دی لیگسی آف عرفان۔۔جہانزیب بلوچ

شاعرانہ آواز، فلسفانہ اندازِ گفتگو، گول اُبھری آنکھیں، خاموش، ادب کی عکاسی کرتا چہرہ، کہانیوں کا شوقین، تخفیف، باڈی لینگویج اور فن کا بادشاہ عرفان، آج کل روز میری ٹی وی کی اسکرین پہ دکھائی دیتا ہے۔ کبھی کوئی انٹرویو، فلم، ڈرامہ سیریز تو کبھی اس کا این ایس ڈی National School of Drama کے دور کے تھیٹر شوز، اب تو روز کسی نہ کسی بہانے سے اس کے ساتھ نشست بنی رہتی ہے۔ میں دیکھتے دیکھتے بھول جاتا ہوں کہ وہ اب نہیں رہا، سچ مانیں تو میں بھول ہی گیا ہوں کہ وہ اب نہیں رہا۔ ایسا کلاکار کبھی نہیں مر سکتا جو اپنے کرداروں میں زندگی ڈالتا ہو۔

بالی ووڈ نے اس کی صلاحیتوں کو پہچاننے میں کافی وقت لیا۔ یہ بالی ووڑ کی ہی ناکامی تھی جو اس کی اپنی صلاحیتوں کے مستحق کرداروں تک پہنچنے میں 17 سال جدوجہد کرنا پڑی۔ بالآخر ایک ایسا وقت آیا کہ فلم سازوں کو اس میں شیکسپیئر کا “میکبتھ” نظر آنے لگا، جس سے مقبول کے کردار کا جنم ہوا۔ فلم ‘سلام بومبئے’ میں عرفان کو مختصر کردار دینے والی میرا نائیر کو بھی مجبوراً عرفان کے پرانے قرض چکانے پڑے۔ اسی طرح جھمپّا لہری کے لکھے ناول ‘نیم سیک’ کے اشوک گنگولی کو بھی کتابی زندگی سے حقیقی زندگی مل گئی۔ فلم نیمسیک میں اس نے ایک بنگالی کا کردار اس خوبصورتی سے نبھایا کہ جس کے سامنے پِیکوُ کا بنگالی کردار پھیکا پڑ گیا جو امیتابھ بچن نے نبھایا تھا، جس میں عرفان بھی تھا۔ پِیکوُ فلم میں دپیکا پڈوکون اور امیتابھ بچن کی کارکردگی کو بہت سراہا گیا، پر عرفان باآسانی شائقین کی توجہ کا مرکز بنے۔

اس کا کہنا تھا کہ کچھ کرداروں کے لیے اسے زیادہ محنت نہیں کرنا پڑی، پر ایک اور بنگالی کردار جو اس نے ایچ بی او (HBO) کی “اِن ٹریٹمنٹ” (In Treatment) نامی سیریز میں بطور سنیل (Sunil) نبھایا، جو سب سے مشکل کرداروں میں سے ایک ہونے کے باوجود بھی اس نےاس کردار کے ساتھ اس حد تک انصاف کیا کہ اس سیریز کا ڈائریکٹر متاثر ہو کر اپنے آنسوؤں پہ قابو نہ پا سکا۔ یہ کردار فلم نیمسیک اور سلم ڈوگ ملینیئر (Slum-dog millionaire) کے کرداروں کی طرح ہالی ووڈ میں اپنا مقام بنا چکا تھا۔ جس کے بعد اسے اسپائیڈر مین (Spiderman) اِنفیرنو (Inferno) اور جراسک پارک (Jurassic Park) جیسی بڑی فلموں کا حصہ بننے کا موقع مِلا۔ یاد رہے 1995 کی جراسک پارک فلم کو دیکھنے کے لیے عرفان کے پاس ٹِکٹ تک کے پیسے نہیں تھے۔

عرفان اپنے نبھائے ہر کردار میں بطور ایک گائیڈ (Guide) اور مینٹور (Mentor) نظر آیا، چاہے وہ نیمسیک کا اشکوک گانگولی ہو، لنچ باکس کا ساجن فرنانڈس ہو یا پھر لائف آف پائی کا پائی ہو۔ عرفان نے اپنے نام سے “خان” اسی لیے ہٹایا کہ وہ کسی حلقہ بندی کا حصہ نہ بنے۔ اسے “پراؤڈ” (Proud) جیسے لفظ پسند نہیں تھے۔ وہ غرور اور تکبّر جیسے الفاظ اپنی زندگی سے نکال چکا تھا۔ زندگی نہیں بلکہ وہ موت کو بھی تجربہ کرنا چاہتا تھا، وہ تو گم نام رہنا چاہتا تھا۔ شاید اسے اپنے کرداروں کی پہچان زیادہ پسند تھی۔ وہی اس کی میراث (Legacy) رہی، وہی عرفان کو ہم میں ہمیشہ امر رکھے گی۔

Advertisements
julia rana solicitors

عرفان جیسے اداکار مرتے نہیں، وہ تو فن و اداکاری کی دنیا کا ایندھن بن جاتے ہیں جو اپنی پوری زندگی آرٹ میں دے کر اپنی آنے والی کئی نسلوں کی حوصلہ افزائی کرتا رہے گا۔

Facebook Comments

حال حوال
یہ تحریر بشکریہ حال حوال شائع کی جا رہی ہے۔ "مکالمہ" اور "حال حوال" ایک دوسرے پر شائع ہونے والی اچھی تحاریر اپنے قارئین کیلیے مشترکہ شائع کریں گے تاکہ بلوچستان کے دوستوں کے مسائل، خیالات اور فکر سے باقی قوموں کو بھی آگاہی ہو۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply