سقراط بطور ایک شخص۔۔۔۔ ابو بکر

سقراط کی شخصیت کے کئی پہلو ہیں۔ ایک طرف ہمیں ایسا سقراط نظر آتا ہے جو عقل کی وکالت کرتا ہے اور ایتھنز کے رہنے والوں کو بتاتا ہے کہ مطلق حقیقت کا علم ناصرف ممکن ہے بلکہ اس کی جستجو کرنا نیکی ہے۔یہ وہ سقراط ہے جو مسلسل بحث و مباحثہ میں مصروف رہتا ہے بلکہ یہ اس کا روزانہ کا معمول ہے کہ جہاں کچھ لوگ نظر آئے وہاں باتوں باتوں میں ہی کوئی مسئلہ چھیڑ دیا۔ یہ بحث و مباحثہ اس کے لیے کوئی معمولی سرگرمی نہیں تھا۔ وہ اسے سچائی تک پہنچنے کا ذریعہ قرار دیتا تھا۔ سقراط نے کوئی کتاب نہیں لکھی۔ اپنی تمام عمر یہاں تک کہ زہر کا پیالہ پیتے ہوئے بھی وہ انہی مباحث میں مصروف رہا۔ سچائی کی دریافت کے لیے سقراط نے جدلیاتی طریقہ کار متعارف کرایا جس میں کسی بھی پیش کردہ دلیل میں موجود تضادات الگ کرتے ہوئے سچ کی مزید کھوج کی جاتی تھی۔ سقراط اس روپ میں ایک عالم اورمحقق تھا جو نہایت خلوص سے سچائی معلوم کرنا چاہتا تھا۔اس کے شاگردوں میں افلاطون نے اس روایت کو آگے بڑھایا۔ اس نے ‘اکادمی’ قائم کی جو کئی صدیوں تک فلسفہ کی تعلیم کا مرکز رہی۔ سقراط کے افکار کی روشنی میں افلاطون نے علمیاتی فلسفہ کو ترویج دی اور ایک جامع نظام پیش کیا۔ افلاطون کا تعلق ایتھنز کی اشرافیہ سے تھا۔

سقراط کی شخصیت کا ایک اور پہلو بھی تھا جو کسی بھی طرح کمتر یا غیر دلچسپ نہیں۔ یہ پہلو تھا سقراط بطور ایک شخص۔وہ سقراط جو دنیاوی سازو سامان سے بے نیاز تھا۔ جس کے شب و روز درویشانہ انداز سے گزرتے تھے۔ جو بے خوف تھا اور کبھی بھی گھبراتا نہیں تھا۔ جس کے نزدیک اصول پسندی زندہ رہنے سے زیادہ اہم تھی۔ جوسمجھتا تھا کہ ہر شے کا پیمانہ انسان ہے۔جس نے روایات کے مطابق ایتھنز کی سب سے بدزبان عورت سے محض اس لیے شادی کی تھی تاکہ اس کے کوسنے سن کر اپنے جذبہ صبر کو تقویت دیتا رہے۔سقراط کی شخصیت کے یہ دونوں پہلو آپس میں متصادم نہیں ہیں۔ اس کی زندگی ایک خوبصورت امتزاج کی مثال ہے۔

سقراط کے ایک اور شاگرد اینٹی ستھینز نے استاد کے اس طرز زندگی کو اختیار کرتے ہوئے اسے ایک تحریک کی شکل دی جسے کلبیت کہا جاتا ہے۔ دیوجانس اسی اینٹی ستھینز کا شاگرد رہا۔ کلبی فلسفی دنیاوی نمود و نمائش سے آزاد تھے بلکہ درست معنوں میں وہ ان سے بیزار تھے۔ وہ اپنے آپ کو نگرانی کے کتے سے تشبیہ دیتے تھے جو بھونک بھونک کر ہماری توجہ معاشرتی بگاڑ کی طرف دلاتا ہے۔ کلبی فلسفی ایتھنز کے ظاہر پرست اشرافیائی کلچر کے سخت ناقد تھے ۔ اشرافیہ کے طرز زندگی کے برعکس یہ لوگ راہبوں کے انداز میں زندگی بسر کرتے۔ کھوکھلی معاشرتی اقدار اور رسوم کا مذاق اڑاتے تاکہ عام عوام پر بھی ان کا کھوکھلا ہونا ظاہر ہوجائے۔ یہ لوگ ننگ و عار سے بالکل نہیں گھبراتے تھے۔ ان کو ایک خاص قسم کی ‘بے شرمی’ کی تربیت دی جاتی تھی تاکہ جب لوگ ان کا مذاق اڑائیں تو انہیں کوئی اثر نہ ہو۔ کلبی فلسفیوں کے نزدیک انسان کا کردار روز روشن کی طرح عیاں ہونا چاہیے۔ اسے مجمع اور تنہائی میں ایک سا انسان ہونا چاہیے۔ اسی کے زیر اثر کلبی فلسفی مجمع میں عجیب و غریب حرکتیں کرتے۔ان کا ایک بنیادی اصول تھا کہ جو کچھ بھی کیا جا سکتا ہے وہ کھلے عام کیا جا سکتا ہے۔

Whatever can be done can be done publicly.

سقراط کی شخصیت سے شروع ہونے والی یہ دونوں تحریکیں رفتہ رفتہ ایک دوسرے سے الگ ہوتی گئیں۔ ایک طرف افلاطون کا مکتب تھا دوسری طرف دیوجانس کلبی تھا۔ سقراط کی شخصیت کے دو پہلو اپنی انتہاؤں پر باہم دگر ہوچکے تھے۔یہاں ایک نکتہ توجہ طلب ہے۔ آخر ان دونوں رجحانات میں وہ توازن دوبارہ کیوں سامنے نہ آیا جو سقراط کی شخصیت میں تھا؟

اس کے جواب کی طرف ایک دلچسپ اشارہ نطشے کے ایک مضمون میں ملتا ہے جو سقراط پر لکھا گیا ہے۔ نطشے کے خیال میں سقراط ایتھنز کی اشرافیہ کا حصہ نہ تھا ۔ ایتھنز میں معزز اور بااثر شہری ہونے کے جو معیار تھے (مثلاً اشرافیائی پس منظر، دولت، جسمانی شباہت وغیرہ ) وہ ان پر بھی پورا نہ اترتا تھا۔ وہ وہ نہایت بدصورت اور قلاش سنگ تراش تھا۔ نطشے کے خیال میں سقراط نے اپنی دانائی اور چالاکی سے ایتھنز والوں کو بتایا کہ عظمت کا اصل معیار تو عقل ہے جو ہمیں حقیقت تک پہنچاتی ہے۔ اس نے اپنی جدلیاتی مہارت سے اس معاشرے میں عظمت حاصل کرنے کی کوشش کی جہاں کے مروجہ معیارات اس کی اجازت نہیں دیتے تھے۔ سقراط نے یہ معیار بدل دئیے۔ اور وہ عظیم بن گیا۔
نطشے کے اس اشارے کے بعد بات آگے بڑھاتے ہیں۔

سقراط ایتھنز کے اشرافیائی کلچر کے بیچوں بیچ زندہ رہا اورآخر کار اسی کے ہاتھوں مارا گیا۔
افلاطون یہ جان چکا تھا کہ ایتھنز مزید کسی سقراط کو برادشت نہیں کرسکتا۔ اس نے استاد کا علمی رنگ قبول کیا اور باقاعدہ درس و تدریس کا سلسلہ شروع کیا۔ مزید برآں اس نے سقراط کی فکر کی روشنی میں مزید کام کرتے ہوئے اپنا جامع نظام پیش کیا۔ اس کی زیادہ توجہ علمیاتی اور اکیڈمک مسائل پر تھی۔
کلبی یہ جان چکے تھے کہ ایتھنز میں سقراط بن کر رہنا ہے تو ایک محتاط فاصلہ بھی لازمی ہے۔ انہوں نے معاشرتی ضروریات اور شہری زندگی کی بندشوں کا انکار کیا اور درویشی کا ایک ایسا رنگ اختیار کیا جو پاگل پن کے قریب تھا۔ انہوں نے اپنے آپ کو ایتھنز کے اشرافیائی معاشرے میں نیچا اور گرا ہوا ظاہر کیا تاکہ انہیں ہر قسم کے طنز کی آزادی میسر رہے۔ اسی عیارانہ کسر نفسی میں انہوں نے خود کو کتے سے بھی تشبیہ دی۔

ایتھنز واقعی کسی اور سقراط کا متحمل نہیں تھا۔
ان دونوں تحریکوں میں دلچسپ نوک جھونک جاری رہتی تھی جس سے ان کے انداز فکر کا فرق ظاہر ہوتا تھا۔ افلاطون اور دیوجانس کی باہمی چھیڑ چھاڑ کے قصے اس حوالہ سے نہایت دلچسپ ہیں۔

کہتے ہیں ایک بار کسی نے افلاطون سے پوچھا کہ دیوجانس کیسا شخص ہے؟ افلاطون نے کہا ، ایک سقراط جو پاگل ہوگیا ہے۔

ایک بار افلاطون کے ہاں دعوت تھی ۔ امرا و شرفا شریک تھے۔ دیوجانس بھی موجود تھا۔ اچانک اس نے اپنے پیروں سے قالین اتھل پتھل کرنے شروع کردئیے اور کہنے لگا کہ میں افلاطون کا غرور بگاڑ رہا ہوں۔ اس پر افلاطون نے کہا؛ دیوجانس یہ دکھانے کے لیے تم نے کتنا غرور کیا کہ تم مغرور نہیں ہو’

Advertisements
julia rana solicitors london

ایک بار ایتھنز میں چند اجنبی آئے اور دیوجانس سے پوچھنے لگے کہ کیا وہ انہیں عظیم فلسفی ( افلاطون) سے ملوا سکتا ہے؟ دیوجانس نے انہیں اپنے ساتھ لیا اور شہر سے باہر ایک سنسان گوشے میں آکر خالی ہوا کی طرف اشارہ کر کے کہنے لگا ؛
ان سے ملیے۔ عظیم فلسفی افلاطون  کہتے ہیں کہ کمرہ جماعت میں منظم ہنگامہ آرائی اور شرارتوں کی بنیاد بھی دیوجانس نے رکھی تھی جو اکثر افلاطون کی اکاڈمی میں صرف اس لیے چلا جاتا تاکہ شاگردوں کی موجودگی میں افلاطون سے چھیڑ چھاڑ کر سکے۔ اکثر وہ جماعت کے دوران کچھ کھانا شروع کردیتا اور باقی شاگردوں کو بھی ساتھ ملا لیتا۔ جب افلاطون درس دے رہا ہوتا تو دیوجانس باقی شاگردوں کو اشارے کرتا تاکہ ان کی توجہ میں خلل آسکے۔
ایک بار اسے کسی نے بتایا کہ افلاطون نے انسان کی تعریف کی ہے کہ ایک ایسا دو پایہ جس کے پر نہیں ہوتے۔ اس پر تمام لوگ افلاطون کی تعریف کر رہے ہیں۔ اگلے دن جب افلاطون اکاڈمی میں درس دے رہا تھا تو دیوجانس ایک چھلے ہوئے مرغے کو ٹانگوں سے پکڑ ے وہاں آیا اور بازو لہراتے ہوئے کہنے لگا؛
یہ دیکھو۔ میں افلاطون کا ‘انسان’ لایا ہوں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply