ادھورے خاکے۔۔۔۔حارث عباسی

یہ وہ دور تھا جب موبائل کیمرہ ایک نایاب شے ہوا کرتی تھی. صرف سونی اریکسن کا ایک گیئر والا سیٹ، جو شاید تب میرا واحد کریز ہوا کرتا تھا، چچا کے پاس تھا. ٹی وی روم میں ٹی وی کی بجائے پینٹیم ٹو اور تھری کے دو کمپیوٹر ایک رنگین اور ایک بلیک اینڈ وائٹ مانیٹر کے ساتھ سامنے ٹیبل پر آویزاں تھے. گھر کا ماحول کچھ دینی ٹائپ ہونے کی وجہ سے فلموں وغیرہ کا رواج بالکل نہیں تھا. عموماً مذہبی پروگرامز، نعت، تقاریر اور بیانات وغیرہ کے ساتھ کارٹون یا کوئی مزاحیہ پروگرام میری ٹوٹل انٹرٹینمنٹ تھی.

اُن دِنوں میرا دوپہر کا ایک مخصوص وقت اکثر اسی ٹی وی روم میں بچھی چٹائیوں پر گزرتا. جب اکیلا ہوتا تو کچھ مرضی کا دیکھ لیتا وگرنہ کسی دینی موضوع پر ایک سو بیس منٹ کی ویڈیو دیکھنا میری مجبوری بن جاتی. اکثر اوقات یہ ٹی وی روم ایک بیٹھک کی صورت اختیار کر لیتا جب خاندان کے علاوہ اڑوس پڑوس اور گرد و نواح کے لوگ بھی اِسکا حصہ بن جاتے. یہ تصویر بھی انہی دِنوں کی ہے. پیچھے کان پر ہاتھ دھرے بیٹھا بچہ ‘میں’ ہوں. آگے چچا ہیں جو دادا کی ایٹیز کی دہائی کی قراقلی ٹرائی کر رہے ہیں. تیسرا شخص تصویر لے رہا ہے، میرے کریز سونی کا اونر، دوسرے چچا
اُس دِن ٹی وی روم میں شاید ہم  ہی تینوں تھے

وقت گزرا، لمحے بیتے۔۔۔۔نہ وہ دور رہا، نہ ٹی وی، نہ ٹی وی رومز
ہم انفرادی طور پر درجنوں دفعہ ملتے رہے ہونگے لیکن وہ میٹنگ شاید اپنے آپ میں کُچھ یونیک سی تھی،ویسی گیدرنگ شاید پھر کبھی نہ ہوئی۔
دراصل!
ماضی تو ہوتا ہی یونیک ہے، کبھی پلٹ کر نہیں آتا۔۔۔۔پھر
کل اچانک یوں لگا جیسے ماضی لوٹ رہا ہے. میں کافی ٹائم سے بے خوابی کی سی حالت میں تھا، تین بجے اطلاع ملی کہ قراقلی ٹرائی کرتا یہ شخص ہائیپرٹینشن سے لڑتے لڑتے بالآخر ہار مان ہی گیا. یہ اتنا جوان تھا کہ اِسکے گھر میں رکھی مہندی کی پرتیں بس فضاء میں روشنیاں بکھیرنے کو تیار ہی تھیں.
خواب مزید طویل ہوتا گیا۔۔

گھڑی دِن کے تین بجانے کے بعد بارہ گھنٹوں کا ایک طویل چکر کاٹ کر دوبارہ اسی مقام پر ساکت تھی. فضا گرچہ سوگوار مگر نسبتاً مہر بلب تھی. خاموشیوں کو توڑتی فون کی گھنٹی پھر خوف کا گھنٹہ ثابت ہوئی. کیمرے کے پیچھے بیٹھا شخص بھی کچھ ملتی جُلتی وجوہات کو لیکر اپنے پہلے ساتھی کے نشانِ راہ پر روانہ ہو چکا تھا. اس نے بقیہ سوگواران کے ہمراہ تین کم عمر بچے اور ایک جواں سالہ بیوی نشانِ گریہ کے طور پر چھوڑی.
خواب حقیقت میں بدلتا جا رہا تھا۔۔۔

ہائپرٹینشن ادھر ایسے ہے جیسے موت کا بہانہ چاہیے ہو. پرکھوں کی میراث ہے. خاکہ جیسے مکمل ہوتا جا رہا تھا. جیسے بس ابھی پھر ہم ماضی میں لوٹ جائیں گے. سکول سے واپسی پر میں تین بجے ہی ٹی وی روم جاتا ہوں . بس تین بجنے کا انتظار تھا. جیسے ابھی پھر لاڈلہ بھتیجا اپنے دونوں چچاؤں کے ساتھ بیٹھا کوئی لمبا چوڑا وعظ سن رہا ہوگا. شاید کسی میدان میں رکھے تین جنازوں کی صورت۔۔۔

لیکن یہ خاکہ بھی ادھورا تھا. تین بجے میں بے حس و حرکت کھڑا حیرت و یاس کی صورت اپنے سامنے پڑے مٹی کے ایک ڈھیر کو تکتا جا رہا تھا. خاکہ دھندلا سا گیا تھا. کہانی بے ذوق رہ گئی تھی.

میں پھر نہیں مرا تھا۔۔۔۔۔

Advertisements
julia rana solicitors london

*اپنے اُن دونوں چچاؤں کے نام، جو  ہمیں اکیلا  چھوڑ کر خود اکٹھے چل دئیے!

 

Facebook Comments

Hariss Abbassi
نام کافی است

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply