• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • کیا آپ کو کھانا دیر سے ختم کرنے پر ڈانٹ پڑتی ہے؟۔۔۔۔عبد اللہ احمد مگسی

کیا آپ کو کھانا دیر سے ختم کرنے پر ڈانٹ پڑتی ہے؟۔۔۔۔عبد اللہ احمد مگسی

توآپ اکیلے نہیں ہیں، جس کے ساتھ یہ ہوتا ہے۔بلکہ آپ کو یہ بات فخریہ انداز میں بتانی چاہیے کہ آپ کھانا ختم کرتے کرتے صرف ایک گھنٹہ لگاتے ہیں۔ اس کے برعکس ہمارے رشتہ دار Chimpanzee سادہ خوراک کو چبانے میں بھی پانچ گھنٹے تک لگا سکتے ہیں۔اب ذرا رکیں اور سوچیں کہ وہ کون سی نعمت ہے جس کو پاکر بھی آپ ناخوش ہیں اور بے چارے Chimpanzees کو مل جائے تو وہ سجدہ شکر ادا کریں؟
جی بالکل، آپ نے درست سوچاوہ ہے پکا ہوا نرم کھانا۔ جو تما م مرہون منت ہےآگ کے۔ آگ نے ہی ہمیں نہ صرف کھانا پکا کر کھانے کے قابل بنایا بلکہ غذا میں ہمارا مختلف انواع و اقسام کی خوراک لینا بھی اسی کی بدولت ہے۔ہماری خوراک کو اب زیادہ چبانے کی ضرورت نہیں رہی تھی۔ اس لیے بڑے دانت بھی بے مصرف ٹھہرے۔پھر خوراک کو جزوبدن بنانے کے لیے اس کو ہضم کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ مشکل سے چبائے جانے والی خوراک کو ہضم کرنے کے لیے نظام انہضام کی آنتوں کی بڑا ہونا ضروری تھا۔ مگر جب پکا ہوا کھانا انسان کی خوراک بنا تو اب آنتوں کا بڑا ہونا بھی بے کار ٹھہرا۔علمائے علم الحیات انسانی دماغ کی نشونما اور آنتوں کا چھوٹا ہونے کو ایک دوسرے سے جڑا دیکھتے ہیں۔بڑی آنتیں اور بڑا دماغ دنوں ہی توانائی کا اچھا خاصا ضیاع مانگتی ہیں۔ اس لیے بیک وقت بڑا دماغ اور بڑی آنتیں ہونا مشکل معلوم پڑتا ہے۔گویا ہم یہ کہنے کے قابل ہوگئے کہ پکا کر کھانا کھانے سے جہاں ہماری آنتوں کی جسامت میں کمی آئی ، ان پر آنے والی توانائی کی لاگت کم ہوئی وہی نیندرتھال اور Sapiens کے دماغوں کی نشونما نے انہیں بڑی جسامت والے دماغ عطا کیے۔
آگ نے ابتدائی انسانی زندگیوں میں ایک انقلاب برپا کردیا تھا۔ اسی آگ نے انسانوں کو دوسرے شکاری جانوروں پر برتری دی تھی۔یوں قدرت کے ایک جزو کو انسان نے اپنا ماتحت بنالیا تھا۔ ایک دھان پان سی لڑکی بھی لکڑی کی ایک شاخ پر آگ لگا کر پورے کے پورے جنگل کو چند گھنٹوں میں راکھ کرسکتی تھی۔یہ تھا وہ وقت جب انسان نے اپنی تقدیر کے فیصلے خود کرنا شروع کردیے تھے اور بقاء کی جنگ میں اول ٹھہرا تھا۔اور یہ سب تب شروع ہوا جب انسان نے آگ کو دریافت کیا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply