مذہب اور یورپ۔۔۔ اورنگزیب وٹو

یہ قرون وسطی کا یورپ ہے۔مذہب کی اجارہ داری ہے۔یورپ کا انسان مذہب کے ہاتھوں لہو لہان ہو چکا ہے۔مذہب ایک ناگ کی طرح پھن پھیلائے حاکم بنا بیٹھا ہے۔مذہب ان دیکھے خدا اور اس کے محبوب پیامبر کی کہانیاں سنا کر اور صلیب کو ماتھے سے لگا کر انسان کو خواب خرگوش  کی نیند سلا دیتا ہے۔مذہب نے لوٹ مار کا طوفان برپا کر رکھا ہے۔کبھی اس کے کارندے آپس میں جنگ و جدل برپا کرتے ہیں کبھی صلیب اٹھا کر انسان کو مقدس شہر کی طرف ہانکتے چلے جاتے ہیں۔یورپ کا یہ انسان لہو لہو ہو چکا ہے۔کئی صدیاں ایسے ہی گزرتی ہیں کہ پہاڑوں سے اٹھنے والی ایک قوم مذہب کے سب سے بڑے مسکن جو دو براعظموں کے سنگم پر ہے کو زیر نگیں کر لیتی ہے۔یورپ کا یہ انسان اس شہر کو قسطنطنیہ کہتا آیا ہے۔اب مذہب تھوڑا پریشان ہے۔اس شہر سے عالم فاضل علم کا سمندر لے کر یورپ کے انسان تک جا پہنچتے ہیں۔اب اس کے سامنے فلسفہ ہے اور سائنس بھی۔منطق کی پیچیدگیاں بھی  شامل ہیں اور ادب کی ان سنی کہانیاں بھی اس کا حصہ ہیں۔

اگلے وقتوں کے انسان کے دل اور دماغ پر یورپ کا انسان حیران رہ جاتا ہے۔گزرے لوگوں میں ہومر ،سقراط، افلاطون، ارسطو ،فیثا غورث ،ورجل ہوریس ،ہیروڈٹس ،ابن سینا الرازی جیسے لوگ ہیں جن کی باتیں حیرت اور روشنی کا نیا جہاں لے کر آئی ہیں۔اب یورپ کا انسان انکا گرویدہ  ہو چکا ہے۔وہ مذہب کے نام پر لڑ لڑ کر لہو لہان ہو چکا ہے اور اب وہ مذہب کے سامنے کھڑا ہونے کو تیار ہے۔مذہب کتاب کی جگہ صلیب تھمانے کے بڑے جتن کرتا ہے مگر اب انسان بدل چکا ہے۔اب یورپ کے انسان نے سوچ لیا ہے کہ پہلے وہ اس جہاں کی وسعتوں کو کھنگالے گا،اس کی تمام لزتوں کو کشید کرے گا اور اپنی حسرتیں پوری کرے گا۔اب اس انسان نے سوچ لیا ہے کہ جو محرومیاں اس پر مذہب نے مسلط کی ہیں ان کا بدلہ لے گا۔انسان اس دنیا کو اپنی مٹھی میں قید کرنا چاہتا ہے،اپنے اجداد کی طرح عروج حاصل کرنا چاہتا ہے چاہے اس کے لیے اسے خدا سے بغاوت اور شیطان سے روح کا سودا ہی کیوں نہ کرنا پڑے۔اسکا دل اب اس مذہب سے بے زار ہے جو اسکا لہو چوس چوس کر اژدھا بن چکا ہے۔اب یورپ کے انسان کا جتن ہے کہ اس اژدھے کا گلا گھونٹ دے یا کم از کم اسے ایک لمبی نیند سلا دے۔یورپ تلوار سونت کر اس مذہب کے سامنے کھڑا ہے جس کی زبان سے لہو ٹپک رہا ہے۔یورپ کے شعور میں وہ دس صدیاں ہیں جن میں اس اژدھے نے اسکا لہو پیا اور ہزاروں انسان ہیں جن کے گوشت پر اس نے پرورش پائی ہے۔اب یورپ کاانسان اسے ختم کرنے کے درپے ہے۔اور پھر مذہب اور اس نئے انسان کے درمیان ایک خوفناک جنگ شروع ہوتی ہے۔یورپ کاپر جوش انسان اور مذہب جو اپنی بداعمالیوں کے باعث کھوکھلا ہو چکا ہے،لڑتے لڑتے لہو لہان ہو جاتے ہیں۔

بالآخر انسان اس عفریت کو پکڑ کر ایک پنجرے میں قید کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔اب مذہب ایک آہنی پنجرے میں قید ہے اور اسکے ساتھ سر ٹکرا ٹکرا کر بے حال ھو چکا ہے۔یورپ کا انسان اب مکمل طور پر آزاد ہے۔علم کا بحر بے کراں ہے اور بے راہ رو جبلت ۔انسان دن دوگنی رات چوگنی ترقی کرتا ھوا ،دریاؤں سمندروں پہاڑوں کو کھنگالتا ھوا ایک دن چاند پر جا پہنچتا ھے۔اب انسان اپنے آپ کو کائنات کا آقا سمجھتا ھے۔پورا عالم اس کے سامنے سر بسجود ھے۔مال و زر کے لیے اس سفید چہرے والے انسان نے اپنے ہم جنسوں کا خون نچوڑا،تجوریاں بنائيں اور سمندروں سے موتی جنگلوں سے سونا ڈھونڈتے ڈھونڈتے اسی کا ھو کر رہ گیا۔اس انسان نے مادہ اور دولت ہرس اور ہوس کو اپنا مقصد بنا لیا۔زندگی اسکے لیے جسمانی لذت کا نام بن کر رہ گئی۔اس نے دنیا میں ہی جنت کا سامان پیدا کر لیا۔

Advertisements
julia rana solicitors

اس عالم بے خودی میں ایک دن مغرب کے اس انسان کے دل میں خیال آیا کہ اپنے یار دیرینہ کی خبر لی جائے۔انسان اپنی کامرانیوں پر نازاں قید خانے جا پہنچتا ہے۔انسان اور اسکا قیدی اب آمنے سامنے ہیں۔انکے درمیان صدیوں کا سفر ھے۔اب انسان عفریت کا روپ دھار چکا ہے اور مذہب تن مردہ کی طرح قید خانے میں سسک رہا ہے۔انسان قید خانے کو ٹھوکر مار کر قیدی کو جگاتا ہے اور اسے اپنی کامیابیوں کے قصے سناتا ہے۔مذہب سب کچھ لٹا دینے والے مسافر کی طرح خالی ہاتھ ہے۔اس کے تن سے شکست خوردہ سپاہی کی طرح خون بہہ رہا ہے۔انسان ایک اژدھے کا روپ دھارے اس کے سامنے کھڑا ہے۔قیدی بہت بوڑھا ہو چکا ہے۔اس کا نا تواں وجود لرزتا ہے اور وہ انسان کے قدموں میں گر کر غلامی کی بھیک مانگنے لگتا ہے۔مغرب کا انسان جس کا اندرون اگرچہ تاریک تر ہے،انسان کی عظمت کے نام پر ترس کھا کر مذہب کو اپنی غلامی میں لے لیتا ہے۔مذہب کو ایک عالیشان عمارت میں لایا جاتا ہے جہاں اس کو نہلا دھلا کر اجلا لباس پہنایا جاتا ہے۔مذہب اب نفیس کھانا کھاتا اور لمبی نیند سوتا ہے۔کبھی کبھی اس بوڑھے کو دنیا کے سامنے پیش کر کے اپنی دریا دلی اور شرافت کی داد وصول کی جاتی ہے۔دنیا کے جس حصے کو یہ گورا انسان برباد کرتا ہے وہاں اس بوڑھے کی نمائش کی جاتی ہے اور دنیا کو دکھایا جاتا ہے کہ یورپ کے انسان کے سینے میں کتنا درد ہے۔مذہب کی زبان سے وہی نکلتا ہے جو اسے یہ نئی دنیا کی عفریت یعنی سفید رنگ والا انسان سکھاتا ہے۔ایک روز عالم خواب میں بوڑھا ایک صدا سنتا ہے اور چیخ کر بستر سے بھاگ کھڑا ہوتا ہے۔مذہب عالم اضطراب میں انسان کا دامن پکڑتا ہے اور کپکپاتے ہونٹوں سے انسان کے کان میں بڑبڑاتا ہے۔گورے انسان کا رنگ ایک لمحے کے لیے فق ہو جاتا ہے لیکن اگلی ہی ساعت وہ بوڑھے کے سر پر پیار سے ہاتھ پھیرتے ہوئے کہتا ہے “میں اسے بھی جلد تمھارے پاس بھیج دوں گا”-اللہ اکبر کی صدا پھر سے بلند ہوتی ہے،بوڑھا گلے میں لٹکی صلیب تھام کر آنکھیں بند کر لیتا ہے۔

Facebook Comments

Aurangzeb Watto
زندگی اس قدر پہیلیوں بھری ہےکہ صرف قبروں میں لیٹے ہوۓ انسان ہی ہر راز جانتے ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply