کلیپٹومینیا کی شکار بیوروکریسی۔۔۔اسمارہ مرتضٰی

شاہ جارج پنجم کی ملکہ میری کے بارے میں روایت ہے کہ وہ زیورات کی نہائیت شوقین تھی مگر کلپٹومینیا کا شکار تھی ۔جب وہ کوئی انگوٹھی یا نیکلس وغیرہ چپکے سے پرس میں رکھ لیتی تو دوکان دار اس واردات کو نظر انداز کر دیتا اور ملکہ کے ہمراہ جانے والے شاہی اہلکار خاموشی سے رقم ادا کر دیتے۔
فیاض الحسن چوہان نے سرکاری رہائش ملنے پر جو جو انکشافات کیے ہیں وہ کلپٹومینیا سے بھی کوئی بہت آگے کی چیز ہیں۔ اسی طرح کچھ عرصے قبل ایک موقر پاکستانی اخبار میں خبر شائع ہوئی تھی کہ پاکستان کے مختلف ائر پورٹس سے پی آئی اے کی لگ بھگ ایک ہزار ٹرالیاں غائب ہوگئیں جو مسافر سامان ڈھونے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔اس کے علاوہ ایک گل یہ بھی کھلا ہے کہ برطانیہ کی گریٹر مانچسٹر پولیس نے پی آئی اے کو ایک خط میں مطلع کیا ہے کہ ائر لائن عملے کے بعض ارکان ہوٹلوں میں قیام کے دوران گلاس، تولیہ، شیمپو، ٹوتھ پیسٹ، کیتلی جیسی معمولی اشیا بھی اپنے ساتھ لے جاتے ہیں اور دوکانوں سے چھوٹی موٹی اشیا غائب کرنے کی کوشش کرتے ہوئے پکڑے بھی گئے ہیں۔برطانوی پولیس نے اس رجحان کی حوصلہ شکنی کے اقدامات کی درخواست کی تھی اور پی آئی اے کی انتظامیہ کا کہنا تھا کہ وہ ان واقعات کی چھان بین کریں گے۔
پچھلے دنوں ایشین گیمز میں جب پاکستانی دستہ “کامیابیوں کے جھنڈے” گاڑتے بے نیل و مرام واپس لوٹنے کے لئے ائیرپورٹ پر پہنچا تو ان کے سامان سے گیمز ویلج کے کمرے کی اشیا از قسم کمبل، ٹیبل لیمپ، تولیے ،جوتے برآمد ہوئے جو انہوں نے اپنی طرف سے سووئنیر سمجھ کر سامان میں ڈال لئے تھے ،بڑی مشکل سے سامان واپس کرکے اورامیگریشن والوں کو برادر اسلامی ملک کا حوالہ دے کر جان چھڑائی گئی۔
لگ بھگ تیس برس پہلے پاکستان کی ایک خاتون سینیر سیاستدان بھی لندن کے ایک ڈپارٹمنٹل سٹور سے بلا قیمت انڈر گارمنٹس ہینڈ بیگ میں لے جاتے ہوئے روک لی گئی تھیں۔
وزارتِ خارجہ کے ایک اہلکار نے اپنے تجربات بیان کرتے ہوئے بات کہی تھی کہ فائیو سٹار ہوٹلوں کے کمروں میں پردوں اور بستر کی چادروں سے جوتے صاف کرنے اور قالین پر شراب انڈیلنے کی شکایتوں کو تو ہم خاطر میں نہیں لاتے۔ البتہ سرکاری وفود میں شامل ایک نا ایک کلپٹومینیک سیاستدان اہلکار یا صحافی ضرور ہوتا ہے جو معمولی سستی اشیا غائب کرنے کے سبب سفارتی عملے اور میزبانوں کے لیے شرمندگی کا سبب بنتا ہے اور سفارتخانے کا ایک اضافی کام یہ بھی ہوتا ہے کہ میڈیا میں خبر آئے بغیر معاملہ رفع دفع ہوجائے اور وفد کے معزز ارکان کی توقیر پر حرف نہ آئے۔
کلپٹومینیا ایک قابلِ علاج مرض ہے لیکن جس ملک کو کلپٹو کریسی ( چوروں کی حکمرانی) لاحق ہوجائے تو اس کا کوئی نفسیاتی علاج نہیں۔کلپٹو کریسی ایسے نظام کو کہتے ہیں جس میں حکمران طبقہ اور اس کے اہلکار رعایا کی ضروریات و حقوق کی جانب سے اندھے ہو کر سرکاری خزانہ بانٹ کھائیں اور اس چوری پر سینہ زوری دکھاتے ہوئے لوٹی ہوئی دولت کے بل پر اپنی سیاسی قوت بڑھاتے چلے جائیں۔
کلپٹو کریسی کی درخشاں مثالوں کے لیے آپ کو زائر کے موبوتو، فلپینز کے مارکوس، انڈونیشیا کے سہارتو، نائجیریا کے سنی اباچا، ہیٹی کے دو والئیر وغیرہ جیسوں کی حکومتیں یاد رکھنے یا ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل جیسے اداروں کا ریکارڈ کھنگالنے کی ضرورت نہیں۔گھر سے باہر نکلتے ہی، ٹی وی آن کرتے ہی، اخبار کا پہلا صفحہ کھولتے ہی، عدالتی ریکارڈ کی گرد جھاڑتے ہی اندازہ ہوجائے گا کہ کلپٹو کریسی کہاں کہاں نہیں ہے۔۔۔
چاچے ساقے کے مطابق یہاں دو طرح کے لوگ ہیں۔ وہ جنہیں موقع مل گیا۔ وہ جنہیں موقع نہیں ملا۔

Facebook Comments

اسمارا مرتضیٰ
خاک کے علاوہ میں کیا ہوں یہ تلاش جاری ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply