منڈی سے غربت دور کرنے کا سہانا سپنا

تیسری دنیا میں 1970 کے بعد پالیسی اور ریسرچ کی سطح پہ غربت پر ہونے والی تحقیق میں تیزی سے اضافہ ہوا۔ اگر پاکستان میں اس اضافے اور اس کی سمت کو سمجھنا ہو تو پاکستان کے دو مایہ ناز ماہر معیشت دانوں اکبر زیدی اور محمد نسیم کے تحقیقی کام کو دیکھنا ضروری ہو جاتا ہے۔ ان دونوں کے مطابق غربت کی تعریف کو تیسری دنیا میں انفرادی غذائی ضروریات کے ضمن میں ہی فکس کیا گیا۔ اس فارمولے کے تحت اگر پاکستان میں ایک شخص 1777 روپے ماہانہ کماتا ہے تو وہ غریب نہیں ہے۔ ڈاکٹر عرفان ،جو کہ پاکستان میں لیبر اکنامکس پہ اتھارٹی تھے کے نزدیک یہ غربت نہیں بلکہ (Pauperism) عسرت یا ناداری کی تعریف ہے یعنی جو کہ یقیناً غربت سے بد تر کیفیت اور درجہ ہے-

صدی کے بدلنے کے ساتھ غربت کی تعریف اور اس کے خاتمے کے لئے بننے والی پالیسیوں میں ایک تبدیلی آئی جس کا سب سے بڑا محرک پالیسی حلقوں میں امرتیا سین کا غربت پہ ایک تحقیقی کام تھا جس کی رو سے غربت کو محرومی کے ایک بڑے دائرے کے طور پہ سامنے لایا گیا۔ سین کے نزدیک غربت صرف ایک مالیاتی دائرے نہیں بلکہ ہر وہ فرد غریب ہے جو کہ اپنی فطری صلاحیتیوں کو بیرونی طور پہ موجود سماجی سیاسی و معاشی رکاوٹوں کی وجہ سے استعمال نہیں کر سکتا۔یعنی ایک فرد اگر صحت، فنانس ، تعلیم اور دوسری ضروری سہولتوں کی غیر موجودگی کے باعث اپنی صلاحتوں کو استعمال نہیں کر سکتا تو محرومی اس کا مقدر بن جاتی ہے۔ اسی فلسفیانہ نکتہ نظر کی بنیاد پہ اقوام متحدہ کی اداراہ برائے ترقی نے انسانی ترقی کا ایک انڈیکس ترتیب دیا جس کی عالمی اور ملکی رپورٹ ہر سال شائع ہوتی ہے۔

امریتا سین کا غربت کا تصور بنیادی طور پہ امریکی فلسفی جان رالز کی تصور انصاف سے کشید ہے ۔ رالز کے نزدیک کسی بھی انسانی معاشرے میں کچھ بنیادی ضرورتیں تمام رنگ نسل، طبقے اور جنس کے فرق کے سب انسانوں کو میسر ہونے چاہییں۔اس تصور غربت کی چرچا آج بھی ہر طرف ہے اور اس کی بنیاد پہ غربت کے خاتمے کے لئے دھڑا دھڑ پراجیکٹس ، ریسرچ پیپرز اور کتابیں لکھی جا رہی ہیں۔ غربت کی اس تعریف کو من و عن تسلیم کرتے ہوئے اس کے خاتمے کے لئے جو سفارشات پیش کی جاتی ہیں اس میں کچھ ڈئزائن کی بنیادی کمزوریاں موجود ہیں اور یہی وجہ ہے کہ غربت ختم ہونے کی بجائے اپنی شکل بدل کے آج بھی ویسے ہی موجود ہے۔ ان میں سے دو کمزوریوں یا خامیوں کا ہم پاکستان کو سامنے رکھ کر جائزہ لیں گے ۔

پہلی خامی کا تعلق پاکستان کی تجارتی پالیسی سے جو کہ بین الاقوامی معاہدات کی روشنی میں ہی بنتی ہے اور پاکستان جیسے چھوٹے سیاسی قد کاٹھ رکھنے والے ممالک اس میں تبدیلی نہیں لا سکتے بلکہ ان کو انہی رولز آف گیم کے تحت ہی چلنا ہوتا ہے۔ غربت کا ختم کرنے کیلئے نیو کلاسیکل معاشیات کے تحت افرادی قوت کو صنعتی سیکٹر میں بہتر روزگار کے مواقع فراہم کرنے سے غربت میں خاتمہ ہوتا ہے تاہم یہ معاشی نظریہ بین الاقوامی سطح پہ”غیر مساوی قدر تبادلہ”کی موجودگی کو سراسر فراموش کر دیتا ہے جس کے لازمی اثرات محنت کشوں کو ادا کی جانے والی اجرت اور ان کے معیار زندگی پہ بھی آتے ہیں۔ عالمی تجارت میں ہونے والا ہوشربا اضافہ پچھلی صدی کے آخری سالوں کا ایک انتہائی اہم واقعہ ہے۔ چوٹی کے ماہرین اور پالیسی سازوں کا دعوی تھا کہ تجارت غربت کو دور کرنے ، دولت کی پیدائش میں اضافہ اور ایک عالمی استداق (convergence) کا باعث بنے گا ۔دولت کی تقسیم اور معاشی ترقی آہستہ آہستہ پوری دنیا میں ایک توازن حاصل کر لے گی اور خاص طور پہ ترقی پذیر دنیا میں غربت کے خاتمے کے ساتھ ترقی کے مواقع سب افراد کو میسر آئیں گے۔

تاہم اس وقت تمام اعدادو شمار کے مطابق یہ خواب شرمندہ تعبیر ہونے سے کوسوں دور ہے۔ اس کی بنیادی وجہ ہمارے نزدیک ترقی یافتہ اور ترقی پذیر دنیا کے مابین ہونے والی تجارت میں چھپی غیر مساوی قدر تبادلہ سے اغماض برتنا ہے۔ ایک عام مثال سے اس کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ پاکستان میں جب انڈسٹریلائزیشن کا سنگ بنیاد رکھا گیا تو جس انڈسڑی پہ سب سے پہلے توجہ دی گئی وہ ٹیکسٹائل تھی۔ آج بھی ٹیکسٹائل ہی پاکستانی کی ویلیو ایڈڈ برآمدات کا سب سے اہم شعبہ ہے۔ پاکستان میں بننے والی ایک لیدر جیکٹ کی قیمت اگر 100 ڈالر ہے تو اگر اس کو جرمنی میں بنایا جائے گا تو ا س کی قیمت 200 ڈالر تک ہوتی۔ جس کی وجہ مزدوروں کی تنخواہ میں تفاوت ہے ایک عام اندازے کے مطابق یورپی مزدور ایک عام پاکستانی مزدور ، جن کی صلاحیت ایک سطح پہ ہو ، کی تنخواہ میں 10 سے 20 گنا تک فرق ہوتا ہے۔ اب اگر ایک جیکٹ کی قیمت اس کی یونیورسل قدر کی مطابق طے کی جائے تو مزدور کی تنخواہ بھی بڑھے گی زر مبادلہ میں بھی اضافہ ہو گا اور نتیجتا ًپیداواریت (Productivity) میں اضافے کے امکانات بھی نسبتاً زیادہ ہوں گے۔ایک جیکٹ جو کہ جرمنی میں 200 ڈالر کی لاگت پہ بنتی اور فروخت ہوتی ہے اسکو 100 ڈالر میں ملتی ہے تو یہ ایک غیر مساوی ایکسینج کی مثال ہے جس کو نیو کلاسیکل معیشت ریکارڈو کے تقابلی فائدے کے اصول میں لپیٹ کے پیش کرتی ہے اور استحصال کو اس سارے معاملے سے باہر نکال دیا جاتا ہے جبکہ احسان مندی الگ اپنا وزن ڈال بھی استحصال شدہ لوگوں کے پلڑے میں ڈال دیتی ہے۔

دوسری اہم کمزوری جو کہ بین الاقوامی کی بجائے قومی و ملکی سطح پہ غربت میں خاتمے کو روکتی ہے وہ ہے غریبوں کے لئے اثاثہ جاتی ملکیت کا نہ پیدا کیا جانا۔ چین کے بارے میں ہمارے لبرل معیشت دان ہمیشہ جس شماریے کو بے جا استعمال کرنے کےشوق میں مبتلا ہیں وہ ہے چین میں غربت کا خاتمہ۔ڈاکٹر جان بریمن جو کہ اس وقت جنوبی ایشیا میں لیبر پہ ایک اتھارٹی کا درجہ رکھتے ہیں ان کے نزدیک ہندوستان اور چین میں غربت اور جبر میں فرق کی ایک بنیادی وجہ چینی محنت کشوں کے پاس زمین کے اثاثے کا موجود ہونا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ہندوستانی اشرافیہ اور ریاست غریبوں سے چنداں خوفزدہ نہیں ہے کیونکہ محنت کش صرف زندہ رہنے کے لئے روز کام کرنے پہ مجبور ہیں جبکہ چینی ورکنگ کلاس زمین کی ملکیت کے باعث کسی پالیسی کے خلاف اپنا ردعمل دے سکتی ہے۔ پاکستان کی حد تک بھی ہم یہ دیکھ سکتے ہیں کہ غربت زیادہ تر بے زمین کسانوں اور مزدوروں میں ہی پائی جاتی ہے لیکن کسی بھی ریاستی یا حکومتی پلان میں ان نادار لوگوں کو کسی قسم کے اثاثے ٹرانسفر نہیں کیے گئے جس کی وجہ سے بحیثیت ایک طبقہ کے ان زمین زادوں میں ظلم کے نظام کو سیاسی طور پہ چیلنج کرنے کی صلاحیت بھی پیدا نہیں ہو سکی۔ دولت کی صنعتی اور تجارتی پیدائش کے نئے مواقع بے زمین کسانوں، ہنرمندوں اور مزدوروں کے حالاتِ زندگی میں کوئی گراں قدر تبدیلی نہیں لا سکے اور دولت کی تقسیم چند گھرانوں تک محدود رہی۔

Advertisements
julia rana solicitors

پاکستان میں غربت کا ڈسکورس انتہائی سطحی ہے اور اب خاص طور پہ مارکیٹ ، آزادی اور جمہوریت کو مترادف سمجھ کے غربت کے خاتمے کا سہرا سونپا جا رہا ہے۔ مارکیٹ ایک تجریدی تصور ہے نہ کہ کوئی حقیقی وجود ۔ مارکیٹ کی تشکیل جدید ریاست قانون کے ذریعے کرتی ہے اور اس قانونی حد بندی میں مقامی سماج اور اس میں موجود مسائل کی اہمیت بنیادی ہوتی ہے۔جن قوانین کے تحت اس عالمی مارکیٹ کی قانونی تشکیل کی گئی ہے وہ اصولی طور پہ ہمار ے جیسے غیر صنعتی ممالک کی معاشی ترقی کے لیے مضر ہیں اور خاص طور پہ ان ممالک کے غریبوں کے لئے۔پھرایک ایسے ملک جس میں اشرافیہ تمام دولت کے ذرائع پہ کھلم کھلا قابض ہے اور جہاں تعلیم روزگار صحت ہاوسنگ سب کچھ پہلے ہی نجی شعبے کے ہاتھوں میں ہے وہاں غربت اور غلامی کا خاتمہ مارکیٹ کے
ذریعے کرنے کی امید رکھنا دراصل ایک نیا سراب ہے جو کہ عالمی معاشی ادارے اور تھنک ٹینکس گاہے بگاہے ہمیں دکھاتے رہتے ہیں

Facebook Comments

اسد رحمان
سیاسیات اور سماجیات کا ایک طالبِ علم

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 2 تبصرے برائے تحریر ”منڈی سے غربت دور کرنے کا سہانا سپنا

  1. اسد بھائی غربت کے موضوع پر ایک بہترین تحریر لکھنے کا شکریہ! خواہش تو یہ تھی کہ آپ کی تحریر چلتی رہے اور ہم اپنے علم میں اضافہ کرتے جائیں..

Leave a Reply