مون سون

مون سون شروع ہوئے آج تیرہ دن ہو چکے ہیں‘ لیکن کوئی ایک بھی بھرپور بارش نہیں ہوئی جبکہ پری مون سون بارشوں کا ہمارے ملک میں پورا ایک سلسلہ چلا تھا‘ جس میں تقریباً روز ہی بارش ہوتی رہی اور بھرپور۔ اگر آپ محکمہ موسمیات کے سیٹلائٹ امیجز دیکھیں تو پورے بھارت‘ بنگلہ دیش ‘ سری لنکا‘ تھائی لینڈ اور ملحقہ طویل و عریض علاقوں پر آپ کو وسیع بادل نظر آئیں گے اور ان ممالک کی موسم کے بارے میں رپورٹیں دیکھیں تو واضح طور پر وہاں بارش بھی تقریباً روزانہ ہی ہو رہی ہے۔ اس کے برعکس پاکستان میں دھوپ ہے‘ گرمی ہے اور بے انتہا حبس۔ کبھی کسی نے سوچا کہ یہ وہی علاقہ ہے جہاں ساون کی جھڑی لگتی تھی‘ جب کئی کئی دن مسلسل بارش ہوتی رہتی تھی اور جمعرات کی جھڑی تو ہر جگہ مشہور تھی۔ لوگوں کا خیال یا تجزیہ یا مشاہدہ یہ تھا کہ اگر جمعرات کے روز بارش ہو تو وہ اگلی جمعرات کو ہی رکتی ہے۔ چنانچہ پُرانے وقتوں میں جمعرات کو بارش شروع ہوتی تو لوگ ہفتے بھر کا پروگرام بنا لیا کرتے تھے۔ آم کی محفلیں سجائی جاتیں ۔ گھروں میں طرح طرح کے پکوان پکتے۔ باغوں اور پارکوں کی سیر کے پروگرام ترتیب پاتے۔ گھروں میں مہمانوں کا تانتا بندھ جاتا‘ جو دل آویز موسم کا مز ا لینے کے لئے دوسرے رشتے داروں کے ہاں جمع ہوتے تھے یا دوسروں کو اپنے گھر مدعو کرتے تھے۔

مون سون شروع ہوتا تو برساتی ندی نالوں میں طغیانی آ جاتی تھی۔ دیہات کے مضافات بارش کے پانی سے بھر جاتے اور ہر طرف پانی ہی پانی نظر آتا۔ حتیٰ کہ شاعروں کے دل بھی مچل جاتے جس کے نتیجے میں اردو ادب کی شاہکار نظمیں‘ غزلیں اور افسانے تخلیق ہوتے تھے۔ اور باغوں میں جھولے پڑتے اور محبوب کی محبوباؤں سے ملاقاتوں کا بندوبست کیا جاتا‘ چوری چھپے یا سرعام۔ استاد بڑے غلام علی خان کا گایا ہوا یہ ماہیا تو آپ نے ضرور سنا ہو گا:
باغوں میں پڑے جھولے
تم بھول گئے ہم کو
ہم تم کو نہیں بھولے
ساون کا مہینہ ہے
ساجن سے جدا رہ کر
جینا کوئی جینا ہے
راوی کا کنارا ہو
ہر موج کے ہونٹوں پر
افسانہ ہمارا ہو

اور ایسے ہی کسی موسم میں ناصر کاظمی نے کہا تھا:
پھر ساون رت کی پون چلی تم یاد آئے
پھر پتوں کی پازیب بجی تم یاد آئے

یا پھرامجد اسلام امجد نے کہا تھا:
بارش میں بھیگتے ہوئے جھونکے ہوا کے تھے
وہ چند بے گمان سے لمحے بلا کے تھے ۔۔

لیکن یہ گزرے کل کی باتیں ہیں اور آج کل جو کچھ ہو رہا ہے اس پر مجھے احمد فراز کا یہ شعر یاد آ گیا ہے:
ابرِ بہار اب کے بھی برسا پرے پرے
گلشن اجاڑ اجاڑ ہیں‘ صحرا ہرے ہرے۔

آپ کے خیال میں اس کی وجہ کیا ہے۔ وجہ ہے ملک کے طول و عرض میں جنگلات کی بے تحاشا کٹائی۔ یہ لکڑی چوری کاٹی جاتی ہے اور کاٹے گئے درختوں کی جگہ نئے درخت لگانے کی زحمت گوارا نہیں کی جاتی۔ ایک سینئر کالم نگار کی وساطت سے معلوم ہوا ہے کہ اقوام متحدہ کے ادارے ڈبلیو ڈبلیو ایف نے خیبر پختونخوا میں اسی کروڑ درخت لگائے جانے کی تصدیق کر دی ہے۔ بڑی خوشی کی بات ہے‘ لیکن کسی نے سوچا کہ باقی تین صوبوں میں اس سلسلے میں کیوں اقدامات کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی؟ خیبر پختونخوا میں تو جنگلات کا رقبہ ویسے ہی خاصا ہے۔ مزید درخت لگے ہیں تو ظاہر ہے اس کے وہاں کی آب و ہوا پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے اور کسی حد تک دوسرے صوبوں پر بھی‘ لیکن دوسرے صوبوں نے اس سلسلے میں خود اقدامات کیوں نہیں کیے؟۔ پاکستان میں جنگلات کا رقبہ ملک کے کل رقبے کا چار فیصد سے بھی کم ہے‘ جبکہ عالمی معیار یہ ہے کہ کسی بھی ملک کا 25فیصد رقبہ جنگلات سے ڈھکا ہوا ہونا چاہیے۔

پوری دنیا میں جنگلات کی شرح کا اندازہ لگایا جائے تو 29فیصد ہے۔ اس طرح یہ واضح ہے کہ جنگلات کے رقبے کے لحاظ سے بھی ہم باقی دنیا سے کتنا پیچھے جا رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ موسم ہم سے ناراض ہوتے جا رہے ہیں۔ ہمارے ملک میں کسی زمانے میں دیودار‘ بلیو پائن‘ شیشم‘ کیکر‘ پیپل‘ پھلاہی‘ کاؤ‘ وان‘ کھجری‘ کھیر‘ ببول‘ پاپولر‘ برنا‘ جامن‘ آم کے درخت وافر موجود تھے۔ اب ہر طرف سفیدہ نظر آتا ہے‘ جو پانی کی زیادہ تبخیر کرتا ہے اور لکڑی کے حوالے سے بھی جس کی اہمیت و افادیت مسلمہ نہیں ہے۔ یوں تو ہمارے ملک میں ہر سال دو بار شجر کاری مہم چلائی جاتی ہے اور ان مہمات کے دوران لاکھوں پودے لگانے کے دعوے بھی اکثر سننے کو ملتے ہیں‘ لیکن جنگلات کے رقبے میں کوئی اضافہ مشاہدے میں نہیں آتا۔الٹا تیزی سے کمی واقع ہو رہی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

وجہ یہ ہے کہ محض پودے لگانا ہی کافی نہیں‘ ایک خاص بلندی تک پہنچنے تک ان کو خاص نگہداشت کی ضرورت ہوتی ہے‘ جو انہیں نہیں ملتی اور وہ اگلا موسم بہار آنے سے پہلے ہی سوکھ کر نابود ہو جاتے ہیں۔حکومت اگر اپنی شجرکاری مہمات کو محض درخت لگانے تک محدود نہ رکھے اور لگائے گئے پودوں کی نگہداشت کو بھی ان مہمات کا حصہ بنایا جائے تو ملک میں جنگلات کی کمی کو خاصی حد تک پورا کیا جا سکتا ہے۔ عالمی سطح پر بدلتے ہوئے موسموں کی بات کی جائے تو یہ بات نہایت افسوس ناک ہے کہ عالمی سطح پر ماحولیات کے تحفظ کے لئے جو اقدامات ہو رہے تھے‘ امریکی صدر ٹرمپ کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے ان کی راہ میں رکاوٹ پیدا ہو رہی ہے۔ معاہدہ فرانس سبوتاژ ہو رہا ہے۔ اگر عالمی برادری نے ٹرمپ انتظامیہ کے سامنے ہتھیار ڈال دئیے تو پھر کلائیمیٹ چینج کے سلسلے کو روکنے کی رہی سہی امید بھی ختم ہو جائے گی۔یہ بات سب کو یاد رہنی چاہیے کہ یہ موسم ‘ پودے‘ درخت‘ پرند اور چرند ہیں تو ہم بھی ہیں۔ اگر یہ نہ رہے تو پھر کچھ بھی باقی نہیں رہے گا۔آئیے اپنے موسم کو بچائیں۔

Facebook Comments

خالد ارشاد صوفی
میں اجنبی،میں بے نشان میں پایہ گل نہ رفعت مقام ہے،نہ شہرت دوام ہے یہ لوح دل! یہ لوح دل! نہ اس پہ کوئی نقش ہے،نہ اس پہ کوئی نام ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply