می ٹو مہم ! کیا نتیجہ برآمد ہوگا؟۔۔۔۔۔شبیر رخشانی

می ٹو مہم کا آغاز ہندوستان سے ہوا۔ اس کے اثرات پاکستانی معاشرے پہ مرتب ہوئے۔ دلیلیں وضاحتیں، انکار و اقرار تمام صورتیں ہمارے سامنے آرہی ہیں۔ کس نے کیا کیا۔ کون اس پہ بات کرنا چاہ رہا ہے کیوں چاہ رہا ہے۔ ایک طویل بحث جاری ہے ہمارے ہاں محض مباحثوں پہ زور دیا جاتا ہے لیکن حتمی نتیجے پہ پہنچ نہیں پاتے۔ ہمارے ہاں اکثر عورتیں ہی زیر موضوع رہتی ہیں حیرانگی اس بات کی ہوتی ہے۔ عورتوں کو زیرِ موضوع ہمارے معاشرے کا ایک طاقتور طبقہ یعنی مرد ہی لاتا ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ می ٹو مہم کی ضرورت تھی یا نہیں۔ اگر واقعی ضرورت تھی تو آج اس مہم کو جس طریقے سے چلایا جا رہا ہے اس کے نتائج برآمد ہوں گے کہ نہیں۔اس پر نہ سوچا جا رہا ہے نہ ہی کوئی حکمتِ عملی مرتب کی جارہی ہے۔
ہم جس معاشرے میں رہ رہے ہیں وہ مشرقی معاشرہ کہلاتا ہے۔ مشرقی معاشرے میں عورتوں کے لیے جو دیواریں کھڑی کی گئی ہیں وہ مردوں کے مرہونِ منت ہیں۔ میں ایک دوست سے سول سیکرٹریٹ ملنے گیا تو سیکریٹریٹ کی بلڈنگ کے اندر ایک خاتون آفیسر کا ٹیگ نظر آیا۔ دوست سے پوچھا کہ یہ خاتون ڈیوٹی دینے آتی ہیں کہ نہیں تو کہنے لگے کہ نہیں آتی ہیں۔ میں نے وجہ پوچھی تو کہنے لگے کہ پوری  بلڈنگ میں ایک ہی خاتون ہیں تو مردوں کی لائنیں لگ جائیں  گی۔
ہم جس معاشرے میں رہ رہے ہیں یقین جانیں ایک ہوس زدہ معاشرہ ہے۔ دوستوں کی محفل میں بیٹھیں تو وہاں سیکس کے علاوہ کوئی اور موضوع زیرِ بحث لایا نہیں جاتا۔ عورتوں کو زیرِ موضوع لایا جاتا ہے۔ یہی عورت جو اس کے گھر کا حصہ ہے پاکدامن ۔۔دوسری عورتیں اگر ملازمت کرتی ہیں یا سودا سلف لینے باہر جائیں تو بازاری۔ نہ جانے مردانہ معاشرے نے عورت کو کن کن عنوانات سے نواز۔۔

اب جب می ٹو مہم کا آغاز ہوا ہے تو ہمارا مردانہ معاشرہ ہی عورتوں کو تلقین کر رہاہے کہ وہ می ٹو مہم کا حصہ بنیں۔ چہروں کو بے نقاب کریں۔ ان چہروں کو جنہوں نے جنسی طور پر عورتوں کو ہراساں  نہیں کیا۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بے نقاب کرنے سے کیا عورتوں کا استحصال رک جائے گا۔ کیا وہ اپنے آپ کو محفوظ رکھ پائیں گی۔ نہیں جناب ہمیں ان وجوہات کو ڈھونڈنا ہوگا جن کی بنا پر ایسی خطائیں سرزد ہو رہی ہیں۔ کیا ایسا کرنے سے عورتوں کو جنسی استحصال سے آزادی ملے گی یا ان قدغنوں سے جو سماج نے لگائی ہیں۔
وجوہات کیا ہیں۔ ایک عورت اگر جاب کرنا چاہتی ہے تو یہ اس کا قانونی حق ہے۔ لیکن جب ہم دفاتر کا چکر لگاتے ہیں تو وہاں ہمیں مرد ہی مرد ملیں گے۔ ایک گھٹن زدہ ماحول ملے گا۔ اگر ایک دفتر پر مکمل طور پر مردوں کی اجارہ داری ہے تو یقیناًوہاں عورت کو ہراسمینٹ کا سامنا ہی کرنا پڑے گا۔ پھر ایک اور اہم مسئلہ کہ ہماری سوسائٹی کی قدغنوں نے عورتوں کے  ذہن پہ وہ اثرات چھوڑے ہیں کہ وہ  ذہنی طور پر پہلے سے خوفزدہ ہے کہ کہیں دفاتر کے اندر اسے جنسی طور پر ہراسان نہ  کیا جائے۔ ہم نے کبھی بھی عورت کو یہ اعتماد نہیں دیا کہ وہ بھی سوسائٹی کا حصہ ہے۔ وہ کسی بھی طور پر کمزور نہیں۔ جینے کا حق جتنا مرد کو حاصل ہو اتنا ہی حق ایک عورت کو بھی ہے۔ تو عورت اپنے آپ کو کمزور محسوس کیوں کرے۔

ہمارے ایک لکھاری دوست نے اپنے ایک عزیز دوست اور روشن فکر لکھاری کا نام لیے بغیر اس کے کلمات لکھے ہیں کہ می ٹو کا سلسلہ بلوچستان میں بھی چلنا چاہیے تاکہ عزت دار سمجھے جانے والے بلوچ آرٹسٹ، لکھاری، شاعر، دانش وروں اور اساتذہ کے چہرے سے نقاب ہٹ سکے۔۔

اس جملے نے ایک سوال  ذہن  میں  برپا کر دیا کہ کیا ایسا کرنے سے یہ سلسلہ رک جائے گا۔ ہم کیوں نہ شعوری مہم چلائیں۔ ہم کیوں نہ  دفاتروں میں مردوں اور عورتوں کی برابری کی بنیاد پہ تعیناتی کے لیے کوشش کریں۔ ہم کیوں نہ ان آرٹسٹوں، دانشوروں، ادیبوں، شاعروں و لکھاریوں سے اس موضوع پہ بحث کریں۔ کیا کبھی ہم نے اپنی روشن فکری کو لے کر کہیں اس روشن فکری کے پیچھے عورتوں کو جنسی یا ذہنی طور پر ہراساں تو نہیں کیا ہے۔ ہمارے وہ دانشور یا ادیبوں  جنہوں نے نظام کی تبدیلی کا بیڑا اٹھانے کے لیے ادارے قائم کیے ہیں وہاں اس موضوع کو ڈسکس کیوں نہیں کیا جاتا بلکہ وہیں سے جنسی اور  ذہنی ہراسانی کی بو  آتی   محسوس ہوتی ہے۔ آخر کیوں۔ اگر ایسا ہے تو کیوں نہ دوسروں کو مشورہ دینے کے بجائے اس کا آغاز ہم سب سے پہلے اپنے آپ سے اور اپنے گھروں سے کریں۔ احتساب کا پہلا عمل اپنے آپ سے شروع کیا جا سکتا ہے۔
پھر سوال یہ اٹھ کھڑا ہوتا ہے کہ ہم عورت کو ہی زیر بحث کیوں لاتے ہیں ہمارے دفاتروں کے اندر ایسے واقعات بھی رونما ہوتے ہیں کہ عورتوں کو جہاں کہاں لفٹ نہیں ملی یا باس کا رویہ تلخ نکلا توو ہاں مردوں کا استحصال کیا جاتا ہے۔ انہیں جنسی ہراسمنٹ بل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

مجھے یاد ہے جب میں لوک ورثہ اسلام آباد میں کام کر رہا تھا تو ادارے کے اندر ایک خاتون نے کئی مردوں پہ ہراساں کرنے کا کیس کورٹ میں دائر کیا۔ کیس چلتا رہا کیس کا نتیجہ نہیں نکلا بعد میں پتہ چلا کہ خاتون نے ہراسمنٹ بل کا ناجائز فائدہ اٹھا کر اپنی  ذاتی انا اور مفادات کی خاطر یہ کیس چلایا۔

ہم جس معاشرے میں رہ رہے ہیں یہ ایک استحصالی معاشرہ ہے۔ آپ بنیادی معاملات ٹھیک کریں باقی معاملات خود بخود ٹھیک ہو جائیں گے۔ آپ معاشی نظام بہتر بنائیں۔ انصاف کا نظام بہتر بنائیں۔ آپ عورتوں کو کمزور نہیں برابری کے حقوق دیں۔ آپ کا نظام ہی الٹ ہے۔ آپ کے نظام نے مرد اور عورت کو دو الگ مخلوق ہی قرار دیا ہے۔ ایک عورت کا ایک مرد سے بات کرنا معیوب، اظہارِ خیال معیوب، جبری شادیاں، محبتوں میں دھوکہ دہی، عورت کا مرد کے سامنے بات نہ کرنا اور نہ ہی احساسات کا اظہار کرنا۔۔ آخر یہ کس کے دیے ہوئے تحفے ہیں۔ یہ ایک مردانہ معاشرے کے دیے ہوئے تحفے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

می ٹو برا عمل نہیں ہے۔ لیکن دیکھنا ہمیں یہ چاہیے کہ اس کا نتیجہ کیا نکل سکتا ہے۔ عورت کی کمزوری کی پہلی اکائی اس کا گھر ہے۔ پھر اس کا معاشرہ ۔ جعفرآباد نصیر آباد میں کاروکاری کے واقعات تواتر سے ہوتے رہتے ہیں کیا اسے روکا گیا ؟۔۔۔نہیں نا۔ اس کی بنیادی وجہ یہی بنیادی عوامل ہیں انہیں ختم نہیں کیا گیا۔
آپ عورت کو  ذہنی آزادی دیں۔ اسے خودمختار بنائیں۔ معاشی نظام میں عورت کے لیے برابری لائیں۔ عورت کو اپنی ملکیت نہیں بلکہ معاشرے کے فرد کی نظر سے دیکھیں۔ اس میں جرات پیدا کریں کہ اگر مرد جہاں اسے جنسی ہراسانی کا شکار بنائے تو وہ معاملے کو بجائے دبانے کے یا عزت کا معاملہ سمجھنے کے اس کے خلاف آواز بلند کرے۔ گھر کا فرد اس کا ساتھ دے گا۔ یہ آغاز میں اور آپ کر سکتے ہیں۔تبدیلی کا آغاز مجھ سے اور آپ سے ہی ہوگا نا کہ دوسروں کو نصیحت کرنے سے اور خود خاموش رہنے سے۔ ایک عورت اس وقت تک مظلومیت کے دلدل سے نہیں نکلے گی جب تک اسے بولنے کی آزادی نہیں ملے گی۔۔ یقین جانیں بولنے کی آزادی مردانہ معاشرہ ہی اس سے چھین لیتا ہے۔ پھر وہ جبر ہی سہتی ہے۔ جبر کا یہ سلسلہ صدیوں سے چلا آرہا ہے۔اور نجانے کب ختم ہوگا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply