• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • بغداد،اُس کا کلاسیکل حُسن اور میں۔۔۔۔سلمیٰ اعوان

بغداد،اُس کا کلاسیکل حُسن اور میں۔۔۔۔سلمیٰ اعوان

چور نالوں پنڈ کاہلی۔شاپنگ کے بارے میں میرا اور افلاق کا وہی حال تھا۔شام ڈھلے وہ ضرور کہتا۔
”ایک چکر لگا لیجئے ۔کچھ خریدنا نہیں آپ کو۔بغداد کی کوئی سوغات، کوئی سوونئیر تو لے لیں۔چلیے سوق الغزل چلیے،سوق الجدید میں خوبصورت چیزیں ہیں۔ روانڈ سٹی کی دُکانیں دیکھیے۔ وہ بہت سستی ہیں۔“
ایک دو بار میں نے اُسے بتایا بھی کہ مجھے ہر ملک کے پرانے شہر اور اس کے بازاروں سے بس دیکھنے کی حد تک دلچسپی ہے۔اور وہ میں تمہارے ساتھ تھوڑے بہت ہر روز دیکھ ہی رہی ہوں۔ہاں ایک بار میں نے اُنہیں اکیلے بھی دیکھنے ہیں۔مجھے اپنے دل کا رانجھا راضی کرنا ہے۔پیچ در پیچ پھیلے اِن سلسلوں میں خود ہی خجل ہو ہو کر کہیں رکتے،کہیں پوچھتے، کہیں کچھ کھاتے پیتے،دوکانداروں سے گپیں ہانکتے، اونگیاں بونگیاں مارتے لُطف اٹھانا ہے۔ اب اجنبی دیسوں کا بیٹے جیسا لڑکا ساتھ ہو تو کہیں شرم دامن تھام ہی لیتی ہے کہ اے ہے بچہ کیا کہے گا؟“
دوپہر کی تپتی ساعتوں میں اُس نے مجھے صدر خاناں کی مسجد میں چھوڑنا چاہا تھا۔مگر میں مانی نہیں۔شارع المستنصر پر اُس نے مجھے خداحافظ کہا۔سچ تو یہ تھا کہ میں نے لمبی سانس بھرتے ہوئے اپنے اندر ہمکتی ایسی خوشی محسوس کی تھی کہ جو کسی قیدی کو نصیب ہوتی ہے۔اصل میں میں ہمیشہ سے سہاروں کے بغیر چلنے کی عادی ہوں۔یہاں مجھے حالات کی نزاکت نے جکڑ لیا تھا۔
چلو خیر میں چند لمحوں کیلئے ایک دکان کے سامنے رکھی کرسی پر بیٹھ گئی۔مجھے کچھ نہیں خریدنا تھا۔نہ کوئی کپڑا نہ کوئی جیولری۔ جیولری تو ساری زندگی نہ پہنی نہ رغبت رکھی۔بیٹی اور بہوؤں کے لئے کبھی چکروں میں نہیں پڑی۔ایک بار  یہ حماقت کی تھی۔منہ سے تو نہ پھوٹیں پر چہروں نے لاؤڈ سپیکر پر جیسے چڑھ کر اعلان کیا تھا۔
”ارے یہ کیا اماں بے ہودہ سی چیزیں اٹھا کر لے آئی ہیں۔ان سے تو اچھی ہماری لبرٹی میں ملتی ہیں۔“
وہ دن اور آج کا میں نے ایسی حماقت دوبارہ نہیں کی۔یوں بھی میں اُن ماؤں میں سے نہیں ہوں جو اپنے بچوں کے بارے بڑھ بڑھ کرباتیں کرتی، تعریفوں میں زمین آسمان کے قلابے ملاتیں،ان کی قابلیتوں اور فرمانبرداریوں کی یا وہ گوئیاں کرتی، پھر آگے اُن کے بچوں کے ہیج میں ہلکان ہوتی اور ہر نئے ملنے والے کو انکی معصومیت اور ذہانت کی داستانیں سُنا سُناکر بور کرتی ہیں۔
افلاق میرے لئیے بہت اہم تھا۔میں اُسے سُنتی تھی۔اُسے شادی کا کہتی اور دل میں یہ عہد کرتی کہ اُس کی شادی پر اگر زندہ رہی تو انشاء اللہ ضرور آؤں گی اور وج گج کے آؤں گی۔
شہدا اور احرارپل کا درمیانی سارا علاقہ مارکیٹوں،بازاروں سے بھرا پڑا ہے۔مغربی سمیت  حیفہ سٹریٹ کے ساتھ سو ق الجدید اور مشرقی سمت سوق الغزال  ہے۔یہ سارا علاقہ بہت اہم۔شیرٹن فلسطین،پام بیچ اور الرشید جیسے بہترین ہوٹل،ریسٹورنٹ،کیفے،نائٹ کلب،کسینو اور شاپنگ پلازوں کا جال بکھرا ہوا ہے۔اس کی راتیں جوان رہتی ہیں۔رنگ رنگیلی دنیائیں آباد ہیں۔جنگ کی تباہ کاریوں کے اثرات نظر آتے ہیں تاہم زندگی اپنی توانائی کے ساتھ سرگرم بھی ہے۔
یہاں زندگی مسکرا رہی تھی۔رواں دواں تھی۔ مسکراہٹیں،باتیں، قہقہے اور شوخیاں تھیں۔قہوے پکتے تھے۔خوشبویں بکھرتی تھیں۔
بغدادی چہرے کے بہت سے دلکش لینڈ مارک ہیں۔جن میں سے ایک اہم الرشید سٹریٹ بھی ہے۔بغداد کے ڈاؤن ٹاؤن کی جان جس کی پشت پر تاریخ بندھی ہوئی ہے کہ عثمانیوں سے ناطہ جڑا ہوا ہے جو سولہویں  صدی سے اس کے حکمران تھے۔بہت سے ناموں کے چولے اس نے پہنے اور اُتارے۔کبھی شارع النہر کہلائی اور جب انگریز بغداد اور میسوپوٹیمیا پر قبضہ کرنے انیگلوانڈین سپاہیوں کے ساتھ آئے تو خلیل پاشا نے انہیں بڑی ذلت آمیز شکست سے دوچار کیا اور یادگار کے طور پر Real streetبنانے کا عزم کیا۔پہلا نامJaddi Siدیا گیا۔کئی ناموں کے بعد اب یہ الرشید سٹریٹ ہے۔اس سٹریٹ میں جا کر احساس ہوتا ہے کہ جیسے یہ ایک Random Societyکی نمائندہ ہے۔

Al Sadoon Street

خوبصورتیوں،بدصورتیوں،شاندار بلندو بالا عمارات کے جلو میں خستہ حال ٹوٹی پھوٹی کہنہ سال بلڈنگز،امیر ترین لوگوں کے پہلوؤں میں غریب ترین لوگ۔قہوہ کیفوں میں بیٹھے قہوہ اڑاتے،آئس کریم باروں سے آئس کریم خریدتے اور کھاتے لوگوں کے ہنستے مسکراتے چہرے۔رشید سٹریٹ اس کے ساتھ اگلی اہم شاہراہ خلیفہ اور سیدونSadoonسڑیٹ ہیں۔یہاں بازاروں کی بُھول بھلّیاں تھیں۔ایک کے اندر سے دوسرا بازار نکلتاتھا۔محرابی صورت والے،چھتے ہوئے،جہاں اس گرمی اور تپش کا اثر نہیں تھاجو میں باہر جھیلتی آئی تھی۔میرے قدیم شہر کے بازاروں جیسے رنگ محل کے سینے سے کناری بازار نکلے اور کناری بازار کے پیٹ سے چھتہ بازار برآمد ہو۔چھتے بازار کی دم سے گمٹی بازار اور آگے یہ پیچ در پیچ سلسلہ لوہاری دروازے میں گم ہوکر ماڈرن انارکلی میں جانکلے۔
بزازین مارکیٹ میں داخل ہوتے ہی اپنائیت کی خوشبو سارے میں مہکنے لگی۔منظر دلّی دروازے والا تھا۔تھانوں سے سجی دکانوں کے سامنے پڑے سٹول پر بیٹھنا اور کپڑوں کو دیکھنا اچھا شغل تھا جو میں نے کیا اور لطف بھی اُٹھایا۔ کجھور کے پتوں سے بنی آرائشی اشیاء ٹوکریاں،شاپنگ بیگز،روٹیوں کے چھابے،ڈورمیٹ چٹائیاں،ہیٹ ڈھیروں ڈھیر چیزیں جنہیں دیکھنا دلچسپ اور لے جانے کا تصور مشکل ترین۔
پھر یونہی گھومتے گھماتے میں ایک ایسے بازار میں داخل ہوگئی جس نے مجھے حیرت زدہ ساکر دیاتھا۔میں دم بخود کھڑی تھی۔یہ میرے لاہور کے کیسرا بازار کا منظر بھی نہیں تھا کہ وہاں بھی اب پیتل،تانبے اور ظروف سازی کا کام فیکٹریوں میں ہوتا ہے۔یہ میرے ماضی کا منظر تھا۔رنگ محل کے کیسرا بازار کا۔ میں ماضی کے حقیقی منظروں میں گھری کھڑی تھی۔یہ سوق السفافیرSouq-l
Safafeer بازار تھا یا دوسرے لفظوں میں کاپرانٹک(Copper Antiques)مارکیٹ تھی۔
ٹھک ٹھک کی آوازیں سارے ماحول میں بکھری ہوئی تھیں۔ پیتل کی آرائشی اشیاء سے سجی دوکانوں میں پرانے روایتی طرز پر کام ہوتا تھا۔کہیں اوزاروں سے برتنوں اور ڈیکوریشن اشیا کی صورت گیری کی جا رہی تھی۔ رنگ و آہنگ کا ایک جہان سامنے تھا۔

کہیں نقاشی کاسامان بکھیرے کرسیوں پر بیٹھے اوپن سٹوڈیو کا منظر اپنے اردگرد بکھرائے یہ فنکار لوگ دنیا جہاں سے غافل کام میں ڈوبے ہوئے نظر آتے تھے،کہیں زمینی فرش پر گدیاں بچھائے، اوزاروں سے لڑتے کاریگران میں اُلجھے ہوئے ملتے تھے۔ہمارئے ہاں کے لوگوں کی طرح نہیں کہ گندے مندے حُلیوں میں بیٹھے ہیں۔پینٹ قمیضوں میں بابو بنے ٹھک ٹھک کرتے اورفر فر انگریزی بولتے تھے۔
پیتل اور تانبے کی چمک سے لشکارے مارتی دوکانیں جو آپ کو عجیب پر مسرت سے تجربے سے دوچارکرتی ہیں جسے محسوس کرنا تو آسان پربیان کرنا مشکل۔کہیں مجھے محسوس ہوتا جیسے میں قوس قزح کے دھنک رنگ بادلوں کے حصار میں ہوں۔کہیں طلائی کرنوں کی چمک میں چہار جانب سے گھری ہوئی ہوں۔سامان سے بھری دوکانیں جنکی ڈیزاین کاری،مینا کاری،نقاشی نے انہیں قابل دید بنا رکھا تھا۔دیواروں پر سجی ڈیکوریشن پلیٹوں کی ورائٹی کا کوئی شمار نہ تھا۔چھوٹا بڑا ہر سائز نظر آتا تھا۔اُف ایک پُرفسوں ماحول۔فانوس، ٹیبل لیمپ بڑے چھوٹے۔عرق گلاب کی گل پاشیاں اور جانے کیا کیا چیزیں تھیں۔مجھے چند ایک کے سواکسی کے نام اور مصرف کا علم نہ تھا اور وہ بھی میرے اپنے حساب سے تھے۔کتنے درست اورکتنے غلط۔ان کی تصیح میں نہیں پڑی۔ یہ چکرتو بڑا مہنگا پڑتا۔ دوکانداروں سے کتنا کچھ پوچھتی۔بتاتے بتاتے وہ بھی عاجز آجاتے۔ سماوار تو چھوٹا سا ضرور خریدنے کوجی چاہا مگر لے جانے کا ایک مسئلہ۔
ایسے ہی گھومتے ٹوہ لیتے ایک دوکان پر بیٹھے چند لڑکوں نے سیدون سٹریٹ Sadoun st کا کہاکہ فوک لور سنٹر پر پورے ملک کی انتہائی خوبصورت ہنڈی کرافٹ دستیاب ہیں۔ عراق کا کلچر وہاں دیکھا جا سکتا ہے۔ سیدون سٹریٹ نزدیک ہی تھی جانتے ہوئے بھی میں نے پوچھاتھا۔کتنا چلنا ہوگا؟زیادہ نہیں تھوڑا سا۔بس کرادا جنکشن کے پاس۔اب کرادا جنکشن کہاں ہے؟ جیسا سوال سامنے آیا۔میں نے دل میں کہا دفع کرو۔کہیں تو ہوگا ہی نہ۔نظر آگیا تو ٹھیک اب کیا اس کے پیچھے بھاگتی پھروں۔
عورتوں سے متعلق چیزیں بے شمار تھیں۔بازار کے اختتام پر سونے اور سلور کی خوبصورت روایتی جیولری کی دوکانیں بھی ہیں۔جس کیلئے میں ایک دو دوکانوں میں ضرور گئی۔پھر کہیں رکتی کہیں چلتی سوق الغزلSouq-ul-Ghazelجاپہنچی۔یہاں بغداد کا قدیم ترین مینار تھا۔جو جانے کتنی صدیوں سے کھڑا ہے۔ 1258میں ہلاکوخان کے حملے میں مسجد تو شہید ہوگئی تھی۔مینار ہلاکو کے بیٹے اباگانے Abaghaنے بنایا۔


جمہوریہ سٹریٹ سے خلیفہ سٹریٹ میں اُتری۔بلند و بالا عمارات کے ہمسایوں میں بستی پستہ قامت عمارتوں کے رنگ برنگے تعمیری انداز کو دیکھتے سڑک پر گاڑیوں کے اژدہام سے گزری۔
میں الف لیلیٰ کی اُن کہانیوں میں کھونے کی خواہش مند تھی جنہیں پڑھتے پڑھتے میں بوڑھی ہو گئی تھی۔
تو یہ خلیفہ سٹریٹ یا Caliphsسٹریٹ ہے۔اِسے دیکھتے ہوئے چلتے چلتے میں نے رومن کتھولک چرچ کو دیکھا۔1866میں بنا ہوا یہ چرچ کہنہ سالی کا شکا رتھا۔ تھوڑی دیر کیلئے اندر گئی سینٹ تھامسن کے نام پر ہے۔بہت سے مجسمے تھے۔بہت ساری پینٹگز تھیں۔ساتھ ہی Petsمارکیٹ تھی۔وہاں سے میں نے فوراًپلٹا کھایا۔ مجھے کتے،بلیوں،طوطوں،میناؤں اور کبوتروں سے کبھی دلچسپی نہیں رہی۔گول چکر سے مڑی تو داہیں ہاتھ عباسی پیلس تھا۔میں نے پہچان کر رُخ بدل لیا تھا۔
المتنابی سٹریٹAl-Mutanabbi Street اور سوق السرائے کوچوتھی بار دیکھ کربھی مزہ آیا تھا۔دونوں اپنے اپنے چہرے مہروں سے خوبصورت اور خاصے کی چیزیں تھیں۔کتابوں اور سٹیشنری کا پھیلا ہوا کاروباری سلسلہ پورے عروج پر تھا۔مجھے تو یوں لگاجیسے میں سکردو کے درّہ سدپارہ میں سے گزر رہی ہوں۔چھت اگر ہوتی تو یقینا کسی سرنگ کا شائبہ ہوتا۔
یہاں بیٹھ کر قہوہ پینے اور کنف کھانے کا مزہ ایسا ہی تھاجیسے میں پیسہ اخبار میں کسی تھڑے پر بیٹھ کر گرم گرم گلاب جامن کھایا کرتی تھی۔
میرے لئیے دجلے کے کنارے پر مقامی رنگ لئیے ایسے ہوٹل دیکھنا بہت خوش کن تجربہ تھا۔جن کے کشادہ یارڈ میں پھول ہنستے تھے۔جن کے فرش چمکتے تھے۔جن کے فواروں میں موتی اچھلتے تھے۔جن کی سیڑھیاں دجلے کے پانیوں میں اترتی تھیں۔دجلہ کے کناروں پر لوہے کی سفید جالیوں سے سفید مقید کئیے ہوئے حصّوں میں مصوروں کے مقامی لوک کردار حسین رنگوں میں ڈوبے کہیں تجریدی آرٹ اور کہیں سادہ فنکاری میں ڈوبے آنکھوں کو سیراب کرتے تھے۔چوبی بینچوں پر بیٹھ کر گھنٹوں دجلہ کو دیکھو۔میں وہیں بیٹھی اور ساری تھکن کافی کے چھوٹے چھوٹے گھونٹوں میں اُتاری۔
میں شدید تھک چکی تھی۔میرے خیال میں تھکنے سے زیادہ نفسیاتی طور پر اِس محاورے کا شکار ہوئی تھی کہ گڈی دیکھ کر پاؤں بھاری ہوجاتے ہیں۔مجھے بھی معلوم تھا کہ میں جیب سے موبائل کی طلسمی انگوٹھی کو رگڑوں گی تو افلاق جن کی طرح میرے سامنے حاضر ہو جائے گا۔اور ایسا ہی تھا کہ وہ آگیا تھا۔
حمورابیOblisk دیکھی۔سنگ مر مر کی اس بلندو بالا چہار پہلو ستون نے چوراہے کو سجا رکھا تھا۔بابل کا عظیم بادشاہ حمورابی دنیا کا پہلا قانون ساز جس کے دو سو بیاسی مکاتیب آج بھی قانون دانوں کو حیرت زدہ کرتے ہیں۔
افلاق کہتا تھا اصل آبلسک تو فرانس کے عجائب گھر میں ہے۔اُس پر وہ قوانین کندہ تھے اور یہ مندر کے احاطے میں نصب تھا۔گردش زمانہ میں یہ ہزاروں سال گم رہا۔کھدائیوں کے دوران فرانسیسیوں کو ملا۔جنہوں نے فی الفور اسے لوورLouvre پہنچا دیا۔یہ اُس کی نقل ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

صدام نے گلی کوچوں اور چوراہوں کو تاریخی اعتبار سے نیا رنگ و آہنگ دینے کی پوری کوشش کی ہے۔الرشید سٹریٹ پر کئی بار گزرتے ہوئے میں نے مرجانہ مسجد کو دیکھا تھا۔کبھی شام کے سانولے سے رنگوں میں اس کا لٹا لٹا سا مٹیالا حُسن اتنی رومانیت لئیے ہوئےہوتا کہ میں اس کی طرف دیکھتے ہوئے اپنے دل میں عجیب سی پیاس اور مرعوبیت محسوس کرتی۔کہنہ سالی اس کی پور  پور پر بکھری ہونے کے باوجود مجھے اچھی لگتی تھی شاید اس کے پس منظر کی تفصیل سے اس کے در دیوار پر بکھری اِس کی عظمت کو اند ر کی آنکھ محسوس کرتی تھی۔جس نے اِسے صدیوں علم بانٹنے پر مامور رکھا تھا۔1357میں امیر الدین مرجان نے تعمیر کیا تھا۔تب عباسیوں کے شاندار عہد کوختم کرتے ہوئے ایک صدی گزر چکی تھی۔آغاز میں یہ مستنصریہ جیسا ہی تھابعد میں مسجد میں بدل دیا گیا۔
بالمقابل خان مرجان ہے۔رشید سٹریٹ کا ایک بے مثل تحفہ۔کل کے مرجانہ سکول کے عالموں اور طلبہ کی اقامت گاہ جسے منہدم ہوتے ہوتے بچالیا گیا۔1935میں ازسرنو اس کی تعمیر ہوئی۔اور اِسے عرب نوادرات کے ایک میوزیم کی شکل دی گئی۔آج کل یہ فرسٹ کلاس ریسٹورنٹ ہے۔
سچی بات ہے میں تو اس کی تعمیری ساخت دیکھ کر کنگ کھڑی تھی۔ساری تعمیر ایک ہال کے گرداگرد ہے جس کی اونچی محرابی ڈیزائن کاری سے سجی چھت کو دیکھنے کیلئے گردن کو انتہائے پشت پر پھینکنا پڑتا ہے۔اوپر کی منزل کے کمروں کیلئے پورے ہال کے چاروں طرف آہنی گرل سے سجا راستہ ہے جہاں سے ہال کانظارہ حددرجہ دلچسپ ہے۔اینٹ سے بنی اور سجی یہ محرابیں کس قدر حسین اور طلسمی سا ماحول پیداکر رہی تھیں کہ بیان کرنا مشکل ہے۔ہال میں تیز موسیقی کا طوفان سا بکھرا ہوا تھا۔عراقی لوگ میزوں پر بیٹھے کھانے پینے میں مصروف تھے۔ایک بے حد دلکش رومان پرور ماحول جو آپ کو کہیں بہت دور ماضی میں لے جاتا ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply