حقِ حکمرانی

ایک اونٹ کسی جگہ کھڑا تھا اس وقت اس کی مہار زمین پر گری ہوئی تھی۔ ایک چوہے کا ادھر سے گزر ہوا تو اس نے اونٹ کی مہار تھام لی‘ اب چوہا آگے تھا اور اونٹ پیچھے پیچھے‘ چوہا دل ہی دل میں اس بات پر ناز کر رہا تھا کہ وہ اونٹ کی مہار تھا مے جا رہا ہے۔ اونٹ سمجھ گیا کہ چوہے کو کیا غلط فہمی ہوئی ہے، اس نے چوہے کو اوربے وقوف بنانے کی ٹھان لی تھی۔ اب چوہا اکڑ اکڑ کر چل رہا تھا اور اونٹ کی مہار اس کے منہ میں تھی۔ چوہے نے خیال کیا کہ اسے تو آج معلوم ہوا کہ وہ کتنا شہ زور ہے ۔یہاں تک کہ اونٹ جیسا بلند قامت جانور بھی اس کے پیچھے پیچھے غلام کی مانند چل رہا تھا۔ اونٹ دل ہی دل میں کہہ رہا تھا کہ اے حقیر سے جانورتجھے بہت جلد تیری اوقات کا پتہ چل جائے گابس تھوڑی دیر صبر تو کر۔
وہ دونوں چلتے جا رہے تھے کہ اتنے میں ایک ندّی آ گئی۔ چوہا بہت پریشان ہوا اس نے سوچا اب پانی میں وہ اونٹ کی رہبری کیسے کرے گاوہ ندی کے کنارے جا کر رک گیاتو اونٹ نے اس سے پوچھا کہ اے میرے رہبر! ڈر کیوں گئے ہوکیا بات ہے؟ آگے بڑھتے جاؤ ہمت اور جرات سے کام لو۔ چوہے نے ڈر کے مارے ہلکی سی آواز نکالی اور بتایا کہ پانی بہت گہرا ہے، اسے ڈوب جانے کا خدشہ لاحق ہو گیا ہے۔ اونٹ نے کہا میں دیکھتا ہوں پانی کتنا گہرا ہے‘ پھر وہ ندّی کے پانی کے اندر اتر گیا اور چوہے کو بتایا کہ پانی کوئی اتنا گہرا بھی نہیں بس گھٹنوں گھٹنوں تک ہی ہے مجھے تمہاری رہبری پر ناز ہے آؤ میری مہار حسب معمول پکڑے پانی میں داخل ہو جاؤ۔ چوہے نے بڑی عاجزی سے کہا جناب آپ کے گھٹنوں اور میرے گھٹنوں میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ آپ کے گھٹنوں تک کا پانی مجھے غرق آب کرنے کے لیے کافی ہے۔ چوہے کو دراصل اپنی اوقات کا پتہ چل گیا تھا وہ بہت شرمندہ تھا۔ فوراََتوبہ کی۔ اونٹ نے چوہے کو اپنی کوہان پر بٹھا لیا جس پر بیک وقت سینکڑوں چوہے سوار ہو کر ندّی پار کر سکتے تھے(حکایت رومیؒ )۔
بیان کی گئی حکایت میں حاصلِ سبق یہ ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ نے تجھے مسندِ اقتدار سے نہیں نوازا تو رعایا بن کر رہ۔ پروردگار حق کی مصلحتیں و حکمتیں ہیں کہ اس نے نظام دنیا میں کسی کو شاہ یا گدا‘ صاحب اقتدار یا ماتحت‘ مالدار یا مفلس‘ صاحب محل یا صاحب جھونپڑی‘ تندرست یا بیمار‘ طاقتور یا کمزور بنایا۔ اس کے ساتھ ہی کچھ اصول و قواعد اور حدیں مقرر فرما دیں جن میں رہتے ہوئے کوئی ادنیٰ سے اعلیٰ حالت کی طرف جانے کی سعی کر سکتا ہے۔ اب یہ انسان پر منحصر ہے کہ وہ اعلیٰ درجہ پانے کے لیے کونسا راستہ اختیار کرتا ہے‘ کوشش‘ محنت‘ صبر‘ توکل اور ثابت قدمی والا راستہ یا پھر ظلم و زیادتی جیسا کوئی بھی دوسرا شیطانی راستہ یا پھر ساری عمر اپنے نصیب پر روتے رہنے والا راستہ۔ اس بات کو بھی عالمگیر سچّائی بنا دیا کہ انسان کو اسی قدر ملتا ہے جس قدر اس کی محنت اور کوشش ہوتی ہے اور ساتھ میں یہ بھی سمجھایا کہ میری مددو نصرت انہی کے ساتھ ہو گی جو محنت و کوشش کریں گے‘ میں دوڑنے والوں کے ساتھ ہوں گا نہ کہ ہاتھ پہ ہاتھ رکھ کر بیٹھنے والوں کے۔ کہا جاتا ہے کہ اگر کوئی غریب پیدا ہوا ہے تو وہ قصور وار نہیں مگر غریب ہی مر گیا تو واقعی قصوروار ہے۔ اسی طرح اگر ہندو‘ عیسائی‘ یہودی یا کسی اور مذہب والے کے گھر پیدا ہوا ہے تو قصوروار نہیں لیکن اگر حق تلاش کرنے کی جستجو نہیں کی تو پھر قصور وار ہے۔
مملکت پاکستان کو وجود میں آئے ہوئے ستر سال ہونے کو ہیں جس کا حکومتی و سیاسی نظام جمہوری و پارلیمانی ہے جس میں تمام ادارے منتخب حکومت کے ماتحت کام کرتے ہیں۔ بد قسمتی کی بات ہے کہ ان ستر سالوں میں کوئی ایک بھی وزیر اعظم اپنی مدّت وزارت پوری نہیں کر سکا۔ جمہوری حکومتیں ہمیشہ یہی گلہ کرتی نظر آتی ہیں کہ وہ صرف علامتی ہیں جبکہ طاقت کے مراکز کہیں اور ہیں۔ وہ حکومت کے خلاف ہونے والی ہر سازش کو انہی کی طرف گردانتی ہیں۔ غالب امکان میں اگر ایسا ہی ہے تو ایک جمہوری ملک میں اس کی کوئی گنجائش نہیں۔ بیرونی ممالک کی نظر میں بھی بات چیت کا محور کوئی ایک ہاؤس نہیں ہے۔ خارجہ پالیسی سمیت تمام قسم کی قانون سازی کا اختیار قانون ساز اسمبلی اور حکومت وقت کا کام ہے نہ کہ کسی ماتحت ادارے کا‘ اگر آپ کو خارجہ پالیسی میں کوئی خامی نظر آتی ہے تو اپنی رائے دیں، پھر بھی اگر اس میں ملک دشمنی کا کوئی پہلو پائیں تو سارے معاملے کو عوام اور عدلیہ کے سامنے رکھیں نہ کہ حکومت کے خلاف کسی سازش کا حصہ بنیں۔ ایک لمحے کے لیے یہ مان بھی لیا جائے کہ تحریکِ آزادی کے کچھ سر گرم کارکن بعد میں واقعی غدّار ہو گئے تھے اور موجودہ کئی سیاست دان بھی محب وطن نہیں ہیں توسیاسی لوگوں کے برعکس دوسروں نے اس ملک پر زیادہ عرصہ حکمرانی کی ہے۔
ان کے دور میں ملک آگے جانے کی بجائے پیچھے کیوں گیا‘ کرپٹ سسٹم کو تبدیل کرنے کی کوشش کیوں نہ کی گئی جس سے کرپٹ اور غدّار کہلائے جانے والے پارلیمنٹ کی راہداریوں تک نہ پہنچتے‘ اس ملک کے غدّار اور مفاد پرست کالا باغ ڈیم نہیں بننے دیتے تو پھر محب وطن لوگوں نے اس منصوبے کو پایا تکمیل تک کیوں نہیں پہنچایا‘ غیر وں کو انڈین ایجنٹ کہنے والوں نے کشمیر پر یو ٹرن کیوں لیا‘ جن کو آپ ماضی کا اندھیرا کہتے تھے ان کے ساتھ این آر او کیوں سائن کیا‘ اپنے اقتدار کی خاطر دہشت گرد تنظیم کو کیوں مضبوط کرتے رہے جس کے سربراہ کے بارے میں جناب کے تاثرات یہ تھے کہ اگر وہ میرے سامنے آ جائے تو میں اس کی کنپٹی پر خود گولی ماروں گا‘ ایسا نظام عدل کیوں متعارف نہیں کرایا گیا جس میں عوام کی لاشیں گرنے پر مکے لہرانے والا بھی انصاف کے کٹہرے میں آئے اور طاقتور و کمزور کا فرق مٹ جائے؟ کسی کے سر میں اگر حکمرانی کا سودا سماتا ہے تو اسے کسی ادارے کا سہارا لینے اور چور رستہ تلاش کرنے کی بجائے جمہوری عمل کا حصہ بن کر اپنی خواہش کو پورا کرنا چاہیے اسی میں اس ملک کی بھلائی و ترقی ہے یہی حب الوطنی کا تقاضا ہے۔
دوسری طرف سیاست دانوں کو بھی اپنا قبلہ درست کرنا ہو گا اور سیاست کو عبادت اور امانت کا درجہ دینا ہو گانہ کہ دوامِ چودھراہٹ اور اپنے کاروبار و اثاثوں کی وسعت کا ذریعہ‘ سیاسی پارٹیوں میں بادشاہت کا خاتمہ کر کے انہیں جمہوری بنانا ہو گا‘ پارٹی کو پارٹی کی طرز پہ چلانا ہو گا نہ کہ اپنی جاگیر و فیکٹری سمجھ کر‘ٹکٹ دیتے وقت کردار‘میرٹ ا ورتعلیم کو دیکھنا ہو گا نہ کہ پارٹی فنڈ کی مد میں آنے والی رقم کو۔ جب تک آپ کی کرپشن اوراخلاقی کمزوریاں دوسروں پر عیاں ہوتی رہیں گی آپ حقِ حکمرانی نہ ملنے کا گلہ کرتے رہیں گے۔ لہٰذا جمہوریت کے استحکام کی خاطر آپ کو کردار کا غازی بننا ہو گا۔
؂یہاں محرم بھی ہے ایسا کہ جیسا نامحرم
کچھ کہہ نہ سکا جس پہ بھید کھلا تیرا۔
ارے بھئی میں بھی کن باتوں کو لے کر اپنا دل بہلا رہا ہوں، یہ بھولتے ہوئے کہ دنیا جتنی بھی مہذّب‘ ترقی یافتہ‘ جمہوری اور انصاف پسند ہو جائے جنگل کے قانون سے چھٹکارا حاصل نہیں کر سکتی‘ جس کی لاٹھی اس کی بھینس والا محاورہ اٹل اور روزِ روشن کی طرح ایک حقیقت ہے جو شاید قیامت تک رہیگا جس سے انکار کسی صورت ممکن نہیں۔

Facebook Comments

مرِزا مدثر نواز
ٹیلی کام انجینئر ایم ایس سی ٹیلی کمیونیکیشن انجنیئرنگ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply