اصلاح۔۔۔عاطف نذیر

بوڑھے آدمی نے اپنی بات کا آغاز کرتے ہوئے کہا ، مایئکل انجیلونے حضرت داؤد  کا مجسمہ تراشا، یہ با ت اکثر لوگ جانتے ہیں لیکن بہت کم لوگ یہ جانتے ہونگے کہ مایئکل انجیلوکی پیدائش سے تقریباً گیارہ برس پہلے سنگ مرمرکاوہ پتھر جس سے مجسمہ تراشا گیا تھا، ایک دوسرے مجسمہ ساز کے پاس بھیجا گیا تھا ۔ بوڑھے آدمی سے ملاقات کے لیے آئے ہوئےاس شخص نے قدرے حیرت سے پوچھا، تو اس مجسمہ ساز نے کیوں کر نہ اس پتھر سے کوئی مجسمہ تراش لیا؟ اس سے پہلے کہ وہ مجسمہ تراش پاتا، وہ مجسمہ ساز انتقال کر گیا اور اسکے انتقال کے بعد یہ کام مایئکل انجیلوکو سونپا گیا لیکن یہ ہمارا موضوع نہیں ہے ، بوڑھے آدمی نےجواب دیااور بولا۔

ہما را موضوع وہ مکالمہ ہے جو مجسمہ تراشتے وقت ہوا۔ جب مایئکل انجیلو مجسمہ تراش رہا تھا، کسی نے اس سے پوچھاکہ یہ تم کیا کر رہےہو؟ اسکا جواب بہت دلچسپ تھا، اس نے کہا کہ اس پتھر میں ایک فرشتہ قید ہے، میں اسے آزاد کر رہا ہوں۔ اگر تم غور کرو تو اس ایک جملے میں ایک بہت بڑا راز چھپا ہے۔ ہم سب بھی سنگِ مرمر کے پتھر ہیں۔ ہم سب میں بھی ایک فرشتہ موجود ہے۔ ضرورت صرف اس چیز کی ہے کہ ہم بھی خود کو تراشیں اور اپنی ذات میں موجود خامیوں کو ختم کریں بلکل ویسےہی جیسے وہ مجسمہ گیارہ سا ل صرف پتھر کا ایک ٹکڑا رہا لیکن جب اس کو تراشا گیا تو اُس میں چُھپا فرشتہ منظرِعام پہ آگیا، بوڑھے آدمی کی آواز میں سنجیدگی عود کر اًئی۔ ہر انسان کی زندگی کے چار بنیادی پہلو ہوتے ہیں۔ یہ صحت، معاش، تعلقات اور روحانیت ہیں۔ تم ان میں سے کسی کو بھی پکڑ لو اور خود کو بہتر سے بہتر کرتے جاؤ۔  ایک دن تم بھی اپنی ذات میں موجود فرشتے کو منظرِ عام پہ لے آوُؤگے۔۔

یہ سب کہنے کی باتیں ہیں حضرت، انسان کے پاس اختیار ہی کتنا ہے؟ اس شخص نے بوڑھے کی بات کاٹتے ہوئے کہا، نہ زندگی کے آغاز پر آپکی گرفت اور نہ انجام پر۔ اللہ نہ چاہے تو آپ دوسرا سانس نہیں لے سکتے۔ سچ تو یہ ہے وہ توفیق نہ دے تو آپکو بہتری لانے کا خیال بھی نہ آئے۔ قدرت پیدا ہوتے ہی آپکے ہاتھ میں زندگی کی اُلجھی ڈور تھمادیتی ہے اور بیچارہ انسان اس اُلجھی ہوئی ڈور کو سلجھانے میں ایسا اُلجھتا ہے کہ جب سر اُٹھا کر دیکھتا ہےتو فرشتہِ اجل آچکا ہوتا ہے، وہ شخص نہ ماننے والے انداز میں گویا ہوا۔

بوڑھے آدمی نے مسکراتے ہوئے کہا، میرے بچے اللہ کے اختیارکےسامنےکون سراُٹھاسکتاہے؟ لیکن جتنااختیارہمارےپاس ہے،اسکاتوہم نےجواب دیناہی ہے۔تم خود سوچو کہ اگر اختیارنہ ہوتاتوحساب بھی نہ ہوتا، بوڑھےآدمی نے اپنی بات جاری رکھی۔ دیکھو قدرت کے نظام کی دو پرتیں ہیں۔ایک نچلی پرت ہےیہ وجہ اور اثر کی پرت ہے۔تم جو بوؤ گےوہی کاٹوگے، تم محنت کروگےتوکامیاب ہوجاؤ گے، تم چلتی ٹرین کے سامنے کھڑےہوگے تومرجاؤگے۔تم اچھی خوراک نہیں کھاؤ گے ، صاف پانی نہیں پیوگے توبیمارہوجاؤ گے۔اگر ترجیحات کا تعین نہیں کروگے توبے مقصدزندگی گزاروگے۔اگر بہت زیادہ سٹریس لوگےتودل کےمریض بن جاؤ گے۔ یہ قانون کی پرت ہے۔ اللہ نے ہرچیزکاقانون بنادیاہےاورزندگی کاہرپہلواسی قانون کےتحت چلتاہے۔ہم میں سے اکثرکی زندگی اسی اصول پرگزرتی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

دوسری پرت آفاقی پروگرام کی ہے۔اللہ کےبڑے مقصد کی ہے۔ اگر اللہ کے نظام میں تمھاری ضرورت ہوگی تو تم چلتی ٹرین کے سامنے بھی کھڑے ہوجاوؤ تو قدرت کوئی بہانہ بناکر تمھیں بچالےگی۔قدرت کو اگر تم سے کوئی بڑا کام لینا مقصودہوگا تو تمھارے لاکھ نہ چاہنے کے باوجود تمھیں کسی ولیِ کامل سے ملوادےگی اور تمھاری زندگی بنادےگی۔ ہماری سُست طبیعت کو بھاتا تو یہی ہےکہ ہم کسی ولی سےملیں تو وہ ہمارانام لے کر کہیں کہ تم آگئے، میں تمھارا ہی منتظر تھالیکن یہ ہوتانہیں کیونکہ ہم پروٹوکول تو ولیوںُوالا چاہتے ہیں لیکن اپنی ذات میں ولیوںُ والی ایک صفت پیدا کرنے کے جتن کرنے تک کا عزم نہیں رکھتے۔اسی لیے ہماری زندگیاں بھی نہیں بدلتیں کیونکہ ہم بھول جاتے ہیں کہ اللہ کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنی حالت کو نہ بدلےسو جس دن تم مسئلہ  کا حل باہر کی بجائےاندر تلاش کرنے میں لگ جاؤ گے، کامیاب ہو جاؤ گے، اس شخص نے اُٹھ کر بوڑھے آدمی کو سلام کیا۔ اسکی آنکھوں میں اپنی ذات کی اصلاح کا عزم تھا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply