ٹھکرائے گی، تو،پاکستان میں کپاس،ربڑ اور جیولری کی صنعتیں ہو نے کی وجہ سے باآسانی تیزاب سے اسے سزا دینا، بہت آسان لگے گا۔ بیوی بات نہ مانے تو اس کے منہ پر تیزاب پھینک دو۔۔ کسی کا کسی سے افئییر ہو جائے تو اس کے،منہ پر تیزاب پھینک دو۔۔
نائلہ۔۔لاہور کی رہائشی ہے۔ میں نے اسے ٹی وی پر کہتے سنا: میرا شوہر تین اور مردوں کے ساتھ تیزی سے آیا میرے منہ پر تیزاب پھینک کر چلا گیا، جب کہ میرا باپ اور بھائی بھی میرے ساتھ تھے اور وہ کچھ نہ کر سکے۔۔۔ وہ سڑک پر گری تڑپ تڑپ کر چیختی رہی۔۔
تیزاب سے چہرہ اور روح دونوں زخمی ہو جاتے ہیں۔۔عصمت دریدہ جسم اور تیزاب سے جھلسا بدن۔۔ یہ شائد کبھی بھی اپنی اصلی حالت میں واپس نہیں لوٹتے۔۔ لاکھ سرجریاں لاکھ تھراپیاں ہو جائیں۔۔۔
ان جھلسے چہروں کو لے کر، عورت پر ہو نے والی زیادتیاں دکھا کر، این جی اوز والے فنڈز بھی اکھٹے کر لیتے ہو نگے اور ان بے شناخت چہروں کو استعمال کر کے، فلمیں بنا کر، عالمی ایوارڈ بھی مل جاتے ہو نگے مگر کیا ان جھلسے جسموں کو ان کے چہرے کبھی واپس ملتے ہیں؟ نہیں نا۔۔۔۔۔۔تو کم از کم ایسی کڑی سزائیں رکھی جائیں کہ کوئی اپنی مردانگی کو تسکین پہنچانے کے لئے، یا کسی سے انتقام لینے کے لئے، یہ گھناونا کام کر نے کا سوچے بھی نہ ۔۔ دوسرے کی زندگی کو عبرت بنانے کی بجائے، اپنے آپ کو عبرت کے مقام پر دیکھے گا تو یوں بے دھڑک یہ جرم نہیں کرے گا۔ بچوں کے ساتھ زیادتی کرنے والوں کو سرعام پھانسی دینی چاہیئے اور تیزاب پھینکنے والوں کے چہرے پر سر عام تیزاب پھینکنا چاہئے۔۔۔۔ آنکھ کے بدلے آنکھ والے قانون کبھی کبھار بالکل درست لگتے۔
نائلہ کے شوہر ارشد اور باقی کے تین لوگوں کو یہی سزا ملنی چاہیئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کوئی کیسے اتنا نڈر ہو کر کسی دوسرے انسان پر ظلم کر سکتا ہے؟
تیزاب گردی کے ان واقعات کی روک تھام کے لئے پارلیمنٹ میں بل پاس ہونا یا قانون بننا ہی کافی نہیں۔ اس کے مجرموں کو عبرت ناک سزائیں دنیا بھی ضروری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں چیف جسسٹس سے اپیل کرتی ہوں کہ اس ایک کیس کو مثال بنا کر انسانی بربریت اور رذالت کی اس کہانی کو ختم کرنے کی کوشش کریں۔۔۔

Facebook Comments

روبینہ فیصل
کالم نگار، مصنفہ،افسانہ نگار، اینکر ،پاکستان کی دبنگ آواز اٹھانے والی خاتون

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”تیزاب گردی۔۔۔۔۔روبینہ فیصل

  1. It’s eye opening for me before I have never thought both sides in this type of crime / situations.my sincere prayers are for all the victims and may ALLAH guide us to help each other Amen .

Leave a Reply