مرٹل بیچ۔Myrtle Beach

موسمِ گرما میں ملنے والی چھٹیوں کے موقع پر ہمارے میاں نے کچھ دن ساحل پر گزارنے کا فیصلہ کیا۔ اس سلسلے میں امریکہ کے مشہور شہر نارتھ کیرالائینا کے ساحل “مرٹل بیچ” کا انتخاب کیا گیا۔ کمپیوٹر کےذریعے پہلے ہی تین دنوں کے لیے ہوٹل میں کمرے پسند کر کے اپنے نام سے اندراج کروا لیے۔ میں نے بھی انتہائی فرمانبرداری کا ثبوت دیتے ہوئے خوشی خوشی رختِ سفر باندھا اور بروز ہفتہ بعد نمازِ فجرعازمِ سفر ہوئے۔

صبح جلدی نکلنے کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوا کہ ہم ٹریفک سے بچ گئے۔ راستے میں ہی ڈنکن ڈونٹ سے رک کر ناشتہ لیا۔ ہمارے گھر سے نارتھ کیرالائینا کا راستہ تقریبا گیارہ سے بارہ گھنٹے پر مشتمل تھا۔ چھوٹے چھوٹے گاؤں راستے میں آئے، کہیں گائے کا باڑہ دکھائی دیا تو کہیں دوڑتے ہوئے خوبصورت گھوڑوں نے توجہ کھینچ لی۔ ایک جگہ کچھ کھجور کے درختوں جیسے درخت نظر آئے جن کی جڑیں دو فٹ پانی میں ڈوبی ہوئی تھیں۔ ساتھ لوگوں کے بیٹھنے کے لیے زمین پر کچھ فاصلے سے کرسیاں بھی رکھی تھیں۔ کہیں پہاڑی سلسلہ،تو کہیں مکئی کے لہلہاتے کھیت۔ اتنے دلفریب مناظر اور قدرت کی صناعی دیکھ کر با ر بار زبان پر “سبحان اللہ” کا ورد جاری رہا ۔

جب ہم اپنے ہوٹل پہنچے تو تقریباً ساڑھے تین بج رہے تھے۔ وہاں استقبالیہ انتظامیہ پر رش کی بدولت خدا خدا کر کے ہماری باری آئی اور استقبالیہ پر کھڑی خاتون نے مسکرا کر کمرے کی چابی دیتے ہوئے انگریزی میں خوشگوار دن گزارنے کا سندیسہ دیا۔ یہ الگ بات کہ ان خوشگوار دنوں کے لیے ہم نے آٹھ سو ڈالر بھی دیے تھے۔ خیر کمرہ ہمارے من کو کچھ زیادہ ہی بھایا۔ ضرورت کی ہر شے موجود تھی۔ آرام دہ بستر، ٹی وی، فریج، مائیکروویو، غسل خانہ اور آدھا باورچی خانہ۔ (آدھا باورچی خانہ وہ ہوتا ہے جہاں چولہا نہیں ہوتا مگر باقی تقریباً ہر شے موجود ہوتی ہے)۔ کھانے کی پلیٹیں، چائے کے مگ، کانٹے، چمچے، چھریاں، ٹوسٹر وغیرہ۔ اور جو سب سے خوبصورت منظر تھا وہ تھا کمرے سے متصل چھوٹی سی گیلری۔ جہاں سے تا حدِ نگاہ پھیلا ہوا سمندر دکھائی دیتا تھا۔ فوری طور پر جو پہلا کام کیا وہ یہی تھا کہ سارا سامان کمرے میں رکھا اور سمندر کی جانب دوڑ پڑے۔

دوسرے دن فجر کی نماز پڑھنے کے فوراً بعد ساحل پر پہنچے۔ آسمان پر بکھرتے قوسِ قزح کے رنگ اور سمندر کی ہوا، شدید گرمی میں بھی ماحول کے حسن کو دوبالا کر رہے تھے۔ بہت سے لوگ اس وقت چہل قدمی کر رہے تھے۔ کوئی کافی کے مگ ہاتھ میں پکڑے صبح کی تازگی محسوس کر رہا تھا تو کوئی دوڑ رہا تھا۔ ہر شخص طلوع آفتاب کا منظر دیکھنے کو رک جاتا تھا۔ کوئی اپنی نگاہوں میں قدرت کے اس حسین منظر کو قید کر رہا تھا تو کوئی کیمرے کی آنکھ سے۔ کچھ لمحوں کے لیے ہر شے رک گئی اگر کچھ حرکت میں تھا تو بس شمس جو اپنی طے شدہ رفتار سے آگے بڑھتا رہا، رکا نہیں۔ اگلے تین دنوں تک میرا یہی معمول رہا۔ نمازِ فجر کے بعد ساحل پہ کھڑے ہوکے طلوع آفتاب کا نظارہ کرنا۔

ساتھ ہی ہم نے ایک بحری جہاز کا بھی سفر کیا اور وہاں پر موسمِ گرما میں رہنے کے لیے بنائے گئے بہت سے امیروں کے محلوں کا نظارہ بھی کیا۔ اس کے ساتھ ہی اتفاق سے ایک عمارت میں بھی جانا ہوا جو کہ باہر اور اندر سے الٹے انداز میں بنائی گئی تھی ۔ چھت پر سیڑھیاں تھیں تو زمین پر پنکھے۔ اتنا منفرد اندازِ تخلیق دیکھ کر بہت لطف آیا۔ ان سب کے ساتھ ساتھ مگر مچھ کا گھر دیکھنے کا بھی موقع ملا اور ایک چھوٹے مگرمچھ کو ہاتھ میں لے کر ساتھ تصویر بھی بنوائی،یہ بالکل ہی انوکھا تجربہ تھا۔ آخر میں سمندر کنارے بنے ایک پارک میں گئے۔ جہاں بہت سی دکانیں تھیں اور بے شمار لوگ خریداری میں مصروف تھے۔ وہاں بالکل ایک علیحدہ پچھلے حصے میں شیر اور شیر کے بچوں کی نمائش تھی۔ وہاں پہنچے تو اندازہ ہوا کہ لوگ ان شیر کے بچوں کو گود میں اٹھا کر تصاویر بنوا رہے ہیں۔ بس پھر کیا تھا، ہم بھی قطار میں لگ گئے اور تصاویر بنوا کر ہی واپس آئے۔۔تین دنوں پر مشتمل یہ حسین سفر بے شمار یادیں اپنے دامن میں سمیٹےیہیں اختتام پذیر ہوا۔۔ہم سرائے پہنچے اور گھر واپسی کی تیاری شروع کردی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

موسم اور موسم کی شدت ہمارے ہاتھ میں نہیں۔ ساری دنیا میں خاص کر گرمی کے موسم میں، جب ہر شے سے بیزاری محسوس ہونے لگے تو، ایسے میں اکثر لوگ گھر والوں کے ساتھ ساحل کا رخ کرتے ہیں اور لطف اندوز ہوتے ہیں۔ میں نے بھی تھوڑے مختلف انداز میں سہی لیکن موسمِ گرما کی چھٹیاں منائیں۔ آپ کہیے۔۔ آپ گرمی کی چھٹیاں کیسے مناتے ہیں؟

Facebook Comments

حمیرا گل
طالب علم

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply