زیادہ پرانی یادیں نہیں بس میرے بچپن کی یادیں ہیں. اپنے پرانے گھر سے نکلتے ہی سب سے پہلی نظر مسجد پر پڑتی تھی اس وقت گارے اور مٹی کی تھی لیکن زمانے کی چال چلتے ہوئے اب وہ مسجد بھی پکی ہوچکی ہے اور مسجد عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے نام سے مشہور ہے. مسجد کی محراب کے ساتھ کوئی دَس بارہ میٹر کی دوری پر بڑی نہر سے ایک شاخ نکال کر جس کو ہم “ندیا” کہہ سکتے ہیں ،اپنی زبان میں ہم اس کو “شپَژ انچئی” کہتے تھے. اس میں پانی بہہ رہا ہوتا تھا جس سے گاؤں کے لوگ اپنے کھیت سیراب کرتے تھے اور شام کو کھیتوں کے ساتھ ہرے بھرے میدانوں میں چرنے والے مویشی جب واپس گھروں کو لائے جاتے تو اسی پانی سے سیراب ہوکر اپنے اپنے کھونٹوں پر باندھے جاتے.
گاؤں کی تقسیم کچھ اس طرح تھی کہ سڑک کے مشرق میں آبادی اور مغرب میں لہلہاتے ہوئے کھیت ہوا کرتے تھے اس لئے ہمارے کھیلنے کی جگہ بھی کھیتوں کے بیچ کلیان ہوا کرتے تھے جس میں جنگلی گھاس و پھول وافر مقدار میں ہوتے تھے.
آج اگر میں اپنے گاؤں کے کسی بچے سے جگنو کا معلوم کروں کہ کیسا ہوتا ہے تو شاید اس کا جواب یہی ہوگا کہ میں نے آج تک جگنو دیکھا ہی نہیں اس لئے ان کے پلے شاید پروین شاکر مرحومہ کے شعر کا صرف دوسرا مصرع ہی پڑ سکتا ہے کہ
ع بچے ہمارے عہد کے چالاک ہوگئے
انہی گھاس و پھولوں میں سے شام کو ہم جگنو پکڑتے تھے اور ان کو دامن میں لپیٹ کر ان کی جلتی بجھتی روشنی سے محظوظ ہوتے تھے اور کوئی اور کھیل شروع ہونے سے پہلے ہی چھوڑ دیتے تھے.
گندم، چنا، مکھئ، جوار، گنا اور خربوزے جیسی ہر قسم کی فصلوں سمیت گھنے گھنے درختوں کی وجہ سے ہر طرف ہریالی ہوا کرتی تھی اور مختلف انواع کے پرندے ان درختوں کو اپنا نشیمن بناتے. انہی درختوں کی وجہ سے موسم خوشگوار ہوتے تھے.
پھر معلوم ہوا کہ بارانی ڈیم جہاں سے ہماری نہر میں پانی آتا ہے وہ آہستہ آہستہ کیچڑ سے بھر رہا ہے اور کچھ سالوں میں ہمارا پانی ختم ہوجائے گا لیکن اس خبر سے کسی کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی خواہ ہمارے سیاسی راہنما ہوں یا حکومتی ہرکارے سب کے سب سوئے رہے.
گاؤں کے شمال اور جنوب میں دونوں سرحدوں پر دو بڑی نہریں تھیں جو اسی ڈیم سے نکالی گئیں تھیں جن کے دونوں کناروں پر کیکر کے تناور درخت سایہ فگن رہتے ان دونوں نہروں سے ہمارے گاؤں سمیت ارد گرد کے گاؤں کے کھیت بھی سیراب ہوتے تھے لیکن پھر یوں ہوا کہ وہی نہریں جن میں روزانہ کی بنیاد پر پانی بہتا تھا پہلے ایک دن، پھر ہفتے، پھر مہینے کے وقفے کے بعد مکمل طور پر خشک ہوگئیں اور ہمارے گاؤں پر آسیب کا سایہ ہونے لگا.
اب ہونا یہ چاہیے تھا کہ اس سارے علاقے کے مشیران و عمائدین اس کا کوئی حل نکالتے ،بجائے اس کے وہ دوسرے کاموں میں پڑ گئے کسی نے شہروں میں ڈیرے ڈال لئے تو کسی نے کاروبار شروع کر دیے کوئی ٹرانسپورٹر بنا تو کسی نے بچوں کو سکول سے اٹھا کر سرکاری نوکریوں میں لگا دیا اور ہماری زمینیں ساری بنجر ہوگئیں اگر باران رحمت ہوتی تو کچھ نہ کچھ فصل ہوجاتی ہے اور کچھ وقت کیلئے ہریالی دیکھنا نصیب ہوجاتی ہے نہیں تو تاحدِ نگاہ صرف مٹی کے ٹیلے ہی ہوتے ہیں.
جب لوگوں کی فصلیں نہ رہیں تو معاشی مسائل نے سر اٹھانا شروع کیے جس کا جزوقتی حل یہ نکالا گیا کہ جن کی زمینوں میں درخت تھے ان لوگوں نے اینٹ کی بھٹیوں کو بیچنا شروع کردیا اور وہ بھی جڑوں سمیت جس سے ایک طرف درخت ناپید ہونا شروع ہوئے وہیں دوسری طرف ان بھٹیوں کو سستا ایندھن میسر ہونے کے بنا پر منافع کی وجہ سے ہر دوسرا بندہ جن کے پاس تھوڑا بہت سرمایہ تھا نے بھٹی لگانی شروع کردی اور جو نہروں کے ساتھ سرکاری کیکر کے درخت تھے ان پر ٹمبر مافیا نے ہاتھ صاف کردیے جس سے ماحول میں یہ تبدیلی آئی کہ بارشوں کا تناسب کم ہوگیا اور جو تھوڑی بہت فصل ہوتی تھی وہ بھی ہونے سے رہی.
اس کے ساتھ ہی زیرِ زمین پانی کی سطح بھی اتنی کم ہوگئی کہ ٹیوب ویل لگانے پر اتنا خرچہ آتا تھا کہ حکومت ہاتھ کھڑے کردیتی جس کی وجہ سے گدھا گاڑی پر ڈرم رکھ کر دور دراز کے علاقوں سے پینے کا پانی لایا جاتا. آج نئی ٹیکنالوجی کی بدولت لوگوں نے اپنے اپنے کھیتوں کیلئے ٹیوب ویل لگائے ہوئے ہیں لیکن اس پانی سے ہونے والی فصل کافی مہنگی پڑتی ہے جو کہ ہر کسی کے بس کی بات نہیں.
آج جب گاؤں جاتا ہوں تو نہ تو کوئل کی کوکو سنائی دیتی ہے نہ ہی جگنو دکھائی دیتے ہیں ایک خاص قسم کا پرندہ جس کو ہم “شین طوطی” بولتے تھے وہ تو بالکل ہی ناپید ہوچکا ہے اور ہریالی دیکھنا اور جنگلی گھاس و پھول خوابوں تک محدود ہوگئے ہیں.
معلوم ہے یہ سب کیوں ہوا؟ صرف ایک ڈیم کے کیچڑ سے بھرنے کی وجہ سے. آج ہمارا بارش کا پانی جو کبھی کبھی ہوتا ہے ضائع ہوتا ہے لیکن کسی کو بھی کہیں اور ڈیم بنانے کی فکر نہیں سنا ہے کرم تنگی ڈیم پر کام شروع ہوچکا ہے لیکن یہ تو ہم بچپن سے سنتے آرہے ہیں لیکن اللہ کرے اس دفعہ سچ ہی ہو.
اس لئے جب جب کہیں ہریالی دیکھتا ہوں تو دل سے دعا نکلتی ہے کہ اللہ آپ کے ڈیم اور نہروں کو سلامت رکھے لیکن اب دشمن بھی طاق میں بیٹھا ہوا ہے اور ہے بھی بڑا شاطر اس نے ہمارے دریاؤں پر ڈیمز بنا کر پورے پاکستان کو میرے گاؤں جیسا بنانے کا ارادہ کر لیا ہے اور ٢٠٢٥ تک پورے ملک کو صحرا میں بدلنے کی نوید سنا رہا ہے اور ہم اس بات پر لڑ رہے ہیں یا لڑائے جارہے ہیں کہ کالا باغ ڈیم بننے سے فائدہ ہوگا یا نقصان جس سے باقی ڈیمز کی طرف کسی کا دھیان نہیں اس لئے خدارا یہ لڑائی چھوڑ دیں اور ایک متنازع ڈیم کی بجائے اور ڈیمز پر تو کام شروع کروانے کیلئے دباؤ بڑھا دیں. ویسے آج کل سب سے مناسب موقع ہے کہ ہر سیاسی پارٹی سے ووٹ کے بدلے ڈیمز کا مطالبہ سامنے رکھا جائے نہیں تو میرے منہ میں خاک پورا پاکستان چولستان کا منظر پیش کرے گا
آیئے سوچیں اور عمل کریں!
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں