ہم کیسے لوگ ہیں؟۔۔۔۔مرزامدثر نواز

حکایت ہے کہ چین میں ایک گاؤں پہاڑوں کے درمیان گھرا ہوا تھا‘ پہاڑ کی اونچائی اور بناوٹ کی وجہ سے گاؤں میں دھوپ نہیں آتی تھی۔ گاؤں کے ایک شخص نے بیلچہ اٹھاکر پہاڑ کو کھودنا شروع کر دیا‘ لوگوں نے اسے کہا کہ اگر تم اور گاؤں کے باقی تمام لوگ بھی یہ کام کرنا شروع کر دیں تو یہ یقینی ہے کہ تمہاری زندگی میں تو دھوپ گاؤں تک نہیں پہنچ سکتی۔ اس نے جواب دیا کہ یہ کام میں نے اپنے بارے میں سوچ کر شروع نہیں کیا‘ میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ میری زندگی میں دھوپ گاؤں تک نہیں پہنچے گی لیکن یہ امید تو کی جا سکتی ہے کہ آئندہ آنے والی نسلیں اس گاؤں میں ضرور دھوپ کا نظارہ کریں گی۔

کہا جا تا ہے کہ ایک شخص کو جہنم کی سیر کرائی جا رہی تھی‘ جس میں مختلف گڑھے تھے جن کے اوپر نہایت خوفناک و طاقتور محافظ یا داروغہ تعینات تھے۔ کنویں میں ہانکے گئے لوگوں میں سے اگر کوئی   باہر آنے کی کوشش کرتا تو داروغہ اسے واپس گڑھے میں دھکیل دیتا۔ سیر کرنے والے شخص کو ایک ایسا گڑھا دکھائی دیا جس کے اوپر کوئی داروغہ تعینات نہیں تھا اور اس سے کوئی بھی باہر آنے کی کوشش نہیں کر رہا تھا‘ اس نے حیران ہو کر اپنے رہنما سے پوچھا کہ کیا اس گڑھے میں کوئی بھی نہیں ہے جو وہاں داروغہ مقرر نہیں کیا گیا؟ رہنما نے مسکراتے ہوئے جواب دیا کہ دراصل یہ گڑھا جہنم میں پاکستانیوں کا گڑھا کے نام سے مشہور ہے‘ یہ بھی باقی کنوؤں کی طرح بھرا ہوا ہے اور اس میں سے بھی لوگ باہر نکلنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن جونہی کوئی ایک باہمت شخص باہر نکلنے کی تگ و دو کرتا ہے تو گڑھے میں موجود دوسرے لوگ اس کی ٹانگ کھینچ کر اس کو واپس اپنی طرف کھینچ  لیتے ہیں لہٰذا ہمیں اس گڑھے پر داروغہ تعینات کرنے کی ضرورت نہیں۔

میاں شعیب اللہ ہمارے گاؤں کی ممتاز سیاسی‘ سماجی و مذہبی شخصیت ہیں‘ ریلوے سے ریٹائرڈہیں اور ریٹائرمنٹ کے بعد کچھ عرصہ جاپان میں بھی قیام پذیر رہے۔ جاپان کے لوگوں کی مثبت سوچ‘ رویوں‘ وہاں کے تعلیمی نظام اور رہن سہن سے متاثر ہیں اور اکثر اپنی مثالوں میں تذکرہ کرتے رہتے ہیں۔ جاپان سے واپسی پر ان کے سر میں خدمت خلق‘ جذبہ ہمدردی اور سماجی کام کرنے کا سودا سمایا‘ اپنے ہم خیال لوگوں کو ساتھ ملایا‘ محنت بھی کی لیکن بدقسمتی سے جو کرنا چاہتے تھے‘ نہ کر سکے اور آج بھی اپنی خواہشات ‘جذبات اور خوابوں کو جو شرمندہ تعبیر نہ ہو سکے ‘دل میں دبائے افسوس کا اظہار کرتے ہیں۔ اہداف و مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے اس سلسلے میں کی گئی ان کی محنت و لگن اور اخلاص کو شک کی نگاہ سے نہیں دیکھا جا سکتا ‘ پھر کیا وجہ ہے کہ وہ کامیاب نہ ہو سکے؟ ان کی ناکامی کی وجہ ہمارے سماجی رویے‘ تربیت‘ سوچ‘ انا‘ حسد و بغض‘ ہر ایک کو شک کی نگاہ سے دیکھنا‘ وغیرہ وغیرہ جیسے عوامل ہیں۔

دستور کائنات ہے کہ سماجی امور کے لیے تن تنہا کچھ نہیں کیا جا سکتا‘ اس کے لیے ایک جماعت یا اکثریت کا متفق ہو نا اور ساتھ چلنا بہت ضروری ہے۔ اچھے ‘ فلاحی اور مفاد عامہ میں کیے جانے والے کاموں میں شمولیت اور حمایت اسی صورت میں ممکن ہے‘ اگر صدقہ جاریہ سے تعارف ہو‘ آئندہ نسلوں کی بہبود کا تصور دل میں ہو‘ اپنے مر جانے اور نیک و بد کاموں کی باز پرس کا یقین کامل ہو‘ انا پرستی‘ میں‘ میرا نام‘ میرا شملہ اونچا ہو‘ میں علاقے کا سر پنچ‘ چوہدری‘ فلاں شودر‘ چمار‘ اچھوت‘ کمی کمین‘ نوکر‘ مضارع‘ حسد و بغض جیسے جراثیم کا مغلوب ہونا ضروری ہے اور سب سے بڑھ کر اپنے خالق و مالک کا دل میں خوف ہو نا ضروری ہے کیونکہ یہی دانائی کی بنیاد ہے۔

میاں صاحب کے ذہن میں جاپان سے واپسی پر علاقے کے لوگوں کی فلاح کے لیے ایک کمیونٹی مرکز بنانے کا خیال آیا‘ جس کے لیے انہوں نے سعی کر کے جاپانی سفارت خانہ سے پچھتر لاکھ کی گرانٹ منظور کرا لی۔ یہ نوے کے عشرے کی بات ہے جس میں اتنی رقم سے ایک نہایت ہی عالیشان عمارت تعمیر کی جاسکتی تھی۔ کمیونٹی مرکز کے لیے گاؤں کے مرکز میں موجود دارہ (وہ جگہ جو مفاد عامہ کے لیے کسی نیک دل کی طرف سے وقف کی گئی ہو) کا انتخاب کیا گیا۔ جب اس جگہ کے قرب و جوار میں رہنے والوں میں سے کچھ کو اس منصوبے کی خبر ہوئی تو انہوں نے بھر پور مخالفت شروع کر دی اور یوں کمیونٹی مرکز کا منصوبہ کھٹائی میں پڑ گیا۔ مخالفت کی کیا وجہ ہو سکتی تھی‘ شاید یہ کہ اگر یہ مرکز بن گیا تو اس جگہ میں ہماری نام نہاد مداخلت ختم ہو جائے گی‘ ہمارا نام نہیں ہو گا‘ مرکز بنانے کی کاوش کرنے والا یہاں قابض ہو جائے گا‘ ہم کو نظر انداز کیا گیا اور ابتداء میں مشورہ نہیں کیا گیا‘ انتظام ہمارے ہاتھ میں ہونا چاہیے وغیرہ وغیرہ۔

اگر وہ مرکز بن جاتا تو تصور کریں آج کتنے لوگ اس سے استفادہ حاصل کر رہے ہوتے‘ شادی بیاہ‘ خوشی و غمی میں لوگوں کو کتنی سہولت ہوتی مگر ہماری جھوٹی انا‘ بے جا تعصب اور شملہ اونچا رہنے والی جاہلانہ سوچ نے یہ نہ ہونے دیا۔ مخالفت کرنے والے اپنے خالق حقیقی سے جا ملے اور کچھ عنقریب جا ملیں گے لیکن دارہ آج بھی اسی جگہ اپنی کسمپرسی والی حالت میں عدم توجہی اور بے بسی کی تصویر بنا   ماتم کنا  ہے۔ وہ لوگ جنہوں نے اس مرکز کی مخالفت کی‘ اگر اس کی حمایت کرتے اور ساتھ ہو کر اس کی تعمیر میں حصہ ڈالتے تو تاریخ میں آج ان کا نام اچھے الفاظ میں ہوتا‘ لوگ ان کی مغفرت کی دعائیں کرتے‘ ان کی اولاد کے لیے ان کا کام اور نام باعث فخر ہوتااور آج مر کر بھی وہ زندہ ہوتے‘
؂بے دلی کیا یونہی دن گزر جائیں گے
صرف زندہ رہے ہم تو مر جائیں گے

کبھی کبھی یہ عجیب سوچ ذہن میں گھر کر لیتی ہے کہ ہم کیسے لوگ ہیں؟ جو کسی کی خوشی برداشت نہیں کر سکتے‘ ہر وقت دوسروں کی خامیاں تلاش کرنے میں اپنا وقت ضائع کرتے ہیں‘ دوسروں کو گرانے میں لگے رہتے ہیں‘ کسی کو پیٹ بھر کر کھاتا دیکھ نہیں سکتے‘ چاہیں گے کہ ہر کوئی ہم سے کم تر رہے‘ کھیلیں گے نہ کھیلنے دیں گے کے  مصداق‘ اچھا کام کریں گے‘ حوصلہ افزائی کریں گے اور نہ ہی کسی کو کرنے دیں گے‘ اچھا کام کرنے والے کی ٹانگیں کھینچیں گے‘ کوئی اپنے شعبہ میں غیر معمولی صلاحیت کا مظاہرہ کرے تو دل سے اسے مبارک باد بھی نہیں دیں گے‘ اپنے مکان‘ کوٹھی‘ محل پر کروڑوں خرچ کر دیں گے مگر اسی محل کے باہر گلی میں ایک اینٹ بھی لگانا پسند نہیں کرتے‘ گھر کے باہرگندی نالی کو صاف کرنا اپنی توہین سمجھتے ہیں‘اپنے گھر کا کوڑا دوسرے کے دروازے کے آگے پھینک دیتے ہیں‘ کسی کام کا عملی طور پر حصہ بننے کی بجائے مشورہ دینے پر انحصار کرتے ہیں‘ ایکڑ  اور مربعوں کے حساب سے زمین کے مالک ہوں لیکن راستے کے لیے ایک انچ جگہ بھی چھوڑنے کی ہمت نہیں کرتے ‘ جو کوئی کام کرنے والا ہو اس کو ذلیل و خوار کرتے ہیں‘ اس کی کردار کشی کرتے ہیں‘ اس کو باقی زندگی جھوٹے مقدموں میں الجھائے رکھتے ہیں‘ حسب و نسب پر طعن کرتے ہیں‘ اپنے اکابرین کو گالیاں دیتے ہیں‘ صرف اپنے آپ کو ہدایت یافتہ اور باقی تمام کو گمراہ خیال کرتے ہیں‘ حسد کی آگ میں جلتے ہوئے ‘لوگوں کی املاک اور گاڑیوں کو نذر آتش کرتے ہیں‘ اپنی انا پرستی اور چودھراہٹ کو لیے قبر میں چلے جاتے ہیں‘ ہیں سے تھے ہو جاتے ہیں لیکن کسی کو فائدہ پہنچانے کی غلطی نہیں کرتے‘ ہم کتنے تنگ نظر‘ سڑیل اور تنگ ذہن کے مالک ہیں‘ ہم کیسے لوگ ہیں؟ ہم کیسے لوگ ہیں؟ اور کیا ایسے ہی رہیں گے؟

Advertisements
julia rana solicitors london

احمد رضا بٹ بھی ہمارے گاؤں کی ایک ابھرتی ہوئی سماجی‘ لڑکپن سے ہی قائدانہ صلاحیتوں کی حامل ‘ مذہب سے خاص لگاؤ رکھنے والی ‘درد دل اور دوسروں کی مدد کرنے کے جذبہ سے مالا مال اور انتہائی متحرک شخصیت ہے۔ اللہ تعٰالیٰ سے دعا ہے کہ موصوف نیک کاموں کی راہ میں آنے والی مشکلات کو خندہ پیشانی سے برداشت کرے‘ اپنے مقصد کے حصول میں ثابت قدم رہے اور اپنے علاقے کے لوگوں کی فلاح و بہبود کے لیے خلوص دل اور نیک نیت سے خدمات انجام دے۔

Facebook Comments

مرِزا مدثر نواز
پی ٹی سی ایل میں اسسٹنٹ مینجر۔ ایم ایس سی ٹیلی کمیونیکیشن انجنیئرنگ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply