• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • پاکستانی ذرائع ابلاغ اور سیاسی عمائدین کا شکریہ

پاکستانی ذرائع ابلاغ اور سیاسی عمائدین کا شکریہ

28 جولائی 2017 کو پاکستان کی عدالتِ عظمیٰ نے اپنی مدت پوری کرنے سے پہلے ایک منتخب وزیر اعظم کو بدعنوانی کے الزامات ، بیانات ، دلائل اور پیش کردہ ثبوتوں کی روشنی میں نااہل قرار دیا، اس نااہلی کے بعد سب سے دلچسپ واقعہ اس وقت ہوا جب پاکستانی زیر انتظام کشمیر کے منتخب وزیر اعظم جن کی سیاسی وابستگی پاکستان مسلم لیگ (ن) سے ہے نے فرط جذبات میں ایک پریس کانفرنس میں یہ بات کہہ ڈالی کہ ہمارا الحاق جناح اور اقبال کے پاکستان سے ہے ، اب انہیں الحاق کے بارے میں سوچنا پڑے گا کہ وہ عمران خان کے پاکستان سے الحاق کریں یا نہیں۔ راجہ فاروق حیدر کے اس بیان کو ایک بڑے اخبار نے دوسری سرخی کے طور پر شائع کیا، جس کے ساتھ ایک طوفان برپا ہو گیا، پاکستان کے کئی سینئر سیاستدانوں نے سیاق و سباق کو جانے بغیر راجہ فاروق حیدر کی “الحاق کیلئے سوچنے” والی بات کو دستور کے آرٹیکل 6 کے تحت بغاوت کا مقدمہ درج کرنے کی خواہش ظاہر کی، مذکو رہ سیاستدانوں میں سے ممتاز ماہر قانون اعتزاز احسن کا بیان خاصا مضحکہ خیز لگا کیونکہ اعتزاز احسن آئینی اور قانونی ماہر ہونے کے باوجود شاید یہ نہیں جانتے کہ آئین ِ پاکستان کا اطلاق آزاد کشمیر کے کسی شہری پر نہیں ہوتا اور اُسی آئین کے آرٹیکل ایک میں پاکستان کی جغرافیائی حدود کا تعین بھی ہے ، آرٹیکل ایک کے تحت آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان پاکستان میں شامل ہی نہیں ہیں۔اسی طرح محترمہ شیریں رحمٰن اور جناب آصف علی زرداری نے بھی ملتا جلتا ردِ عمل دیا۔

اگلے ہی دن محترم عمران خان اور شیخ رشید نے اپنے یومِ تشکر کے جلسے میں پارلیمنٹ کے راستے ہموار ہونے کی خوشی میں ایسی غیر پارلیمانی زبان استعمال کی کہ شاید کوئی سنجیدہ سیاسی کارکن بھی ایسی دشنام طرازی اور ہرزہ سرائی کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ مذکورہ بالا تمام سیاسی اکابرین کے رد عمل سے ایک بات واضع ہو چکی کہ پاکستان کی سیاسی اشرافیہ اس کا تعلق چاہے مرکزی دھارے کی کسی بھی سیاسی جماعت سے ہو کشمیر کی زمین اور کشمیر میں بسنے والے انسانوں کو اپنی جاگیر سمجھتے ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ اگر راجہ فاروق حیدر نے الحاق کے بارے میں سوچنے کا کہا تو اس میں غلط کیا ہے؟۔۔۔۔17جون 1947 اور 30 جولائی 1947 کو محمد علی جناح صاحب نے اپنے عوامی بیانات میں کہا تھا کہ ریاست جموں کشمیر کو آزاد وخودمختار رہنے کا حق ہے۔ مگر 1948 سے لے کر آج تک پاکستان خود کو کشمیر کا مضبوط وکیل تو کہلاتا ہے مگر وہ کشمیریوں کی خودمختاری کا ذکر سننے سے قاصر ہے۔ اقوام متحدہ کی قرارداد بتاریخ 13 اگست 1948 کے مطابق پاکستان اور بھارت کے درمیان ایک عارضی صلح کا معائدہ طے پایا تھا اور معاہدے کی رو سے حکومت پاکستان جموں کشمیر سے فوجی انخلاء پر رضامند ہوئی تھی، حکومت پاکستان اس بات پر بھی رضامند ہوئی تھی کہ وہ قبائلی لشکر جو جموں کشمیر میں جنگ کی غرض سے داخل ہوئے تھے، کا بھی انخلاء کرے گی۔ اسی پہلی قرارداد کے دوسرے حصے میں اس بات کا عندیہ دیا گیا ہے کہ پاکستان کی طرف سے فوجی انخلاء کے بعد بھارت اپنی افواج کا انخلاء شروع کرے گا۔

اقوام متحدہ کی 5 جنوری 1949 کی قرارداد کی پہلی شق میں ریاست جموں کشمیر کے پاکستان یا بھارت کے ساتھ الحاق کو استصواب رائے سے موسوم کیا گیا اور اسی قرارداد کی دوسری شق کو پہلی قرارداد کے ساتھ جوڑا گیا کہ کمیشن عارضی انتظامات ،فوجی انخلاء جس کوپہلی قرارداد میں مانا گیا تھا اور استصواب رائے کے لئے انتظامات کا جائزہ لینے کے بعد استصواب رائے کروائے گا۔ استصواب رائے سے بادی النظر میں مراد پاکستان یا بھارت سے ا لحاق یا مکمل علیحدگی بھی ہے اور یہ ریاست جموں کشمیر کے اندر بسنے والے عوام کی رائے پر منحصر ہے۔ ریاست کی ساری اکائیوں میں تقریباً گزشتہ چار عشروں سے علیحدگی کی تحریک موجود ہے اور مثبت بات یہ ہے کہ تقریباً سارے علیحدگی پسند سیکولر اور پر امن نظریات کے حامل ہیں ، اگر پاکستانی زیر انتظام کشمیر کے علیحدگی پسندوں کی بات کی جائے تو یہ تاریخی حقیقت ہے کہ سارے علیحدگی پسند پاکستانی ریاست و حکومت کے ہر اس قدم کے ناقد ہیں جس پر پاکستان کا ذی شعور طبقہ بھی شور مچاتا ہوا نظر آتا ہے، پاکستانی زیر انتظام کی پاکستان نواز سیاسی جماعتوں یا پاکستانی جماعتوں کی کشمیر میں قائم شاخوں کی قیادت نے ہمیشہ علیحدگی پسندوں یا متحدہ خود مختار کشمیر کے حامیوں کو راء کے ایجنٹ یا غدار جیسے القابات سے نوازا ہے ، شاید یہی وجہ تھی گنگا ہائی جیکنگ کے مرکزی کردار مقبول بٹ شہید کو بھی اُن کے علیحدگی پسند نظریات کی وجہ سے کوٹ لکھپت اور شاہی قلعہ میں اذیتوں سے گذارا گیا تھا۔

یہ بھی ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ پاکستانی زیر انتظام میں کشمیر کی خودمختاری کا نعرہ لگانے والوں نے آج تک پاکستانی ریاست یا پاکستانی حکومتی مشینری کے خلاف کوئی پرتشدد سر گرمی نہیں کی بلکہ وہ پاکستان کے محنت کش اور استحصال زدہ طبقے کو آزادی کے حصول میں اپنا ہمنوا سمجھتے ہیں۔ پاکستانی زیر انتظام کشمیر کی مرکزی دھارے کی تمام سیاسی جماعتیں چونکہ اپنے کاغذات نامزدگی میں الحاق پاکستان کی شق کو مانتےہوئے ریاست پاکستان سے وفاداری کا حلف دیتی ہیں اس لئے کوئی بھی ایسا سیاسی گروہ یا سیاسی جماعت پاکستانی زیر انتظام کشمیر کے انتخابات میں حصہ نہیں لے سکتی جو علیحدگی پسند ہو۔تمام علیحدگی پسند پاکستانی زیر انتظام کشمیر کی پسماندگی، عدم مساوات اور کشمیر کے مسئلے کے حل میں مخل رکاوٹوں کا ذکر کرتے ہوئے پاکستانی زیر انتظام کشمیر کے مرکزی دھارے کے سیاسی اکابرین کو بھی موردِ الزام ٹھہراتے ہیں ۔ علیحدگی پسندوں کے بیانئے کے مطابق ریاست پاکستان کی طرف سے ایک چیف سیکرٹری اور ایک جی او سی مری آزاد حکومت ریاست جموں کشمیر کا نظم و نسق چلاتے ہیں اور عوام کے ووٹوں سے منتخب نمائندے لاڑکانہ ، رائے ونڈ اور بنی گالہ سے ہدایات لیتے ہیں۔ مرکزی دھارے کے سیاستدان ایک مختلف بیانئے کے حامل ہیں اور وہ اسلام آباد کو قبلہ و کعبہ گردانتے ہیں اور اُن کی رائے میں پاکستان مسئلہ کشمیر کا موثر وکیل ہے۔

دلچسپ امر یہ ہے کہ پاکستانی زیر انتظام کشمیر کے حاکم ٹیکس تک خود نہیں اکٹھا کر سکتے انہیں اجازت نہیں۔ پاکستان نے ریاستی حکومت کے متوازی ایک اور نظام حکومت بنا رکھا ہے جسے کشمیر کونسل کہتے ہیں ، پاکستانی زیر انتظام کشمیر سے چھ اور پاکستان سے سات ممبران کو شامل کر کے آزاد جموں کشمیر کونسل بنائی گئی ہے ، آزاد جموں کشمیر کونسل کے سربراہ وزیر اعظم پاکستان ہیں۔ سارے علیحدگی پسند آزاد جموں و کشمیر کونسل کو ایک سفید ہاتھی گردانتے ہیں اور شاید یہی حقیقت بھی ہے۔ پاکستانی زیر انتظام کشمیر میں ایکسائز اور ٹیکس جمع کرنے کا سارا کام آزادجموں و کشمیر کونسل ہی کرتی ہے۔ پاکستانی زیر انتظام کشمیر میں مسائل اور بنیادی سہولتوں کے فقدان پر مرکزی دھارے کی سیاسی جماعتوں کے کارکن بھی پاکستانی ریاست سے شکوہ کرتے نظر آتے ہیں اور وہ بسا اوقات خودمختاری کے حامیوں کی ہاں سے ہاں بھی ملاتے ہیں ۔

ماضی قریب میں پاکستان کے ایک نجی ٹی وی چینل پر راجہ فاروق حیدر کا بطور وزیر اعظم ایک انٹرویو نشر ہوا تو سماجی رابطوں کی ویب سائٹس اور پرنٹ میڈیا پر علیحدگی کے حامیوں نے راجہ صاحب کے بیان جس میں انہوں نے خود کو اندھیرے میں رہتے ہوئے پاکستان کو روشن رکھنے کی بات کی کڑی تنقید کا نشانہ بھی بنایا۔ پاکستانی زیر انتظام کشمیر میں چلنے والے علیحدگی پسند سیاسی جماعتوں یا گروہوں کے سارے دھڑے رضاکارانہ طور پر شامل ہونے والےسیاسی کارکنان پر مشتمل ہیں جو تما م سرگرمیوں میں رضا کارانہ اخراجات بھی اٹھاتے ہیں اور رضاکارانہ سیاسی سرگرمیاں بھی کرتے ہیں ، بڑھتی ہوئی مہنگائی ، کنبہ پروری، معاشی عدم استحکام اور مرکزی دھارے کی سیاست کی چمک دمک کارکنان کو ایک ایسی سیاست کرنے، جس کا بظاہر کوئی حاصل موصول نہیں سے اچاٹ کرتی ہے اور محرومی بعض اوقات علیحدگی کے جذبے کو مہمیز بھی دیتی ہے۔

پاکستانی زیرِانتظام کشمیر کے علیحدگی پسندوں کے جذبات میں شدت ماند بھی پڑتی جارہی تھی کہ پاکستان کے وزیراعظم کی نااہلی کے نتیجے میں راجہ فاروق حیدر کا ایک بظاہر متنازعہ بیان اور پاکستانی ذرائع ابلاغ پر براجمان دانشوروں کی بحث ، جس میں پاکستانی زیر انتظام کشمیر کو اپنا مفتوحہ علاقہ اور اس میں بسنے والے عوام کو اپنا زیر دست ثابت کرنے کی کوشش کی گئی اور سب کچھ بھول بھال کر غداری کی اسناد تھوک کے اعتبار سے بانٹی گئیں نے مرکزی دھارے کے سیاسی کارکنان کے بھی کان کھڑے کئے اور تمام تر سیاسی اختلافات کے باوجود تمام ذی شعور سیاسی کارکنان نے کم از کم دبے لفظوں صدائے احتجاج بلندکی۔ بھلا ہو جناب آصف علی زرداری ، شیریں رحمٰن اور اعتزاز احسن کا جنہوں نے پاکستانی زیر انتظام کشمیر کی مرکزی دھارے کی قیادت کو یہ باور کرایا کہ الحاق کا مطلب صرف پاکستان سے الحاق ہے ، آپ ہمارے مفتوحہ ہو اور پاکستانی زیر انتظام کشمیر پاکستانی سیاسی و عسکری اشرافیہ کی جاگیر۔

Advertisements
julia rana solicitors

جناب فیاض الحسن چوہان کا شکریہ کہ انہوں نے پوری کشمیری قوم کو اوقات یاد دلا کر علیحدگی پسندوں کے موقف کی تائید کی کہ ایک صوبیدار کشمیریوں کے لئے کافی ہے، ان کا اس میں قصور نہیں کیونکہ ان کی پوری سیاسی جماعت مشرف بہ اسٹیبلشمنٹ ہے۔ اور 1947 سے لے کر تاحال پاکستانی اسٹیبلشمنٹ اور اس سے متاثر سیاستدان پاکستانی ریاست کی کشمیر پالیسی، افغان پالیسی، خارجہ پالیسی اورایٹمی پروگرام اور بھارت کے ساتھ تعلقات پر متنوع رائے تک سننے کے متحمل نہیں ہوسکتے۔آج پاکستانی زیر انتظام کشمیر میں”خودمختار کشمیر” کے نعرے کا چراغ پھڑپھڑاتے ہوئے پوری آب وتاب سے پھر چمک اٹھا ہے۔جناب فاروق حیدر، اعتزاز احسن ، شیریں رحمٰن، آصف علی زرداری ، عمران خان، شیخ رشید ، فیاض الحسن چوہان، احمد قریشی، ڈاکٹر عامر لیاقت حسین اور سارے نجی ٹی وی چینلز کا شکریہ ادا کرنا بنتا ہے جنہوں نے اپنی محنت شاقہ سے مرکزی دھارے کی کشمیری قیادت کی ذہنی عیاشی کو حقیقت سے آشنا کروایا اور جموں کشمیر کی عوام کواپنی نئی سیاسی سمتوں کے تعین کیلئے ایک ایپی ٹائزر کا تحفہ دیا۔

Facebook Comments

اظہر مشتاق
اظہر مشتاق سماج کے رِستے زخموں کو محسوس کرنے والا عام انسان ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”پاکستانی ذرائع ابلاغ اور سیاسی عمائدین کا شکریہ

  1. Porkistan is same as india .both are using killing arresting using resources of kashmir.if india was not hindu country they were much better for kasmir than porkistan .kashmir banay ga khud mukhtar

Leave a Reply