قطر سےایل این جی کا معاہدہ

شاہد خاقان عباسی جو اس وقت ملک کے وزیر اعظم ہیں سال 2015 میں وزیر پٹرولیم اور قدرتی وسائل تھے۔ وزیر اعظم بننے کے بعد قومی اسمبلی کے خطاب میں انہوں نے چیلنج کرنے کے انداز میں فرمایا کہ قطر ایل این جی معاہدے پر جسکو بات کرنی ہے کرلے، شیخ رشید احمد نے ان کے اس چیلنج کوقبول کرلیا ہے، اب یہ مناظرہ کب ہوتا ہے انتظار کیجیے۔ بدھ 10 فروری 2015 کو ہونے والے اس معاہدئے پر 12 فروری 2015 کا لکھا ہوا میرا ایک مضمون حاضر خدمت ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قطر سےایل این جی کا معاہدہ
بدھ 10 فروری 2015 کو قطر کے دارالحکومت دوحا میں پاکستان کی وزارت پیٹرولیم اور قدرتی وسائل اور قطر پٹرولیم کے درمیان 16 ارب ڈالر کا ایک معاہدہ طے پایا ہے۔ معاہدے پر وزیر پٹرولیم اور قدرتی وسائل شاہد خاقان عباسی اور چیئرمین قطر گیس بورڈ سعد شریدا نے دستخط کیے۔ اس موقع پر وزیراعظم محمد نواز شریف اور قطر کے امیر شیخ تمیم بن حماد بن خلیفہ الثانی بھی موجود تھے۔ معاہدے کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ قطر کے ساتھ ایل این جی کا معاہدہ پاکستان کے لیے بہت اہم ثابت ہوگا۔ پاکستان کو درپیش توانائی کے شدید بحران کی وجہ سے حکومت مختلف ذریعوں سے توانائی کے حصول کی کوشش کر رہی ہے۔ اس ضمن میں قطر سے ایل این جی درآمد کو انتہائی اہم قرار دیا جارہا ہے۔ مجوزہ معاہدے کے تحت ایل این جی کی قیمت خام تیل کی تین ماہ کی اوسط قیمت کے 13.37فیصد کے برابر ہو گی۔ قطر گیس کے ساتھ طے پانے والے مجوزہ معاہدے میں ایل این جی کی قیمت کے تعین کیلئے خام تیل برینٹ کی قیمت 40ڈالر فی بیرل لی گئی ہے۔ایل این جی کی قیمت پر 10سال بعد نظرثانی کی جائے گی۔
آیئے تھوڑا سا ماضی میں چلتے ہیں راحیل احمد شیخ لکھتے ہیں کہ “سال 2006ء کی بات ہے اس وقت کے پاکستان کے حکمران نے توانائی کے بحران سے بچنے کے لئے قطر سے ایل این جی گیس درآمد کرنے کا منصوبہ بنایا۔ اس منصوبے پر سوچ و بچار کے لئے دو کمپنیوں اے بی این امرو اور پوٹن این پارٹنر کو اٹھائیس کروڑ روپے کا ٹھیکہ دیا گیا۔( غریب ملکوں میں غریبوں کے خون پسینے کی کمائی سےسوچنے کا کام بھی ٹھیکے پر دیا جاتا ہے)”۔ان کمپنیوں کے سوچنے والوں نے سوچ سوچ کر بتایا کہ پاکستان میں قطر کے بحری جہاز کیو فلیکس، ایل این جی نہیں لاسکتے ۔ یہ ناممکن ہے۔ یہ گیس بھیجنے سے پہلے مائع حالت میں تبدیل کرکے جہازوں میں لادی جاتی ہے۔ جہاز جب اس درآمد کرنے والے ملک میں پہنچتے ہیں تو اس کو دوبارہ مائع سے گیس میں تبدیل کرکے پائپوں میں ڈال دیا جاتاہے۔ سوچنے والوں نے کہا کہ قطر کے جہازوں کو بندرگاہ تک پہنچنے کے لئے بندرگاہ کی گہرائی 14 میٹر سے زیادہ چاہیے ہوتی ہے جبکہ پورٹ قاسم کی بندرگاہ کی زیادہ سے زیادہ گہرائی 12 میٹر ہے۔ یہی رپورٹ، پورٹ قاسم نے بھی دی۔
چنانچہ اٹھائیس کروڑ روپے خرچ کرکے یہ خیال دل سے نکال دیا گیا۔منگل 24 مارچ 2015 کی ایک خبر کے مطابق بین الاقوامی دباؤ اور ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی جانب سے ایل این جی کی درآمد میں شفافیت سے متعلق اعتراضات نے پاکستان میں ایل این جی کی درآمد کے منصوبے کا مستقبل خطرے میں ڈال دیا ہے جبکہ قطر کی گیس سپلائر کمپنی کی جانب سے پورٹ قاسم کی مطلوبہ گہرائی، ایل این جی کی آمد کے دوران جہازوں کی آمدورفت کی مینجمنٹ اور روشنی کے انتظامات پر اعتراضات نے بھی منصوبے کو تاخیر سے دوچار کرنے کی راہ ہموار کردی ہے۔

روزنامہ پاکستان کی 29 جنوری کی خبر کے مطابق گوادر کی بندرگاہ پر ڈریجنگ نہ ہونے کے باعث بندرگاہ کی گہرائی کم ہو گئی ہے۔ تفصیلات کے مطابق شپنگ ذرائع نے دعویٰ کیا ہے کہ گہرائی 14.5 میٹر سے کم ہو کر 12.5 میٹر رہ گئی ہے جبکہ پورٹ قاسم کی گہرائی 13 میٹر اور کراچی پورٹ کی گہرائی 12.5 میٹر ہے۔ دوسری جانب گوادر پورٹ حکام کا دعویٰ ہے کہ بندرگاہ کی گہرائی میں کمی واقع نہیں ہوئی اور اس وقت اس کی گہرائی 14.5 میٹر ہی ہے۔ سیکرٹری پورٹ کا کہنا ہے کہ گہرائی میں اضافہ چین کے بزنس پلان کی روشنی میں کیا جائے گا۔ لگتا ہے کہ حکومت پاکستان نے قطر کےساتھ دوحا میں جو 16 ارب ڈالر کا معاہدہ کیا ہے اس میں حکومت پاکستان کا ہوم ورک مکمل نہیں ہے، اس لیے کہ قطر کے جہازوں کو بندرگاہ تک پہنچنے کے لئے بندرگاہ کی گہرائی 14 میٹر سے زیادہ ہونی چاہیے لیکن حکومت نے قطر کی گیس سپلائر کمپنی کی جانب سے پورٹ قاسم کی مطلوبہ گہرائی کواب تک مکمل نہیں کیا ہے۔حکومت کوچاہیے کہ اس طویل المدتی معاہدہ پر عمل درآمدکرنے کےلیے بندرگاہ کی مطلوبہ گہرائی کوجلد از جلد مکمل کرئے۔
وزیر پٹرولیم شاہد خاقان عباسی کے مطابق قطر سے معاہدے کے تحت 37 لاکھ ٹن سے زائد ایل این جی سالانہ درآمد کی جائے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ اس معاہدے سے 2000 میگا واٹ کے بند یونٹس کی کارکردگی میں بہتری آئے گی۔ قطر سے درآمد کی جانے والی گیس سے ملکی توانائی کی ضروریات کا بیس فیصد پورا ہوگا اور یہ گیس کھاد فیکٹریوں، بجلی گھروں، سی این جی اسٹیشنوں اور گھریلو صارفین کو فراہم کی جائے گی۔‘‘ انہوں نے امید ظاہر کی کہ موجودہ حکومت کے دور میں توانائی کا بحران حل کر لیا جائے گا۔ حزب اختلاف کی جماعتیں اور بعض ماہرین حکومت کے قطر سے ایل این جی کی خریداری کے معاہدے پر تنقید بھی کر رہے ہیں۔ ان ناقدین کے مطابق حکومت کے اس معاہدے کے نتیجے میں صارفین کو ایل این جی کی انتہائی مہنگے داموں دستیاب ہوگی۔ حزب اختلاف کی جماعتوں پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کے رہنما حکومت پر ایل این جی درآمد کرنےکے معاہدے کے ذریعے اپنے من پسند افراد کو نوازنے کے الزامات بھی عائد کرتے ہیں۔ تاہم حکومتی عہدیدار ہمیشہ ان الزامات کی تردید کرتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

پاکستان کے توانائی کے امور کی رپورٹنگ کرنے والے صحافی شہباز رانا کا کہنا ہے کہ حکومت اس وقت تو یہ کہہ رہی ہے کہ اس معاہدے سے سستی ایل این جی ملے گی لیکن شاید یہ درست نہ ہو۔ اس کی وضاحت کرتے ہوئے شہباز نے بتایا کہ “اس معاہدے کے تحت ایل این جی کی قیمت کو عالمی منڈی میں خام تیل کی قیمت کے تناسب سے مقرر کیا گیا ہے، جو اس وقت تیس سے پینتیس ڈالر فی بیرل کی سطح پر ہیں۔ اس حساب سے پاکستان کو ایل این جی کی قیمت پانچ ڈالر فی برٹش تھرمل یونٹ ادا کرنا پڑے گی لیکن اگر عالمی منڈی میں تیل کی قیمت میں اضافہ ہو جاتا ہے تو پھر یہ قیمت اس حساب سے دگنی یا تگنی بھی ہو سکتی ہے۔‘‘ اس کے علاوہ ایل این جی کی ٹرانسپورٹیشن کی قیمت، دوبارہ گیس میں منتقل کرنے کی قیمت، ٹرمینل آپریٹر کی قیمت، گیس کمپنیوں کے چارجز اس میں شامل کئے جائیں تو یہ قیمت کسی بھی سیکٹر کے لیے ہرگز قابل قبول نہیں ہوسکتی ۔
شہباز رانا نے کہا کہ اس وقت تیل کی عالمی منڈی میں قیمت کے حساب سے اس معاہدے کی لاگت پندرہ ارب ڈالر سالانہ بنتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ ایک طویل المدتی معاہدہ ہے اور اس میں حکومت پاکستان نے کافی بڑا رسک لیا ہے۔ شہباز رانا کے مطابق اگر حکومت بہتر منصوبہ بندی کے ساتھ قطر کے ساتھ بات چیت کرکے مائع گیس کی خریداری کے معاہدے کو عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں سے منسلک نہ کراتی تو یہ ڈیل بہتر ہو سکتی تھی۔

Facebook Comments

سید انورمحمود
سچ کڑوا ہوتا ہے۔ میں تاریخ کو سامنےرکھ کرلکھتا ہوں اور تاریخ میں لکھی سچائی کبھی کبھی کڑوی بھی ہوتی ہے۔​ سید انور محمود​

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply