حسینان عالم ہوئے شرمگیں۔ چوہدر ی نعیم احمد باجوہ

اخلاقیات کا جنازہ نکل چکا تھا۔ جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا قانون عملاً اور سرعام رائج تھا۔ جو جتنا بڑا مجرم اتنا بڑا معزز تھا۔ بظاہر دین ابراہیم کے پیرو کہلانے والے عملاً دین حنیف سے کوسوں کیا ہزاروں کوسوں کی دوری پر تھے۔ اپنی پگڑی اونچی رکھنے کے لئے کچھ بھی کر جاتے اور پھر تکبر کرتے اور فخر کی نگاہ سے دیکھے جاتے ۔ معاشرہ ، ذلت اور جہالت کی اتھاہ گہرائیوں میں گر کر گندگی اور عفونت کاعجیب و غریب مرکب بن چکا تھا۔ کہیں کسی دل میں سعادت کی ہلکی پھلکی روشن شمع بھی پریشان تھی ۔ اس کے لئے کسی دوسرے کی راہنمائی کرنا اور تاریکی دور کرنا تو دور کی بات اپنی سمت قائم رکھنا ہی محال تھا۔ عام طو رپر اس دور کو دور جاہلیت سے موسوم کیا جاتا ہے ۔ شاید یہی ایک لفظ اس پورے تعفن زدہ معاشرے کی کچھ عکاسی کر سکتا ہے ۔
ایسے پر آشوب دور میں میرے آقا و مولا سید ولد آدم حضرت محمد ﷺ کا ظہور ہوا ۔ آپ کی ذات ، صفات ، کمالات ، کرامات ، دعاؤں اور تاثیرات نے دنیا بدل کے رکھ دی ۔ آپ کی قوت قدسی کا اثر صرف آپ کے ماننے والوں پر نہیں پڑا بلکہ پورے معاشرے پرہوا۔ اور رہتی دنیا تک یہ جاری چشمہ ء فیض متلاشیان حق کی سیرابی کے لئے کافی و شافی ہے۔ آپ کو حقیقی معنوں میں ماننے والے تو ستارے بن گے اور مینارہ روشنی ہوئے ۔ قوموں نے ان سے روشنی پائی اور وہ اقوام عالم کے راہبر ٹھرے ۔پر آپ کی عظیم الشان، عظیم المرتبت ہستی مبارک کا غیر محسوس اثر نہ ماننے والوں پر بھی ہوا۔ معاشرے کی اقدار بدل گئیں بلکہ یوں کہنا چاہئے اقدار قائم ہوئیں ۔آپ ﷺ کو دیکھنے والے انگشت بدنداں تھے اور آج تک ہیں کہ کس قدر اعلیٰ معاشرے کی بنیاد مختصر ترین دور میں رکھ دی ۔
یہی وجہ ہے کہ فرانسیسی مورخ اور فلاسفر Alphonse de Lamartine بھی لکھنے پر مجبور ہوا۔
’’ اگر غیر معمولی طو رہرgenius ہونے کا فیصلہ ان تین چیزوں پر کیا جائے ۔ عظیم مقصد ، انتہائی محدود ذرائع اور بے مثال نتائج ۔ تو کوئی بھی شخص محمد ﷺ کا مقابلہ کرنے کی جرآت نہیں کر سکتا ۔‘‘
آپ کے مبارک ظہور سے یہ غیر معمولی انقلاب برپا ہواکہ جہالت کے پردے چھٹنے لگے۔ اپنے آپ کو معاشرے کا فخر سمجھنے والوں کا نام نہ نشان مٹ گیا ۔اور آپ کے حسن کے سامنے منہ چھپاتے پھرنے لگے۔
حسینان عالم ہوئے شرمگیں                جو دیکھا وہ حسن اور وہ نور جبیں
پھر اس وہ اخلاق اکمل تریں              کہ دشمن بھی کہنے لگے آفریں
زہے خلق کامل ۔ زہے حسن               تام علیک الصلوۃ علیک السلام
وجہ تخلیق کائنات ، نبیوں کے سردار ، افضل الرسل ، خاتم النبین ، احمد مجتبیٰ ، محمد مصطفی ﷺ تشریف لائے تو عالم کائنات بدل کے رہ گیا ۔ ہم تاریخ عالم کو دو حصوں میں تقسیم کر سکتے ہیں ۔ ایک آپ ﷺ کے ظہور سے پہلے کا دور ہے اور ایک بعد کی دنیا ہے۔پھر آپ نے وہ کچھ کر دکھایا جو ناممکنات میں سے تھا ۔ لیکن محبت ہے میرا پیغام جہاں تک پہنچے والا معاملہ تھا۔ دلائل و براہین ہیں میرے ہتھیار۔انہی سے ہوگا دن آشکار۔
محبت سے گھائل کیا آپ نے                      دلائل سے قائل کیا آپ نے
جہالت کو زائل کیا آپ نے                        شریعت کو کامل کیا آپ نے
بیاں کر دئیے سب حلال و حرام                  علیک الصلوۃ علیک السلام
مثل مشہور ہے کہ چاند پر تھوکنے والا پنا منہ ہی گندا کرتا ہے ۔ لیکن یہاں تو معاملہ اس کا ہے جسے رب کائنات نے چاند نہیں سورج قرار دیا ہے ۔ اس پورے جوبن پر چمکتے سراج منیر پر تھوکنے والا نہ صرف اپنا منہ گندا کرتا ہے بلکہ جلایا بھی جاتا ہے۔اس کی لپٹیں ہر بد خواہ کو اس دنیا میں ذلیل و خوار اور بھسم کرنے اور آخرت میں جلانے کے لئے کافی ہیں ۔ تاریخ عالم اٹھا کر تو دیکھو ۔ میرے محبوب ﷺ کا کون سا بد خواہ آج تک کامیاب ہوا۔ ذلت و نامرادی و ناکامی ہمیشہ ان کا منہ چڑاتی رہی۔
اپنی سیاہ بختی سے سراج منیر ﷺ پر حملہ کرنے والا یہ گیرٹ ویلڈرز پہلا دشمن نہیں اور نہ ہی آخری ہے ۔ میرے نزدیک اہم یہ نہیں کہ دشمن کیوں ایسا کر رہا ہے ۔ اس صورت حال میں اہم یہ ہے کہ ہم بطور مسلمان کیا کر رہے ہیں اور ہمیں کیا کرنا ہے ۔ تاریکی جتنی بڑھ رہی ہے ہمیں اپنے دلوں کی لو کو اتنا ہی بلند کرنا ہے ۔جتنے حملے ذات مبارک ﷺ پر ہو رہے ہیں اتنا ہی زیادہ میں رحمۃ اللعالمین ﷺ کے نمونوں کو اپنانا ہے ۔ ہم جانتے ہیں دشمن کو معاف کرنا کہ ہمارے آقا و مولیٰ کا نمونہ ہے ہمیں بھی اس روش کو ترک نہیں کرنا۔جس برتن میں جو ہے اس سے وہی باہر نکل سکتا ہے ۔ گندگی میں پلنے والا گالی نہ دے تو اور کیا اس کے منہ سے پھول جھڑیں گے۔ وہ گالی ہی دے گا۔پر ہمارے آقاو مولیٰ نے تو ہمیں گالی دینا سکھایا ہی نہیں ۔ ہم گالی دے کر کیوں اپنے آقا و مولیٰ اور محبوب خدا کو ناراض کر لیں ۔ ہمیں دورود سلام بھیجنا ہے اپنے نبی ﷺ کی ذات پر اور آپ کی آل پر ۔ ہمیں درود و سلام کی صداؤں سے بھرنا ہے اس عالم کی فضا کو ۔ اتنا دورود پڑھنا ہے کہ کائنات عالم زبان حال سے پکار اٹھے ۔
آدمی زاد تو کیا چیز فرشتے بھی تمام                 مدح میں تیری وہ  گاتے ہیں جو گایا ہم نے
آپ ﷺ کی دشمنی میں ہر حد کو پھلانگ کر بے باکی دکھانے والوں کے معاملے کی سمجھ آتی ہے کہ :
شرف انسانیت کو قائم فرمانے والے آپ ﷺ ۔ معاشرتی ، اخلاقی ، سیاسی ، سماجی، قومی و ملی اقدار قائم کرنے والے آپ۔ حقوق قائم فرمانے والے آپ۔ بچوں سے شفقت کا سلوک کرنے والے آپ ۔ ہمسائیوں کو حقوق دلانے والے آپ ۔ معاشرے کے کمزور طبقات کو اٹھا کر بلند کرنے والے آپ ۔ غلاموں کوآزاد کرنے والے آپ۔ ان پر ہونے والے ظلم و ستم کے خلاف آواز اٹھانے والے آپ ۔عورتوں کے حقوق کی بات کرنے والے آپ اور پھر یہ حقوق قائم کرکے دکھانے والے آپ۔ ماں کے قدموں میں جنت کی بشارت دینے والے آپ۔ باپ کو جنت کا دروازہ کہنے والے آپ۔مذہبی آزادی ، رواداری کے چیمپئن آپ ۔ امن کے سفیر آپ ۔رحمۃ اللعالمین آپ ۔ خاتم النبیین آپ ۔ فخر ولد آدم آپ ۔ سید ولد آدم آپ۔فتح نصیب جرنیل آپ ۔ معارف کا قلزم بے کراں آپ۔ علم کا سمندر آپ ۔ساقی کوثر آپ۔بہادری و جوانمردی کے نمونے دکھانے والے آپ۔کمزور ہوتے ہوئے بھی توحید کی غیرت پر خاموشی توڑ کر دشمن کو للکارنے والے آپ۔ صفات جلال اور صفات جمال میں یکتا آپ۔خلق کے ہر رنگ میں عدیم المثال آپ۔مکارم اخلاق کے بلند تر مقام پر فائز آپ۔ سب ہادیوں سے بڑھ کرہدایت دینے والے آپ ۔ سب شجاعوں سے بڑے شجاع آپ۔لشکر روحانی کے سردا رآپ ۔سب انبیاء آپ کے خوشہ چین اور سب کے سرخیل آپ۔
مندرجہ بالابیان کردہ چند ایک خصوصیات کے علاوہ بے شمار صفات کے حامل آپ ﷺ ہیں ۔ آج آپ ﷺ کا دشمن اپنے مذہب اور عقیدے میں آپ کا ہم پلہ نہ پا کر سیخ پا نہ ہو تو اور کیا کرے ۔ اپنی جلن کا اظہار نہ کرے تو کہاں جائے ۔ حسد کی آگ میں نہ جلے تو اور کیا کرے۔ کہ اس کا کھیسہ خالی ہو چکا ۔ صداقت مدھم پڑھ چکی ۔ دلائل ہو اہوگئے۔ براہین کے میدان میں ہا رچکا ۔ زہر آلود تیر بے اثر ہو چکے۔ شاہسوار جہانگیر سینہ پر چڑھ چکا۔اور اب مقابلے کا ا سے یارہ نہیں ۔دشمن اوندھے منہ گر کر مٹی چاٹ چکا۔وہ اب ہذیان گوئی کے علاوہ کیا کرے ۔
ضروری یہ ہے کہ بطور غلامان محمد ﷺ ہمیں کیا کرنا ہے ۔ ہم نے دنیا کو دکھا نا ہے کہ جس نبی کو ہم مانتے ہیں وہ محمد ﷺ (تعریف کیا گیا ) ہے ۔ تم اس کا کوئی بھی نام رکھ لو وہ محمد تھا ۔ محمد ہے اور محمد ہی رہے گا۔ یہ بگڑی شکلیں تمھاری اپنی ہی ہیں ۔ یہ تمھارے گند ہیں اور تمھیں مبارک ہوں ۔ یہ تمھاری حسرتیں ہیں جو تمھیں جینے نہیں دیتیں ۔ ان کا میرے محبوب سے کوئی تعلق تھا نہ ہے۔ وہ تو نور ہے اور نور عطا کرنے والا ہے ۔ میرے محبوب سا کوئی ہے تو سامنے لائیے۔کہ
وہ پیشوا ہمارا جس سے ہے نور سارا                       نام اس کا ہے محمد دلبر میرا یہی ہے ۔
اگر دنیا کے سوا ارب مسلمان صحیح معنوں میں عاشق رسول بن جائیں۔ آپ کی محبت سے لبریز ہو جائیں ۔آپ کی سیرت کے پیرو بن جائیں ۔ عشق کے مقام طے کرتے ہوئے ا س مقام تک جاپہنچیں کہ ہمارے درود سلام کا جواب دینے خود آپ ﷺ کی روح پلٹ آئے۔ پھر ایک گیرٹ تو کیا یہ لاکھوں بھی ہوں تو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے۔ آئیے محبت کا عملی نمونہ درود سلام پڑھ کر اور سنت مطہرہ پرعمل پیرا ہو کر دکھا دیں۔ اور اس محسن حقیقی کے احسانات کو یا دکر کر کے اسی کے رنگ میں رنگین ہو جائیں ۔
بھیج درود اس محسن پر تو دن میں سو سو بار                پاک محمد مصطفی نبیوں کا سردار
اللھم صلی علیٰ محمد و علیٰ آل محمد ۔ کما صلیت علیٰ ابراہیم و علیٰ آل ابراہیم ۔ انک حمید مجید۔ اللھم بارک علیٰ محمد و علیٰ آل محمد ۔ کما بارکت علیٰ ابراہیم و علیٰ آل ابراہیم ۔ انک حمید مجید۔

Facebook Comments

چوہدری نعیم احمد باجوہ
محبت کے قبیلہ سے تعلق رکھنے والا راہ حق کا اایک فقیر

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply