سورج پہ کمند۔۔۔۔ارشد بٹ

وہ جو تاریک راہوں میں نہیں مارے گئے۔

یہ داستان ہے ان آشفتہ سروں کی جنہوں نے ظلم و جبر کی تاریک راہوں پر لازوال جدوجہد سے انسانی عظمت کے دیپ جلائے۔ جنہوں نے ظلمت کی طویل راتوں میں علم، جدوجہد، طلبہ اور عوامی حقوق کی مشعل کو روشن رکھا۔ یہ روشنی طلبہ تحریک تک محدود نہ رہی بلکہ ان کرنوں سے محنت کشوں کی تحریک اور بستیاں بھی منور ہوتی رہیں۔
،،سورج پہ کمند،، تذکرہ ہے ان نڈر جانبازوں کا جنہوں نے علم اور محنت کی عظمت کا پرچم تھام کر ظلمت، استبداد اور استحصال کی جابرانہ قوتوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر للکارا۔ یہ ذکر ہے ان طالب علم راہنماؤں اور سیاسی کارکنوں کا جن پرعقوبت خانوں میں بے رحمانہ تشدد کے پہاڑ توڑے گئے۔ مگر فوجی آمروں اور حکمرانوں کا بہیمانہ تشدد انکے حوصلے پست نہ کر سکا۔ قیدوبند کی صعوبتیں، ریاستی ایجنسیوں کا غیر انسانی سلوک، ظالمانہ ہتھکنڈے، تعلیمی اداروں سے اخراج اور شہر بدری ان پرعزم نوجوانوں کو علم اور جدوجہد کے راستے سے ہٹانے میں ناکام رہے۔ اس بے مثال جدوجہد کی سنہری تاریخ کی جھلکیاں ،،سورج پہ کمند،، میں جگمگاتی نظر آئیں گی۔

یہ زندہ تاریخ ہے ان آدرش وادیوں کی جو مذہبی تعصب، رنگ و نسل، طبقاتی اور جنسی تفریق سے پاک انسانی برابری کی بنیاد پر قائم معاشرہ دیکھنا چاہتے تھے۔ وہ ایسے معاشرے کے خواب کی تکمیل کے لئے میدان میں نکلے جو معاشی استحصال سے پاک ہو۔ ایسا سماج جس میں انسان سے اسکی صلاحیت کے مطابق کام لیا جائے۔ جس میں ریاست عوام کی بنیادی ضروریات پورا کرنے کی ذمہ دار ھو۔ یہ خواب تھا عالمی سرمایہ داری کی معاشی غلامی سے نجات دلا کر پاکستان کو ایک آزاد اور خودمختار ملک بنانے کا۔ قابل فخر جدوجہد سے بھر پور تاریخ میں امر ہوجانے والے کردار پرآسائش اور آسان راہوں کے مسافر نہ تھے۔ وہ ان کٹھن راہوں پر چلے جو بقول فیض احمد فیض۔
ہر راہ جو ادھر کو جاتی ہے
مقتل سے گزر کر جاتی ہے۔
انہوں نے اس دشوار راستے کو منتخب کیا جسے فیض احمد فیض یوں بیان کرتے ہیں۔
ہم تو مجبور تھے اس دل سے کہ جس کی ضد پر
ہم نے اس رات کے ماتھے پہ سحر کی تحریر
جس کے دامن میں اندھیرے کے سوا کچھ بھی نہ تھا
ہم نے اس دشت کو ٹھرا لیا فردوس نظیر

کراچی بدر کئے جانے پر حبیب جالب نے انہی کے بارے کہا تھا۔

فضا میں اپنا لہو جس نے بھی اچھال دیا
ستم گروں نے اسے شہر سے نکال دیا
یہی تو ہم سے رفیقان شب کو شکوہ ہے
کہ ہم نے صبح کے رستے میں خود کو ڈال دیا۔

نیشنل سٹوڈنٹس فیڈریشن کی تاریخ دراصل زیر زمین پاکستان کمونسٹ پارٹی خصوصا کراچی تنظیم کی عوامی سطح پر سرگرمیوں، سیاسی موقف اور نظریاتی کشمکش کی تاریخ ہے۔ کمونسٹ پارٹی کی دو گروہوں میں تقسیم کے بعد این ایس ایف بھی دو دھڑوں میں بٹ گئی، یعنی چین نواز اور روس نواز۔ نام نہاد چین نواز دھڑا ایوب خان کے خلاف تحریک کے دوران پنجاب اور پختونخوا  کے کئی شہروں میں این ایس ایف کی تنظیم بنانے میں کامیاب ہو گیا۔ جبکہ نام نہاد ماسکو نواز دھڑے نے قومی بنیادوں پر طلبہ تنظیمیں منظم کرنا شروع کر دیں۔ سندھ این ایس ایف، پختون سٹوڈنٹس فیڈریشن، بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن اور پنجاب سٹوڈنٹس فیڈریشن ماسکو نواز کمونسٹ دھڑے کی فرنٹ طلبہ تنظیمیں مانی جاتی ہیں۔
،،سورج پہ کمند،، میں این ایس ایف کے دونوں دھڑوں کی جدوجہد، مختلف ادوار میں سیاسی حکمت عملی، طریقہ کار اور نظریاتی اختلافات کو، انکے کارکنوں اور راہنماوں کی زبانی دھرایا گیا ہے۔ آمر جنرل ایوب خان کے جابرانہ دور میں جب ہر جانب سناٹا اور خوف کا عالم طاری تھا۔ کوئی احتجاجی آواز سنائی نہ دیتی تھی۔ بڑے بڑے سیاسی جغادری گھروں میں منہ چھپائے بیٹھے تھے۔ اس سیاسی جبر اور گھٹن کے ماحول میں این ایس ایف نے طلبا حقوق اور جمہوری آزادیوں کی بحالی کی جدوجہد کا آغاز کیا جو بلآخر ایوبی آمریت کے زوال کا سبب بنا۔

یہاں پر کس کا ذکر کیا جائے کس کا نہ کیا جائے،فیصلہ کرنا انتہائی مشکل ہے۔ ڈاکٹر سرور، ایوب مرزا، شیر افضل ملک، جمال نقوی سے لے کر زین الدین خان لودھی، ذکی عباس، جوہر حسین، شمیم زین الدین، امیر حیدر کاظمی، نذیر عباسی، سہیل ھمایوں، لالہ رخ انصاری، شیخ افضال اور فتح یاب علی خان تک، ان کی عوام دوستی، قربانیوں اورعوامی حقوق کے لئے غیر معمولی جدوجہد کو تاریخ کیسے بھلا سکتی ہے۔
معراج محمد خان کی سیاسی مزاحمت اور عوامی جمہوی حقوق کے لئے بہادرانہ جدوجہد، جام ساقی کی محروم طبقات کے حقوق کے لئے نہ ختم ھونے والی جنگ اور ڈاکٹررشید حسن خان کی طلبہ حقوق سے کمٹمنٹ اور جدوجہد، کی وجہ سے یہ راہنما لیجنڈری کرداروں کی حیثیت اختیار کر چکے تھے۔ ان کی مسلسل، دلیرانہ اور انتھک جدوجہد اور قربانیوں نے ،ملک بھر کے نوجوانوں، طلبہ اور محنت کشوں کے ذہنوں میں حقوق کا شعور پیدا کیا اور تحریک کی لہر دوڑا دی تھی۔

ڈیموکریٹک سٹوڈنٹس فیڈریشن کے بانی ملک کے نامور وکیل عابد حسن مںٹو پیرانہ سالی میں بھی بلند حوصلے کے ساتھ ترقی پسند تحریک کا علم تھامے ھوئے ہیں۔ انکی مزدور تحریک، انسانی اور جمہوری حقوق کے ساتھ کمٹمنٹ اور کاوشوں میں کبھی کمی نہیں آئی۔ ادیب الحسن رضوی کی بے لوث فلاحی خدمات کا کون معترف نہیں۔ حسین نقی کی آزادی صحافت، انسانی اور جمہوری حقوق کے لئے خدمات سے کس کو انکار ہو سکتا ہے۔

لطیف چوہدری، شہر یارمرزا، عبدالباری خان، مسروراحسن، علی یاور، حسام الحق، علی حیدر، پرویز رشید، حبیب اللہ شاکر، صلاح الدین گنڈا پور، انجم رشید، نرگس ہود بھائی، شبرآعظمی، مومن خان، جان عالم، شاہد محمود ندیم، غلام عباس، چوہدری ظفراقبال، سلطان بٹ، مصدق حسین اسد، سیف اللہ سیف، احمد علی بٹ، شاہد سعید، حافظ عبدالودود، احتشام اکبر۔ ان کے علاوہ سینکڑوں کارکن جن کا ذکر قلت وقت کی وجہ سے ممکن نہیں، ان کی طلبہ حقوق کے لئے جدوجہد، بے لوث خدمات اور قربانیوں نے انمٹ نقش چھوڑے ہیں۔

،،سورج پہ کمند،، انکا نوحہ نہیں جو تاریک راہوں میں مارے گئے۔ علم وآگہی کی روشنی بانٹنے والے آدرش وادیوں، محنت کی عظمت اور انسانی اقدار کے گیت گانے والوں، آمروں، غاصبوں اور استحصالیوں کے خلاف احتجاجی پرچم سر بلند کرنے والوں نے عزم، بہادری اور مزاحمت کی لازوال داستانیں رقم کی ہیں۔ جاں سے گزرکر راہ یار کو یاد گار بنانے والوں کا قصہ کچھ یوں ہے کہ۔
مٹی کی محبت میں ہم آشفتہ سروں نے
وہ قرض اتارے ہیں جو واجب بھی نہیں تھے۔

رنگ، نسل، قوم،عقیدہ، طبقاتی اور جنسی تفریق سے پاک معاشرہ اور انسانی برابری کے عظیم آدرشوں کی پاسداری میں، آشفتہ سروں کی زبان پر دشوار گزار راستوں کی کٹھنائیوں کا شکوہ کبھی نہ آیا۔ اپنی بساط اور طاقت سے بڑھ کر حکمرانوں کے ظلم کے خلاف مزاحمت کرتے رہے۔ تاریک راہوں پر اپنے حصے کی علم اور جدوجہد کی شمعیں جلاتے رہے۔ وہ آہنی عزم، حوصلے اور یقین کے ساتھ آگے بڑھتے گئے اور یہ کہتے گئے۔

شکوہ ظلمت شب سے تو کہیں بہتر ہے
اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے۔

میں یہ نہیں کہتا کہ ہم چراغ آخر شب ہیں مگر یہ یقین سے کہہ سکتا ھوں کہ انسانی علم، شعور اور حقوق کی جدوجہد کا سفر رکنے والا نہیں۔علم اور جدوجہد کی شمع بجھنے والی نہیں۔ درخشاں اور روشن انسانی مستقبل پر ایمان رکھنے والے، فیض احمد فیض کا یہ ترانہ گاتے ھوئے اپنے حصے کی شمع جلاتے رہیں گئے۔

بلا سے ہم نے نہ دیکھا تو اور دیکھیں گے
فروغ گلشن و صوت ہزار کا موسم

،،سورج پہ کمند،، کے کئی کردار آپکو ،،فیض امن میلہ،، لندن کی اس یادگار محفل میں نظر آئیں گے۔

بیرسٹر صبغت اللہ قادری، اکرم قائم خانی، وقاص بٹ، خالد سعید قریشی، غفور کانسی، علی خاقان مرزا، راو مستعجاب احمد، خالد حمید فاروقی، اورعاصم علی شاہ ،،سورج پہ کمند،، کے زندہ کردار اس محفل کو رونق بخشے ہوئے ہیں۔ راقم خود بھی اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے۔
استاد محترم امین مغل، سردار مظہرعلی خان، جاوید حکیم قریشی، علی جعفر زیدی، ہمراز احسن، زاہد حسین اور تنویر زمان کی تحریریں اور تقریریں عظیم انسانی اقدار، جمہوری حقوق اورعوام دوستی کا درس دیتی رہیں گی۔ یہ بھی تو اسی کمند سے نکلے ہوئے تیر ہیں۔
آپ اب بھی ان آدرش وادیوں کے حوصلوں کو جواں اور پرعزم پائیں گے۔ یہ اپنے حصے کی شمع جلانا کبھی نہیں بھولتے۔ بدلے ھوئے عالمی منظر کے باوجود عوامی جمہوری حقوق اور انسانی اقدار کی شمع کو روشن رکھے ہوئے ہیں۔ فیض امن میلہ بھی علم، آگہی اور جدوجہد کی مشعل جلائے رکھنے کی ایک کاوش ہے۔ بقول استا د محترم امین مغل ہم سب ایک پارٹی کے رکن ہیں جس کا نام فیض احمد فیض پارٹی۔

ڈاکٹر حسن جاوید اور محسن ذوالفقار بھی اسی کمند کی کڑیاں ہیں۔ انہوں نے ،،سورج پہ کمند،، لکھنے کا انتہائی مشکل کام بڑی جانفشانی، لگن اور خوش اسلوبی سے انجام دیا ہے۔ اس پر وہ دلی مبارک باد کے مستحق ہیں۔
دنیا سے رخصت ہو چکے کارکنوں اور راہنماوں سے متعلق درست حقائق اکھٹے کرنا، حقائق کی سچائی کی تصدیق کرنا۔ یقینا ایک دشوار کام تھا۔ نظریاتی گروہ بندی سے بالا رہ کرغیر جانبداری برقرار رکھنے جیسے کٹھن کام کو دونوں اصحاب نے بہت اچھے طریقے سے نبھایا ہے۔ پاکستان اور دنیا بھر میں بکھرے ھوئے این ایس ایف کے سابقہ کارکنوں اور راہنماوں کو ڈھونڈنا، ان سے رابطے کرنا جان جوکھوں کا کام تھا۔ جس پر مصنفین نے ایک طویل وقت اور اپنی جیب سے سرمایہ سرف کیا۔ مقصد صرف او صرف یہ تھا کہ پاکستان کے طلبہ اور نوجونواں کی عظیم تاریخی جدوجہد کو ضبط تحریر میں لایا جا سکے۔ ڈاکٹر حسن جاوید اور محسن زوالفقار نے یہ کارنامہ نہایت کامیابی اور خوش اسلوبی سے سر انجام دیا ہے۔
میری رائے میں ،،سورج پہ کمند،، ہر پاکستانی طالب علم، نوجوان اور سیاسی کارکن کی لائبریری کا حصہ ہونا چاہے۔ یہ پاکستان کی حقیقی سیاسی تاریخ کا بیان ہے جو آنے والی نسلوں کے لئے راہنمائی کا ذریعہ بن سکتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

یہ تحریر”فیض امن میلہ” لندن۔ 13۔ اکتوبر 2018 میں پڑھی گئی۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply