فائن ٹیوننگ آرگیومنٹ۔۔۔۔۔راہ گزر

جب ہم کسی ریڈیو کو مخصوص فریکوینسی پر ٹیون کرتے ہیں تو مخصوص چینل آجاتا ہے اسی طرح کائنات کے قوانین کے پیرامیٹر کچھ اس طرح سے ٹیونڈ (Tuned) ہیں کہ اسی ٹیوننگ کی وجہ سے کائنات آج جیسی ہے ویسی بنی ۔ فائن ٹیوننگ مفروضے کے مطابق اگر یہ ٹیوننگ نہ ہوتی تو نہ کوئی مادی ذرہ بنتا، نہ ایٹم بنتا، نہ ستارے بنتے، نہ کہکشاں بنتی، اور نہ ہی حیاتیاتی زندگی اور انسانی شعور بنتا اور نہ انسان یہ سوال پوچھنے کے لیے وجود رکھتا ہوتا کہ یہ کائنات کیسے بنی۔ اسکو فائن ٹیوننگ پروبلم کہتے ہیں۔

مثال کے طور پر فائن ٹیوننگ کے حق میں جو سائنس دان ہیں وہ دلیل دیتے ہیں کہ اگر مضبوط نیوکلیائی قوت اپنی موجودہ قوت سے 2 فیصد زیادہ ہوتی (مثلا ً باقی کونسٹنٹس کو تبدیل کیے بغیر، کپلنگ کونسٹنٹ کو 2 فیصد بڑھا دیا جائے) تو ڈائی پروٹون متوازن ہوجائیں گے۔ ہائڈروجن، ہیلیم اور ڈیوٹریم میں بدلنے کی بجائے، ڈائی-پروٹون میں بدل جائے گی۔ جس کے نتیجے میں ستاروں کی طبیعات مکمل طور پر بدل جائے گی اور ممکنہ طور پر زندگی کے لیے تمام ضروری حالات ختم ہوجائیں گے۔ البتہ ڈائی-پروٹون آرگیومنٹ بہت سے طبیعات دانوں کے نزدیک متنازعہ اور کمزور ہے۔ انکے مطابق جب تک (پیرامیٹرز میں) یہ تبدیلی یا بڑھوتری 50 فیصد سے نیچے رہتی ہے تب تک متوازن ڈائی-پروٹونز کی موجودگی میں بھی سٹیلر فیوژن جاری رہتی ہے۔

کچھ طبیعیات دانوں میں یہ رجحان پایا جاتا ہے کہ وہ کائنات کی فائن ٹیوننگ پر یقین ظاہر کرتے ہوئے پائے جاتے ہیں مگر انکا اتفاق اس بات پر ہے کہ کائنات کے محض حالات اور بنیادی اصولوں میں کافی حد تک نظم و ضبط ہے، جبکہ اس بات پر اتفاق نہیں ہے کہ یہ کائنات باقاعدہ کسی انسانی زندگی کے لیے فائن ٹیون کی گئی ہو۔ جیسا کہ سٹیفن ہاکنگ بیان کرتے ہیں
“سائنس کے قوانین ایسے پیرامیٹرز پر کھڑے ہیں جن میں ایک قسم کی تعددی تنظیم پائی جاتی ہے مثال کے طور پر الیکٹرون کے الیکٹرک چارج کا سائز، الیکٹرون اور پروٹون کی کمیتوں کا تناسب وغیرہ۔ ایسا لگتا ہے جیسے یہ تعددی تقسیم کائنات کے وجود میں آنے کیلیے جیسے فائن ٹیون کی گئی ہو”

پیرامیٹرز اور فائن ٹیوننگ:

پارٹیکل فزیکس میں فائن ٹیوننگ آرگیومنٹ کی بنیاد جن پیرامیٹرز کو بنایا جاتا ہے وہ سٹینڈرڈ موڈل کے پیرامیٹرز ہیں۔ آیئے پہلے یہ سمجھتے ہیں کہ پیرامیٹر کیا ہوتا ہے اور یہ کس طرح کسی بھی مذہبی استدلال کا حصہ نہیں بن سکتا۔
پیرامیٹر کسی بھی ریاضیاتی مساوات میں موجود مستقل مقداروں کو کہتے ہیں۔ چند مثالیں: گریویٹیشنل کونسٹنٹ، پلینک کونسٹنٹ، الیکٹرک کونسٹنٹ وغیرہ۔

پیرامیٹرز ہمیشہ “وضاحتی” ہوتے ہیں یعنی کائنات کی تشریح کرتے ہیں۔ یہ پیرامیٹر سائنس دان اپنی سہولت کیلیے بناتے ہیں مگر کائنات کا ان پیرامیٹرز کے عین مطابق ہونا شرط لازم نہیں کیونکہ یہ پیرامیٹر کائنات نے ہم کو حکم نہیں کیے بلکہ ہم نے خود اخذ کیے ہیں۔ مشاہداتی معلومات کی تصدیق کیلیے ان پیرامیٹرز کو مخلتف موڈلز میں استعمال کیا جاتا ہے ۔ اگر پچھلے موڈل سے بہتر کوئی موڈل تیار کر لیا جائے تو پرانا موڈل ختم ہوجاتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ اس کے پیرا میٹرز بھی۔

دوسری طرف سٹینڈرڈ موڈل ابھی تشریحی اعتبار سے نامکمل ہے (اس میں گریویٹی کی وضاحت موجود نہیں، نہ ہی ڈارک میٹر کے تمام پیرامیٹرز موجود ہیں، نہ ہی نیوٹرینو اوسیلیشنز کی تشریح ہوپاتی ہے)، لہذا یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اسکو مکمل کرنے کے لیے مزید نئے پیرامیٹرز کی ضرورت ہے یا ممکنہ طور پر ایک نئے موڈل کی ضرورت ہے جو سٹینڈرڈ موڈل سے بھی زیادہ مکمل اور متواتر پیرامیٹرز رکھتا ہو۔ مثال کے طور پر میکس ویل نے اپنے برقی مقناطیسی نظریہ کو مزید متواتر کرنے کیلیے مستعمل دو پیرامیٹرز (فری سپیس کی جاذبیت اور روشنی کی رفتار) کو گھٹا کر ایک پیرامیٹر کر دیا۔

ممکنہ طور پر کسی پیرامیٹر میں کتنی متغیر مقداریں استعمال ہوسکتی ہیں، اسکا اندازہ لگانا مشکل ہے اور فریکوینسی ڈسٹریبیوشن، جو یہ بتا سکے کہ متعدد متغیر مقداروں میں سے کونسی ایک مقدار (ویلیو) چنے گئے پیرامیٹر کیلیے درست ترین ہوگی، کا کوئی ثبوت موجود نہیں ہے۔ لہذا پیرامیٹر کی کسی مقدار میں ذرا سی تبدیلی نتائج پر کتنا اثر ڈالے گی، ابھی متنازع مسئلہ ہے۔

دوسرا مسئلہ پیرامیٹرز کی ایڈجسٹمنٹ کا ہے ۔ کسی موڈل میں ایک پیرامیٹر کو ایڈجسٹ کرنے کے لیے دوسرے پیرامیٹرز کو کونسٹنٹ رکھنا سائنسی اعتبار سے غیرمنطقی ہے۔ اس کے لیے تمام پیرامیٹرز کا ایک یونیفائڈ ایفیکٹ کیلولیٹ کرنا ضروری ہے جو کہ موجودہ سائنسی آلات کے تحت ممکن نہیں لگتا۔
ان باتوں سے واضح ہے کہ فائن ٹیوننگ مفروضے کی بنیاد جن بظاہر “آزاد” پیرامیٹر پر رکھی گئ ہے وہ کہیں بھی موجود نہیں ہیں اور اگر ہیں بھی تو انکی تشریح میں فائن ٹیوننگ کا عنصر ڈھونڈنا ایسا ہی ہے جیسے کوئی جواری لاٹری کے تمام ٹکٹس خرید لے اور پھر کہے کہ میں لوٹری جیت گیا۔ لہذا اس فائن ٹیوننگ کا سب سے بڑا مسئلہ اسکا توثیقی مغالطہ ہے۔

سٹینڈرڈ ماڈل اور فائن ٹیوننگ:

طبیعات دان ابھی یہ نہیں جان پائے کہ سٹینڈرڈ ماڈل میں کل کتنے پیرامیٹرز کی گنجائش باقی ہے جو اس ماڈل کو متواتر بنا سکیں جس سے کائنات کی تنظیم سمجھنے میں آسانی ہو۔ چونکہ سٹینڈرڈ ماڈل ریاضیاتی اعتبار سے بہت زیادہ حرارت والے حالات میں متواتر نہیں رہتا (جہاں مقادیری میکانیات اور نظریہ اضافت یک جہت ہوجاتے ہیں)، وہاں سٹینڈرڈ ماڈل کی جگہ لوپ کوانٹم گریویٹی، سٹرنگ تھیوری، گرینڈ یونیفائڈ تھیوری وغیرہ زیادہ قابل اعتبار لگتی ہیں۔ کچھ دیگر ماڈلز کے مطابق کائنات میں کل پیرامیٹرز کی تعداد ایک بھی ہوسکتی ہے۔ بہرحال مدعا یہ ہے کہ جب کائنات کے ماڈل میں ہی اس قدر غیریقینت اور تزلزل ہے، تواسکی ٹیوننگ سے متعلق یقینی دعوی کرنے والے کیا کسی دوسری کائنات سے یہ بات سیکھ کر آرہے ہیں؟

فائن ٹیوننگ کے مفروضہ کے حق میں دیے جانے والے زیادہ تر بیانات محض قیاسی ہیں اور اکثر و بیشتر “ہوسکتا ہے، ممکن ہے، ایسا لگتا ہے” جیسے مبہم الفاظ سے شروع ہوتے ہیں۔
مثلا رابرٹ ڈک کہتا ہے کہ ممکنہ طور پر طبیعات کی کچھ قوتیں مثلا کشش ثقل اور برقی مقناطیسیت وغیرہ کی فطرت ایسی ہے کہ وہ کائنات کے متعدد حصوں میں زندگی کی تخلیق کے لیے پرفیکٹ “لگتی” ہیں۔
دوسری جگہ مارٹن اور ریس کہتے ہیں کہ “ہماری کائنات میں نظم و ضبط سے “ایسا محسوس ہوتا ہے کہ” کائنات واقعی ہی نامیاتی نوع کی زندگی کو وجود دینے کے لیے فائن-ٹیون کی گئی ہے۔”

یہ نفسیاتی تصدیقات زیادہ اور سائنسی حقائق کم ہیں۔ بہرحال کچھ دیر کے لیے کائنات کو اگر فائن ٹیونڈ بھی تسلیم کر لیا جائے تب بھی زندگی کا وجود میں آنا کسی “باہری ماورائی قوت” کا وجود ثابت نہیں کرتا۔

تاریک توانائی (ڈارک انرجی) کا کوسمولوجیکل کونسٹینٹ سے تعلق واضح کرتے ہوئے ایک طبیعات دان نے کہا کہ “سب سے بڑا عجوبہ یہ نہیں کہ کائنات میں تاریک توانائی موجود ہے۔ بلکہ عجوبہ یہ ہے کہ یہ اتنی مقدار میں ہی کیوں موجود ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ اگر تاریک توانائی یا کوسمولوجیکل کانسٹینٹ اپنی موجود مقداروں سے ذرا سے زیادہ یا ذرا سا کم ہوجائیں تو ہم یہاں موجود نہ ہوتے۔” بعد ازاں یہی طبیعات دان کہتے ہیں کہ “اسکا یہ قطعا مطلب نہیں کہ کائنات فائن ٹیونڈ ہے۔ ممکن ہے کہ کسی بہت بڑی کائنات کا محض ایک جز ہو اور اس کے اس حصے میں زندگی کے پنپنے کا امکان زیادہ ہو”

اگرچہ ابھی تک کوسمولوجیکل کونسٹینٹ کی اتنی چھوٹی مقدار کا راز نامعلوم ہے مگر یہ کہنا کہ یہ کسی باہری قوت کی وجہ سے ہے بہت غیرسائنسی رویہ ہے
کچھ طبیعات دانوں کے مطابق فائن ٹیوننگ کی دلیل اور بشری اصول (اینتھروپک پرنسپل) محض ایک موضوعی تشبیہت ہے اور کچھ کے نزدیک یہ دونوں تناقضات ہیں۔

بہرحال فائن ٹیوننگ کا مفروضہ صرف ایسی زندگی کو فرض کرتا ہے جو کاربن پر مشتمل ہو۔ کچھ ماہرین کے نزدیک ایسی زندگی بھی ممکن ہے جو کاربن کے بغیر پنپ سکتی ہے۔ ہمارے پاس کوئی ٹھوس ثبوت نہیں ہے کہ صرف کاربن ہی سے زندگی کا وجود ممکن ہے۔ سٹیگنر کے مطابق ملٹی ورس کائنات میں زندگی بہت سے دوسرے پیرامیٹرز کی بدولت بھی ممکن ہوسکتی ہے ۔ لہذا یہ کہ کائنات صرف زمینی زندگی کو وجود دینے کے لیے اس طرح تعمیر کی گئی ہے، غلط ہے۔ بلکہ یہ بات مشاہداتی طور پر ثابت ہے کہ زندگی کائناتی اصولوں کے مطابق خود کو ڈھالتی ہے بجائے کہ کائنات خود کو زنگی کے مطابق ڈھالے۔

ممکنہ نیچری دلائی:

فائن ٹیوننگ مفروضہ کے رد میں سب سے مشہور دلیل ملٹی ورس کائنات کی ہے جس میں ایسے پیرامیٹرز کی گنجائش موجود ہوسکتی ہے جو زندگی کو کسی اور نہج پر متمکن کریں ۔ فائن ٹیوننگ کا مفروضہ دو بڑے مغالطوں کا ارتکاب کرتا ہے جن میں سے ایک کمزور بشری اصول (جسے ویک انتھروپک پرنسپل کہتے ہیں) ہے اور دوسرا مغالطہ سیلیکشن بائیس ہے ۔ دونوں مغالطےایک سکے کے ہی دو پہلو ہیں جن کا مفہوم یہ ہے کہ کائنات کو کسی خدا نے منظم کیا ہے جس کی سب سے بڑی وجہ انسان کا وجود ہے یعنی انسان کا موجود ہونا ہی کائنات کے کسی خدا کے ہاتھوں تخلیق کیے جانے کی دلیل ہے۔ یہ فلسیانہ دلیل بہرحال پسندیدہ فکریت ہے، اسکا سائنس سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
یاد رہے کہ بشری اصول (انتھروپک پرنسپل) ایک فلسفیانہ قیاس آرائی ہے جبکہ فائن ٹیوننگ سائنسی قیاس آرائی ہے۔ فلسفیانی قیاس آرائی بہرحال تجربی سائنس میں کسی دلیل کا درجہ نہیں رکھتی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اس ساری بحث میں فائن ٹیوننگ پروبلم کا ایک متوازن تجزیہ پیش کیا گیا ہے۔ اس کے حق میں جو دلائل ہیں انکی بنیادیں بہت ہی جزئی اور محدود ہیں ۔ اس دلیل کے دو حصے ہیں۔ ایک یہ کہ کائنات فائن ٹیونڈ ہے اور دوسرا یہ کہ کائنات بالخصوص زمینی زندگی کے لیے فائن ٹیونڈ ہے۔ مؤخر الذکر کی تردید اول الذخر کی تردید سے زیادہ واضح اور محکم ہے ۔ باقی کثیر الجہتی کائنات یا کائنات کے اغآز کی گتھیاں جب تک نہیں سلجھ جاتیں تب تک کائنات کی ٹیوننگ سے متعلق کوئی بھی دعوی کرنا لوٹری کی تمام ٹکٹس خرید کر اسکو جیتنے کے مترادف ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply