آزاد سمبڑیالوی۔۔۔۔داؤد ظفر ندیم

انگریزوں نے پیشہ ور اقوام کے لئے کمین کا لفظ سرکاری کاغذوں میں استعمال کرنا شروع کیا تھا۔ برصغیر پاک وہند میں پیشوں کی بنیاد  پر ہاتھوں سے محنت کرنے والی اقوام کا تعین ہوتا تھا ایک پیشے کے لوگ اسی پیشے اور ہنر میں اپنی مہارت اختیار کر سکتے تھے سیالکوٹ میں پیدا ہونے والے ایک شخص نے ان اقوام کے سماجی رتبے اور کمین کے لفظ کے خلاف آواز اٹھائی، یہ شخص سمبڑیال میں پیدا ہونے والے ایک شخص تھے جن کا اصل نام کچھ اور تھا جس میں غلام کا لفظ آتا تھا مگر انہوں نے آزاد کا نام اختیار کیا اور آزاد سمبڑیالوی کے نام سے شہرت پائی۔

آزاد سمبڑیالوی 1898 میں سمبڑیال میں پیدا ہوئے۔ آپ ایک محقق، مورخ اور سرگرم کارکن تھے۔ آپ نے پیشہ ور اقوام کو کمی کمین کہنے اور لکھنے کے خلاف کافی عرصہ کوششیں کی اور سرکاری کاغذات سے کمین کے لفظ کو ختم کروا کر معین (مددگار) کا لفظ شامل کروایا۔
آزاد سمبڑیالوی نے بھرپور تحقیق اور تاریخی حوالوں سے ایک جامع تاریخی اور تحقیقی کتاب تاریخ القریش تحریر کی۔ اس کتاب میں ثابت کیا گیا کہ میراثی لوگ اصل میں عربی الاصل ہیں اور یہ وہ قریشی قبیلہ ہے جس نے کبھی امام اہل بیت کی محبت پر سمجھوتہ نہیں کیا، اس وجہ سے وہ حکومتوں میں دھتکارے گئے اور خلفاؤں کے قصیدے لکھنے اور خوشامد کرنے کی بجائے آئمہ اہل بیت پر توڑے گئے مصائب اور مزاحمت کے نوحے اور مرثیے پڑھتے اور لکھتے رہے۔ ان کو قریش کے قبیلوں سے خارج کردیا گیا اور ان کو ان کی وفا اور مزاحمت کی وجہ سے دھتکار دیا گیا۔

آزاد سمبڑیالوی نے ثابت کیا کہ میراثیوں کا تعلق قریش سے ہے انہوں نے 1922 میں جمیعت القریش کی بنیاد رکھی آزاد سمبڑیالوی نے سیاسی زندگی کی ابتدا آل انڈیا کانگرس کے سیاسی کارکن کے طور پر کی۔ آزادی کی مختلف تحریکوں میں قید وبند کی سزا قبول کی 1930 کی دہائی کشمیر کے ڈوگرا راج کے خلاف تحریک میں بھی پوری سرگرمی سے شامل رہے۔ اپنی تحریروں اور تقریروں کے ذریعے ڈوگرا حکومت کے مظالم سامنے لاتے رہے۔ احرار میں شامل رہے اور احمدیوں کے خلاف تحریک میں بھی سرگرم رہے۔1940 کی دہائی میں مسلم لیگ میں شامل ہوگئے تحریک پاکستان میں حصہ لیا۔

Advertisements
julia rana solicitors

پاکستان بننے کے بعد پیشہ ور اقوام کے حقوق اور سماجی مقام کے لئے سرگرم رہے انجمن پیشہ ور اقوام کے نام سے ایک تنظیم بنائی جبکہ جمیعت القریش پہلے ہی ان کی سربراہی میں کام کر رہی تھی۔ کئی کتابوں کے مصنف تھے جن میں تاریخ القریش، تاریخ کرالہ راجپوت، آئینہ قریش، میر اور پیر، ردالزام اور نسبت دانی قابل ذکر ہیں۔انہوں نے 26 جون 1966 کو وفات پائی۔

Facebook Comments

دائود ظفر ندیم
برداشت اور محبت میرا تعارف ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply